Topics

اللہ کے روپ

ناشتے پہ خالد جاوید تارڑ سے کہا۔ یہاں کھیل کا کوئی انتظام ہونا چاہئے۔ سب نے مختلف آراء دیں۔ پھر والی بال کے حق میں فیصلہ ہوا۔ پھر اُس کے لئے جگہ کا تعین ہوا۔ مراقبہ ہال کے گیٹ کے ساتھ مشرقی دیوار کے باہر جگہ بنانے کا فیصلہ ہوگیا۔

          ناشتے کے بعد رئیس امروہوی کا ذکر آگیا۔ فرمایا۔ ایک بار میں نے اُن سے پوچھا کہ آخر آپ کس برتے پہ روحانیت کے بارے میں لکھتے ہیں۔بھئی رئیس امروہوی بہت کھرے آدمی تھے ۔ صاف کہہ دیا کہ میں اپنے مطالعہ کے زور پہ لکھتا ہوں۔ ایک بار میں اُن سے ملنے گیا تو انہوں نے مجھے دروازے پہ روک دیا اور کہا۔ میرے پاس کچھ ایسے لوگ بیٹھے ہیں کہ میں آپ کو اندر لے جانا مناسب نہیں سمجھتا۔ میں نے اُن سے کہا ۔ کیاہوا اگر ہم اب ایسے نہیں کبھی تو ہم بھی ایسے ہی تھے۔ وہ فوراً مان گئے اور مجھے اندر لے گئے۔ وہاں دور چل رہا تھا۔ ہنس کے کہا۔ وہ بھلے آدمی ہی تو تھے کہ فوراً مان گئے اور مجھے اپنے ساتھ اندر لے گئے۔ پھر بتایا کس طرح ایک بار انہوں نے انہیں دھوکے سے ایل ایس ڈی کی ایک خوراک کھلا دی تھی۔جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے مراقبہ شروع کر دیا۔

          مرید نے سوال کیا کہ ایسی حالت میں مراقبہ؟

          فرمایا۔ نشہ شعور کو معطل کر تا ہے۔ اُس وقت اگر آپ خود ہی شعور کو ڈھیلا چھوڑ دیں تو نشہ تنگ نہیں کر سکتا۔ جب حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ﷭ سے میں نے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ نے اُن کی اس حرکت کو بہت ناپسند کیا اور بہت ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔

          مرید مگن ہو کر سُن رہا تھا کہ اچانک ایک بہت پرانے سوال نے اُس کے اندر کروٹ لی۔ اُس نے عرض کی ۔ ” کہتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ دن میں ستر بار یا اس


سے زائد مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے۔ جب انبیاء معصوم ہوتے ہیں تو پھر دن میں اتنی بار استغفار کا کیا مطلب ہوا؟

          فرمایا ۔ استغفر اللہ کا مطلب مجھے حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ﷭ نے بتایا تھا۔ اور پھر سوچ کر یاد کر کے فرمایا۔ کم مائیگی۔۔۔ ہاں انہوں نے فرمایا تھا کہ اللہ میں اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتا ہوں۔ دراصل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کے کسی نہ کسی نئے روپ کا مشاہدہ فرمارہے ہوتے تھے اور ابھی ایک روپ کا نظارہ پوری طرح مکمل نہیں ہوتا تھا کہ وہاں کا نظارہ بدل جاتا تھا۔ اس پہ حضور ﷺ استغفار فرماتے تھے۔ حضور ﷺ نے اسی پہ فرمایا تھا میں دن میں ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں تم بھی کیا کرو۔ پھر مراقبہ ہال کی کیاریوں میں کھلے پھولوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ سب بے شمار پھول بھی تو اللہ کے روپ ہیں۔

          اللہ کے روپ انسان کے مشاہدے کے لئے اس قدر قریب اور فراواں ہیں مرید نے اس سے پیشتر ایسا کبھی کہاں سوچا تھا۔ حیرت کی ایک لہر اُس کو ماورائی دنیا سے باہر نکال کر اُسے اُس کے ارد گرد کی دنیا میں لےآئی تھی۔حیرت اور استعجاب کی ایک اور لہر نے اُسے اللہ کے اور قریب کر دیا جب اُس نے سنا کہ اُس کا مراد کہہ رہا ہے کہ اللہ کا لغوی مطلب ہی حیران کر دینے والا ہے۔یعنی جب کوئی بندہ حیران ہوتا ہے تو وہ دراصل اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اللہ کی طرف متوجہ ہونے سے بندے کے اندر اللہ کی موجودگی کا احساس ابھرتا ہے ۔ اور جب بندے کے اندر اللہ کی موجودگی کا احساس جڑ پکڑ لے تو بندہ دیکھنے لگتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ بالکل اُس مرید کی طرح جس کو اُس کے پیر ومرشد کی عنایتوں کے سبب اپنے پیر بھائیوں کے رشک و حسد کا سامنا تھا اور پھر اُس مرشد نے اُن سب کی تالیف قلب کے لئے یہ اہتمام کیا کہ ایک روز انہوں نے اُن میں سے ایک کو ایک مرغ اور چُھری دے کر راز درانہ فرمائش کی کہ اس مرغ کو کسی ایسی جگہ جا کر ذبح کر لاؤ جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ وہ مرید خوشی اور افتخار کے جذبات سے مغلوب ہو کر مرغ کو بغل میں چھپا یا اور چُھری کو نیفے میں اڑس کر


ہوا ہوگیا۔ اور پانچ منٹ میں ذبح کئے ہوئے، کھال اترے صاف شدہ مرغ سمیت اپنے مرشد کے سامنے حاضر ہو کر اپنی کارکردگی کی داد طلب کر رہا تھا۔ اُس کو حیرت ہو رہی تھی کہ اُس کا مرشد اُس کی کارکردگی کے حسن و خوبی کو جانچنے اور اس کے تعمیل ارشاد میں اتنی تعجیل کو سرہانے کی بجائے اُس سے استفسار کئے جارہا تھا کہ کہیں کسی نے دیکھا تو نہیں، کسی کو شبہ تو نہیں ہوا، کوئی وہاں موجود تو نہ تھا۔

          اور پھر اُن کی حیرت اُس وقت اور بھی سوا ہو گئی جب مرشد نے اپنے چہیتے مرید کو ایک طرف لے جا راز درانہ انداز میں اُس کو ایک مرغا اور چھری دے کر اس شرط پہ کسی ایسی جگہ لے جا کر ذبح کرنے کی فرمائش کی جہاں اُسے یہ کام کرتے کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ اپنے مرشد کی بات سنتے ہی اُس مرید کے بشرے پہ سوچ و فکر کی کیفیت ابھرتے سب نے دیکھی۔ وہ کندھے جھکائے، سر کو ایک طرف لٹکائے۔۔۔ میں کوشش کر دیکھتا ہوں۔۔۔ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔۔ اُسے گئے گھنٹہ بھر ہو گیا تو پیر بھائیوں نے ایک دوسرے کی طرف معنیٰ خیز نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا۔ جب دو سے چار گھنٹے ہو گئے ۔ تو تبصرے کھلتے چلے گئے۔ پھر صبح سے دوپہر ہوگئی۔ ۔۔ لیکن اُس چہیتے مرید کا کوئی پتہ نہیں کہاں رہ گئے۔ جب سہ پہر کے بعد شام ہونے کو آئی تو استہزا اور حقارت کے ساتھ بتایا جانے لگا کہ لو اتنا سا کام مرشد نے کہا اور وہ اُن سے ہو کے نہیں دے رہا۔ پھر رات ہو گئی۔ سب نے دبی دبی ہنسی میں اُس کے گھر جا کرپوچھنے کی تجویز دینا شروع کی اور ساتھ ہی آنکھین مچ مچا کر اسے رد کیا کہ اُن کے آرام میں خلل پڑ جائے گا۔

          قصہ مختصر اگلا دن آ لگا اور کہیں دن ڈھلے وہ مرید پژمردہ و درماندہ ، تھکا ہارا۔۔ ناکامی کا اشتہار بنا واپس آتا دکھائی دیا۔۔ ترنت مرشد کو اُس کےآنے کی اطلاع دی گئی۔ سب سنبھل کر منظر ہو بیٹھے کہ دیکھیں اپنی کوتاہی اور سستی کیا عذر پیش کریں گے۔ وہ آئے ۔ پریشانی، رت جگے، ناکامی سے سوجھی آنکھوں سے اُس نے اپنے مرشد کی طرف دیکھا۔ چادر کھولی اور زندہ سلامت مرغا بغل سے نکال کر سامنے پیش کرتے



ہوئے کہا۔ میں معافی چاہتا ہوں کہ میں کسی بھی طور اس کام کو سر انجام دینے کی سعادت حاصل نہیں کر پایا۔ مرشد نے وجہ پوچھی تو اُس نے نظریں جھکا کر اتنا ہی کہا، آپ نے فرمایا تھا کہ اس کو کسی ایسی جگہ ذبح کرنا ہے جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ میں نے تو جہاں بھی چھری کو اس کی گردن پہ رکھا تو دیکھا اللہ دیکھ رہا ۔ اب آپ ہی بتایئے کہ کیا ایسے میں اسے ذبح کر دیتا؟

          اُس نے اپنے مراد سے یہ بات سُن کر سوچا۔۔۔ یہ اتنی سی بات۔۔۔ سمجھ آکر بھی سمجھ کیوں نہیں آتی۔، سب جانتے ہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے لیکن یہ بات ہمارے احساس میں کیوں شامل نہیں ہو پا رہی، ہم علم سے سر تا سر لبریز ہو کر بھی احساس سے اتنے خالی کیوں رہ جاتے ہیں؟ اُس کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ یہ سوال اپنے مراد کی خدمت میں پیش کرے۔ لیکن اُس کے شعور کو ڈر لگا کہ کہیں وہ اُسے اس احساس سے لبریز ہی نہ کر دیں اس لئے وہ اُس کو یہ ہمت دینے پر آمادہ نہ ہوا۔ ابھی اُس کے اندر یہ کشمکش چل رہی تھی کہ تارڑ صاحب نے آکر اطلاع دی کہ والی بال کے لئے میدان تیار ہے۔ نیٹ لگا دیا ہے جس کسی نے کھیلنا ہو وہ میدان میں اترے اور جو کھیلنا نہیں چاہتے وہ آ کر کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ وہاں کل آٹھ دس افراد ہی تو تھے۔ سب اُس کے مراد کی سربراہی میں باہر کی طرف چل پڑے۔

          وہاں جا کر دیکھا دو افراد ایک دوسرے کی طرف گیند اچھال رہے ہیں۔ باقی سب احتراماً ایک طرف ہو کر کھرے ہوگئے ۔ انہوں نے چند ساعت دیکھا پھر کہا۔ بھئی دو تیمیں بنائیں ۔۔ میں بھی کھیلوں گا۔۔ اب سب اُنہی کی ٹیم میں شامل ہونا چاہ رہے تھے۔ پھر پانچ پانچ کھلاڑیوں پہ مشتمل دوٹیمیں بنیں۔ کھلاریوں کی اوسط عمر چالیس سے اوپر ہی رہی ہوگی۔ کورٹ کے جنوبی سڑک والے حصے میں اس کا مراد اپنی ٹیم کی سربراہی میں اترا اور وہ اپنے مراد کو سامنے سے دیکھنے والوں کی ٹیم میں شامل کیا گیا۔ کھیل شروع ہوا۔ سب ہی ہنستے ہوئے کھیل رہے تھے۔ کسی کو اس کھیل کی مبادیات تک کی خبر نہ تھی۔ بس گیند کو دونوں ہاتھوں سے زمین پہ گرنے سے روکنے اور اُسے خود



سے دور پھینکنے کی جدوجہد ہو رہی تھی۔ پانچ چھ ہی منٹ میں سب کی سانس پھولنے لگی۔اتنے میں اُن کی طرف سے گیند کو دوسری طرف اچھالا گیا۔ اچھالنے والے نے کچھ زیادہ ہی زور لگا دیا تھا۔ اس کے مراد نے اگے بڑھ کر اُس گیند کو ہاتھوں پہ لینے کی کوشش کی۔ مشق نہ ہونے کے باعث گیند ایک ہاتھ کی طرف زور کر گئی۔ انہوں نے ہاتھ جھٹکا۔ تکلیف کی لہر ابھری اور پھیلتی چلی گئی۔ کھیل ختم ہوگیا۔ وہ ایک ہاتھ کو دوسرے سے دباتے۔ اپنے کمرے کی طرف چل دیئے۔

          وہاں کوئی مساج وغیرہ کیا۔ کچھ دیر بعد وہ ہاتھ پہ پٹی لپیٹے باہر آئے ۔ اب وہ دفتر جانے کے لئے تیار تھے۔ لطیف صاحب سوزوکی گیٹ کے پاس لا چکے تھے۔ جب وہ اُس کے پاس کھڑے کسی کو کچھ ہدایت دے رہے تھے۔۔۔ اُس نے کہا۔۔ ہاتھ کو سر سے بلند کرنے سے سوجن اور تکلیف میں کمی ہو جاتی ہے۔ انہوں نے ہاتھ کو سر سے بلند کرتے ہوئے کہا اب ہم اس طرح گھر جائیں گے۔ سب ہی ہنس دیئے۔ وہ خجل سا ہو گیا۔ اُس کو اُن کی مخالف ٹیم میں ہونے کا ملال بھی تھا اور اپنے مراد کی تکلیف کا دکھ بھی۔ اوپر سے اُن کے حوصلے ، برداشت اور سکت کا یہ مظاہرہ کہ تکلیف کے باوجود مزاح کے اظہار کو مستعد۔ اُس کو لگا اُن کو اُسکی نظر لگ گئی ہے۔ کہتے ہیں اچھا چاہنے والوں کی بھی نظر لگ جاتی ہے۔ جب وہ گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔ تو اُس نے بھی اپنے گھر کی راہ لی۔

          گھر جاتے ہوئے مراقبہ ہال میں اپنے قیام کا ایک ایک لمحہ اُس کو ایک بیش قیمت سرمایہ محسوس ہورہا تھا۔ اُس کو کچھ یوں محسوس ہو رہا تھا گویا وہ ایک کان  جواہر سے بیش قیمت ہی نہیں نادر و نایاب لعل و گوہر جھولی بھر کر کامیاب و بامراد لوٹ رہا ہو۔ اسی سر شاری و سرمستی میں وہ کئی دن مگن رہا۔گھر آئے مہمانوں سے لے کر جہاں کہیں کسی کام سے بھی جانا ہوا وہاں ملنے جلنے والوں تک سے وہ اپنے مراد سے سنی باتوں کا تذکرہ کرتا، انہیں دہراتا اور کہتا وہ اس بہانے اپنا آموختہ یاد کر رہا ہے۔


اپنی اس حرکت کے لئے وہ کوئی شعوری کاوش بھی نہیں کرتا تھا۔ یہ باتیں تو بس اُس کے اندر سے خود بخود ابلنے لگتی تھیں۔

          ایک دور تھا جب وہ ادب کے طالب علم کے طور پر دن بھر شعرو شاعری، افسانوں اور ناولوں، ادیبوں کے شاعروں کی باتیں کرتا۔ رات رات بھر اُن کے افکار و نظریات پہ مباحث ہوتے۔ وہ سخن فہمی کی دعوے کرتا اور اپنی نکتہ آفرینیوں سے دوستوں کو مرعوب کرنے کی شعوری اور لاشعوری سعی میں جتا رہتا لیکن پھر رفتہ رفتہ غم روزگار اور غمِ دوراں نے اُسے ان سب باتوں کو دماغ کا خلل قرار دینے پر مائل کیا۔ ادب عالیہ کو کم لوگوں کی سخن وری اور زیادہ تر سخن کی فہمی کی شے مان کر اسے سرہانے اور کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے کوئی نہ کوئی کتاب مطالعہ میں بھی رکھتا لیکن اس سے زندگی کے ٹھوس اور تلخ حقائق کا سامنا کرنے کے لئے کسی باقاعدہ نظام اور لائحہ عمل کی توقع نہیں رکھتا تھا۔

          جمالیات کے ایک طالب علم ہونے کے ناطے اُس نے سقراط وارسطو سے لے کر ہیگل اور مارکس تک اور دانتے سے لے کر وچے اور برنارڈ شا تک چھوٹے بڑے کئی فلاسفروں کو اُن کے نظریات سے آگاہ ہونے کی خاطر پڑھا تھا اور سمجھنے کی کوشش کی تھی۔برگسان، نطشے۔ آئن سٹائن، فرائڈ اور سٹیفن ہاکنگ جیسے حکما کے نظریات اور سو چ سے بھی آگاہی رکھتا تھا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی اُس کو اس درجے پر متاثر نہ کر سکا تھا کہ وہ اس کے نظریے کو اپنانے پہ خود کو آمادہ و تیار کر لیتا کیونکہ ہر ایک کے یہاں اُس کو کچھ نہ کچھ کمی اور ادھورے پن کا احساس رہتا تھا۔ آخر میں وہ اسی نتیجے پر پہنچا تھا کہ کوئی بھی فلاسفر مکمل بات نہیں جانتا۔ جس حد تک جانتا ہے وہ اُس کو سیدھے سادھے انداز کی بجائے پیچ دار بنا کر پیش کرتا ہے تاکہ ایک مخصوص حلقے میں اپنی شناخت بنالے۔ مختلف مذاہب کی کتب بھی اُس کے مطالعے سے گزر چکی تھیں۔ قرآن کی بابت اس کا وجدان بتاتا تھا کہ یہاں ایک ایسا ضابطہ حیات اور لائحہ عمل ہے جو دُنیا اور آخرت دونوں کی نہ صرف خبر دیتا ہے بلکہ اُس کو



درست انداز میں بسر کرنے کے طریقے اور گُر بھی تعلیم کرتا ہے لیکن اُس کے شعور میں جو الجھاؤ اور پیچ پڑے ہوئے تھے اُس کو سدھارنے کی اُس کو کوئی راہ نہ مل رہی تھی۔

          اب جب سے اُس نے لوح و قلم کو پڑھا تھا ، حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ ﷭ سے واقف ہو رہا تھا اور اُن کے نہایت قابل اور اہل شاگرد رشید سے مل چکا تھا تو اُس کو محسوس ہو رہا تھا کہ جس راہبر و راہنما کی اُس کو تلاش تھی اللہ نے اُس کو عطا کر دیا تھا۔ وہ اس عطا کا جشن منا رہا تھا اور اسے کھو دینے کے خیال سے خوفزدہ بھی تھا اور اس موقع کو ضائع ہونے سے بچانے کی بھر پور کوشش بھی کر رہا تھا وہ خود کو کسی بھی ایسی حرکت کا مرتکب نہیں ہونے دینا چاہتا تھا جس سے اس عطا میں کوئی کمی ہو۔۔۔ وہ تو اس تاڑ میں تھا کہ جس طرح بن پڑے اس عطا میں افزودنی و فروانی ہوتی رہے۔ اسی اُدھیڑ بن میں اُس کے اندر ایک بات ابھری۔ کیا یہ عطا تمہاری کسی کوشش و کاوش کے نتیجے میں ہوئی ہے یا محض اللہ تبارک و تعالیٰ کا فضل و کرم ہے؟ اور اگر یہ اللہ کا کرم اور انعام ہے تو فکر کاہے کو کرتے ہو وہ اس کو جتنا چاہے بڑھا دے گا اور وہ شانت ہوتا چلا گیا۔


          

 
 


 


Batein mere Murad ki

مقصود الحسن عظیمیؔ


سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔