Topics

دائرہ اور مثلث

دو آدمی جب ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو ان کی یہ مجبوری ہے کہ کوئی نہ کوئی بات کرتے ہیں۔ کیا بات کرتے ہیں؟ یہ ان کی دلچسپی پر منحصر ہے۔

سینما فلم دیکھنے کے شوقین فلم ہیرو، ہیروئن کی بات کرتے ہیں۔ مذہبی لوگ مذہب کی بات کرتے ہیں۔ سیاسی لوگ سیاست کی بات کرتے ہیں۔ ستارہ شناس ستاروں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ایک باغبان پھولوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ اگر کسی کو پرندے پالنے کا شوق ہے تو وہ پرندوں کی قسمیں بیان کرتا ہے۔ ہماری نظر میں ہر کبوتر، کبوتر ہے لیکن کبوتر باز سے جب بات ہوتی ہے تو وہ کبوتروں کی اعلیٰ اور اسفل نسلوں کے بارے میں بات کرتا ہے۔ ان کے ایسے نام بتا دیتا ہے جو کبھی عام آدمی نے نہیں سنے ہوتے۔ اس بات کو جتنا بھی بیان کیا جائے یہ پھیلتی چلی جاتی ہے۔ تذکرہ دو آدمیوں کے ایک جگہ ہونے کا تھا۔ سو دو آدمیوں نے بات شروع کر دی۔ ایک نے کہا ’’یہ دنیا گول ہے۔‘‘ دوسرے نے پوچھا۔’’کس طرح گول ہے؟‘‘ پہلے نے جواب دیا۔ وہ سامنے دیکھو! درخت کا تنا گول ہے۔ درخت کی ہر شاخ گول ہے۔ پہلا بولا۔ آدمی تو گول نہیں ہے۔ پہلے نے کہا آدمی گول نہیں تو آدمی سرکل ہے۔ جیسے ہی گفتگو میں سرکل Circleزیر بحث آیا۔ ٹرائی اینگل Triangleکا تذکرہ نکل آیا۔ دوسرے آدمی نے پہلے آدمی سے پوچھا اگر ہم سرکل کو بیچ میں سے کاٹ دیں تو کیا رہ جائے گا۔ دوسرے آدمی نے اس بات پر غور کیا اور وہ گویا ہوا۔ سرکل مثلث میں تقسیم ہو جائیگا۔ اس قسم کی گفتگو وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں اپنے اِنر Innerسے دلچسپی ہوتی ہے، Innerکو ہم اس وقت تک نہیں جان سکتے جب تک انر کا متضاد پہلو ’’ظاہر‘‘ موجود نہ ہو۔ بات آگے بڑھی تو دو صورتیں نمایاں ہوئیں۔

۱۔ ظاہر صورت ۲۔ باطنی صورت

ہم ظاہری صورت کا نام مظہر رکھتے ہیں اور باطنی صورت کا نام مستور۔ بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے اور یہ مجبوری ہے کہ سمجھنے کے لئے نام ضروری ہے۔ اس لئے کہ دنیا میں کوئی شئے ایسی نہیں ہے جس کا نام نہ ہو۔ ہماری زندگی اربوں کھربوں ناموں کی محتاج ہے۔ یہ نام ہی دراصل علم ہے۔ یہ نام ہی حواس کی تقسیم ہے۔ یہ نام ہی دراصل ایک دوسرے کو پہچاننے کا ذریعہ ہیں۔ کتا، بکری، بھیڑ، سور ایک ہی طرح کی مخلوق ہے لیکن الگ الگ ناموں نے الگ الگ کر دیا ہے۔ کبوتر، فاختہ، مینا، کوئل ایک ہی طرح کی مخلوق ہیں لیکن نام سب کے لئے الگ الگ پہچان کا ذریعہ ہیں۔ ہزاروں قسم کے رنگ بے رنگ خوشبو اور بغیر خوشبو کے پھول ہیں، ان ہزاروں پھولوں کے ہزروں نام ہیں۔

پانی، پیٹرول، مٹی کا تیل دیکھنے میں تو پانی ہی لگتے ہیں لیکن الگ الگ ناموں نے ان سب کی خاصیتیں الگ کر دی ہیں۔ ہر آدمی، آدمی ہے لیکن چار رنگوں نے آدمی کی نسلوں کو الگ الگ کر دیا ہے۔ یہ بھی ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس پر جتنی سوچ بچار کی جائے نئے نئے فلسفے اور فلسفوں میں نئی نئی شاخیں، نئی نئی معلومات سامنے آتی رہتی ہے۔ آدمی ایک نام ہے لیکن آدمی بہت سارے ناموں سے مرکب ہے مثلاً دماغ، دل، پھیپھڑے، پتہ، لبلبہ، گردے ، مثانہ وغیرہ وغیرہ۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ آدمی ہے تو دراصل ہم آدمی کے ان کل پرزوں کا تذکرہ کرتے ہیں جن سے آدمی بنا ہے اور جن کل پرزوں اور اعضاء پر حرکت کر رہا ہے بات کرنا بھی عجیب ہے، بات سے بات نکلتی رہتی ہے اور اتنی باتیں ہو جاتی ہیں کہ آدمی ٹٹولتا رہ جاتا ہے لیکن اس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ صدائے جرس کا مطلب ہے گھنٹی کی آواز۔ جب ہم آواز کے بارے میں سوچتے ہیں تو آوازوں کا ایک طوفان نظروں کے سامنے آ جاتا ہے۔ گھنٹی کی آواز، گھنٹے کی آواز، طبلے کی آواز، ساز کی آواز، گھنگروں کی آواز، پانی کے جھرنوں کی آواز، آبشار کی آواز، مینا کی آواز، کوے کی آواز، کوئل کی کوک۔

آوازوں کے خالق اللہ نے قرآن پاک میں فرمایا:

’’اور آواز تو گدھے کی بھی ہے۔‘‘

آواز کا جادو بھی عجیب جادو ہے۔ اچھا لحن، سریلی آواز آدمی کو مسحور کر دیتی ہے۔ کرخت آواز آدمی کے اوپر بار بنتی ہے۔ شیریں آواز پر آدمی فریفتہ ہو جاتا ہے اور ایک آواز وہ آواز بھی ہے جو صورت سرمدی میں وہ آدمی جو انسانیت کی معراج حاصل کر لیتا ہے اللہ کی آواز سنتا ہے۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ذکر دو آدمیوں کا تھا۔ پہلے کا نام مظہر اور دوسرے کا نام مستور رکھتے ہیں۔ اس لئے کہ نام رکھے بغیر بات آگے نہیں بڑھتی۔ مسٹر مظہر کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہر چیز گول جبکہ مستور کہتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز مثلث ہے۔ میں نے آنکھیں بند کر کے ذہنی یکسوئی کے ساتھ اندر دیکھا تو مجھے یہ نظر آیا کہ آدمی اگر اندر دیکھے سرکل ہے اور یہی آدمی اگر باہر دیکھے تو مثلث ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جو چیز مادی آنکھ سے نظر آتی ہے وہ مثلث ہے اور جو شئے مادی آنکھ کے برعکس اندر کی آنکھ سے نظر آتی ہے وہ سرکل ہے۔

آیئے تجربہ کریں!ایک فل اسکیپ سفید بغیر لائنوں کا کاغذ لیں۔ پینسل اور پرکار سے ایک بڑا دائرہ Circleبنائیں۔ اس سرکل کو اسکیل سے بیچوں بیچ کاٹ دیں۔ یہ سرکل مثلث بن جائے۔ اس کاغذ کو کسی گتے پر اس طرح چپکائیں کہ کاغذ میں سلوٹیں نہ ہوں اور اس کو چار فٹ فاصلے پر دیوار پر لٹکا دیں اور اس کو غور سے دیکھیں۔ اور ہمیں بتائیں کہ بات مسٹر مظہر کی صحیح ہے یا مسٹر مستور جو کہتے ہیں وہ صحیح ہے۔

دیکھئے پردۂ غیب سے کیا ظہور آتا ہے۔   


Sada E Jars

خواجہ شمس الدین عظیمی

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔

 

اُس

گونج

کے نام جو

صدائے جرس

کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے