Topics
اس آیت میں واضح طور پر حکم دیا جارہا ہے کہ پیغمبر علیہ
الصلوٰۃوالسلام کا ہر قول و عمل باعث اتباع ہے۔قرآن کریم میں حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کے علاوہ بھی بہت سے پیغمبرانؑ کا ذکر ہے ۔ قوموں کے عروج وزوال کے واقعا
ت پڑھ کر یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ جب بھی قوم نے اپنے پیغمبر کی بات سے انحراف
کیا اور اپنی من مانی کی وہ تمام اقوام یا تو قطعی طور پر صفحہ ہستی سے مٹادی گئیں
یا پھر سالہاسال اللہ تعالیٰ کے عتاب کا شکار رہیں۔
قرآن کریم کا یہ قانون تمام پیغمبران سے متعلق ہے کہ جس دور میں جو
پیغمبر آئے وہ عقل و شعور میں اپنی تمام قوم سے افضل تھے۔ہر پیغمبر کا رابطہ خالق
کے ساتھ براہِ راست تھا۔ایسی صورت میں وہ کچھ بھی کہتے اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے
کہتے رہے ۔جس نے ان کی بات مانی وہ دنیا و آخرت میں سرخر وہوئے ۔جس نے نہیں مانی
اس نے اپنی زندگی میں ہی نافرمانی کا نقصان دیکھ لیا ۔اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم
ہونے کی وجہ سے پیغمبر اللہ تعالیٰ کی حضوری میں زندگی گزارتے ہیں ۔ پیغمبران ؑ
علوم کو بندوں تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔چونکہ دنیا والوں تک جو علوم بھی پہنچے ہیں
وہ تمام علوم پیغمبروں کے لائے ہوئے ہیں ۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے:
’’ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لئے آسان ذریعہ
بنادیا ہے،پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا۔‘‘(سورۃ القمر۔آیت17)
اس جگہ سمجھنے سے مراد اس کے اندر بیان کردہ علوم کو اچھی طرح جان کر
ان پر عمل کرنا بھی ہے۔
پہلے آدم جو اس دنیا میں تشریف لائے وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر
تھے۔حضرت آدمؑ کی نسل آج تک چلی آرہی ہے یعنی آدم وحواکاشعورنسل انسانی میں منتقل
ہورہا ہے۔حضرت آدمؑ سے لے کر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام تک آدم کے شعور کے مختلف
ارتقائی مدارج ہیں۔ہر دور میں پیغمبران علیہم السلام اس دور کے لوگوں کی اصلاح
کیلئے تشریف لائے تاکہ انسانی شعور کی صحیح نشوونما ہوتی رہے ۔جس طرح دسویں جماعت
کا طالبعلم گذشتہ نو جماعتوں کے علوم سے واقف ہوتا ہے کیونکہ وہ گذشتہ جماعتوں سے
گزر کر ہی دسویں میں پہنچا ہے ۔یعنی اس کا تعلق گزشتہ نو جماعتوں کے ساتھ ہے۔اسی
طرح ہر دور کے پیغمبر کا شعور گذشتہ ادوار کے لوگوں کی ذہنی سطح سے بھی واقف ہوتا
ہے ۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام آخری پیغمبر ہونے کی حیثیت سے حضرت آدمؑ سے
لے کر آخر تک کے نوع انسانی کے شعور سے واقف تھے ۔یہی وجہ ہے کہ انہیں ہر دور اور
ہر عالم کا اور ہر مخلوق کا پیغمبراور رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کہاگیاہے۔کیونکہ
حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کا شعور بشری شعور کا مکمل عروج
(Growth)ہے ۔اللہ تعالیٰ کے ذہن
میں بشر کا جو تصور تھا۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی ذاتِ اقدس اس تصور کا مکمل
نمونہ ہیں ۔اس طرح حضرت آدمؑ سے لے کر بشری شعور کی مکمل
(Growth)تک جس کی تصویر حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں ۔شعوری ارتقا کے تمام ادوار کا ریکارڈ خود حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے شعور کے اندر ہے۔اگر ہم اس بات کو عام فہم زبان میں کہیں گے
تویو ں کہیں8 گے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت آدمؑ سے لے کر رہتی دنیا تک کے
لوگوں کے Mental analyses سے
واقف ہیں۔اسی لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لائے ہوئے علوم اور پیغام ہر دور
کیلئے ہیں اور ہرقوم کے لئے ہیں۔
اتباع سنت کا پہلا اصول بندگی ہے اور بندگی کی بنیاد قیام الصلوٰۃ پر
ہے ۔قیام الصلوٰۃ اللہ تعالیٰ سے روحانی رابطہ کرنا ہے ۔روح امر ربی ہے۔روح کے
ذریعے یا روحانی حواس کے ذریعے جب اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم ہو جاتا ہے تو شعوری طور
پر بندہ اللہ تعالیٰ کے امر کو پہچان لیتا ہے جس کی ادائیگی کے لئے وہ دنیا میں
بھیجا گیا ہے ۔ قیام الصلوٰۃ کے ذریعے پیغمبروں کی طرز فکر شعور میں منتقل ہوتی ہے
اور روحانی طور پر ان کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے ۔اتباع سنت کا تقاضا یہ ہے کہ سب سے
پہلے پیغمبروں کے ان اصولوں کو اپنایا جائے جن اصولوں پر عمل کرنے کی وجہ سے انہیں
اللہ تعالیٰ نے نبوت سے
سرفراز فرمایا ہے ۔ہر پیغمبر نے پہلے اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم کیا۔اللہ تعالیٰ
کی صفات کو اپنی صلاحیت بناکر انسانیت کا بہترین مظاہرہ کیا ۔یہی وہ بنیادی اصول
ہیں جن پر عمل کر کے پیغمبران علیہم الصلوٰۃوالسلام نے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل
کیا اور بنی نوع انسان کیلئے نمونہ بن گئے اتباع سنت کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کی
زندگی شروع سے آخر تک ایک ایسا ریکارڈ ہے جس کی تقلید کرنے کی ضرورت ہے ۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی قرآن کا عملی نمونہ ہے۔اگر
ہم اس بات کو ہر وقت ذہن میں رکھیں اور قرآن کو سمجھ کر اس کے اصولوں کی پیروی
کریں تو اتباع سنت کابھی حق ادا ہوجائے گا۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق
عطا فرمائیں ۔آمین۔
’’مسلمانو !اپنے درمیان رسول (علیہ الصلوٰۃ
والسلام)کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کا بلانا نہ سمجھو ۔اللہ تعالیٰ ان لوگوں
کو خوب جانتا ہے جو تم میں ایسے ہیں کہ ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے چپکے سے چلے
جاتے ہیں رسول(علیہ الصلوٰۃ والسلام)کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا
چاہئیے کہ وہ فتنے میں گرفتار نہ ہوجائیں۔یا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے۔‘‘ (سورۃ
النور۔آیت63)
’’اے لوگو!جو ایما ن لائے ہو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول(علیہ الصلوٰۃ
والسلام) کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو،اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے
اور جاننے والا ہے۔‘‘
(سورۃ الحجرات ۔آیت1)
’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو،اپنی آوازنبی(علیہ
الصلوٰۃ والسلام) کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبی (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کے
ساتھ اونچی آواز میں بات کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو ،کہیں ایسانہ
ہو کہ تمھارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘(سورۃ الحجرات ۔آیت2)
’’جو لوگ رسول اللہ (علیہ الصلوٰۃ والسلام)
کے حضور بات کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں وہ درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں
کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کیلئے منتخب کر لیا ہے ان کے لئے مغفرت ہے اور اجر عظیم ہے۔‘‘(سورۃ الحجرات۔آیت3)
’’اے نبی !(علیہ الصلوٰۃ والسلام)جو لوگ
تمھیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔اگر وہ تمھارے برآمد
ہونے تک صبر کرتے تو انہی کیلئے بہتر تھااللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا اور رحیم
ہے۔‘‘(سورۃ الحجرات۔آیت4تا5)
’’مومن تو اصل میں وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ
اور اس کے رسول(علیہ الصلوٰۃ والسلام)کو دل سے مانیں اور جب کسی اجتماعی کام کے
موقع پر رسول (علیہ الصلوٰۃ والسلام)کے ساتھ ہوں تو آپ (علیہ الصلوٰۃ والسلام) سے
اجازت لئے بغیر نہ جائیں۔اے نبی(علیہ الصلوٰۃ والسلام)جو لوگ آپ سے اجازت مانگتے
ہیں وہی اللہ تعالیٰ اور رسول(علیہ الصلوٰۃ والسلام) کے ماننے والے ہیں۔ پس جب وہ
اپنے کسی کام سے اجازت مانگیں توجسے تم چاہو اجازت دے دیا کرو اور ایسے لوگوں کے
حق میں اللہ تعالیٰ سے دعائے مغفرت کیا کرو۔اللہ تعالیٰ یقیناًغفورالرّحیم ہے۔‘‘(سورۃ
النور ۔آیت62)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو،نبی کے گھروں
میں بلا اجازت نہیں چلے آیا کرو، نہ کھانے کا وقت تاکتے ر ہو،ہاں اگر تمھیں کھانے
پر بلایا جائے توضرور آؤ،مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہوجاؤباتیں کرنے میں نہ لگے
رہو،تمھاری یہ حرکتیں نبی کو تکلیف دیتی ہیں ،مگروہ لحاظ کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے
لیکن اللہ تعالیٰ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا۔‘‘
(سورۃ الاحزاب۔آیت53)
’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو ،جب تم رسول (علیہ
الصلوٰۃ والسلام)سے تخلیہ میں بات کرو تو بات کرنے سے پہلے کچھ صدقہ دو تمھارے لئے
بہتر اور پاکیزہ تر ہے۔البتہ اگر تم صدقہ دینے کیلئے کچھ نہ پاؤتو اللہ تعالیٰ
غفورالرّحیم ہے۔‘‘ (سورۃ المجادلہ۔آیت12)
’’کیا تم ڈر گئے اس بات سے کہ تخلیہ میں گفتگو کرنے سے پہلے تمھیں
صدقات دینے ہوں گے؟اچھا اگر تم ایسانہ کرو اور اللہ تعالیٰ نے تم کو اس سے معاف کر
دیا تو نماز قائم کرتے رہو،زکوٰۃ دیتے رہواور اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول (علیہ
الصلوٰۃ والسلام) کی اطاعت کرتے رہو۔تم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر
ہے۔‘‘(سورۃ المجادلہ۔آیت13)
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان