Topics

یہ بات مگر بھول گیا ہے ساغر

 یہ بات مگر بھول گیا ہے ساغر

انسان کی مٹی سے بنا ہے ساغر

 سو بار بنا ہے بن کے ٹوٹا ہے عظیم

 کتنی ہی شکستوں کی صدا ہے ساغر

مزید تشریح!          اس رباعی میں لفظ "مگر"  شاید کا ہم معنی ہے،  مصرع اول کی    نثر  یوں ہے:  "شاید ساغر یہ بات بھول گیا" یہاں شاید کا مفہوم ایک لطیف پیرائے میں تجاہل عارفانہ اور شان بے نیازی کا آئینہ دار ہے، حضور قلندر بابا نے ساغر کے استعارہ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب کسی شے کو کسی دوسری شے کی بنیاد پر فروغ اور عروج  حاصل ہوتا ہے تو وہ اپنی بنیادی حقیقت سے بے اعتنائی برتنے لگتی ہے، اور اپنی موجودہ پوزیشن کو اپنی ہی کوششوں اور صلاحیت کا ثمرہ قرار دیتی ہے تا کی اصل حقیقت پر پردہ پڑا رہے اور اس کا بھرم قائم رہے۔ساغر یوں تو اپنی اصل میں مٹی کا تودہ ہے مگر جب اس مٹی میں انسان کا خمیر شامل ہوگیا تو اس کی فطرت میں نکھار آگیا اور اس میں بند شراب لذت و مستی میں دو چند ہوگئی مگر کیف و سرخوشی کے عالم کو جو اۃ ل میخانہ پر طاری ہے۔ساغر نے اسے اپنا ہی کمال اور اعجاز سمجھ لیا اور انسان کی عظمت کو فراموش کردیا جس کی مٹی کی شکست و ریخت کے طفیل وہ عالم وجود میں آیا ۔ اس ساغر کو وجود میں لانے کے لئے انسان نے اپنا وجوحوادث و آلام کے حوالے کردیا۔

انسان کی تخلیق کا مرکزاور نقطہ کمال اس کا دل ہے.  جو مر جع اضطراب و آلام بھی ہے اور اس کی خوشیوں اور شادمانیوں کا سرچشمہ بھی یہی دل ہے جو ٹوٹتا اور بنتا رہتا ہے۔اور اسی  شکست وریخت سے اس کا جوہر نکھر جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں عالم رنگ وبو کی عکس ریزی اس کی قیمت کو بڑھا دیتی ہے اور یہی وہ آئینہ ہے جس کی ٹوٹ پھوٹ کمال آئینہ سازی کو للکارتی ہے کہ وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرکے اس  کی بقاء کا سامان کرے کرے علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو یوں پیش کیا ہے

نہ بچا بچا کے تو رکھ اسے تیرا آئینہ وہ ہے آئینہ                            جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں

یہی آئینہ گر کر ساغر بنتا ہے غالب نے تو اسے اپنے مکمل وجود ہی کو شکست  کی صدا ا قرار دے دیا ہے

نہ گل نغمہ ہوں نہ پردہ ساز                                  میں ہوں اپنی شکست کی آواز

اب آپ اس خوبصورت اور بظاہر سادہ رباعی کو جس انداز میں چاہیں مطالعہ کرسکتے ہیں اس میں فلسفہ اخلاق کے ضمن میں تشکر وہ احسان مندی اور اپنی اصل پر غور و فکر کا پہلو بھی ملے گا اور رندی و  خراباتی کی فضا میں سرخوخوشی اور مستی کی کیفیت بھی حاصل ہوگی۔


_______________

۲۰۰۴روحانی ڈائجسٹ : اپریل 

Topics


Sharah Rubaiyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

ختمی مرتبت ، سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر ، حامل لدنی ، پیشوائے سلسۂ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کی  ذات بابرکات نوع انسانی کے لیے علم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے جب ہم تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں آپ تخلیقی فارمولوں اور اسرار و رموز کے علم سے منور کیا ہے وہاں علوم و ادب اور شعرو سخن سے بہرور کیا ہے۔ اسی طرح حضوور بابا جی ؒ کے رخ جمال (ظاہر و باطن) کے دونوں پہلو روشن اور منور ہیں۔

لوح و قلم اور رباعیات جیسی فصیح و بلیغ تحریریں اس بات کا زندہ  و جاوید ثبوت ہیں کہ حضور بابا قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات گرامی  سے شراب عرفانی ایک ایسا چشمہ پھوٹ نکلا ہے جس سے رہروان سلوک تشنۂ توحیدی میں مست و بے خود ہونے کے لیے ہمیشہ سرشار  ہوتے رہیں گے۔