Topics
اُن کے مراقبہ ہال سے چلے جانے کے بعد وہاں اک سناٹا سا در آتا
ہے۔ جب وہ وہاں موجود نہیں ہوتے تو لوگوں کا دل نہیں لگتا۔وہ وہاں ہوں تو لوگ بلاوجہ
بھی کھنچے چلے آتے ہیں لیکن اُن کے جانے کے بعد۔۔۔ کسی کو اُن کے جانے کی خبر نہ بھی
ہو پھر بھی۔۔۔ دل گویا اُٹھ سا جاتا ہے۔وہاں رکنے کو جی ہی نہیں چاہتا۔ کوئی بہت ہی
توانا اور زوردار بہانہ ہو تو کچھ اور بات ہوتی ہے۔ وہ گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے تو
وہ مراقبہ ہال کے اندر واپس آ گیا۔اُس نے ادھر اُدھر دیکھا کوئی نظر نہ آیا تو وہ آفس
کی طرف بڑھ گیا۔ وہاں ایک دو اصحاب بیٹھے ڈاک کھول رہے تھے۔ خطوط کے انبار لگے ہوئے
تھے۔ لفافہ کھولنے کے بعد جس خط سے جوابی لفافہ برآمد ہوتا اُس کو اُسی خط کے ساتھ
لف کیا جاتا۔ دوسری طرف جن خطوط کے جواب تیار ہوتے ہیں اُن کو جوابی لفافوں میں بند
کیا جا رہا تھا۔ ہر روز سینکڑوں خطوط کے ساتھ یہی معاملہ ہوتا ہے۔ ایک صاحب نے بتایا۔
اُن کے کام کے دوران اُن سے باتیں ہوئیں۔ باتوں کے دوران اُس نے ایک بات بہت دلچسپی سے نوٹ کی کہ وہ سب رضا کارانہ کام کر رہے ہیں۔ اُن کو اس خدمت کا سلہ طمانیت قلب اور روحانی کیف کی صورت میں مل رہا ہے۔ وہ گپ شپ کرتے کام بھی نپٹا رہے تھے۔ آپس میں ہلکی پھلکی جملے بازی بھی ہو رہی تھی اور چہلیں بھی۔ بات بے باے حضور ابا جی کا تذکرہ بھی ہو رہا تھا۔ عقیدت کے علاوہ اُن کے ذہن میں کوئی دوسری بات نہ تھی۔ ایک صاحب کالج کی چھٹیوں کے سبب وہاں تھے اور دوسرے کالج سے فراغت کے باعث۔ وہ دونوں روحانی ڈائجسٹ کی زلف گرہ کے اسیر ہو کر وہاں تک پہنچے تھے اور اپنے مرشد کے شکر گزار تھے کہ اُس نے اُن کو خدمت کی اس سعادت سے بہرہ مند کیا تھا۔
جس کرسی پہ مرشد بیٹھ کر کام کرتے تھے اُن کی غیر موجودگی میں
بھی کوئی اُس پہ بیٹھنے کی جسارت نہیں کر رہا تھا۔ سبز میز پوش پہ پھولوں کی ایک بڑی
سی سینری بچھا کر اُس کے اوپر شیشہ رکھا ہوا تھا۔ شیشے کے نیچے کچھ ویزٹنگ کارڈز بھی
لگے تھے۔ ایک کھڑکی حضور کی کرسی کی پشت کی جانب شمالی سمت میں تھی۔ اُس کمرے میں دوسری
کھڑکی مغربی دیوار میں برآمدے کی جانب کھلتی تھی اور تیسری کھڑکی جنوبی دیوار میں لان
کی سمت۔ جس کرسی پہ وہ بیٹھا تھا اس کی پشت پہ لان میں کھلنے والی کھڑکی تھی۔ وہ وہاں
سے اُٹھ کر اُن کی خالی کرسی کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ اپنے بیعت ہونے کے لمحات کی کیفیات
کی یاد تازہ ہو گئی۔
وہ اُن لمحات کو یاد کرتا میز کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک اُس کی توجہ سینری کے اوپر بنے ایک نشان کی طرف مبذول ہو گئی۔ یوں لگتا تھا کسی نے وہاں رکھا کوئی کارڈ یا کاغذ تازہ تازہ ہٹایا تھا۔ اس جگہ کا رنگ باقی تصویر کے رنگ سے کچھ مختلف تھا۔ باقی تصویر کا رنگ ہلکا اور مدہم لگ رہا تھا۔ جبکہ اُس جگہ کے رنگ قدرے گہرے اور شوخ تھے۔ وہ اس فرق کی وجہ کھوجنے لگا۔ اُس کو پہلا خیال یہ آیا کہ دھوپ کی وجہ سے تصویر کے رنگ اڑے ہوں گے جبکہ کارڈ کے نیچے کی جگہ دھوپ کے اثر سے محفوظ رہ گئی ہے۔ لیکن یہاں اس کمرے میں دھوپ کہاں سے آتی ہوگی۔ مشرق کی سمت تو کوئی کھڑکی ہے نہیں اور مغربی کھڑکی کے اوپر برآمدے کی چھت ہے اب شمالی یا جنوبی سمت کی کھڑکیوں سے تو دھوپ آنے سے رہی۔ تو پھر یہ ضرور کراچی کی آب و ہوا کی وجہ سے ہوگا۔ جب وہ کسی نتیجے پہ نہ پہنچ سکا توا اس کا ذہن الجھ جاتا تھا۔ اُس نے وہاں موجود دونوں اصحاب کو بھی اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ اُس نے تیسرا امکان یہ ظاہر کیا کہ شاید میز باہر کھلے میں رکھی گئی ہوگی اس وجہ سے اس پہ دھوپ اور موسم کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اُس کی اس بات سے دونوں نے اتفاق نہیں کیا۔ ایک نے بتایا یہ سینری اس کے سامنے چھ سات ماہ پیشتر وہاں لائی گئی تھی اور
جب سے وہ میز اُسی کمرے میں رہی ہے ۔ اُس کا تجسس اُس کو قرار
نہیں لینے دے رہا تھا۔
اُس کو الجھتا دیکھ کر ایک صاحب نے کہا۔ آپ کا دھوپ
والا نظریہ ہی ٹھیک ہے۔
لیکن یہاں دھوپ
کہاں؟
آپ دھوپ کا
کہتے ہیں یہاں تو پورا سورج چمکتا ہے۔۔۔ کہہ کر وہ ہنس دیئے تو اُس کو ہزار واٹ کے
بلب والی بات یاد آگئی جو اُس کے مراد نے مراقبہ ہال میں ابتدائی ملاقات میں کہی تھی۔
اُن تینوں نے اُس جگہ کا دوبارہ جائزہ لیا اور اس نتیجے پہ متفق ہو گئے کہ تصویر میں
پیلا رنگ نسبتاً زیادہ کم ہے۔ اس بار دوسرے صاحب نے تبصرہ کیا۔ زرد رنگ دنیا کا رنگ
ہے فقیر کے سامنے یہ رنگ کتنی دیر ٹک سکتا ہے۔
چند روز بعد
اُس کا بہنوئی امریکہ سے آیا ۔ اُس نے اُس کے حالات سُن کر اُسے امریکہ آنے کی دعوت
دی۔ اُس نے ایک دو روز بعد اُس کو جواب دینے کا کہا اور اپنے مرشد سے پوچھنے چل پڑا۔
وہ مراقبہ ہال آیا ۔ ”ابا اس طرح امریکہ کا چانس بن رہا ہے۔ میرے لئے کیا حکم ہے؟“
”کیا امریکہ
میں کوئی دوسرے اللہ میاں ہیں؟ انہوں نے دریافت کیا۔
”جی نہیں“ اُس
نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے جواب دیا۔
” تو پھر جو
اللہ وہاں دے سکتا ہے کیا وہ یہاں نہیں دے سکتا؟ انہوں نے یہ کہہ کر بات ہی ختم کر
دی۔
کچھ دیر بعد ایک صاحب وہاں آئے اور انہوں نے بھی امریکہ جانے اور وہاں پہ مواقع کی دستیابی کی بات کی تو اُن سے کہا ۔ ہاں یہ تو ہے۔ آپ ضرور کوشش کریں اللہ
بہتر کرے گا۔ وہ سمجھ گیا کہ اللہ نے اُس کے لئے امریکہ جا کر
محنت مزدوری کی تمثیل لوحِ محفوظ پر بنائی ہوئی ہے۔ اس لئے اُس کو جانے کا مشورہ دے
دیا ۔
اُس نے عرض
کی۔” حضور وہ کون سی آیت تھی جس کو قلندر بابا اولیا ء کے کہنے پر پڑھنے سے آپ کو اللہ
تعالیٰ نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔“
فرمایا۔ ”جب
وقت آئے گا تو بتا دیں گے۔ ورنہ آپ تو ہر چیز کو سجدہ کرتے پھریں گے۔ کبوتر آیا تو
اُس کو سجدہ۔۔۔۔ بیوی سامنے آئی تو اُس کو سجدہ۔“
اُس کو شوخی
سوجھی۔۔ یہ تو بہت بہتر ہو جائے گا۔۔۔ اسی بہانے بیوی بھی خوش ہو جائے گی۔
”خوش ہو گی
یا جوتے لگائے گی؟ انہوں نے سوال کر کے اُس کی شوخی کو لگام دی۔
ایک روز خالد
نیاز اور اُس کے درمیان یقین، علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کی بابت دیر تک
بات ہوتی رہی۔ وہ دونوں بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ کسی حتمی نتیجے پہ
نہ پہنچ سکا۔ اگلےروز جب وہ مراقبہ ہال پہنچا۔ گیٹ کے بالکل سامنے اُس نے خالد نیاز
کو اپنے مراد کے ہمراہ کھڑے دیکھا۔ سلام کر کے قریب جا کھڑا ہوا۔ جب وہ اپنی بات ختم
کر کے خاموش ہوئے تو اُس نے دریافت کیا۔ حضور۔۔۔ یہ یقین کیا ہے؟
آپ کا رُخ اُس
وقت گیٹ کی طرف تھا۔ آپ نے اپنا بایاں ہاتھ بلند کر کے زیرِ تعمیر مسجد جامعہ عظیمیہ
کی طرف اشارہ کر کے عجیب سے لہجے میں کہا۔ یہ ہے یقین۔
قدرے توقف کے بعد فرمایا۔ یہاں سے یقین بٹے گا۔
پھر ارشاد ہوا۔ یہ علم الیقین، عین الیقین ، حق الیقین وغیرہ۔۔۔۔
اور ہاتھ کو یوں ہلایا گویا فرما رہے ہوں کچھ نہیں ۔۔۔ اور کہا ” یقین تو صرف یقین
ہوتا ہے۔“
خالد نیاز نے
اُسے دیکھا اور اُس نے انہیں۔ دونوں میں سے کسی کو اتنا حوصلہ نہ ہوا کہ اس بات کی
وضاحت کی درخواست کرتے۔وہ وہاں سے ہٹ گئے۔ گھر جاتے ہوئے اچانک اس کو یہ بات
سمجھ آئی کہ انہوں نے اُسے یہ بات سمجھائی ہے کہ یقین ایک طاقت ہے اور علم الیقین
وغیرہ علم کے درجے ہیں۔ جامعہ عظیمیہ ایک بندے کے یقین کی طاقت ہی تو ہے کہ بغیر مادی
وسائل کے وہ بن رہی ہے۔
اُس کو یاد آیا کہ ایک بار انہوں نے فرمایا تھا کہ بھئی ہم وسائل کے چکر میں نہیں پڑتے اللہ کے بھروسے پہ کام شروع کر دیتے ہیں اُس کے لئے وسائل خود بخود مہیا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پھر مزار کی تعمیر کی مثال دیتے ہوئے فرمایا یہ سب پیسے اکٹھے کرنے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔۔۔ کہتے ہیں دو لاکھ ہوں تو تعمیر شروع کریں۔۔۔دس لاکھ ہوں تو تعمیر کا آغاز کریں۔۔ نتیجہ یہ کہ ابھی تک مزار کی تعمیر شروع نہیں ہو سکی۔۔۔۔ اگر وہ وسائل کے چکر میں نہ پڑتے تو اب تک اللہ اُس کو پورا کر دیتا ہے۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔