Topics
چند روز بعد جب وہ مراقبہ ہال آیا تو اُسے معلوم ہوا کہ اس بارحضور قلندر بابا اولیا ء ؒعرس کی تقریبات ایک دن قبل روحانی کانفرنس کی تقریب سے آغاز کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ عرس پہ شرکت کے لئے زائرین کے ساتھ ساتھ مندوبین کو روحانی کانفرنس میں شرکت کے لئے مدعو کیا جائے گا۔آنے والے زائرین کی بابت حضور مرشد کریم نے فرمایا ہے کہ وہ سب حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کے مہمان ہوں گے۔ کراچی میں رہنے والے سلسلے کے بہن بھائیوں نے تیاریوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے۔ اس
کے لئے رضاکار اپنا نام دے دیں۔ اُن کی کمیٹیاں بنا دی جائیں
گی۔ جب اُس نے یہ بات سُنی تو اپنی خدمات پیش کرنے کی ٹھانی۔
دفتر میں تل
دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ لوگ دفتر کے ایک کونے میں تشریف فرما مرشد کریم کے سامنے زمین
پہ بچھی دری پہ بیٹھے ہوئے تھے۔خدمت کے شعبوں کا تعین کر دیا گیا تھا۔ شعبے کا نام
پکارا جاتا اور اُس ذیل میں کام کرنے کے خواہش مند پکار کر یا ہاتھ کھڑا کر کے اپنا
نام درج کروا رہے تھے۔ پہلے صفائی کے لئے رضا کار طلب کئے گئے۔ یہ بات واضح کر دی گئی
کہ مراقبہ ہال کی صفائی میں باتھ رومز کی صفائی بھی شامل ہے۔ اس کے بعد کچن میں کام
کرنے کے لئے رضا کاروں نے نام دیئے۔ انہیں بتا دیا گیا کہ کھانا پروسنے سے لے کر استعمال
شدہ برتنوں کی صفائی اور دیکھ بھال سبھی اس شعبے میں شامل ہیں۔ پھر بستر کمیٹی کے لئے
رضا کار مانگے گئے۔ پہلے دونوں شعبوں کے لئے تو وہ خود کو آمادہ نہ کر سکا۔ لیکن اس
کے لئے اُس نے ہاتھ کھڑا کر دیا۔ نام لکھنے والے صاحب نے اُس کا نام دریافت کیا تو
اُس کے مراد نے مسکراتے ہوئے اُس سے پوچھا۔ آپ بستر اُٹھائیں گے؟ اُس نے سمجھا کہ وہ
اُس کے ذمے کوئی اور کام لگانا چاہتے ہیں۔ اُس نے کہا۔ وہ بھی اُٹھائے گا اور اس کے
علاوہ جو خدمت ہوگی وہ بھی کرے گا۔ انہوں نے نام درج کرنے والے صاحب کو آہستہ سے کچھ
کہا۔ وہ بیٹھ گیا۔ اگلے روز جب لسٹیں مکمل ہو گئیں تو اپنا نام استقبالیہ کمیٹی میں
دیکھ کر اُسے یقین نہیں ہو رہا تھا۔
کانفرنس کی تیاریاں شروع ہوئیں تو ادھر کراچی میں ۲۶ جنوری کو ہڑتال کا اعلان ہو گیا۔ مراقبہ ہال کے گیٹ کے ساتھ منڈیر پہ ٹانگ پہ ٹانگ دھرے بیٹھے اپنے مراد کے قریب کھڑا وہ سوچ رہا تھا کہ کانفرنس کے دن جب شہر میں ہڑتال ہوگی، سیاسی جلسہ ہوگا، ٹریفک بھی جام ہوگی تو لوگ کیسے آئیں گے۔ اگر یہ تجویز دوں کہ کانفرنس کی تاریخ آگے بڑھا دی جائے تو۔۔۔ اور ساتھ ہی وہ ڈرا کہ وہ بہتر جانتے ہیں۔۔۔ میں کسی گستاخی کا مرتکب نہ ہو جاؤں۔۔۔ لیکن خیال تھا کہ آئے چلا جا رہا تھا۔
اُنہوں نے ارشاد فرمایا۔ ” اللہ کے لئے یہ بالکل بھی مشکل نہیں
کہ وہ کانفرنس کے لئے پورے شہر کو بھیج دے لیکن ہم انہیں بٹھائیں گے کہاں؟ ہمارے پاس
اتنے لوگوں کا انتظام ابھی نہیں ہے اور پھر یہ بھی تو ہے کہ ہمیں صرف وہ لوگ چاہیئں
جو اپنے اندر اللہ کے بارے میں خلوص رکھتے ہوں۔ اگر ہڑتال کے خوف سے یا کسی اور نقصان
کے ڈر سے اللہ کے لئے وقت نہیں دے سکتا تو ہمیں اُس سے کیا لینا دینا؟ وہ اول تو ہماری
بات سُنے گا نہیں اور اگر اُس نے سُن بھی لی تو سمجھے گا نہیں۔ اجی لوگ تو صرف اپنے
مطلب کی بات سننا چاہتے ہیں۔ ہمیں تو ایسے لوگ چاہیئں جو خالص ہو کر آئیں۔
انہوں نے اُس
کے ذہن میں لگے کتنے ہی جالے ایک ہی ہاتھ میں صاف کر دیئے تھے وہ گنگ ہو کر اُنہیں
دیکھ رہا تھا۔
کسی قدر توقف
کے بعد انہوں نے فرمایا۔ آپ پشاور چلے جائیں۔ اُس کا دل دہل کر رہ گیا۔ وہ شہر نا پرساں
جہاں سے وہ انتہائی کس مپرسی کی حالت میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوا تھا جہاں کیا اپنے
کیا پرائے سب سے نالاں ہو کر وہ کراچی آیا تھا۔ اُسے اُس شہر کے نام سے ہول اُٹھتے
تھے۔ اب اُس کا مرشد اُسے واپس اُسی شہر جانے کو کہہ رہا تھا۔ وہ بری طرح گھبرا گیا۔
اُس نے نہایت لجاجت سے عرض کی حضور میری خواہش تو یہ ہے کہ میری باقی ماندہ زندگی اب
آپ ہی کے قدموں میں گزرے۔
فرمایا ۔ بھئی
دور رہنے سے محبت کم تو نہیں ہو جاتی۔ اب سعیدہ کو ہی دیکھیں۔ بے چاری کہاں بیٹھی ہیں۔
جب واپس جاتی ہیں روتے ہوئے جاتی ہیں۔ یہاں سے جانے کو جی کس کا کرتا ہے ۔ لیکن سلسلے
کی خاطر وہ چلی جاتی ہیں۔
مرید نے چاہا کہ وہ کہے کہ وہ تو سلسلے کی خاطر کچھ کام کر رہی ہیں میں کندہ نا تراش بھلا کس کام کا ہوں آپ مجھے وہاں نہ بھیجیں۔ کہیں اور جانے کا حکم دے دیں۔ لیکن کہنے کی تاب پیدا نہ کر سکا۔
فرمایا۔ آپ پشاور چلے جائیں۔ وہاں سلسلے کا کام کیجیئے۔ ان شاء
اللہ بہت اچھی سیٹنگ ہوگی۔ یہاں تو لوگ آتے ہیں پھر اپنی جگہ جا کر کاموں میں لگ جاتے
ہیں۔
وہ رو پڑا۔
اتنی عزت، اتنی شفقت اُس سے سنبھالے نہیں دے رہی تھی۔
پھر اُس کی
دل جوئی کو بتانے لگے۔ اس دنیا میں میرا دل نہیں لگتا مگر مرشد کا حکم ہے کہ میں یہاں
رہوں۔ بس نہیں چلتا ورنہ میں تو یہاں رُکنے پہ تیار ہی نہیں۔
اُس کے بعد
کئی روز تک وہ اپنے مُراد کو دور دور سے ہی دیکھ سکا۔
پہلی روحانی
کانفرنس تھی۔ تین چار سو افراد آئے ۔ مراقبہ ہال کے سامنے پنڈال لگا۔ لوگوں نے حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کی پیش رفت کے حوالے سے بہت سی باتیں کیں، بہت سے بلند
و بانگ دعوے بھی ہوئے۔ پھر میزبان جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کو دعوتِ خطاب دے
کر مائک اُن کے سامنے رکھ دیا۔ وہ استقبالیہ گیٹ پہ کھڑا اپنے مراد کی تقریر سننے کی
کوشش کرتا رہا۔ اُس نے جو کچھ اور جتنا سُنا اُس کو یہی بات مسحور کُن لگی کہ جب وہ
تقریر فرما رہے تھے تو ہر طرف سناٹا چھا گیا تھا یوں لگتا تھا کہ وہاں موجود لوگ ہی
نہیں بلکہ درخت، پرندے اور بچے تک اُس کے مُراد کی باتوں کے سحر میں گرفتار ہیں۔ انہوں
نے کہہ بھی دیا سلسلہ عظیمیہ میں سکون بہت ہے۔ اس سلسلے کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ
حضور ﷺ اس سلسلے کے معاملات کی براہ راست نگرانی فرماتے ہیں۔ فرمایا۔ کبھی کوئی سچا
عظیمی بے گھر نہیں رہ سکتا، بھوکا نہیں رہ سکتا، اُس کے باپ کے پاس علوم کے خزانے بھرے
ہوئے ہیں۔
کسی اہلِ نظر نے اہل کانفرنس کو یہ نوید بھی دی کہ آقائے دو جہاں سرور کائنات حضور نبی کریمﷺ ، حضرت اویس قرنی اور حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے بھی اس کانفرنس میں شرکت فرمائی ہے۔
کانفرنس سے
اگلے روز وہ عرس کی تقریب میں شمولیت کے لئے آنے والے مہمانوں سے ملنے ، مزار پہ جا
کر چادریں چڑھانے اور لنگر کی تقسیم کے انتظامات میں ہی مصروف رہے۔ لنگر کے انتظامات
لطیف بھائی کے سپرد تھے۔ رات کو لنگر کی تقسیم کے دوران وہ گھبرائے ہوئے اپنے مرشد
کے رو برو ہو کر کہہ رہے تھے۔ حلیم کی دیگیں کم پڑتی محسوس ہو رہی ہیں لوگ زیادہ ہیں۔
کیا کیا جائے؟ آپ نے کہا۔ چلیں چل کر دیکھتے ہیں کتنے لوگ ہیں اور کتنی دیگیں ہیں۔
راستے میں لطیف بھائی نے بتایا کہ پانچ چھ دیگیں رہ گئی ہیں لیکن لوگوں کی تعداد کے
پیشِ نظر شاید بیس ایک دیگیں اور درکار ہوں گی کیونکہ اتنی ہی دیگیں وہ تقسیم کر چکے
ہیں اور ابھی اتنے ہی لوگ باقی ہیں کوئی کہہ رہا تھا۔ لوگ بھی تو زیادتی کرتے ہیں تین
تین مرتبہ کھاتے ہیں۔
آپ نے دیگوں
کے قریب جا کر کفگیر پکڑا۔ اُسے وہاں پڑی ہر دیگ میں باری باری چلا کر دیکھا اور باورچی
بابا سے کہا۔ ایک دو دیگیں پانی گرم کریں اور ان دیگوں میں دو دو ڈول ڈال دیں۔ یہ بہت
گاڑھی ہے۔ ان شاء اللہ گزارا ہو جائے گا۔
اور پھر واقعی
سب کا گزارا ہو گیا۔ وہاں آیا ہوا کوئی فرد ایسا نہ تھا جس نے اُس رات لنگر کی حلیم
نہ کھائی ہو۔ بلکہ صبح ناشتے میں میزبانوں نے اُسی حلیم کا ناشتہ کیا۔ مہمانوں کے لئے
ناشتے کا خصوصی اہتمام تھا۔
عرس پہ آنے
والے مہمانوں سے ملتے جلتے کئی ایک سے اُس کی اچھی خاصی شناسائی ہو گئی۔ وہ جس کسی
سے بھی ملا۔ اُس کو اپنے مرشد کا دیوانہ اور اُن کی خوشنودی کا طالب ہی پایا۔ ایک دو
کی چاہتوں کی شدت دیکھ کر اُس نے دل ہی دل میں خود سے کہا۔ لو میاں دیکھ لو تم کیا
بیچتے ہو۔
شانت ہو جائے اور اُس کا رُخ دنیا سے ہٹ جائے بلکہ زیادہ درست
تو یہ ہے کہ اُس کا رخ دنیا سے ہٹ جائے تاکہ وہ شانت ہو جائے۔ اس قبلے کی درستی ہی
کے لئے تو وہ سارا سلسلہ اور نظام پھیلا رہے تھے۔
ایک وفد سے
فرما رہے تھے۔ عالم اعراف میں آبادی بہت بڑھ گئی ہے اور وہاں رہائش کی جگہ کم پڑ گئی
ہے۔ یہ اوپر والوں نے دنیا میں فلیٹ سسٹم اسی لئے شروع کروایا تھا کہ اس مسئلے کو حل
کیا جا سکے۔
دنیا کے فلیٹوں
کا اعراف کی بڑھتی آبادی سے کیا تعلق؟ کسی نے دریافت کیا۔
جب ان بلڈنگوں
کا اورا (Aura) اوپر منتقل ہوگا تو وہاں کے لوگوں کی رہائش کا مسئلہ
حل کیا جا سکے گا۔
بلڈنگوں کا
اورا؟ پوچھنے والے کی حیرت سوال بنی تو بتایا۔ہر شے کا اورا ہوتا ہے۔ انسان یہاں مرتا
ہے تو اُس کا اورا اوپر منتقل ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح یہاں بننے والی عمارات کا اورا
بھی اُس وقت اوپر منتقل ہوتا ہے جب وہ اپنی دنیاوی زندگی کی مدت مکمل کر لیتی ہے۔ انسان
جس طرح کی زندگی یہاں جیتا ہے اُسی طرح وہاں بھی زندگی کی کچھ ایسی ہی طرزیں ہیں۔ وہاں
بھی کھانا پینا ہے۔ وقت پہ گھنٹی بجتی ہے۔ سب کھانے کے لئے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ جیسے
یہاں رہنے کے لئے گھر بنائے جاتے ہیں اُس طرح وہا ں بھی گھر ہیں۔ جو لوگ غاروں میں
رہتے تھے اُن کے لئے غار ہیں، جو جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اُن کے لئے جھونپڑیاں ہیں۔
وہاں انسان کا مادی جسم نہیں ہوتا اسی طرح وہاں کی چیزیں بھی کوئی مادی جسم نہیں رکھتیں۔
کسی نے دریافت کیا یہ ستارے کیا ہیں؟ فرمایا یہ بھی دنیائیں ہیں۔ اسی طرح کی دنیائیں جس طرح یہ ہماری دنیا۔=-=
یہ چاند پہ
گئے تو وہاں تو انہیں کچھ نہیں ملا۔ کسی نے پڑھی ہوئی بات کو اپنا علم مانتے ہوئے تبصرہ
کیا۔
ارشاد ہوا۔
ارے صاحب یہ چاند تک گئے ہی کب ہیں۔ وہاں کی فضا تک میں تو داخل ہوئےنہیں۔ آپ کچھ انتظار
کریں سب باتیں خود بخود سامنے آجائیں گی۔ یہ سب کچھ اور ہی تھا۔ عنقریب آپ کے سائنسدان
خود ہی اس راز سے پردہ اُٹھا دیں گے کہ وہ کبھی چاند تک نہیں پہنچے۔ بھئی یہ سب جھوٹ
ہے۔
انسانی سوچ
پہ تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا۔ یہ انسان کی سوچ بھی بالکل اُلٹ ہے۔ سب سے پر شور اور پر
ہنگام جگہ ہی سب سے مہنگی خریدتا ہے اور پھر سکون بھی مانگتا ہے۔ انسان جسے ترقی کہتا
ہے۔ وہ ترقی کہاں ہوئی؟ کیا عمروں میں کوئی اضافہ ہوگیا؟ بیماریاں کم ہوگئیں یا سکون
میں کوئی اضافہ ہو گیا؟ اجی یہاں تو سب الٹا ہے اور تو اور لوگ اللہ سے ڈر اور خوف
محسوس کرتے ہیں۔ بھئی جب آپ اُس سے ڈر اور خوف محسوس کریں گے تو آپ اُس کی طرف کیسے
بڑھیں گے؟
ایک سیاہ داڑھی
والے صاحب گویا ہوئے۔ تو پھر خشیت الٰہی کا کیا مطلب ہوا۔
”آپ قرآن پہ
تفکر کرنے کے لئے ایک موضوع کی تمام آیا ت کو اکٹھا کر کے اُس پہ غور کریں۔اگر خشیت
الٰہی کا مطلب ڈر اور خوف مان لیا جائے تو قرآن کی پوری تعلیمات ہی کی نفی ہو جائے
گی۔“
مرید نے فرمائش
کی ۔” حضور آپ ہی اس کا مطلب بیان فرما دیں۔“
کوئی آیت سامنے ہو تو بتا سکوں گا۔ اس وقت کوئی ایسی آیت ذہن میں نہیں آرہی۔ اتنا کہہ کر بات بدل دی۔ مرید نے جانا کہ وہ لوگوں کے سامنے بات نہیں کہنا چاہ رہے۔ وہ سر مارتا رہا۔ لوگ چلے گئے۔ اگلے روز اُسے خشی الرَّحمٰن بالغیب ۔۔۔ والی آیت یاد
آئی۔ اُس نے انہیں اکیلے میں جا لیا اور عرض گزار ہوا کہ اس
آیت کی روشنی میں خشیت کا کیا مطلب ہے؟
” بھئی ڈکشنری
دیکھنا پڑے گی۔۔۔ یہ کہہ کر اُٹھ کر چل دیئے۔۔ آج دفتر بھی جانا ہے۔ وہ اُن کے پیچھے
پیچھے چل رہا تھا ۔ اُسے یقین نہیں آرہا تھ کہ وہ ایسی بے رُخی فرمائیں گے۔ گیٹ سے
نکلتے ہوئے یک دم پلٹے اور اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔
” میں آپ کو
بعد میں بتا دوں گا۔“ اور گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے۔
وہ سوچ میں
ڈوب گیا۔ حضور نے اس سے پیشتر کبھی کسی سوال کو یوں نہیں ٹالا۔ ۔۔۔ یہ کیا ماجرا ہے؟
بہت سر مارا۔ کچھ سمجھ نہ آیا ۔عصر کی نماز کے لئے جاتے ہوئے اچانک اُسے ایک خیال آیا
کہ اللہ کی موجودگی کو محسوس کرنا ہی خشیت ہے اور آیت کا اصل مفہوم یہ ہوا کہ اُن لوگوں
کو بشارت ہو جو رحمان کی موجودگی کو بن دیکھے محسوس کرتے ہیں۔۔ وہ خوشی سے اچھل پڑا۔
اب اُس کو اس خیال کی تصدیق درکار تھی۔
شام کو جب حضور
وہاں پہنچے تو وہ منتظر تھا۔ وہ گاڑی سے اتر کر اپنے کمرے کی طرف جا رہے تھے کہ اُس
نے دوڑ کر انہیں جا لیا۔ وہ اپنے کمرے کی چق اُٹھا کر کمرے میں داخل ہوا ہی چاہتے تھے
کہ اُس نے پھولی سانس سے کہا ”ابّا ایک منٹ۔ “ وہ وہیں چق تھامے رُک گئے۔ اُس نے خشیت
کا وہ مفہوم جو وہ سمجھا تھا۔۔۔ بیان کر کے تصدیق چاہی۔
بہت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔” بھئی آپ کا ذہن پیچھے پڑ گیا تو یہ مطلب بھی مل گیا۔“
وہ ایسے خوش ہو رہا تھا گویا اُس کو کوئی خزانہ مل گیا ہو۔وہ
کمرے میں داخل ہوئے تو وہ بھی دیوانہ وار اُن کے ہمراہ اندر چلا گیا۔ اُس سر خوشی میں
اُس کو درود شریف کا وہ مفہوم یاد آیا جو کبھی اُس کو سوجھا تھا اور وہ اُس کی تصدیق
نہ ہونے کے باعث کسی کو بتانے سے کتراتا تھا۔ اُس نے عرض کی۔
”حضور کیا درود شریف کا یہ مفہوم لیا جا سکتا ہے
کہ اے اللہ! ہمارا تعلق حضورﷺ سے جوڑ دے؟“
مسرت بھرے لہجے
میں اُس کا مُراد گویا ہوا۔” ہاں۔۔۔ یہ ہوئی نا بات!“
پھر کہا ۔”
اگر کسی کو رازدار بنانا ہی ہو تو پیر و مرشد کو بنانا چاہئے۔ جب راہِ سلوک کے مسافر
کو مشاہدات ہوتے ہیں تو وہ کسی نہ کسی کو اپنا حال بتانا چاہتا ہے ۔ یہی وہ مقام ہے
جس کے لئے مرشد کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔“
گُر کی ایک
بات یہ بتائی کہ” مرشد کی باتوں کو ڈائری میں لکھ لینا چاہئے۔ اس سے طرزِ فکر منتقل
ہونے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ ساٹھ فی صد طرزِ فکر تو اسی طرح منتقل ہو جاتی ہے۔ خود
میرے پاس کتنی ہی ڈائریاں بھری پڑی ہیں۔“
پھر قدرے توقف کے بعد کہا” پیر و مرشد باتھ روم کی مثال ہوتا ہے۔ ادھر وہ مرید کو صاف ستھرا کرتا ہے اُدھر وہ پھر گندہ ہو کر آجاتا ہے۔ نہ مرید باز آتا ہے اور نہ مرشد تھکتا ہے۔ پھر اُٹھے اور درجن بھر پین مرید کو دیتے ہوئے کہا یہ آپ کے لئے ہیں۔ ابھی آپ کو بہت لکھنا ہے۔آپ کے کام آئیں گے۔ یہ آپ لے لیں۔ اُس نے اپنے مراد کے ہاتھوں دی جانے والی اس سوغات اور تحفے کو اپنے بارے میں حکم مانتے ہوئے حرزِ جان بنانے اور اُن کے کہے کا پاس رکھنے کا عہد کرتے ہوئے شکر گزاری کے احساس کے ساتھ قبول کیا اور وہاں سے ہٹ گیا۔
اپنے مرشد سے مزید قربتوں کی آرزو پالتا، وہ عید کے دن بیوی
بچوں کو ساتھ لئے اُن کے گھر پہنچا۔ امی حضور نے اُس کی بیوی کو دلہن کہہ کر مخاطب
کیا۔ وہاں حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کے صاحبزادے رؤف صاحب تشریف فرما تھے۔ اُ کے مُراد
نے اُس کی بیوی کو یہ ہماری بڑی بہو ہیں کہہ کر متعارف کرایا تو وہ اپنائیت کے احساس
سے شرابور ہو گیا۔ اُس روز جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت مانگی تو امی حضور نے اُس
کی بیوی کو کپڑوں کا ایک جوڑا دیا اور مرشدِ کریم نے اُس کو پارکر کا ایک قلم دیتے
ہوئے کہا۔” آپ کو یہ اچھا لگتا ہے۔ یہ آپ لے لیں۔ “ مرید نے سوچا اب وہ یہ کیسے کہہ
سکتا ہے کہ اُس کا کوئی نہیں ہے؟ اللہ نے اُس کو اُن جیسا سرپرست اور والی عطا کیا
اب اُسے اور کیا چاہئے؟ انہوں نے اُس کو یہ احساس عطا کیا گویا ایک بیٹا اپنے باپ کے
گھر آیا ہے۔
وہ بھی ایک عید ہی کا دن تھا جب وہ اُن سے ملنے اُن کے گھر حاضر ہوا تھا۔ لان میں گھاس پہ چند کرسیاں رکھی تھیں۔ پھول اور مٹھائی اندر بھیج کر وہ ایک کرسی پہ بیٹھ گیا۔ وہاں ایک دو اصحاب اور بھی بیٹھے تھے۔ آپ باہر تشریف لائے۔ سب کے سلام اور عید مبارک کہنے کا جواب دیتے آگے بڑھ کر ایک کرسی پر بیٹھ گئے ۔ وہ اُن کے سامنے والی کرسی پر تھا کہ اچانک اُس نے اُن کو پیچھے کی جانب جھکتے دیکھا۔ گرنے سے بچنے کو اُن کا ہاتھ اضطراری طور پر ہوا میں بلند ہوا۔ وہ اپنی جگہ اچھل کر اُن کی طرف لپکا اور اُن کی بغل میں ہاتھ ڈال کر انہیں تھام لیا۔ یہ سب خود بخود ہوا۔ اس میں اُس کی کوئی شعوری کاوش شامل نہ تھی۔ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں یہ سب کچھ ہو گیا۔ کرسی کو دیکھنے پہ نظر آرہا تھا کہ زمین کے گیلے اور نرم ہونے کے سبب کرسی کے پچھلے پیر دھنسے اور بے خیالی کے سبب وہ پچھلی کی طرف الٹنے لگے تھے۔ سنبھلنے کے بعد ا نہوں نے اپنے ہاتھ کو استعجاب کے انداز میں ہلایا۔ گویا کسی سے پوچھ رہے ہوں۔ یہ کیا ہوا۔۔۔کیوں ہوا؟ پھر اُس کو نظر بھر کے دیکھا اور گویا ہوئے۔ عجیب بات ہے! اُ س کو وہاں بیٹھنا دو بھر ہو گیا تھا۔ وہ نگاہیں نیچی کئے بیٹھا رہا تھا۔
اور وہ بھی عید ہی کا دن تھا جب اُس نے سرپرستی کی درخواست اُن
کی خدمت میں پیش کی تھی اور اُس ملاقات کا آخری جملہ اُس کی یادداشت میں ایسے تازہ
تھا جیسے انہوں نے ابھی کچھ ہی دیر قبل اُس کو یَا حَیُ یَا قَیُوْم کا ورد کرنے کی
تلقین کی ہو۔ اُس نے بات کا سرا کئی سال پہلے کے اُسی لمحے سے جوڑتے ہوئے عرض کی حضور
یَاحَیُ یَاقَیُوْم کا کیا مطلب ہے؟
فرمایا ۔ اے
زندہ ۔۔۔اے قائم۔۔۔ رکھ ہمیں زندہ اور قائم ۔۔۔یعنی زندگی کو پکارنے سے اللہ کی صفت
حیات متوجہ ہوتی ہے۔ زندگی کو قائم رکھنے کے لئے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا وسائل
فراہم کرنے والا۔ روحانیت کے کوئی دو سو سلاسل ہیں اور اُن سب میں یَاحَیُ یَاقَیُوْم
کسی نہ کسی طور رائج ہے اور یہ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا فیض ہے کہ انہوں نے
اس کے ورد کی اجازت کو عام فرما دیا ہے۔
مرید نے دریافت
کیا کہ اجازت سے کیا مطلب ہے؟ کیا اللہ کا ذکر کرنے کے لئے بھی کوئی اجازت لینا ہوتی
ہے؟
نہایت مشفقانہ
انداز میں کہا۔” کسی اسم الٰہی کا کسی ایسے بندے کی اجازت سے ذکر کرنا جس نے اُس کی
زکوٰۃ ادا کی ہو۔ فائدہ دیتا ہے۔ بغیر اجازت اسماء الٰہی کا ذکر کرنا تو ایسا ہی ہے
جیسے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر کوئی دوائی کھانا شروع کر دیں۔ اب ہو سکتا ہے کہ وہ فائدہ
دے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی نقصان کا سبب بن جائے۔ اکثر لوگوں کو زیادہ وظائف
پڑھنے کی عادت ہوتی ہے۔ انہیں پریشانیوں کا سامنا رہتا ہے۔ جب وہ وظائف پڑھتے ہیں تو
اُن کے اندر انوار کا ذخیرہ ہونے لگتا ہے۔ چونکہ شعور کو اُن انوار کو برداشت کرنے
کی نہ تو سکت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی تربیت۔ لہٰذا وہ انوار اُن کے لئے پریشانی کا
سبب بنتے ہیں اور اسی میں خرچ ہوتے ہیں۔
بالکل جیسے وٹامن اور طاقت کی ادویہ زیادہ اور بلا ضرورت کھانے سے تکلیف ہوتی ہے۔ مرید نے سوچا اور دریافت کیا۔
”یہ زکوٰۃ دینا کیا ہوتا ہے؟“
فرمایا ۔ کسی
اسم کی زکوٰۃ یہ ہے کہ اُس اسم کو ایک مخصوص تعداد میں جو کم از کم سوا لاکھ ہوتی ہے،
وقت اور جگہ مقرر کر کے پڑھا جاتا ہے۔ اسے چالیس روز میں مکمل کرنا ہوتا ہے۔ اسے اپنے
پیر و مرشد کی اجازت سے ہی کرنا چاہیے۔ ورنہ رجعت ہوتی ہے۔
پیشتر اس کے
وہ رجعت کے بارے میں جاننے کو مزید سوال کرتا۔ خالد نیاز بھی آگئے۔ وہ لوح و قلم کے
انگریزی ترجمے کی اشاعت کے سلسلے میں سرگرم عمل ہو چکے تھے۔ وہ کتاب کے ٹائیٹل کی تیاری
اور چھپائی کے بارے میں بات کرنے لگے۔ مرشد کریم نے انہیں ہدایت کی اُس میں اوقاف کی
جگہ دائرے لگائے جائیں۔
مرید نے اس
ہدایت میں مستور حکم جاننے کی خواہش کی تو بتایا کہ جب قاری جملہ پڑھتے ہوئے اُس کے
اختتام پہ دائرہ دیکھے گا تو اُس کا ذہن لاشعور کی طرف متوجہ ہو جائے گا ۔ دائرے سے
مراد وہ حرکت ہے جو لگاتار اور مسلسل جاری رہتی ہے اور مثلث سے مراد وہ حرکت ہے جو
کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد اپنا رُخ بدلتی ہے۔ واہمہ سے خیال، خیال سے تصور اور پھر
احساس اور مادی وجود۔۔۔ یہ سب مثلث کی حرکات ہیں جن میں رخ کی تبدیلی سے زاویے پیدا
ہوتے ہیں۔ آپ دائرے کو کاٹیں تو مثلث حاصل ہوتی ہے۔ فرشتے اور جنات دائرے کی مخلوق
ہیں اور انسان مثلث کی۔ مثلث Dimensions یعنی ابعاد اور حدود کا نام ہے۔ انسان مثلث کی وجہ سے
زیادہ سکت رکھتا ہے۔ اس لئے جب وہ دائرے میں داخل ہوتا ہے تو وہ سب دائروں سے آگے نکل
جاتا ہے۔
مرید نے کہا
حضور میرے ذہن میں ٹائم (زماں) کا تصور ایک Conveyer Belt کا
سا ہے۔ فرمایا:
” جی ہاں یہ ایک میگنیٹک فیلڈ ہے۔ اس کو لاشعور بھی کہتے ہیں۔
اور پھر اُس سے دریافت کیا ”آپ پشاور کب جا رہے ہیں؟“ مرید نے
بادلِ نخواستہ کہا۔
” بس جلد ہی
۔ مالک مکان کو نوٹس دے دیا ہے جونہی وہ سیکورٹی کی رقم واپس کر دے گا۔ ہم روانہ ہو
جائیں گے۔“
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔