Topics

بی بی اُم احسانؒ

بی بی ام احسانؒ کوفہ کی رہنے والی تھیں۔ خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ لیکن بہت سادہ زندگی گزارتی تھیں۔ اما م سفیان ثوریؒ کہتے ہیں:

’’ان کے صاحب زادے بہت آسودہ حال تھے۔ مگر آپؒ نے کبھی کسی سے کچھ نہ مانگا۔ ساری زندگی ایک حجرے میں گزار دی۔‘‘
آپؒ فرمایا کرتی تھیں۔

جس شخص نے وسعت اور قدرت کے باوجود محض انکساری اور عاجزی کی غرض سے لباس میں سادگی اختیار کی تو اللہ اسے شرافت اور بزرگی کے لباس سے آراستہ فرمائے گا۔ اللہ کے بہت سے بندے ایسے بھی ہیں جن کی ظاہری حالت نہایت معمولی ہوتی ہے، مالی طور پر پریشان اور ان کے کپڑے معمولی اور سادہ ہوتے ہیں لیکن اللہ کی نظر میں ان کا مرتبہ اتنا بلند ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی بات پر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم کو پورا کر دیتا ہے۔

جو شخص کسی مسلمان کو کپڑے پہنا کر اس کی تن پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے روز جنت کا لباس پہنائے گا۔

ملازم اور نوکر تمہارے بھائی ہیں۔ تمہیں چاہئے کہ انہیں وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو۔ ان کو ویسا ہی لباس پہناؤ جو تم پہنتے ہو۔ ان کے اوپر کام کا بوجھ اتنا نہ ڈالو جو ان کی برداشت سے باہر ہو۔ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی غرور ہو گا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔

غرور یہ ہے کہ آدمی حق سے بے نیازی برتے اور لوگوں کو اپنے سے کمتر اور حقیر جانے۔

ایک مرتبہ امام سفیان ثوریؒ نے ان سے کہا کہ اگر آپ کے رشتہ داروں کو آپ کے حالات کی اطلاع دی جائے تو وہ آپ کے لئے آسائش کا سامان مہیا کر دیں گے۔

یہ سن کر ام احسانؒ نے فرمایا:

’’اللہ دنیا کی ہر شئے کا خالق و مالک ہے۔ میں ان لوگوں سے کیوں سوال کروں جو خود محتاج ہیں۔ خدا کی قسم! مجھے خبر ہے کہ میری ایک خواہش پر اللہ رب العالمین میرے لئے سونے کے ڈھیر جمع کر دے گا۔‘‘

آپؒ خود شناسی کی منزل سے گزر کر خدا شناسی کی طرف گامزن تھیں۔ اپنی روحانی کیفیات میں سے ’’جنت کی سیر‘‘ کے بارے میں فرماتی ہیں:

"جنت نور کے غلاف میں بند ہے۔ یہاں کے پہاڑ، چشمے، زمین ہر شئے میں ایسی کشش ہے کہ دیکھنے کے ساتھ ہی یہ خود بخود کھنچ کر قریب آ جاتی ہیں۔ جیسے دوربین سے دیکھنے پر کوئی چیز بالکل آنکھوں کے سامنے دکھائی دیتی ہے۔‘‘

حکمت ودانائی

* سادگی ایمان کا جز ہے۔

* خودداری ایک نعمت ہے۔

* اللہ بندے کی روزانہ ایک لاکھ خواہشات بھی پوری کر سکتا ہے۔

* اللہ تعالیٰ کائنات کی ہر شئے کا خالق و مالک ہے۔ جسے چاہے بادشاہ بنا دے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے۔

* استغنا شانِ فقیری ہے۔

Topics


Ek So Ek Aulia Allah Khawateen

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔