جنت اور زمین کی زندگی

جنت اور زمین کی زندگی

Aaj ki bat | March 2024

 

آج    کی   بات

ابدال ِ حق حضور قلندر بابا اولیا ؒ کے 45ویں عرس کے موقع پر محترم عظیمی صاحب کے خطاب کا خلاصہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

صد احترام  بزرگو، دوستو،  بھائیو، ماؤں ، بہنو، بیٹیو اور حاضرینِ مجلس !

السلام علیکم و رحمۃاﷲ!

آپ کو دین و دنیا میں اللہ رب العالمین اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب عطا ہو، آمین۔   آپ نے نا  ہموار موسم کے باوجود دلی جذبہ برقرار رکھا اور  مرشد کریم  ابدال ِحق قلندر بابا اولیاؒ   کی مجلس میں عقیدت، محبت اور الفت کے ساتھ حاضر ہوئے۔اللہ تعالیٰ آپ کو عرفان ِ نفس  اورعرفانِ الٰہی عطا فرمائے، آمین۔

 میں ایک کمزور  ناتواں آدمی ہوں۔ میرے مرشد کریم، میری جان،  دل کا نور،آنکھوں کاسرور، آخری وقت میں، جب وہ اس دنیا سے دوسرے عالم میں تشریف لے جا رہے تھے،  انہوں نے مجھ سے فرمایا،  

’’خواجہ صاحب ! اب آپ  نہ  پٹھان ہیں، نہ شیخ ہیں، نہ انصاری ہیں، نہ قریشی ہیں،  اب آپ چمار*ہیں اور چمار  پر   بیگار اترتی ہے ۔ آپ سمجھ گئے میں کیا کہہ رہا ہوں؟   چشمِ پرنم سے عرض کیا  ،بے شک ! آئندہ میری ذات چمار ہے۔ میں    بلاتفریق مذہب و ملت  اللہ کی مخلوق کی خدمت  کروں  گا۔ ‘‘

 حاضرینِ مجلس! اللہ تعالیٰ آپ کو صحت، عزت اور بردباری عطا فرمائے اورعشق  کی لذت سے آگاہ فرمائے۔عشق اگر ایک آگ نہیں ہے تو عشق ایسا غلبہ ہے کہ بندہ بظاہرگوشت پوست کا نظر آتا ہے لیکن اندر میں  راکھ  ہوتا ہے۔  اللہ آپ  کو خوش رکھے اور آپ کی اولاد  کو دنیا کے ساتھ ساتھ دین کے سمندر سے  آشنا فرمائے  ۔ 

یہ دنیا کیا ہے؟ یہ دنیا  مٹی ہے۔ مٹی کا مقام سب کو پتہ  ہے۔ ہوا میں اڑتی ہے،  اپنا   راج قائم کر لیتی ہے۔ اس کی محبت آدمی کو  اصلی منزل سے دور کر دیتی  ہے ۔دنیا آخرت کی منزل کا ایک کانٹوں بھرا راستہ  ہے۔ اگریقین ہوکہ ہماری زندگی   خاتم النبیین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم   کی تعلیمات کے مطابق ہے    تو پھر دنیا پھولوں کی سیج ہے۔

 لمحۂ فکریہ ہے کہ ہمیں قرآن کریم  پڑھایا گیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ سمجھ کر پڑھو۔  اگر میں انگریزی یا کسی زبان کا ترجمہ نہیں جانتا تو اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔ دنیاوی نقطہ ٔنظر سے دیکھیں تو ہماری  تعلیم کا مقصد  روٹی کپڑوں  کا وسیلہ بنانے تک محدود ہوگیا ہے۔آج مسلمان  ہرجگہ بے عزت اور مفلس ہے۔ اسے صرف  دولت، رزق  اور دنیاوی آرام و آسائش چاہئے۔

 میں اپنی  ماؤں ،بہنوں اور بھائیوں سے پوچھتا ہوں کہ اگر   نو ماہ تک ماں کے  پیٹ سے مخلوق کو کھانا نہ ملتا  تو  کیا مخلوقات کا وجود ظاہر ہوسکتا تھا؟ اﷲستّر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔اللہ نے ماں کو پرورش کا وسیلہ بنایا ہے۔  ماں کی محبت  اور باپ کی شفقت سے  سب  واقف ہیں۔  ماں  بچے سے دور ہو اور بچے کو  بھوک لگے تو  مشاہدہ ہے کہ  ماں کے کپڑے دودھ سے بھیگ جاتے ہیں۔ یہ کون سا جذبہ ہے؟ ماں کے جذبات  کا تقاضا ہے کہ بچے کے لئے   ہر طرح قربانی دے۔

پرندوں کی دنیا دیکھیں تو وہ بچوں کے  لئے  گھر بناتے ہیں، اس میں جھولے ہوتے ہیں،  اندھیرے کو دور کرنے کے لئے جگنو پکڑ کر  گھونسلے میں چھوڑ دیتے ہیں تا کہ بچوں  کو  ڈر نہ لگے۔   ہم بچوں کی پرورش کرتے ہیں،  چڑیا بھی  پرورش کرتی ہے۔ وہ کھانا اپنے  پوٹے میں جمع کرتی ہے  ۔ ایک ایک دانہ اس کے منہ میں ڈالتی ہے۔یہ کھلانا آسان ہے یا  دودھ پلانا آسان ہے؟ بچے بڑے ہوتے ہیں تو پرندہ  بچوں کے لئے گھر چھوڑ دیتا ہے اور اپنے لئے نیا  گھر بناتا ہے۔کیا آدمی کی  اتنی استطاعت ہے کہ ہر بچے  کے لئے ا لگ الگ گھر بنائے ؟  ہرمخلوق  خصوصاً چڑیاں فجرکی نما ز سے ذرا پہلے، آپ ان کی تسبیح نہیں سنتے ؟چوں  چوں چوں اور جیسے ہی سورج نکلتا ہے، سب خاموش ہوجاتی ہیں۔ ہرمخلوق اﷲ کی عبادت کرتی ہے۔ حیوانات آدھی رات سوتے ہیں،آدھی رات میں اللہ کی عبادت (مراقبہ) کرتے ہیں۔ بتایئے کہ پرندے  اور چوپائے زیادہ فضیلت والے ہیں یا  آدمی ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ  میرے نہایت مہربان بزرگ ہیں، دوست ، بھائی، بہنیں،  بیٹیاں  اور  بیٹے ہیں۔ چاہتا ہوں کہ  جو  بیان کرنے والا ہوں، اس کے لئے زمین (ذہن)  ہموار ہوجائے۔ اﷲتعالیٰ آپ کو اتنی فہم عطا فرمائے کہ آپ اسے سمجھ سکیں  اور جو کچھ میں نے کہا، اسے اپنے تک محدود نہ کریں، خاندان،  دوستوں میں جس زبان میں ہو ،لوگوں کو منتقل کریں ۔

 

قرآن کریم کی تعلیمات ساری دنیا  کے لئے ہیں۔ اس میں جنت  کی زندگی اور پھر زمین پر آنے کا قصہ بیان ہوا ہے۔ہم کیا ہیں ؟ ہم قیدی ہیں، مجرم ہیں،  جنت سے نکالے ہوئے   ہیں۔اللہ نے فرمایا ہے کہ  میرے بندو یعنی آدم و حوّا !  جنت میں رہو،  جہاں سے دل چاہے، کھاؤ پیو ۔ جنت میں شہد کی  نہریں ہیں، دودھ کی نہریں ہیں،  پانی کی نہریں ہیں اور ہرشے ہے لیکن آدم و حوّا سے نافرمانی ہوئی۔ زمین پر آنے کے بعد ہابیل قابیل کا  قصہ آسمانی کتابوں میں بیان ہوا ہے۔ اللہ نے ایک بھائی کی قربانی قبول نہیں کی کہ وہ  ناقص تھی۔اس نے اﷲکےقانون سے بغاوت کی اور  بھائی کوقتل کردیا۔یہ دنیا میں پہلا قتل  تھا۔  پریشانی لاحق ہوئی کہ  لاش کا کیا کروں تو  روایت ہے کہ ایک کوّا آیا جس نے پنجوں سے زمین کھودی۔ اس میں کپڑا  ڈالا  اور گڑھے کو مٹی سے بھردیا۔ نافرمان بھائی نے کہا،  ہائے افسوس! مجھ سے  زیادہ سمجھ دار  تو    کوّا ہے۔

 کہنے کو تو میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن آپ کیا سمجھے؟

 استاد کون ہے اور شاگرد کون ہے؟ ہم نے عقل کس سے سیکھی؟

 (حاضرین نے بیک آواز کہا، کوّے سے  !)

 اللہ تعالیٰ نے زمین پر مخلوقات کو سڑی ہوئی مٹی (کیچڑ)سے بنایا اور ایسی چیزیں اس                                                                                           کے لئے بنائیں جن میں سڑاند ہے، بدبو ہے اورتعفن ہے۔اس کا مطلب کیا ہے؟ نہایت ذی احترام  خواتین و حضرات!  جس بھائی نے بغاوت کی تھی،  ہم اس کی پیروی  کر  رہے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب میں سورۃ البقرۃ کی ابتدائی آیات  پڑھتا ہوں اور جو علم  مرشد کریم نے مجھے   منتقل کیا ، اس کو حسبِ استطاعت بیان کرتا ہوں۔ الٓمٓ ۔  ذٰلک الکتٰب ذٰلک کے معنی یہ، کتاب معنی  قرآن کریم۔ لا نہیں۔ ریب   شک ۔ فیہ اس میں۔ ھدی للمتقین   یہ کتاب متقی  خواتین و حضرات کو  ہدایت دیتی ہے۔متقی کون ہیں؟ الذین یؤمنون بالغیب جو اللہ سے واقف ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اللہ خالق  ہے۔ ویقیمون الصلوٰۃ اور جو صلوٰۃ اللہ                                                          نے فرض کی، اسے پورا کرنے کے پابند ہیں۔ وممارزقنٰھم ینفقون اللہ  کا دیا ہوا رزق (وسائل)  کھاتے ہیں۔

اللہ جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔ لاشمار مخلوقات کے لئے دسترخوان بچھا ہوا ہے۔ ہمیں توپتہ بھی نہیں ہوتا  اور درختوں  پر آم آجاتے ہیں۔آم کےپھل کیا آم  کے بچے نہیں ہیں؟ آپ کی سمجھ میں یہ باتیں آرہی ہیں؟

(حاضرین  نے عرض کیا:   جی!  )

 آم کے اندرگٹھلی ہوتی ہے جو غلاف میں بند ہوتی ہے۔ گٹھلی کے اندر پردے میں چھپے ہوئے دو پرت ہوتے ہیں۔ آم آنے والے ہیں، آپ دیکھئے گا ۔ جو میں نے عرض کیا،صرف سنیں نہیں، تجربہ بھی کریں۔ آم کھولیں،  گٹھلی  چھیلیں ۔دونوں پرت الگ کریں، دونوں کے سرے دیکھیں، وہاں نشان نظر آتا ہے، وہ نر اور مادہ کی پہچان ہے۔  آدمی میں بھی یہی ہوتا ہے۔کیا ہم درخت کی طرح پیدا نہیں ہوئے ؟ آم کی جڑیں اور  پسلیاں ہوتی ہیں۔ زمین کو کھول کر دیکھیں، آم یہاں لگا  ہوا ہے اور جڑیں  وہاں   تک   پھیلی  ہوئی  ہیں۔ درخت  ایک ٹانگ پر کھڑا ہے لیکن اس کے نیچے  اتنے زیادہ پیر (جڑیں)ہیں  جن کو زمین نے سنبھالا ہوا ہے۔ عوام اس کو ایک ٹانگ کی مخلوق کہتے ہیں۔ 

امیرالمومنین حضرت علی ؑ سے کسی نے پوچھا کہ تقدیر کیا ہے ؟

حضرت علیؑ نے فرمایا ،ایک ٹانگ اٹھاؤ، اس نے ایک ٹانگ اٹھا لی۔

فرمایا، کھڑے  رہو ۔  وہ تھوڑی دیر میں گر گیا ۔

تقدیر یہ ہے کہ آپ دو  یونٹ سے کھڑے ہو سکتے ہیں ۔ ایک یونٹ سے کھڑے نہیں ہوسکتے۔ مخلوق ہمیشہ دو یونٹ ہوتی ہے، میل ہوتا ہے ، فی میل ہوتی ہے۔ نوزائیدہ   بچہ دو سے مرکب ایک ہوتا ہے۔ ہر چیز دو  رخ پہ  کام کرتی ہے ۔ زمین میں  باجرے  کا  اتنا  سا بیج ڈالتے ہیں ،  جب باجرا  بڑا  ہوتا ہے، اس میں کئی سو دانے  ہوتے ہیں ۔ باجرے کے ایک دانے سے ہزاروں دانے کیسے نکلتے ہیں؟  اسی طرح آدمی  کی بھی نسل چلتی ہے۔نسل چلانے والا کون ہے؟ اللہ ہے۔ اللہ نے  الٹ پلٹ ، الٹ پلٹ کرکے ماں کے اندر میں ایک تصویر بنائی۔

اللہ  نے آسمان سے پانی نازل کیا اور زمین میں داخل کیا ۔ زمین سات بنائیں۔ زمین  قطعات کی طرح ہے ۔کسی قطعہ  پر کھیتی باڑی ہے۔ کسی پر پتھر ہیں، کسی پر جواہرات ہیں، کسی پرگیس ہے، کسی  پر مٹی کا تیل ہے، کسی پر پانی ہے اور کسی قطعہ پر ؟  زمین میں کوئی ستون دیکھا؟ آسمان پہ کوئی ستون دیکھا؟   اور آسمان کیا ہے ؟ ایک آسمان  دو آسمان — سات آسمان ہیں۔ سات آسمان کا مطلب یہ آسمان اور اس کے اوپر کے آسمان جیسے ایک ورق کے دو صفحے ہوتے ہیں۔ یہ سب اللہ کی مخلوق ہیں۔

 ستارے آپ کو نظر آتے ہیں، یہ سب مخلوق ہیں،  زمینیں ہیں۔ ستارے روشن کیسے ہیں؟ان میں کوئی تارنظرآتا ہے نہ سوئچ۔ یہ قمقمے (دنیائیں)ہیں۔ رات کو چاند نکلتا ہے اور سیاروں کو روشنی منتقل کرتا ہے،  دن کو سورج سیاروں کو چارج کرتا ہے۔  سات آسمان کو روشنی کہاں سے مل رہی ہے؟قرآن کریم میں ہے،

’’اﷲآسمانوں اور زمین کا نور ہے۔‘‘  (النور:  ۳۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آدمی میں کون سی چیز خوش بو کی ہے ؟   کیا نئی نئی خوش بوؤں کا سہارا  نہیں لینا  پڑتا ؟  دودھ  پھٹ جائے  تو  کیا وہ پینے کے لائق ہے ؟گوشت سڑ جائے، کیا وہ کھانے کے لائق ہے؟  آدمی  مر جائے اور دفنانے میں دیر ہوجائے، اس میں بد بو ہوگی یا  خوش —بو  ؟

(حاضرین نے بیک زبان  کہا ،       بدبو ۔ )

 ایسی بدبو کہ کھڑے نہیں ہو سکتے  ۔ آدمی کو کیچڑ سے بنایا اور گھٹتا بڑھتا بنایا ۔ کیا  دنیا  گھٹنا بڑھنا نہیں ہے؟ بچہ ڈیڑھ فٹ کا ہوتا ہے  پھرچھ  فٹ کا کیسے ہوجاتا ہے ؟  قد چھوٹے  بڑے ہوتے ہیں۔ پودا اتنا سا ہوتا ہے، اس کے دونوں طرف نرم و ملائم پتّے ہوتے ہیں۔ جب یہ درخت بنتا ہے تو کیا بڑے درخت کے پتےّ گنے جاسکتے ہیں؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ  تخلیقات  کا ایک مکمل نظام ہے۔ ایک تخلیق نور سے ہے اور ایک تخلیق مٹی، کیچڑ ، سڑاند ،نطفے اور چپکتے گارے سے ہے۔ سب سے زیادہ  فروخت خوش بو کی ہوتی ہے۔ اتنی خوش بو کیوں لگاتے ہیں؟  بو دور کرنے کے لئے لگاتے ہیں نا ں؟  بو ختم ہو جاتی ہے  یا دب جاتی ہے؟     (حاضرین نے  بلند  آواز سے  کہا ،          دب جاتی ہے ۔ )

جنت میں بدبو نہیں ہے۔ جنت کا لباس الگ ہے۔آدم و حوّا  سے نافرمانی ہوئی  تو سب سے پہلے ان کے اوپر سے  جنت کا لبا س اترا اور  پتوّں سے ستر پوشی کی۔ زمین پر بچے کی پیدائش  سے پہلے  اماں نے اس کی  ستر پوشی کے لئے کپڑے بنائے۔ کپڑا کیا ہے ؟  زمین میں گوبر اور کھاد  نہ  ڈالیں تو روئی   مظہر بنے گی؟     (حاضرین نے جواب دیا ،    نہیں۔)

کپڑے  کی base  کیا بنی ؟ تعفن بنا۔   جو  بچہ  اوپر سے صاف ستھر ا آیا،   سب سے پہلے آپ نے اس کو  گندگی سے روشناس کرایا۔ یہ وہ دماغ ہے  جو جنت میں نافرمانی کا  تھا  ۔ضمیر کہتا ہے کہ جنت میں  نافرمانی ہوئی، اللہ کے بندو!  دنیا میں تو نافرمانی نہ کرو۔

’’پھر جس نے ذرّہ  برابر نیکی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گااور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا۔ ‘‘  (الزلزال  : ۷۔۸)

جنت میں غلمان اور حوریں ہیں، مرد اور عورتیں ہیں، بچے  ہیں، گھرہوتے ہیں ۔جنت                                                                          نورُ علیٰ نورُ دنیا ہے۔ وہاں شعاعیں پھوٹتی ہیں لیکن  وہ آگ نہیں ہے۔ (پنڈال میں جلنے والی روشنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا) یہ جو روشنی ہے، یہ آگ ہے ۔ہاتھ لگا کے دیکھ لو، جل جاؤ گے۔ جنت  نور در نور ، نور در نور ہے۔ اللہ جن کو چاہتا ہے،  نور کی ہدایت دیتا ہے۔ مرکزی مراقبہ ہال میں ایک بڑی تصویر آویزاں ہے، اس میں جنت کی منظر کشی کی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قرآن کریم میں شک نہیں ہے۔  یہاں جتنے لوگ ہیں، اﷲکا کوئی خاص بندہ ہوسکتا ہے جس میں شک نہ ہو۔  بتائیے،    شک آتا ہے یا نہیں؟   ہاتھ بلند کرکے بتائیے۔

(خواتین و حضرات کی اکثریت  نے ہاتھ بلند کئے۔ )

اللہ نے شک سے منع کیا ہے یا اجازت دی ہے؟

(حاضرین نے عرض کیا:  منع کیا ہے۔)

خواتین و حضرات !      زندگی کا لائحہ عمل  کیا ہونا چاہئے؟

(ایک صاحب نے عرض کیا   طرزفکر دو ہیں،ایک اﷲ کے لئے پسندیدہ ہے اور ایک  ناپسندیدہ ہے ۔ پسندیدہ طرز فکر یہ ہے  کہ اﷲتعالیٰ کی نافرمانی نہ ہو،  فرمانبرداری ہو ۔)

  یہ انہوں نے بہت اچھی بات کہی۔ محترم سامعین ! بزرگ فرماتے ہیں کہ  جنت میں بد بو نہیں ہے ، کوڑا کرکٹ نہیں ہے،  آزاد زندگی ہے،حسین محلات، قسم  قسم کے پھول اور پھل ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ   جنت میں اللہ تعالیٰ کی تجلی کا دیدار ہوتا ہے         بندہ اللہ سے عرض و نیاز کرتاہے ۔ جنت میں جب ہوا چلتی ہے تو خوش بوئیں آتی ہیں  اور مختلف ساز اندر میں سنائی دیتے ہیں۔  طعام و قیام کا  بہترین انتظام ہے۔ پریشانی، شک اور الوژن نہیں ہے۔

ہم سب ابا آدم اور اماں حوّا کی اولاد ہیں۔ شکر کرنا چاہئے کہ  اﷲ تعالیٰ نے ہمیں  ان لوگوں میں شریک  کیا  جو دل و جان سے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چاہتے ہیں اور ان کی شفاعت کے متمنی ہیں۔غور کیجئے کہ کیا  ہم صراطِ مستقیم کو صحیح معنوں میں سمجھ سکے ہیں؟  ہم قرآن کریم کو ترجمے کے ساتھ نہیں پڑھتے۔درخواست  ہےاورحکم بھی کہ قرآن   کریم    کی چھوٹی چھوٹی سورتیں جونماز میں پڑھی جاتی ہیں، ان کا ترجمہ یاد کرلیں تاکہ آپ نماز سے واقف ہوں، نماز میں دل لگے اور یکسوئی حاصل ہو۔

 حاصل تحریر یہ ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں  وہ کام کریں جو اﷲاور اس کے رسول                                                                                              صلی اللہ علیہ وسلم  چاہتے ہیں۔ اللہ کا فرمان ہے کہ  ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔تفکر دعوت دیتا ہے کہ عقل ِ سلیم استعمال کریں۔  قرآن کریم میں بیشتر الفاظ ہم رات دن  بار بار بولتے ہیں۔قرآن کریم  کے الفاظ پر غور کیجئے۔ حمد  اللہ    رب  عالمین    رحمٰن   رحیم   مالک   یوم   دین   ہدایت   صراط مستقیم غیر مغضوب   اول آخر ظاہر باطن ارادہ متشابھا قوت ناظرین  ذریت   مقام وسط نقص سفر قریب معلومات امور اذن ۔ ان کے علاوہ عربی کے بہت سے الفاظ ہیں  جو اردو زبان میں تسلسل کے ساتھ بولے جاتے ہیں۔ قرآن کریم کوسمجھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ  اس میں وہ الفاظ تلاش کریں جو شب و روزہماری روزمرہ گفتگو کا حصہ  ہیں۔  دعا ہے کہ آپ کے اندر قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے   کا ذوق پیدا         ہو، آمین ۔

اللہ حافظ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


More in Aaj ki bat