Topics

فینسی ڈریس شو

                یہ کہہ کر ایس پی کار سے اترا اور تیزی سے چلتا ہوا شکیلہ رفیق کے قریب پہنچا۔” معاف کیجیئے گا میڈم! مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔“

                ” پوچھو ! کیا پوچھنا ہے۔“ شکیلہ نے تیز لہجے میں جواب دیا اور بے اعتنائی سے دوسری طرف دیکھنے لگی۔ ایس پی نے اس کے لہجے کی سختی خاص طور پر محسوس کی۔ ایس پی نے شکیلہ کے لہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔

                ” میں آپ سے ناصر صاحب کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں۔ فینسی ڈریس شو میں شرکت کے لئے وہ آپ کے ساتھ ائے تھے لیکن ہنگامے کے بعد وہ نظر نہیں آرہے ہیں۔“

                یک لخت شکیلہ رفیق کے چہرے کے تاثرات مکمل طور سے بدل گئے۔ غصے میں آنکھوں سے چنگاریاں سی نکلنے لگیں۔” ایس پی ! اس معاملے میں ٹانگ اَڑانا چھوڑ دو ورنہ تمہارا حشر بہت بُرا ہوگا۔“

                شکیلہ پر سوار ہیولا اپنی تمام تر سلاحیتوں کے باوجود ناصر کا پتہ چلانے میں ناکام ہو چکا تھا۔ اس کے ساتھی عامر کے ہیولے کو اپنے معمول کی ضرورت تھی لیکن ناصر اس کے دائرہ نظر میں بھی نہیں آرہا تھا۔ دونوں کو اپنے شیطانی عزائم بروئے کار لانے کے لئے معمول کی ضرورت تھی لیکن عامر کا ہیولا اپنے جسم سے محروم ہو چکا تھا۔ اس معاملے نے دونوں کو سخت غصے میں مبتلا کر دیا تھا۔

                ایس پی فرہاد کو شکیلہ سے اس رویے کی قطعی توقع نہیں تھی۔ اس نے غصہ کو پیتے ہوئے کہا۔

                ” لیکن میڈم!۔۔۔۔“ ابھی وہ کچھ کہنے والا تھا کہ شکیلہ نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔” خاموش رہو!“

                اس کے ساتھ ہی اس نے ایس پی کو ہلکا سا دھکا دیا۔ ایس پی گیند کی طرح اچھلا اور گھاس پر جا گرا۔ شکیلہ آگے بڑھ کر اپنی کار میں جا بیٹھی اور کار فراٹے بھرتی ہوئی روانہ ہو گئی۔

                انسپکٹر نے ایس پی کا حشر دیکھا تو دوڑتا ہوا وہاں پہنچا۔ وہاں موجود کچھ لوگ بھی ان کے پاس پہنچ چکے تھے۔ گھاس پر گرنے کی وجہ سے ایس پی کو کوئی چوٹ نہیں آئی تھی۔  وہ کپڑے جھاڑتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا۔ وہ شکیلہ رفیق کی طاقت پر حیران تھا کہ ہلکے سے جھٹکے نے اسے دور تک لڑھکنے پر مجبور کر دیا تھا۔

                ” چوٹ تو نہیں ائی آپ کو؟“ انسپکٹر نے قریب پہنچ کر پوچھا۔ موقع کی نزاکت کی وجہ سے وہ کچھ کہنا نہیں چاہتا تھا۔

                ” نہیں۔“ ایس پی نے کہا۔

                ” کیا بات تھی جناب؟” کسی نے مشکوک لہجے میں پوچھا۔ وہ ایس پی کو شکیلہ سے گفتگو کرتے دیکھ چکا تھا۔ اس لئے وہ شکیلہ کی سحر انگیز شخصیت سے غیر شعوری طور پر متاثر ہونے کی وجہ سے ایس پی کو قصور وار سمجھ رہا تھا۔ لیکن شکیلہ کی غیر موجودگی کی وجہ سے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔

                ” کچھ نہیں ہوا۔ آپ لوگ جائی۔“ ایس پی نے کہا اور خود وہ انسپکٹر کے ساتھ واپس کار میں آ بیٹھا۔ شکیلہ کے عجیب وغریب رویئے نے اسے اُلجھا دیا تھا۔۔۔ یکا یک اس کے ذہن میں شکیلہ کے آخری الفاظ گونجے۔ لفظ ” ایس پی“ نے اسے چونکا دیا۔” شکیلہ سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ پھر اس نے کس طرح مجھے پہچان لیا؟“ اس نے سوچا۔ شکیلہ کی گیر معمولی قوت نے بھی ایس پی کو ششدر کر دیا تھا۔

                ایس پی کے زہن نے ایک اور کروٹ بدلی۔ وہ ناصر کی حیرت انگیز صلاحیتیں پہلے دیکھ چکا تھا۔ ایسا تو نہیں کہ شکیلہ اور ناصر ایک ہی کشتی کے دو سوار ہوں؟“

                اسی وقت انسپکٹر کے سوالات نے اس کے خیالات کے سلسلے کو توڑ دیا۔ لیکن اس نے گول مول جواب دے کر اس کو خاموش رہنے کی ہدایت کی۔

                راستے بھر دونوں میں کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔ گھر پہنچ کر ایس پی نے انسپکٹر سے کہا۔

                ” تم شکیلہ کے گھر کی نگرانی کے لئے خفیہ پولیس کے آدمی کو مقرر کر دو۔ تاکہ اگر ناصر وہاں آئے تو پتہ چل سکے۔ اور ہاں! ناصر کے گھر پر متعین شخص کو بھی ہدایت کر دو کہ اگر ناصر نظر ائے تو فوراً اطلاع  کرے۔“

                ” یس سر!“ انسپکٹر نے کہا۔” لیکن سر! آپ شکیلہ کو کیوں ڈھیل دے رہے ہیں؟ براہ راست گھر جا کر گفتگو کی جا سکتی ہے۔ وہ قانونی کاروائی میں رکاوٹ کی مرتکب ہوئی ہے۔“

                ”انسپکٹر! اس موضوع پر گفتگو نہ کرو۔ بعد میں دیکھا جائے گا۔ ہمیں پہلے ناصر کا سراغ لگانا ہے۔“ ایس پی نے کہا۔

                ” وہ انسپکٹر کو ان پُراسرار حالات کے بارے میں بتانا نہیں چاہتا تھا۔ کیوں کہ اس کے نزدیک اول تو انسپکٹر ان حالات کو اس کی توہم پرستی خیال کر سکتا تھا دوسرے اس سے حالات مزید پیچیدگی اختیار کر جاتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                دوسرے دن ایس پی فرہاد اپنے آفس میں بیٹھا تھا ۔ فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے رسیور اُٹھایا۔ دوسری طرف انسپکٹر بول رہا تھا۔

                ” سر! آپ کی ہدایت کے مطابق شکیلہ رفیق کے گھر کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ ناصر کے گھر پر متعین سپاہی کی رپورٹ کے مطابق ناصر اپنے گھر نہیں  آیا۔“

                ” ٹھیک ہے۔ نگرانی جاری رکھی جائے اور دوسرے یہ کہ شہر کے تمام مشہور ہوٹلوں کو چیک کیا جائے۔“ ایس پی نے کہا۔

                ” بہتر سر! میں خود دیکھوں گا۔“

                دفتر سے واپسی کے وقت ایس پی نے محسوس کیا کہ اس کا سر بھاری ہے۔ اس نے اسے کام کی زیادتی پر محمول کیا۔ اور سوچا کہ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد طبیعت کی گرانی ختم ہو جائے گی۔

                گھر پہنچ کر وہ سونے کے لئے لیٹ گیا لیکن دو تین گھنٹے کی نیند لینے کے بعد بھی اس کی طبیعت کی گرانی ختم نہیں ہوئی۔ اس نے محسوس کیا کہ دماغ کا بھاری پن نے سمٹ کر اس کی پیشانی میں آگیا ہے۔ اس بھاری پن نے پہلے سنسناہٹ کی شکل اختیار کی اور پھر یہ سنسناہٹ درد کی ہلکی لہروں میں منتقل ہوگئی۔ ایسا لگتا تھا کہ درد کی یہ لہریں پیشانی سے اتر کر آنکھوں کے پپوٹوں کو مضروب کر رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے آنکھیں خمار آلود بنی ہوئی ہیں ۔ ایس پی اپنی قوتِ اردی سے کام لے کر آنکھیں کھولتا تھا لیکن اس کی آنکھیں اس طرح بند ہو جاتی تھیں جیسے نیند کا شدید غلبہ ہو۔ وہ یہ سوچ کر نیند پوری نہیں ہوئی دوبارہ بستر پر دراز ہو گیا۔ جیسے ہی  آنکھیں بند کیں اسے سیدھے ہاتھ کی رگیں کھینچتی ہوئی محسوس ہوئیں اور دل کی حرکت اتنی زیادہ تیز ہوگئی کہ وہ اٹھنے پر مجبور ہو گیا۔ اس خیال سے کہ جسم میں چستی آجائے۔ اس نے چائے طلب کی کہ خلافِ معمول اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ چائے میں شکر کی بجائے نمک ڈالنا چاہیئے۔ نمکین چائے پینے کے بعد اس کے کانوں میں گونج پیدا ہوئی۔ ایسی گونج جو مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے مشابہ تھی۔ ایس پی فرہاد جب  اس آواز کی طرف متوجہ ہوا تو اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ کوئی غیر مرئی طاقت اس کو کوئی پیغام دینا چاہتی ہے۔ اسی کیفیت میں رات ہوگئی اور اس کو یہ بھی ہوش نہیں رہا کہ کمرہ روشن کر دیا جائے۔ یکایک اس کی آنکھوں کے سامنے ایک چمک پیدا ہوئی اور یہ چمک دودھیا روشنیوں کا روپ  دھار کر آنکھوں کے سامنے آگئی۔ اب جو دیوار پر نظر پڑی تو اس نے دیکھا کہ مرکری لائٹ کے روشن دائرے اوپر سے نیچے کی طرف رواں دواں  ہیں۔

                اگلی صبح اس نے  طبیعت کی خرابی کی وجہ سے تین دن کی چُھٹی کی درخواست لکھ کر بھجوا دی۔ دماغی بوجھ آج بھی اسی طرح تھا لیکن اس سے کسی قسم کی جسمانی کمزوری کا قطعی احساس نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد اُسے انسپکٹر کی آمد کی اطلاع دی گئی۔ اس نے فوراً انسپکٹر کو اندر بلا لیا۔

                ” سر سنا ہے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“ انسپکٹر نے مزاج پُرسی کرتے ہوئے  کہا۔

                ” ہاں ، بس طبیعت ذرا گری گری سی ہے۔“ ایس پی نے بہانہ کرتے ہوئے کہا۔

                ” سر! آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ ویسے میں یہ اطلاع دینے آیا تھا کہ میں نے تمام ہوٹلوں میں چیکنگ کر لی ہے لیکن ناصر  نام کا کوئی آدمی کہیں بھی ٹھہرا ہوا نہیں ہے۔ میں نے احتیاطاً حلیہ بتا کر بھی دریافت کیا تھا لیکن ہر ایک نے نفی میں جواب دیا ہے۔ ناصر اور شکیلہ کے گھر پر متعین لوگوں کی رپورٹ کے مطابق وہ وہاں بھی نہیں آیا۔“

                ” ٹھیک ہے ۔ تم جا سکتے ہو!“

                انسپکٹر کے جانے کے بعد دوپہر تک ایس پی فرہاد بستر پر لیٹا رہا۔ دوپہر کو لیٹے لیٹے اچانک ایک روشنی کی لہر اس کی نظروں کے سامنے سے گزری ۔ وہ بے ساختہ اُٹھ بیٹھا اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ اس کے پورے جسم میں سنسناہٹ ہو رہی تھی اور حلق سوکھا جا رہا تھا۔ وہ کچن میں پہنچا اور ایک گلاس ٹھنڈا پانی پی کر واپس کمرے میں آگیا۔ رات تک کئی دفعہ مختلف رنگ کی روشنیاں ایس پی کی نظروں کے سامنے اتی رہیں۔ وہ ان حالات کو کوئی معنی پہنانے سے قاصر تھا۔

                رفتہ رفتہ سامنے آنے والی روشنیوں کے دائرے پھیل کر خدوخال اختیار کر گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایس پی کے سامنے ایک نوجوان کھڑا تھا جس کی آنکھوں سے اپنائیت کی روشنیاں پھوٹ رہی تھیں اور جس کے ہونٹوں پر پھیلی ہوئی مُسکراہٹ ڈر اور خوف کے بجائے دوستی کا پیغام دے رہی تھی۔ نوجوان نے سفید رنگ کا خوبصورت لباس پہنا ہوا تھا۔ ایس پی نے اسنوجوان ہستی کو فوراً پہچان لیا۔ یہ وہی نستور تھا جس نے اُسے خواب میں بتایا تھا کہ وہ ناصر کا ہمدرد ہے اور اسے مشورہ دیا تھا کہ ناصر کی مدد کرے۔ وہی نستور اب اپنے اصلی روپ میں سامنے تھا۔

                ”آپ کون ہیں؟“ ایس پی نے سوال کیا۔

                ” میرا نام نستور ہے اور میں ایک مسلمان جن ہوں ۔ نوعِ انسانی سے میرا ایک خصوصی تعلق بنتا ہے اس لئے کہ میرے پیر ومرشد انسانوں میں سے  ہیں اور ان کی نگاہِ کرم سے مجھے روحانی فیض پہنچا ہے۔“

                ” لیکن یہ ناصر کا کیا معاملہ ہے؟ اس کے بارے میں آپ نے کچھ نہیں بتایا۔“ ایس پی نے درمیان میں سوال کیا۔ نستور نے جواب دیا۔

                ” جی ہاں۔ یہی میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ میں اپنے پیر و مرشد کی اجازت سے انسانوں کی دنیا میں آیا تاکہ ان کے حالات  و واقعات کا تفصیلی جائزہ لے سکوں۔ سیر کے دوران میری نظر ناصر پر پڑی۔ میں نے دیکھا کہ ایک ہیولا ناصر کو اپنا معمول بنا کر اپنی تخریبی پسند طبیعت کی تسکین چاہتا ہے۔ لیکن جنگو سے لڑائی پولیس سے مقابلہ اور پھر حوالات کی سلاخوں کو توڑ کر فرار ہو جانے سے پولیس کی توجہ ناصر کی طرف مبذول ہوگئی۔ اور ہیولا اپنے عزائم کو مکمل طور پر عملی جامہ نہیں پہنا سکا۔“ ناصر کو ہیولا کی گرفت سے آزاد کرانے کے لئے میں نے ناصر سے رابطہ  قائم کیا۔ اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ ابھی حالات پر میں نے پوری طرح قابو بھی نہیں پایا تھا کہ ناصر پر سوار ہیولے کو اس کا ایک اور ساتھی  مل گیا جس نے شکیلہ رفیق پر قبضہ جما لیا۔ ناصر پر سوار ہیولے کو پولیس کی مداخلت ناگوار گزر رہی تھی۔ چناچہ اس نے کئی دفعہ آپ کو دھمکیاں دیں اور جبراً کاروائی کو آگے بڑھنے سے روکا۔۔۔۔ میں براہ راست سامنے انا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے پسِ پردہ رہ کر آپ کے ذریعہ حالات کو سدھانا چاہا۔ وہ پراسرار عورت جس سے رہسٹ ہاؤس میں آپ ملے تھے وہ بھی میری پیغامبر تھی۔

                پھر حالات کی نوعیت کے پیشِ نظر میں نے اس معاملے میں براہ راست دخل دینا خروری سمجھا۔ فینسی ڈریس شو میں سانپ والا واقعہ میری طرف سے اعلانِ جنگ تھا۔ مجھے سامنے دیکھ کر ناصر پر سوار ہیولا فرار ہو گیا۔ اور میں نے ناصر کو ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا۔ جہاں اس کی نگرانی ہو سکے۔“

                ” آپ ناصر پر سوار ہیولے کو اپنی روحانی قوت سے بھگا کر اسے ہمیشہ کے لئے نجات کیوں نہیں دلا  دیتے؟“ ایس پی نے سوال کیا۔

                ” میں ناصر کو ہیولے کی گرفت سے چھٹکارا تو دلا سکتا ہوں لیکن مستقل طور پر نہیں۔ جیسے ہی میری توجہ ناصر پر سے ہٹے گی ، ہیولا دوبارہ اُسے گرفت میں لے سکتا ہے۔ اس کا مستقل حل یہ ہے کہ ناصر کے زہن کو اتنی قوت فراہم کی جائے کہ وہ ہیولے کا معمول نہ بن سکے لیکن یہ بات میرے اختیار میں نہیں ہے۔ اسی لئے میں نے ضروری سمجھا ہے کہ آپ کے ذریعے ناصر کی مدد کروں۔“

                ” میں ناصر کی کس طرح مدد کر سکتا ہوں؟“ ایس پی نے حیرانی سے پوچھا۔

 


 

                ” آپ کسی کامل فقیر کی تلاش کریں جو ناصر پر مکمل روحانی توجہ دے سکے۔“ نستور نے جواب دیا۔

                ” ناصر کب تک آپ کی نگرانی میں رہے گا۔“ فرہاد نے سوال کیا۔

                ” میں نے اسے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ہے لیکن بظاہر کہ میں اسے موجود ات کی اس دنیا سے بہت دنوں تک دور نہیں رکھ سکتا۔ علاوہ ازیں جنات کی ابادی میں اسے مستقل قیام کی اجازت بھی نہیں مل سکتی۔“

                فرہاد کسی سوچ میں  پڑ گیا۔ اس کے  زہن میں خیال آیا کہ اسے نستور کو انکار کر دینا چاہیے۔ وہ ناصر کو ہمیشہ کسی غیر معمولی قوت کے زیر اثر سمجھتا رہا تھا۔ لیکن نستور کی باتوں کے بعد اب اس پر اصل حقیقتِ حال واضح ہوئی تھی۔ لہذا وہ گھبرا گیا تھا۔ ایک مردہ شخص کے ہیولے سے میں کہاں مقابلہ کر سکوں گا۔ جب کہ مجھے روحانی عُلوم سے بھی کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے نستور کی موجودگی سے بے خبر ہو کر انہی خیالات میں غرق رہا۔

                نستور کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ اس کی آنکھیں فرہاد کے چہرے پر مرکوز تھیں۔فرہاد نہ جانے کب تک ان خیالات میں کھویا رہتا کہ نستور کی ملائمت امیز آواز نے اس کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

                نستور نے کہا۔” فرہاد مجھے معلوم ہے کہ تم ذہنی کشمکش کا شکار ہو گئے ہو۔ ان چند لمحوں میں تمہارے ذہن میں جو جو خیالات بھی ائے ہیں وہ سب مجھ پر منکشف ہو گئے ہیں۔ جس طرح انسانوں میں بعض لوگ ٹیلی پیتھی کے ماہر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالے نے جنات کو بھی اس ذہنی خصوصیت سے سرفراز فرمایا ہے۔“ اتنا کہنے کے بعد فرہاد نے اب تک جو سوچا تھا۔ اس کی پوری تفسیل نستور نے اس کے سامنے بیان کر دی۔

                فرہاد یہ سُن کر ہکا بکا رہ گیا۔ تب نستور نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔” گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے میرے دوست! ایک آدم زاد کی امداد کرنا تمہارا فرض ہے۔“

                تم میں غیر معمولی صلاحیتیں ہیں۔ اسی سبب سے میں نے تم کو منتخب کیا ہے۔ نستور کے ان الفاظ نے فرہاد کے اندر بھر پور قوتِ اردی پیدا کر دی اور اس نے نہایت اعتماد بھرے لہجے میں کہا۔

                ” میں ناصر کی ہر ممکن امداد کرنے کو تیار ہوں۔“ فرہاد نے کہا۔

                ” ناصر کو پُراسرار ہیولے سے نجات دلانے کے لئے  تمہیں کسی بزرگ کامل کی رہنمائی کی ضرورت ہو گی سرِ دست تمہارا کام اتنا ہی ہے۔“

                ان الفاظ کے ساتھ ہی نستور کا سراپا دھیرے دھیرے تحلیل ہوتا ہوا ، آنکھوں کے سامنے سے روپوش ہو گیا۔ فرہاد نستور کے جاتے ہی بستر پر دراز ہو گیا۔ اسے اپنے ذہن کے اوپر سے بوجھ ہلکا ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ مطمئن تھا کہ بہر حال اس پر اصل صورتِ حال کا انکشاف ہو گیا تھا۔ اب بھی وہ ناصر کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ مگر ذہنی تناؤ اور کش مکش کی کیفیت کے بجائے اب وہ اس مسئلے پر اطمینان سے غور کر سکتا تھا۔

                شہر میں مشہور کئی پیروں کے نام اس کے ذہن میں ائے جن سے وہ اس سلسلے میں مدد لے سکتا تھا۔ مگر ان میں سے کسی کے بارے میں بھی وہ حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ انہی خیالات میں غلطاں و پیچاں نہ جانے کب اسے نیند آگئی۔ جب وہ بیدار ہوا تو گہری شام ہو چکی تھی۔ آج کئی ہوفتوں کے بعد وہ ایسی گہری نیند سویا تھا۔

                اس نے ملازمہ کو بلا کر نمک کی چائے لانے  کو کہا۔ جوں جوں نمک کا استعمال وہ اپنی خوردونوش کی اشیاء میں کر رہا تھا، ویسے ویسے اس کے زہن سے خوف، وسوسے، اندیشے کم ہوتے جا رہے تھے۔ اور مستعدی ، خود اعتمادی اور چیزوں کا روشنپہلو دیکھنے کی عادت پیدا ہوتی جا رہی تھی۔ انسپکٹر کو ٹیلیفون کیا اور کسی بزرگ کی تلاش کا حکم دیا۔

                ” سر! “ انسپکٹر نے بتایا۔” شہر میں ایک مجذوب فقیر کا ان دنوں بہت تذکرہ ہے۔ بلکہ ناصر صاحب کے ساتھ ان کا نام لیا جاتا رہا ہے۔ میں ان کا کھوج لگانے کی کوشش کروں گا۔۔۔“

                ” بہت بہتر“ فرہاد نے  کہا۔ جیسے ہی اطلاع ملے مجھے بتاؤ ہم خود اس مجذوب کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                ناصر کی انکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو اجنبی ماحول میں پایا۔ اس نے دیکھا کہ وہ ایک مسہری پر دراز ہے ۔ کمرے کے پردے گہرے سبز رنگ کے تھے۔ پورے کمرے میں مسہری کی سفید چادر کے علاوہ ہر چیز سبز رنگ کی تھی اس کی نظر کمرے کے جس گوشے پر ابھی پڑتی تھی تو وہ آسودگی اور راحت سی محسوس کرتا تھا۔ کسی بھی رنگ سے ذہن پر مرتب ہونے والے گہرے اثرات کا اسے زندگی میں پہلی بار تجربہ ہوا تھا۔ اجنبی مقام پر ہونے کے باوجود اسے کسی طرح کی گھبراہٹ اور بے چینی یا اضطراب محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ البتہ اسے اپنے اجنبی مہمان سے ملنے کی آرزو دل میں محسوس ہو رہی تھی ، وہ اسی سوچ میں تھا کہ ایک نورانی چہرے والا شخص جس کی کمر خمیدہ تھی، کمرے میں داخل ہوا۔

                ” ناصر میاں آپ کی طبیعت کیسی ہے؟“ اس اپنائیت بھرے لہجے نے ناصر کا دل جیت لیا۔ اسے سوال کرنے والے سے غیر معمولی وابستگی اور محبت محسوس ہوئی۔

                ”میں بالکل ٹھیک ہوں، صرف یہی پریشانی ہے کہ کس جگہ موجود ہوں؟“ ناصر نے جواب دیا۔

                ” گھبراؤ نہیں بیٹے تم دوستوں کے درمیان ہو۔“ نُورانی   چہرے والے شخص نے کہا۔ ” تمہیں یہاں نستور لے کر آیا ہے۔ تم نستور سے بخوبی آگاہ ہو۔ وہ تمہارا خیر خواہ ہے۔ میں اس کے پیر و مرشد کا بھائی ہوں۔“ نُورانی چہرے والے بزرگ  شفقت و محبت بھرے لہجے میں بول رہے تھے۔ نستور کا ذکر سُن کر ناصر ایک دم گھبرا سا گیا۔ او ر بولا۔

                ” تو کیا میں نستور کی قید میں ہوں۔“ نہیں نہیں بیٹے۔“ بزرگ نے جواب دیا۔” تم کسی کی قید میں نہیں ہو۔ تم دراصل ایک تباہ کُن چکر میں پڑ چکے تھے۔ اسی لئے نستور تمہیں یہاں لایا ہے۔ ایک مردہ شخص عامر کا ہیولا تمہیں وقتاً وقتاً اپنا معمول بنا لیتا  ہے اور تم اسے اپنی خواہشات کے مطابق گناہ سر زد کراتا ہے ۔ تم خوش نصیب ہو کہ مکمل تباہی سے بچ گئے اور نستور کی نگاہ تم پر پڑی۔

                ” میں نے تمہیں اس تباہی و بربادی سے بچانے کا پختہ ارادہ کیا ہوا ہے۔“

                بزرگ کے ہر فقرے کے ساتھ ناصر کے تعجب اور حیرانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ ” تو میں کسی بد روح کا نشانہ بن گیا ہوں؟“ ناصر نے بے تابی سے سوال کیا:

                ” میرے بیٹے پہلے میرے سوال کا جواب دو۔“ بزرگ نے پدرانہ شفقت کے لہجے میں کہا۔ ” مجھے تم بتاؤ کہ تم کیا محسوس کرتے ہو۔“

                ” میں کیا کرتا ہوں۔“ ناصر نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا مگر دشواری یہ ہے کہ کوئی میری بات کو سچا نہیں جانتا۔ میں نے اس سے پہلے اپنی والدہ کو اپنی واردات سنائی مگر انہیں بھی یقین نہیں آیا۔ پولیس کے آدمیوں کو بھی میری باتوں یقین نہیں ایا۔۔۔۔ اور پھر دور کیوں جائیں بعض اوقات مجھے خود ان باتوں کے بارے میں یقین نہیں آتا بلکہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ دن رات کے کچھ گھنٹوں میں  میں اگر ناصر رہتا ہوں تو دوسرے لمحوں میں ، میں کچھ اور بن جاتا ہوں۔“ بزرگ اس کی باتیں پوری توجہ سے اور دلجمعی سے سُن رہے تھے۔ ان کے چہرے پر نرم مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ جب  ناسر خاموش ہوا تو بزرگ نے کہا۔

                ” مگر اب جب تک تم ہمارے پاس رہوگے، تم وہی پُرانے والے ناصر کی ھیثیت میں رہوگے اور تمہیں اپنی شخصیت  دو واضح پرتوں میں منقسم محسوس نہیں ہوگی۔ ہم تمہیں اس لئے یہاں لائے ہیں تاکہ ہیولے سے تمہاری جان بچا  دیں اور تم ازسرِ نو ،معمول کے مطابق زندگی بسر کر سکو۔ مگر اس سلسلے میں تمہیں کئی دشوار مرحلوں سے گزرنا ہوگا۔“

معاً ناصر نے محسوس کیا جیسے کمرے میں گھنٹیوں کی آواز گونجنے لگی ہے اور کمرے میں ایک خوشبو پھیل گئی ہے۔ گھنٹیوں کی آواز اور خوشبو کو محسوس کرتے ہوئے ان بزرگ نے ناصر سے مخاطب ہو کر کہا۔” لو وہ آگیا۔“ اور ناصر کی آنکھوں کے سامنے سفید پوشاک میں ملبوس ایک نوجوان آدمی کا سراپا ابھرنا شروع ہو۔ اس کا وجود رفتہ رفتہ یوں اس کی انکھوں کے سامنے اگیا گویا روشنی کے دائرے پھیلتے جا رہے ہوں اب وہنوجوان اس کے سامنے تھا۔ وہ نوجوان تعظیم کے لئے اس بزرگ کے سامنے جھکا اور السلام علیکم کہا۔ بزرگ نے جواب  میں وعلیکم السلم اور نوجوان کے لئے دعائیہ کلمات کہے اور پھر ناصر سے مخاطب ہو کر کہا۔” ناصر تمہارے دوست اور یہی خواہ آگئے ہیں۔“ ان سے ملو، یہ ہیں نستور۔“

                ” نستور؟“ ناصر کے منہ سے نکلا۔ مگر وہ اپنے دوست اور خیر خواہ کو پہچان نہیں سکا تھا۔

                ” ہاں نستور۔۔“بُزرگ نے جواب میں کہا۔ اس عالم موجود میں جسمانی صورت میں شاید تُم اُن سے پہلی بار مل رہے ہو۔ مگر اس سے پہلے یہ تمہارے آس پاس رہ چکے ہیں۔ ان کا تعلق اشرف المخلوقات سے نہیں بلکہ جن قوم سے ہے۔ ناصر! تمہیں ہر وقت پاک صاف رہنا چاہیئے ۔ اسی صورت میں ہیولے سے تمہارا چھٹکارا ممکن ہو سکے گا۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                فرہاد نے شہر میں معروف ایک روحانی اشخاص سے ناصر کے  مسئلے پر جا کر گفتگو کی۔ اس نے ایسے بزرگوں کی روحانی کرامات کے بارے میں مختلف اشخاص سے بہت کچھ سُن لیا تھا اور ان میں سے تقریباً ہر ایک جن ، بُھوت ، پریت وغیرہ اُتارنے کا بزعم خود دعویدار تھا۔ مگر جب فرہاد نے ان سے ناصر کے سلسلے میں مدد چاہی تو ان میں سے ایک دو نے تو گول مول باتیں کر کے فرہاد کو ٹالنے کی کوشش کی۔ ایک بزرگ نے جو اس کی حیثیت اور پولیس میں اس کے عہدے سے واقف تھا ، فرہاد کو مخلصانہ مشورہ دیا کہ اسے ان چکروں کو چھوڑ کر اپنی ملازمانہ سر گرمیوں کی جانب توجہ دینی چاہیے۔

                ” عجیب بات ہے۔“ فرہاد نے سوچا۔” ان میں سے کوئی  شخص بھی میری مدد کو آمادہ نہیں ہے۔  تو کیا ان کے دعوؤں کے پیچھے خُدا کو بیوقوف بنانے کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے؟ آخر  اب کس سے رُجوع کرنا چاہیئے؟ اس نے سوچا اور پھر فوراً ہی اسے یاد آیا کہ ناصر کے سلسلے میں اس کے محلے میں پھرنے والے ایک مجذوب کا ذکر اس نے سنا تھا۔ اسی مجذوب سے رُجوع کرنا چاہیئے۔ فرہاد نے سوچا۔ گھر آکر اس نے اسی وقت انسپکٹر کو فون کیا اور اس سے مجذوب کا پتہ لگانے کا حکم دیا۔ مگر مجذوب سے ملنے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ انسپکٹر دو دن سے مایوس واپس آرہا تھا ۔ اس نے ارد گرد کے آدمیوں سے دریافت کیا کہ مجذوب بابا کہاں سے آئے ہیں؟ مگر کسی کو بھی ان کا ٹھکانہ معلوم نہیں تھا بس وہ تو ایک دم اس بازار میں آجاتے تھے اور تھوڑی دیر ٹھہر کر چلے جاتے تھے۔ انسپکٹر نے دو دن تک مستقل طور پر سادہ لباس میں پولیس کا ایک سپاہی تعینات کیا۔ مگر مجذوب کی آمد کی کوئی اطلاع نہ ملی۔ ادھر فرہاد کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہاتھا۔ آج تیسرا دن تھا۔ دوپہر ہو چکی تھی اور ابھی تک انسپکٹر کی طرف سے مجذوب ے بارے میں کوئی اطلاع نہیں آئی تھی۔ فرہاد کو بیٹھے بیٹھے یکایک یوں محسوس ہو گویا کسی نے اسے مشورہ دیا ہو کہ اسے دوپہر میں اسی وقت جا کر اس راستے پر کھڑا ہو جانا چاہیئے۔ جہاں سے مجذوب بابا گزرتے ہیں۔ اس نے جلدی جلدی کپڑے بدلے اور ناصر کے محلے کو روانہ ہو گیا۔ غریب بستی  کے بازار میں دوپہر کے سبب چہل پہل کچھ زیادہ نہ تھی اسکول سے لوٹتے ہوئے بچے اسے بازار میں نظر آتے یا کہیں کہیں سیاہ برقعوں میں عورتیں اور کہیں کہیں دکانداری کرتے نظر آتے۔ اکثر دکاندار خالی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے ایک چکر مختصر سے بازار کا لگایا اور پھر آ کر ایک جگہ کھڑا ہو گیا ابھی فرہاد کو کھڑے ہوئے تھوڑا وقت ہی ہوا  ہوگا کہ اسے سنائی دیا کوئی کہہ رہا تھا ” مجذوب بابا آگئے ہیں۔“ فرہاد نے کہنے والے کی طرف دیکھا۔ وہ ایک چھوٹے سے ہوٹل کا مالک تھا۔ جس نے مجذوب بابا کی امد کے ساتھ ہی جلدی ایک پیالی  میں چائے بنانی شروع کر دی تھی۔ چائے کے ساتھ ساتھ اس نے ایک چھوٹی سی ٹرے میں پیسٹری ، کیک پیس اور ڈبل  روٹی سجائی اور پھر نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ اس ٹرے کو اُٹھاتے ہوئے مجذوب کی طرف چلا۔، مجذوب بابا اس وقت تک ایک مکان کے سائبان تلے آکر بیٹھ گئے تھے۔ مُجذوب بابا کے ارد گرد کئی لوگ جمع ہو گئے تھے اور فرہاد بھی ان میں سے ایک تھا۔ مجذوب بابا نے چائے والے سے چائے کا کپ لیا اور ایک کیک پیس اُٹھا کر کھا لیا ۔ گرم گرم چائے مجذوب بابا نے ایک ہی گھونٹ میں انڈیل لی۔

                ” بابا جی۔ اتنے دن سے کہاں تھے۔“ چائے والے نے سوال کیا۔ مگر بابا جی نے کوئی جواب نہ دیا اور اس کیطرف دیکھ کر ہنس دیئے۔ پھر کچھ بڑ بڑائے مگر یہ  الفاظ کسی کی سمجھ میں نہ آئے۔

                اب فرہاد آگے بڑھا اور ادب سے بولا۔” بابا جی! میں ایک کام سے آیا ہوں۔“

                ” آؤ ، آؤ ، جو آئے گا وہ پائے گا۔“ مجذوب بابا کے الفاظ اب کی بار واضح تھے۔ فرہاد نے مجذوب بابا سے کہا ” میں ناصر کے سلسلے میں آپ کی مدد چاہتا ہوں۔“

                ” اللہ مدد کرے گا بابا۔“ مجذوب نے آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا۔” جا شہر سے باہر جا۔“ مجذوب نے کہا اور پھر ایک دم اُٹھ کھرے ہوئے اور انے جانے لگے۔ تمام لوگ وہیں ٹھہر گئے تھے مگر فرہاد مجذوب بابا کے پیچھے پیچھے اس امید میں چلا کہ شاید کوئی اور اشارہ مجذوب بابا کریں گے۔ ابھی وہ چند قدم ہی گیا ہوگا کہ مجذوب بابا نے غصیلی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔” ہمارے پیچھے کس لئے آتا ہے؟“ جا بابا اپنا کام کر۔“

                اب فرہاد میں ہمت نہیں تھی کہ وہ مجذوب بابا کے پیچھے جاتا وہ وہیں ٹھہر گیا تھوڑی دور آگے جا کر جہاں بازار ایک موڑ مُڑتا ہے، مجذوب بابا نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

                فرہاد اب چائے والے کی دکان پر پہنچا اور اس سے مجذوب  کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہیئں۔

                ” بابو صاحب معلوم نہیں بابا جی کہاں سے آتے ہیں، کہاں جاتے ہیں۔ جب آتے ہیں میں تو ایک کپ چائے اور چند بسکٹ پیش کر دیتا ہوں۔ کبھی کھا لیتے ہیں کبھی پھینک دیتے ہیں۔ کسی کو اپنے ساتھ جانے نہیں دیتے۔ میں تو کہوں جی کوئی بہت بڑے بزرگ ہیں۔ ان کی دُعا میں بڑا اثر ہے۔ جو بات کہہ دیتے ہیں وہ ہو جاتی ہے۔“ فرہاد  اس کی عقیدت مندانہ گفتگو سنتا رہا پھر پوچھا۔” اب بابا جی کب آئیں گے۔“

                ” اجی ان کے آنے کا کوئی ٹھیک وقت نہیں ہے۔ آجائیں تو کل ہی آجائیں نہ آئیں تو ہفتوں گزر جائیں۔ من موجی ہیں۔“ چائے والے نے جواب دیا اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔

                مجذوب بابا کے جواب سے فرہاد کی تسلی نہیں ہوئی تھی۔ وہ حیران تھا آخر کس طرح اس الجھن کو سلجھا سکے گا۔ سارا دن اسی شش وپنچ میں رہا۔ رات کو بستر پر لیٹ کر بھی فرہاد کو یہی خیالات آتے  رہے۔ بھلا کراچی سے باہر جا کر کون سے شہر میں تلاش کروں۔ یہ سارا ملک پیروں، خانقاؤں اور جھاڑ پُھونک کرنے والوں سے بھرا پڑا ہے۔ اگر فرداً فرداً ہر خانقاہ پر بھی جاؤ تو نہ جانے کب گوہر مقصود ہاتھ  ائے اور شاید تمام خانقاؤں اور مزاروں پر حاضری دینے کے لئے تو عمرِ نوح ؑ درکار ہوگی۔ میرے خیال میں مجھے مجذوب بابا کی خدمت میں ایک بار پھر جانا چاہیئے۔ شاید وہ مزید تشریح کر دیں یا ان  کے کسی فقرے سے آسلی شخص کے بارے میں کوئی سرا ہاتھ اجائے۔ بصُورت دیگر تو یہ بات ناممکن ہے اگر اب نستور میرے پاس ایا تو میں اس صاف صاف معذرت کر لوں گا۔ آخر مجھے اپنے بال بچے بھی پالنے ہیں۔ سرکاری ملازمت کا معاملہ ہے ۔ کب تک اس ایک معاملے میں جس کا براہ راست میرے محکمے سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔ اپنی جان کھپاتا رہوں۔ بہر حال مجھے ایک  دو بار تو مجذوب بابا کی خدمت میں اور جانا چاہیئے، ممکن ہے کشھ کامیابی حاصل ہو ۔“ انہی خیالات میں غلطاں و پیچاں نہ جانے اسے کب نیند آگئی۔ خواب میں اس نے دیکھا کہ وہ سفر کرتا ہوا ریل کی پٹڑی سے ہٹ کر ایک ویران اور بنجر میدان میں داخل ہو گیا ہے۔ یہاں  دور دور تک کسی انسان کا پتہ نہیں ہے خوددرو جنگلی پودوں، جھاڑویوں کا سلسلہ حدِ نگاہ تک پھیلا ہوا ہے ۔ وہ اسی جنگل میں جھاڑیوں اور پودوں سے بچتا بچاتا نامعلوم سمت چلا جا رہا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اپنا راستہ گم کر دیا ہے اور حیران و پریشان ہے کہ اس ویرانے میں کس سے راستہ دریافت کرے۔ تھوڑی دور اور اس پریشانی  میں چلتے چلتے اسے ایک جگہ پر جھاڑیوں کے درمیان ایک پگڈنڈی نظر آئی جس پر لوگوں کے قدموں اور بیل گاڑی کے پہیوں کے نشانات تھے ۔ وہ اس راستے پر چل پڑا۔ اور چلتے چلتے ایک مختصر سے گاؤں پہنچتا ہے۔ جہاں ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد میں نورانی چہرے والے ایک بزرگ چٹائی پر بیٹھے ہوئے ہیں جو اسے دیکھ کر مسکراتے ہیں  گویا اس کی امد پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔“ وہ اپنا مدعا عرض کرنے کے لئے لب کھولنا ہی چاہتا ہے کہ فرہاد کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ فرہاد نے تکیے کے نیچے سے گھڑی نکال کر دیکھی تو صبح کے چار بج رہے تھے۔

                چند ثانیے وہ جاگتا رہا۔ اس کے بعد دوبارہ اسے نیند آگئی۔ وہ اس خواب کو کوئی معنی پہنانے سے قصر تھا۔ البتہ نورانی چہرے والے بزرگ کے خدو خال کچھ کچھ اس کے ذہن نشین ہو گئے تھے اور جس مسجد میں وہ بیٹھے ہوئے تھے ۔ صبح کو ذہن پہ زور ڈالنے سے اسے یادآیا کہ اس کے صحن کے مشرقی رُخ نیم کا ایک گھنا درخت تھا۔ مسج پُرانے زمانے کی لگتی تھی جو لجھوری اینٹوں کی بنی ہوئی تھی اور اس کے سامنے کا رُخ پچی کاری اور سبز رنگ کی روغنی اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔ تاہم یہ مقام کہا تھا اور خواب میں نظر انے والے بزرگ کون تھے؟ آیا اسے ناصر  کےمسئلے  کے حل  کےلئے  خواب میں بشارت دی گئی تھی اس کے بارے میں وہ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔

                 اس نے فیصلہ کیا کہ آج ہی مجھے مجذوب بابا سے ملاقات کے لئے جانا چاہیئے۔ ممکن ہے وہ آج بھی تشریف لانے والے ہوں۔ یہ سوچ کر وہ تقریباً اسی وقت پھر اسی بازار میں پہنچ گیا اور جا کر پرانی جگہ پر کھڑا ہو گیا ۔ اس کی خوشی کی  کوئی حد نہ رہی کہ آج بھی مجذوب بابا اپنے اسی انداز میں چلتے ہوئے بازار میں داخل ہوئے اور ان کے عقیدت مندوں کا اسی طرح ان کے گرد ہجوم ہو گیا۔ اور وہ اپنے کل والی جگہ پر بیٹھ گئے اور چائے والا چائے بنا کر بھی لے ایا۔ وہ مجذوب بابا کے قریب پہنچ گیا اور جا کر سلام کر کے ایک جگہ کھڑا ہو گیا۔ مگر آج مجذوب بابا کسی کی طرف نظر اُٹھا کر نہیں دیکھ رہے تھے اور کسی  میں انہیں مخاطب کرنے کی جرات بھی نہیں ہو رہی تھی۔ کافی دیر تک فرہاد اسی طرح کھڑا رہا کہ کب مجذوب بابا نگاہ اُٹھاتے ہیں اور کیا کہتے ہیں۔ مجذوب بابا نے ایک نگاہ اپنے ارد گرد کھڑے ہوئے لاگوں پر ڈالی اور پھر فرہاد کی طرف دیکھ کر ناگواری کے انداز میں بولے۔

                ” تُو پھر آگیا، کاہے کو آتا ہے بابا۔ تیرا مطلب خواب میں ہے۔“

                ” مگر بابا خواب میں جگہ کا پتہ نہیں ملتا۔“ فرہاد نے عاجزانہ انداز میں کہا۔

                ” پتہ ملے گا، کیوں نہیں ملے گا۔“ مجذوب نے یہ کہہ کر اسے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا۔ فرہاد شاید وہیں کھڑا رہتا کہ اسی چائے والے نے کہا۔” بابا جی چلے  جانے کو کہہ رہے ہیں۔ صاحب یہ وارننگ ہے، چلے جاؤ۔“

                دوسری شب بھی فرہاد نے اسی ترتیب سے خواب دیکھا اور پھر  تیسری شب بھی خواب اسے پہلے دن کی طرح مکمل جزئیات کے ساتھ نظرآیا ۔ حتٰی کہ اسے وہ نورانی شکل بزرگ ، وہ مسجد اور راستے کا ایک ایک موڑ ازبر ہو گیا جیسے وہ بارہا اس مقام تک آتا جاتا رہا ہو۔ مسلسل تین یوم تک ایک ہی خواب دیکھ کر اور مجذوب کے اشارے کے بعد اسے اس بات کو یقین تو ہو گیا تھا کہ اس کا گوہر مقصود خواب میں نظر انے والے بزرگ ہی سے حاصل ہوگا۔ مگر اس کی تلاش ایک طویل عمل تھا۔

                ناصر اب ان بزرگ سے جو نستور جن کے پیر بھائی تھے، کافی مانوس ہو چکا تھا۔ نستور کی خواہش  کے مطابق انہوں نے ناصر کی ذہنی قوت کے اضافے کے لئے ضروری مشقیں شروع کرا دی تھیں۔ جس کمرے  میں ناصر کو رکھا گیا تھا اس میں کبھی سبز ، کبھی نیلا پردہ لٹکا دیا جاتا تا کہ ناصر کے اندر خود اعتمادی دوبارہ پیدا ہو سکے اور وہ آئندہ عامر کے ہیولے سے ٹکراؤ ہو جانے کی صورت میں صرف اس معمول بن کر نہ رہ جائے بلکہ اس کی راہ میں مزاحمت کرے اور اس کی خواہشات کا تابع بن کر نہ رہ جائے۔

                نستور کا خیال یہ تھا کہ اس کے پیر و مرشد حضرت  جی ناصر کا علاج کامیابی سے کر سکتے ہیں مگر اصل مشکل یہ تھی کہ ناصر کو جب ہیولے نے اپنا معمول بنایا تھا اور نستور کا اس کا علم ہوا تھا تو اس پیر و مرشد حضرت جی شہر چھوڑ کر  ایک طویل ریاضت کے لئے جنگل میں چلے گئے تھے۔ کسی کو بھی حاضر ہونے کی اجازت نہ تھی۔ ناصر کو ہیولے کا معمول بنے کئی ماہ ہو چکے تھے اور اس تمام مدت میں نستور کبھی اس سے بے خبر نہیں رہا تھا اور اس کے بچاؤ کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ اسی سبب سے ناصر ہیولے کے ہاتھوں مکمل طور پر خود کو طاغوتی قوتوں کے سُپرد کئے جانے سے بچا رہا تھا۔ مگر اب پانی سر سے اُوپر ہوتا دیکھ کر اس نے سوچا تھا کہ مُرشد کے پیر بھائی سے رُجوع کیا جائے۔

                نستور کے پیر و مرشد کے پیر بھائی کا نام عبدالرحمن تھا اور انہوں نے بھی اپنی طویل عمر ریاضت اور مجاہدہ نفس میں گزاری تھی۔ناصر کو ان کے گھر آئے ہوئے تین دن ہو چکے تھے۔ اس اثنا میں انہوں نے ناصر میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لئے اس پر مختلف اوقات میں مختلف رنگوں کے اثرات ڈالے تھے جس کے اثرات ناصر کے ذہن پر مرتب ہو رہے تھے، نستور تین دن سے روزانہ ناصر کے پاس ارہا تھا۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ ناصر میں کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں لیکن ابھی قطعی طور نہیں کہا جا سکتا تھا کہآیا دوبارہ اپنے ماحول میں لوٹ آنے کے بعد اس کے ذہن کی قوتِ مدافعت ہیولے کے مقابلے میں برقرار رہ سکے گی یا نہیں؟

                شام کا وقتتھا۔ ناصر اس وقت عصر کی نماز اور بزرگ کا باتایا ہوا وظیفہ پڑھ کر فارغ ہوا تھا کہ یکا یک اسے اپنے کمرے میں کسی وجود کا احساس ہوا۔ کمرے میں ایک دلنواز خوشبو پھیلی  اور پھر رفتہ رفتہ کمرے کی نیم تاریکی میں ایک نوجوان کا جسم معدوم سے عالم ِ وجود میں آتا ہوا نظر ایا۔ ناصر پہچان گیا کہ یہ نستور کی آمد امد ہے۔ چند ثانیے بعد نستور اپنے اسی سفید لباس میں ایک نوجوان کی شکل میں موجود تھا۔ اس نے ناصر  کو السلام علیکم کہا۔ جواب میں ناصر نے مصلے سے اُٹھتے ہوئے وعلیکم السلام کہا اور اس سے ہاتھ ملایا ۔ پھر وہ دونوں مسہری پر جا کر بیٹھ گئے۔

                ” اب آپ کیا محسوس کر رہے ہیں؟ نستور نے سوال کیا۔

                ” میں پہلے سے خود کو بہت بہتر محسوس کر رہا ہوں۔ ذہنی انتشار اور اضمحالا ختم ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور آسودگی ، خود اعتمادی اور اطمینانِ قلب اس کی جگہ لیتے جا رہے ہیں۔“ ناصر نے جواب دیا۔

                ” الحمد اللہ کہ ہمارے پیر و مرشد کے برادر روحانی کی کوششیں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیں۔“ نستور نے کہا، اور پھر کچھ پھل اسے کھانے کو دیئے۔  یہ پھل نستور وادی جنات سے لایا تھا۔ ناصر تین روز  سے مسلسل اس پھل کو کھا رہا تھا۔ اس کی صورت ہماری دُنیا کے سبب ملتی جلتی تھی۔ نستور کا کہنا تھا کہ یہ پھل ذہنی قوت کھوئے ہوئے اور بے اعتمادی اور کمزور قوتِ اردی کے آدمیوں کے لئے بہتر ہوتا ہے۔

 

               

                 

               

 


Hayola

Sadiqul israr

روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ قسط وار مضمون ھیولا۔۔جن ، انسان اور روح کے درمیان کش مکش پر میں ایک خوب صورت کہانی  کی دستاویز پیش خدمت ہے۔