Topics

فرمایا کیا جانور کبھی بیمار ہوتے ہیں


                ’’یہ بیماریاں وغیرہ انسانوں میں پائی جاتی ہیں۔ آپ جانوروں کو دیکھیں یہ بیمار نہیں ہوتے۔ آپ نے کبھی کسی بکری کو بلڈ پریشر کی شکایت کرتے سنا ہے؟ کبھی کسی جانور کو بواسیر ہوتے دیکھی ہو تو بتائیں! ان کا طرز زندگی ایسا ہوتا ہے کہ وہ بیمار نہیں ہوتے۔‘‘

                ان کی باتوں کو بے یقینی شکوک اور وسوسوں کی گود میں پل کر جواں ہونے والے مجھ ایسے کٹ حجتی کے لئے ہضم کرنا کبھی کبھی مشکل ہو جاتا ہے۔ میرے ذہن میں بکریوں کو زکام لگنے، مرغیوں کو رانی کھیت اور دست لگنے کا خیال روکنے پر بھی نہ رک سکا۔ میرا ذہن میرے مرشد کے لئے ایک کھلی کتاب ہی ہو گا جبھی تو انہوں نے اگلا ہی جملہ یہ ارشاد فرمایا کہ جانور اگر بیمار ہوتے ہیں تو وہی جانور جو انسانوں کے قریب رہتے ہیں، ان کے ساتھ رہتے بستے ہیں۔ اس پر شہابی صاحب نے بتانا شروع کیا کہ جانوروں کو وہی دوائیاں دی جاتی ہیں جو انسانوں کی بیماریوں سے علاج میں استعمال ہوتی ہیں۔ اس کے بعد پودوں کو لگنے والی بیماریوں کا تذکرہ شروع ہو گیا۔ آپ نے بتایا کہ رنگ و روشنی سے نہ صرف انسانوں اور جانوروں کا علاج کیا جا سکتا ہے بلکہ اس طریقہ علاج سے پودوں کو بھی صحت مند بنایا جا سکتا ہے۔ البتہ اس کے لئے نباتات کا علم پڑھنا ضروری ہے۔ پھر یہ بھی بتایا کہ پودوں کا تعویذ سے علاج زیادہ کامیاب رہتا ہے۔ تعویذ سے جہاں انسان ٹھیک ہو جاتا ہے وہاں پودے کیوں ٹھیک نہیں ہونگے۔ انسان بھی تو پودوں ہی کی طرح اگتا، بڑھتا، پھلتا اور پھولتا ہے۔‘‘ پھر اپنی مخصوص مسکراہٹ کی چھتری پھیلاتے ہوئے فرمایا۔

                ’’ہم آدم کے پھول پھول ہی تو ہیں۔‘‘……

                اور میرا ذہن آدم کے پھل پھول کی ترکیب کی ندرت میں محو ہوتا چلا گیا۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔