ہرسمت گھٹا چھائی ہے

ہرسمت گھٹا چھائی ہے

Rubayat | February 2024


مے خانہ پہ ہر سمت گھٹا چھائی ہے

ساقی ترے دامن میں بہار آئی ہے

رخ بھی ترا گل رنگ ہے، پیراہن بھی

خود بھی مئے گل رنگ تماشائی ہے

 

’’بے شک جو اللہ کے دوست ہیں، ان کو نہ  خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘  (یونس:        ۶۲)

 زندگی خوشی اورغم کا آمیزہ ہے۔  دونوں احسا س ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح ملے جلے  ہیں کہ آدمی خود کو ان سے الگ نہیں کرسکتا۔ ماں انتہائی درجہ تکلیف سے گزر تی ہے تو اسے مامتا کا شعور حاصل ہوتا ہے ۔ طالب علم کو دس سال کی مشقت کے صلے میں میٹرک کا سرٹیفکیٹ ملتا ہے ۔ موسم کے تغیر میں بھی یہ قانون کارفرما ہے ۔کلیوں کا چٹکنا ، پھولوں کا کھلنا ، خوش بوکی مہک،گھاس پر شبنم کا موتی بن کر چمکنا ،چڑیوں کی                                     چہک ، بلبلوں کا نغمہ سرا ہونا ، کوئل کی کوک یہ بہار کی رونقیں ہیں۔بہار جوانی گزار کر بڑھاپے میں داخل ہوتی ہے تو وہ تمام آثار و احوال اپنا مظاہرہ کرتے ہیں جو بڑھاپے کا وصف ہے ۔ پتےّ گرجاتے ہیں، شاخوں اورتنوں میں جھریاں پڑتی ہیں، پودوں پر پھولوں کی جگہ ڈنٹھل  رہ جاتی ہے۔  ایسا لگتا ہے کہ خوش بو  ہزاروں پردوں میں چھپ گئی ہے ۔

انسانی زندگی بھی بہار اور خزاں کے پیمانوں میں ردّو بدل  ہے ۔ بہار آتی ہے تو ہر سمت برسات کا موسم محسوس ہوتا ہے، آسمان پرگھٹا چھانے سے  دل میں گدگدی ہوتی ہے اور آنکھوں میں خمار آجاتا ہے، انگ انگ میں رعنائی جھلکتی ہے، پیراہن  سے خوش بوئیں پھوٹتی ہیں اور شراب کا پیالہ یعنی زندگی ایسا تماشا بن جاتی ہے جہاں  کیفیات گم ہو جاتی ہیں ۔ یہی مٹی کا کمال ہے ۔ یہی مٹی کبھی مے خانہ  اور  کبھی رخ ِ زیبا بن جاتی ہے ۔ مٹی تماشا بنتی ہے اور یہی مٹی تماشائی بن جاتی ہے ۔

ابدال ِ حق قلندر بابا اولیا ؒ نے رباعی میں متوجہ فرمایا ہے کہ خوشی اور غم  مستقل شے نہیں، یہ آدمی کے اندر کی  کیفیات ہیں جن میں ردّ و بدل ہوتا رہتا ہے ۔ اگر ہم قانون سے واقف ہوجائیں اور توجہ خوشی کی طرف مرکوز کر دیں تو  محسوس ہوگا  کہ ہر سمت گھٹا چھائی ہے اور ہر سمت بہار آئی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


More in Rubayat