Topics

حدِ نگاہ تک ریت کا سمندر

               

                حدِ نگاہ تک ریت کا سمندر ٹھا ٹھیں مار رہا تھا۔ بادِ موسم کے تیز و تند جھکڑ چل رہے تھے اور سورج کی تمازت سے ریت کے ذرات یوں چمک رہے تھے جیسے زمین پر کہکشانی نظام اُتر آیا ہو۔

                عامر کو اپنے تن بدن کا ہوش نہیں تھا۔ ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ بال بکھرے ہوئے آنکھیں متورم اور ان کے کونوں پر پیلے رنگ کی کیچ جم کر کھرنڈ بن چکی تھی اور اس کا رنگ بھی سیاہی مائل بُھورا ہو چکا تھا۔ پیاس کی وجہ سے حلق میں کانٹے پڑ رہے تھے۔۔۔ اور بھوک کا تو احساس بھی مِٹ چکا تھا۔ لباس کے نام پر چند چتیھڑے بدن پر جھول رہے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ دھجیاں بھی داغ مفارقت دینے کے لئے پر تول رہی ہیں۔

                عامر تمام احساسات اور جذبات سے عاری ریت کے صحرا میں آگے اور آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔۔ اس کی آنکھوں  کے آگے نیلے پیلے دائرے گھوم رہے تھے ۔ یہ دائرے کبھی گردش کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں گھس جانا چاہتے یا پھر دوسرے لمحے یہی گردش کرتے ہوئے دائرے اپنی شکل وصورت بدل کر حسرت و یاس کے پیغا مبروں کی طرح اس کی نگاہوں سے دور ہوتے چلے جاتے اور اس کی نظریں غیر ارادی طور پر ان کا تعاقب کرتی ہوئی وہاں تک جا کر لوٹ  آتیں جہاں زمین اور آسمان کے کنارے ملتے ہیں۔

                اور پھر اس کی آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہوئی اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیوں کو ہتھیلیوں کی طرف موڑ کر انگو ٹھوں سے دبایا اور آنکھیں ملنی شروع کر دیں۔

                ”یا اللہ تیرا شکر ہے۔“ عامر نے کہا اور سامنے کی طرف دیکھنے لگا۔

                صحرا  کے بیچوں بیچ ایک دریا ٹھا ٹھیں مار رہا تھا اور اس کے کنارے کنارے سر سبز درخت لہلہارہے تھے ہریالی ہی ہریالی ۔۔۔ اور۔۔۔ پانی تھا زندگی بخش پانی جو اس وقت اس کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔

                عامر دیوانوں کی طرح آگے بڑھا۔۔۔ لیکن چند ہی قدم چل کر گر گیا۔۔ ایک تو آگے ہی تن بدن میں جان نہیں تھی۔ دوسرے ریت میں میں چلنا کوئی آسان کام  نہیں۔ پاؤں ٹخنوں تک ریت میں دھنس رہے تھے۔ وہ منہ کے بل گرا تھا۔۔۔۔ ناک منہ اور آنکھوں میں ریت گھس گئی۔۔۔۔ اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوا۔۔۔۔ اٹھنے کی کوشش کی  لیکن کامیاب نہ  ہوا۔۔۔۔ اٹھنے  کی کوشش کی تو طاقت جواب دے چکی تھی۔۔۔ ریت حلق میں بھی چلی گئی تھی۔ اس کا دم گھٹنے لگا ۔ حواس تاریکی میں ڈوب رہے تھے تاہم اس نے اسی حالت میں ریت پر اپنے آپ کو گھسیٹنا شروع ۔۔۔۔ لیکن تابکے ! چند ہی لمحوں کے بعد وہ نڈھال ہو گیا اور زور زور سے سانس لینے لگا۔ سانس لینے میں بھی دشواری پیش آرہی تھی۔۔۔ تھوڑی دیر تک اس پر یہ کیفیت طاری رہی اور اس نے کچھ دیر سستانے کے بعد جیسے ہی سر اُٹھانا چاہا اس کے دل میں درد کی ایک تیز لہر اٹھی۔ اس نے ضبط کر کے بمشکل تمام آنکھیں کھولیں اور حسرت و یاس کے ساتھ دریا کی طرف دیکھا۔

                اب وہاں درخت تھے نہ دریا تھا چہار سُو ریت ہی ریت تھی۔ جہاں تھوڑی دیر قبل پانی ٹھاٹھیں مار رہا تھا اب وہاں بگولے تھے جو آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔

                عامر نے آہستہ آہستہ گردن گھمائی۔ چاروں طرف دیکھا۔ پھر آسمان کی طرف اٹھی۔ ایک ہچکی لی اور ریت پر ڈھیر ہوگیا۔

                عامر کا بے جان جسم گرم ریت پر بے سدھ پڑا تھا اور دور خلا میں چند گدھ منڈلا رہے تھے۔۔۔ پھر عامر کے جسم میں سے ایک ہیولا نکلا اور تھوڑی دور جا کر بالکل عامر کی شکل وصورت اختیا کر گیا آسمان پر اُڑتے ہوئے گدھ آہستہ آہستہ نیچے اتر رہے تھے۔۔۔ وہ ہیولا کبھی ان مردار خور جانوروں کو دیکھتا اور کبھی عامر کے مردہ جسم کو۔

                ”اچھا دوست ! چلتے ہیں۔“ ہیولے نے بلند آواز میں کہا۔۔۔” میرا اور تمہارا بس اتنا ہی ساتھ تھا۔ میں نہ تو تمہاری  طرح کمزور ہوں اور نہ ہی مجبور اور لاچار۔۔۔“

                گدھ اب لاش کے قریب ریت پر اُتر آئے تھے اور ہیولا اہستہ آہستہ آسمان کی طرف اُٹھ رہا تھا۔ پھر  وہ ریت کے ایک بگولے میں گم ہو کر تیزی سے ایک سمت روانہ ہو گیا۔

                ناصر گم صُم آہستہ خرامی سے گھر کی طرف جا رہا تھا۔ اس کی جیب میں ہفتہ بھر کی کمائی ہوئی رقم تھی۔ اور وہ گرد و پیش سے بے خبر اس فکر میں ڈوبا ہوا تھا کہ ان پیسوں سے وہ کون کون سی ضرورتیں پوری کر سکتا ہے۔۔۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بیمار ماں کا چہرہ گھوم گیا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا۔

                ”ناصر! اپنی ماں کو کسی سینی ٹوریم میں ڈاخل کرا دو ورنہ مرض لا علاج ہو جائے گا۔“

                بے خیالی میں اس کا ہاتھ جیب میں پڑے ہوئے ڈاکٹر کے دیئے ہوئے دوا کے پرچے پر چلا گیا۔ میڈیکل اسٹور والے نے ان دوائیوں کی قیمت اس دو ہفتوں کی مزدوری سے بھی زیادہ بتائی تھی اس کے دل میں ایک ہوک اُٹھی اور وہ تڑپ کر رہ گیا۔

                سامنے پھل والے کا ٹھیلا کھڑا تھا۔ ناصر نے سوچا ماں کے لئے کچھ پھل ہی لے چلوں۔ ابھی اس نے ٹھیلے کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے کہ سامنے سے جنگو آتا ہوا دکھائی دیا۔ ناصر کو سانس رُکتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے دل ہی دل میں کہا۔

                ” یا الٰہی خیر!“

                ٹھیلے والے نے پوچھا” ناصر بھیا! کیا چاہیئے؟“

                محلے والے ناصر کی سادہ دلی اور منکسر المزاجی کی وجہ سے اس کا بہت احترام کرتے تھے نہ کسی کے لینے میں نہ کسی کے دینے میں۔۔۔ بس ایک  جنگو دادا ایسا شخص تھا جس کو ناصر سے اتنا بغض تھا۔ آتے جاتے تنگ کرتا ۔ گالیاں بکنا تو خیر اس کی عادت تھی ہی دھول دھپے سے بھی نہیں چوکتا تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ دوسرے لوگوں کی طرح ناصرجنگو دادا کا بھتہ ادا نہیں ادا کر سکتا تھا جنگو کا موقف  یہ تھا کہ ناصر جان بوجھ کر اس کا بھتہ ادا نہیں کرتا۔ مار کھا لیتا ہے لیکن جیب ڈھیلی نہیں کرتا۔

                جنگو اکثر و بیشتر ہفتہ کے روز اس تاک میں رہتا کہ ادھر ناصر مزدوری لے کر آئے اور ادھر وہ ہتھیالے۔ آج ناصر کو اپنے خیالات میں جنگو کا دھیان ہی نہ رہا۔۔۔۔ اور جنگو اس کے سر پر موجود تھا۔

                ” ناصر! لاؤ میرا بھتہ!۔“ جنگو نے کڑک دار آواز میں کہا اور اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔

                پھل والے نے اپنا ٹھیلہ ، گھبرا کر آگے بڑھا۔ ناصر نے دیکھا کہ جنگو کے دو ساتھی اس کے پیچھے کھڑے ہیں اور آنے جانے والے ان سے کترا کر نکل  جانے کی کوشش  کر رہے ہیں۔

                ”جنگو دادا!“ ناصر نے گھگیا کر کہا۔۔۔” میں بہت مجبور ہوں۔ ماں بیمار ہے، اس کی دوا کے لئے بھی پیسے پورے نہیں ہیں۔“

                ” اور یہ جو عیاشی ہو رہی تھی اس کے لئے پیسے ہیں۔“ جنگو نے آگے بڑھ کر اس کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیا۔ اور جنگو کے ساتھیوں نے ایک بھر پور قہقہ لگایا۔

                ” دادا ! یہ تو میں اپنی ماں کے لئے پھل لے رہا تھا ۔ ڈاکٹر نے بتایا ہے۔“ ناصر نے تقریباً روہانسا ہو کر جنگو کو قائل کرنا چاہا۔

                ناصر ابھی کچھ اور کہنا چاہتا تھا کہ جنگو نے اس کے منہ پر زناٹے دار تھپر رسید کر دیا۔

                ناصر کے  کان سائیں سائیں کرنے لگے اور اسے ہر چیز گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اور وہ کٹے ہوئے درخت کی طرح زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ اسی وقت جنگو نے اس کی جیب میں ہاتھ ڈال کر ہفتہ بھر کی کمائی نکال لی اور نوٹوں کی نمائش کرتے ہوئے انتہائی ڈھٹائی سے ایک قہقہ لگایا۔

                ” آج اگلا پچھلا حساب صاف ہو جائے گا۔ ہونہہ یہ کہتا ہے پیسے نہیں ہیں۔“

                ٹھیک اسی وقت دوبارہ ناصر کےدماغ  میں ایک جھٹکا لگا اور چشم زدن میں اُچھل کر کھڑا ہو گیا جیسے اس کے بدن میں اسپرنگ لگ گئے ہوں۔ جنگو نے بے یقینی کی کیفیت میں ناصر کی طرف دیکھا اور بھونچکا رہ گیا۔ یہ وہ ناصر نہیں تھا۔ جو بزدل۔۔ خوفزدہ اور کمزور تھا۔ اس وقت اس کی انکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں اس کی مٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں اور خوف و ہراس نام کی کوئی چیز اس کے چہرے پر نہیں تھی۔

                جنگو کو جیسے سکتہ ہو گیا۔۔۔۔ وہ اس علاقے کا دادا تھا۔ اس نے اچھے اچھوں کے کس بل نکال دیئے تھے یہ ناصر تو خیر چیز ہی کیا تھا۔ ناصر نے دبنگ آواز میں کہا۔

                ” جنگو! میری رقم واپس کر دے۔۔۔!“

                ”اچھا۔۔۔۔۔“ جنگو نے اسے عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کے اندر کا بدمعاش کروٹ لے کر بیدار ہو چکا تھا۔ ”اگر واپس نہ کروں تو؟ “

                ” تو اپنے پیروں پر چل کر یہاں سے نہ جا سکے گا۔“ ناصر نے ٹھہری ہوئی آواز میں کہا۔

                جنگو کے لئے اب برداشت کرنا ممکن نہیں تھا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھ کر ناصر پر حملہ آور ہوا۔۔ لیکن پھر دیکھنے والوں نے دیکھا جیسے ایک بجلی چمکی اور جنگو نیچے پڑا ہاتھ پاؤں مار رہا تھا اور اس کے منہ سے چیخیں نکل رہی تھیں جنگو کے دونوں ساتھی بھوکے کتوں کی طرح ناصر پر پِل پڑے اور ان کا انجام بھی جنگو سے مختلف نہیں ہوا۔ وہ دونوں بھی جنگو کے پاس ہی زمین چاٹ رہے تھے۔ ان میں تو چیخنے کی ہمت بھی نہیں تھی۔ دونوں کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔

                اتنی دیر میں ارد گرد  کافی لوگ جمع ہو گئے اور آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ سب کی ہمدردیاں ناصر کے ساتھ تھیں کیونکہ پورا علاقہ جنگو کے مظالم سے تنگ آیا ہوا تھا۔

                کسی نے ناصر سے کہا۔” ناصر بھاگ جاؤ ۔ جنگو کے دوسرے ساتھیوں کو پتہ چل گیا تو تمہاری خیر نہیں۔“

                ” بلاؤ اس کے ساتھیوں کو۔ آج میں فیصلہ کئے بغیر نہیں جاؤں گا۔“ ناصر نے غراتے ہوئے کہا۔

                جنگو کی چیخیں رُکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ غالباً اس کا اپنا  ہاتھ کلائی کے پاس سے ٹوٹ گیا تھا۔

                لوگ حیران تھے کہ ناصر کی کایا پلٹ کیسے ہو گئی۔ یہ تو ایک مکھی کو بھی نہیں مار سکتا تھا۔ چہ جائیکہ جنگو جیسے غنڈے کے منہ لگنا۔ ہجوم بڑھنے لگا اور آناً فاناً یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پورے علاقے میں پھیل گئی کہ ناصر نے جنگو کو زخمی کر دیا ہے۔

                ناصر وہاں سے جانے کے لئے بڑھا ہی تھا کہ سیٹیوں کی آواز سے مجمع کائی کی طرح چھٹ گیا۔ وہاں صرف ناصر موجود رہا۔

                اے ایس آئی جنگو پر جھک گیا۔ جنگو کی چیخیں اب کراہوں میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ چاروں کانسٹیبل ناصر کے گرد گھیرا ڈالے کھڑے تھے۔ اے ایس آئی نے جنگو کے ٹوٹے ہوئے ہاتھ کو پکڑا تو اس کی چیخ نکل گئی۔ اے ایس آئی نے ناصر کی طرف دیکھ کر کہا۔

                ”تو یہ تمہاری حرکت ہے؟“

                ”جی ہاں۔“ ناصر نے سرد لہجے میں جواب دیا۔

                ” اس کا انجام جانتے ہو؟“ اے ایس آئی نے چبھتی ہوئی آواز میں پوچھا۔

                ”اچھی طرح جانتا ہوں۔۔۔۔ اور تم بھی جان لو تھانیدار اگر کسی نے ان بدمعاشوں کی حمایت کرنے کی کوشش کی تو اس کا انجام بھی ان سے مختلف نہ ہوگا۔“ ناصر نے اے ایس آئی کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔

                چاروں کانسٹیبل چوکنا ہو کر ناصر کے اور قریب  کھسک آئے، انھوں نے اپنی اپنی بیلٹ سے ڈنڈے بھی نکال لئے اور اب وہ اپنے انچارج کے اشارے کے منتظر تھے۔

                ” تمہیں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت کس نے دی؟“ یہ کہتے ہی اے ایس آئی نے اپنے ریوالور کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

                ناصر نے چیتے کی طرح جست لگائی اور اُڑتا ہوا اے ایس آئی پر جا پڑا۔ دوسرے لمحے اس کا ریوالور ناصر کے ہاتھ میں تھا۔

                چاروں کانسٹبل اس افتاد کے لئے تیار نہیں تھے۔ وہ تو صرف پلکیں جھپکا کے رہ گئے اور اب سچویشن پوری طرح ناصر کے قبضہ میں تھی۔

                اے ایس آئی جو نیچے گر گیا تھا۔ زمین پر ہاتھ ٹیک کر اُٹھتا ہوا بولا۔ ”تمہیں یہ جرات بہت مہنگی پڑے گی ناصر! قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں۔“

                ”ابھی تم نے میرے ہاتھ نہیں دیکھے تھانیدار۔۔۔“ اور پھر ناصر نے اے ایس آئی کے ریوالور کو اپنی مٹھی میں یوں دبایا جیسے وہ موم کا بنا ہوا ہو۔۔ ریوالور کی جگہ اب ناصر کے ہاتھ میں پچکا ہوا لوہا تھا اور وہ لوہا ناصر نے اے ایس آئی کے قدموں میں ڈال دیا۔

                اے ایس آئی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ریوالور کا حشر دیکھ رہا تھا اور کانسٹیبل غیر ارادی طور پر قدم قدم پیچھے ہٹ رہے تھے۔

                ” یہ چاروں سمجھدار ہیں تھانیدار! تم بھی عقلمندی کا ثبوت دو اور ان بد معاشوں کو ہسپتال لے جاؤ۔ ہو سکتا ہے کچھ دن بعد یہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو نے کے  قابل ہو جائیں۔ ۔۔۔ لیکن اطمینان رکھو اب ان کے ہاتھ کسی پر ظلم کرنے کے لئے ٹھیک نہیں ہوں گے۔۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔“

                اے ایس آئی اس قدر حواس باختہ ہو چکا تھا کہ اپنے ماتحتوں کو حکم دینے کی بجائے خود ہی جنگو اور اس کے ساتھیوں کو اٹھانے کے لئے بڑھ گیا۔ ماتحت کانسٹیبل پریشان تھے کہ کیا کریں۔ وہ ناصر کے قریب آتے ہوئے ڈر رہے تھے کہ ناصر گرجا۔

                ” آگے بڑھو!۔۔۔اُٹھاؤ انھیں۔“

                اور وہ چاروں ، ان زخمیوں کی طرف دوڑ پڑے ابھی وہ غنڈوں کو ہاتھ بھی نہ لگ پائے تھے کہ ناصر کی سرسراتی ہوئی آواز پھر سنائی دی۔

                ”ٹھہرو۔۔۔۔۔! “

                ناصر نے جنگو کے قریب جا کر انتہائی اطمینان سے اس کی جیب سے اپنی رقم کے ساتھ اس کا بٹوا بھی نکال لیا جس  میں نہ جانے کتنی رقم تھی اور رقم بھی ناصر جیسے لو گوں سے چھینی ہوئی ہی تھی۔

                اے ایس آئی اور کانسٹیبل خاموش کھڑے دیکھتے رہے اور ناصر ایک جانب بڑھ گیا۔ انھوں نےتینوں بد معاشوں کو جیپ میں بدقت  تمام بٹھایا اور جیپ ہسپتال کی فراٹے بھرنے لگی۔ یہ لوگ مڑ مڑ پیچھے دیکھتے جا رہے  تھے کہ ناصر ان کے تعاقب میں تونہیں آرہا۔


Hayola

Sadiqul israr

روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ قسط وار مضمون ھیولا۔۔جن ، انسان اور روح کے درمیان کش مکش پر میں ایک خوب صورت کہانی  کی دستاویز پیش خدمت ہے۔