Topics

فرار

یہ سارے خیالات تیز رفتار سمندری موجوں کے ریلوں کی صورت میں اس کے ذہن میں چلے آرہے تھے۔ گرمی اور خوف سے اس کا پورا جسم پسینے میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس کے کپڑے اس طرح پسینے میں بھیگ گئے تھے جیسے کسی نے ان پر پانی ڈالا ہو۔ اور ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی بنا پر سنسناہٹ اور چیونٹیاں سی رینگتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ وہ دل ہی دل میں اپنے اپ کو ملامت کر رہا تھا کہ ایک اجنبی عورت کے بلاوے پر آخر وہ کیوں اس سنسنان دوپہر میں ہزاروں برس پرانے ویرانے میں چلا آیا ہے۔ دل کی دھڑکن میں گیر معمولی اضافہ ہو گیا تھا اور خوف کے سبب سانسوں کی آمد و رفت میں تیزی آگئی تھی۔اس ویرانے میں تنہا کھڑے ہوئے اس نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا۔ نیلا آسمان چاروں طرف پھیلا ہوا تھا اور انتہائی بلند فضاؤں میں اُڑتی ہوئی کوئی کوئی چیل نظر آ رہی تھی۔

                وہ وہاں سے فرار ہو جانے کے بارے میں ابھی سوچ  ہی رہا تھا کہ یکا یک اسے اپنے کانوں میں گھنٹیوں کی ہلکی ہلکی آواز سنائی دی۔ یہ آواز کانوں کو بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ اس نے ارد گرد نظر دوڑائی۔ شاید وہی عورت دوبارہ واپس آگئی ہو یا کوئی اور شخص اس کے قریب ہو۔ ایک بار پھر اس نے بلند ٹیلے کے چاروں طرف چکر لگایا مگر کوئی متنفس نظر نہ آیا۔ اس تنہائی اور سناٹے میں گھنٹیوں کی ان مدہم مدہم آوازوں سے اسے خوف زدہ ہو جانا چاہیئے تھا مگر اس نے عجیب بات محسوس کی کہ جیسے کوئی اپنائیت اور محبت و خلوص سے اسے آوا دے رہا ہے۔ اسے اپنانا چاہتا ہے۔ جائے وقوع سے فرار ہونے کا خیال جو ابھی چند لمحے پہلے اس کے دل میں شدت سے پیدا ہوا تھا اب دور ہو چکا تھا اور اس کے بجائے اس میں خود اعتمادی اور بے خوفی جنم لے چکی تھی۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اب وہ تنہا نہیں بلکہ کسی عزیز دوست یا کسی کی پناہ میں ہے۔

                چند ثانیے بعد دوبارہ گھنٹیوں کی وہی مُدھر اور رس میں ڈوبی ہوئی آواز بلند ہوئی ۔ پھر کوئی سرگوشی میں کہہ رہا تھا ” گھبراؤ نہیں۔ میں نے تمہیں بلایا تھا۔میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ تم اس سے پہلے مجھ سے اپنی رہائش گاہ پر خواب میں مل چکے ہو۔“

                ان الفاظ کے سنتے ہی اسے اپنا وہ خواب یاد آیا جس میں کسی غیر مرئی مخلوق نے اسے ناصر کی مدد کرنے کو کہا تھا۔

                ” اچھا اچھا! آپ نستور ہیں؟“ اس نے خوشی سے لبریز لہجے میں پوچھا۔

                ” ہاں ! میں نستور ہوں۔ مگر تم نے میرے حکم پر عمل نہیں کیا۔“ نستور نے جواب دیا۔

                ”عزیز دوست ! ناصر سے ملاقات نہ کرنے میں میری شعوری کوشش کو کوئی دخل نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں سرکای ملازم ہوں اور مجھے جو حکم دیا گیا میں اس کی تعمیل کے لئے مجبور تھا اور اس سبب سے ناصر کے پاس نہ جا سکا۔“ ایس پی نے اپنی پوزیشن کی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔

                ” تمہیں کل صبح ہر حال میں ناصر سے ملنا چاہیئے۔“ نستور نے تحکمانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا۔

                ” آپ مجھے اس درجہ مجبور نہ کریں۔میں ایک غیر ملکی وفد کے میزبان کے طور پر سرکاری فرائض کی بجا آوری میں مصروف ہوں اور ابھی تین دن تک میری واپسی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ  یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ واپسی کے فوراً بعد سب سے پہلے میں ناصر سے ملنے جاؤں گا۔“ ایس پی نے لجاجت آمیز انداز میں کہا۔

                ” ہمارا فیصلہ قطعی ہے۔“ نستور نے دو ٹوک انداز میں کہا۔” ایسے حالات خود بخود پیدا ہو جائیں گے کہ تمہاری آج شام تک ہی واپسی ممکن ہو جائے گی اور اس کا سبب یہ ہے کہ ناصر کو تمہاری اشد ضرورت ہے۔“

                وہ ابھی کچھ کہنا چاہتا تھا کہ دوبارہ وہی گھنٹیاں اسی مُدھر اور میٹھے انداز میں بلند ہوئی ۔ تھوڑی دیر بعد گھنٹیوں کی آواز انا بند ہو گئیں۔ اس کی حیرانی کی حد نہ رہی کہ اب وہی عورت دوبارہ اس کے قریب کھڑی  اسی مسحور کن انداز میں اس کی جانب دیکھے جا رہی تھی۔ پھر وہ چلنے لگی اور اس کے قدم بھی بے ساختہ اس کے پیچھے پیچھے اُٹھنے لگے۔

                 جس راستے سے وہ عورت اسے لائی تھی اسی راستہ سے واپس ہوتے ہوئے ریسٹ ہاؤس کی دیوار کے قریب پہنچ گئے۔ پھر وہ عورت پہلے کی طرح دیوار پر نہایت  آسانی سے چڑھ گئی اور اپنے نرم اور سڈول بازؤں کے سہارے اس نے ایس پی کو دیوار عبور کرائی۔

                ریسٹ ہاؤس کا عقبی مختصر سا میدان عبور کر کے اب وہ اسی کھڑکی کے راستے کمرے میں داخل ہو چکا تھا۔ کمرے  کے اندر جا کر اس نے  واپس پلٹ کر دیکھا وہ عورت غائب ہو چکی تھی ۔ لیکن مہمان ابھی کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے تھے۔ لگتا تھا کہ  جو کچھ ایس پی کے ساتھ پیشآیا اس میں ایک لمحہ بھی نہیں لگا ہے۔


 

 

                کمرے میں واپس آتے ہی اس نے اپنی گھڑی دیکھی۔ گھڑی میں ابھی تک ایک بج رہا تھا۔ شاید میری گھڑی بند ہو گئی ہے۔ اس نے اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہا، اس حسین و خوبصورت ساحرانہ آنکھوں والی عورت کی آمد سے تھوڑی دیر پہلے ہی اس نے گھڑی دیکھی تھی کیوں کہ اسے لنچ کا انتظار تھا ۔ غیر ملکی مہمانوں کے کھانے میں دیر نہ ہو جائے اس وقت ایک بجنے میں چند سیکنڈ ہی رہ گئے تھے اور وہ منتظر تھا کہ ریسٹ ہاؤس کا بیرا ابھی آکر اسے کھانا لگ جانے کی اطلاع دے گا۔ مگر اس اثنا میں وہ اس اجنبی عورت کے زیرِ اثر تقریباً ایک گھنٹہ باہر رہا تھا ۔ مگر ابھی تک گھڑی میں ایک ہی بجا تھا۔ قریباً چند سیکنڈوں میں اس قدر دور مقام  تک تھا۔ شاید میری گھڑی بند ہوگئی ہے؟ اس نے گھڑی کی سوئیوں کی طرف غور سے دیکھنا شروع کیا مگر اس کی سوئیاں تو برابر حرکت کر رہی تھیں۔ اس نے آگے ہوتی مل کر ایک بار پھر سیکنڈ کی سوئی کی جانب دیکھا واقعی گھڑی چل رہی تھی اور ابھی دن کا ایک ہی بجا تھا۔

                وہ باہر نکلا کھانا لگ چکا تھا بس یہ بات ہوئی تھی کہ مہمان اس سے چند سیکنڈ پہلے کھانے کی میز پر پہنچ گئے تھے۔ وہ تیز تیز قدموں ڈائننگ کے دروازے پر پہنچ گیا ۔ آج صبح اس نے لنچ میں بیرا کو نرگسی کوفتوں کی خاص ڈش بنانے کا حکم دیا تھا اس خیال  سے کہ غیر ملکی لوگ سُرخ مرچ نہیں کھا تے۔ اس کی بات پر باورچی نے سیاہ مرچ استعمال کی تھی۔ کھانا شروع ہوجانے کے بعد بیرے نے آکر اس دریافت کیا۔

                ” سر ! کھانے میں کسی چیز کی کمی تو محسوس نہیں ہو رہی ہے۔“ باوردی باورچی بھی اس کے ہمراہ آیا تھا۔ ایس پی فرہاد نے نرگسی کوفتے چکھتے ہوئے کھانے کی تعریف کی۔   ” تم نے بہت اچھا سالن تیار کیا  ہے عمر دین۔“

                ” جی  سر، شکریہ آپ کو پسند آگیا۔ عمر دین   نے مودبانہ انداز میں کہا۔

                اب ایس پی فرہاد نے معزز مہمانوں کو مخاطب  کرتے ہوئے کہا۔” ویسے تو آپ لوگوں کے لئے مغربی انداز میں کھانے تیار کئے گئے ہیں۔  لیکن میری فرمائش پر باورچی نے اپنے ملک کا ایک خاص سالن تیار کیا ہے۔ آپ لوگ سُرخ مرچ استعمال نہیں کرتے لہذا ہم نے آپ کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ آپ اس ڈش کو ضرور چکھیں۔

                ” اس طرح کی ڈش ہوتی ہے؟“ اپنے سامنے لاتے ہوئے ڈونگے میں ایک نظر ڈالتے ہوئے ڈیوڈ نے ایس پی سے پوچھا۔ ابھی فرہاد جواب بھی نہیں دے پایا تھا کہ دیوڈ نے ایک اور فقرہ چست کیا۔” یہ تو  سیاہ رنگ کے پانی میں کچھ تیر رہا ہے۔“

                ” آپ کی حوصلہ افزائی کا بہت بہت شکریہ۔“ فرہاد نے کھاتے ہوئے کہا۔” مسٹر ڈیوڈ یہ دراصل شاہی کھانا ڈش ہر مغل بادشاہ دستر خوان کی رونق بنتی ہے۔“ فرہاد نے اس سے مخاطب ہو کر کہا ”اور یہ مغل کھانا اپنے مہمانوں کو یہ ڈش ضرور کھانے ہوں گے۔مسٹر ڈیوڈ نے پھر ایک فقرہ چست کیااس میز پر بیٹھے ہوئے سب محفوظ ہوئے۔ ڈیوڈ اس وفد میں سب سے کم عمر ، خوش طبع اور خوش ذوق آدمی تھا۔ اور اپنی انہی باتوں کی بناء پر وہ فرہاد سے زیادہ بے تکلف ہو گیا تھا۔ مگر ان دونوں  میں آپس کی بے تکلفی کی ایک اور وجہ بھی تھی اور وہ تھی ڈیوڈ کی روحانی علوم سے دلچسپی۔ اس کے علاوہ وہ دست شناسی میں بھی ماہر  تھا۔ اس نے فرہاد کا ہاتھ  بھی دیکھا تھا۔ سر سری باتیں تو بتا دی تھیں اور خاص خاص باتوں کو تحریر کر کے اسے ایک لفافے میں بند کر کے دے دیا تھا اور یہ ہدایت کی تھی کہ اس لفافے کو ڈیوڈ کے واپس اپنے وطن جانے کے بعد ہی فرہاد کھولے گا۔

                وفد کے افسر اعلیٰ نے جو عموماً لئے دیئے رہتا تھا۔ مگر کھانے کی میز پر بہت بے تکلف ہو جاتا تھا۔ اور اپنی خوش ذوقی اور اندازِ گفتگو سے سب کو محفوظ کرتا تھا۔ فرہاد سے مخاطب ہو کر کہا۔

                ” مسٹر فرہاد آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے اس جمہوری دور میں ایک شاہی ڈش کا اہتمام کیا۔ مگر میں اپنے ملک کے کھانوں کا اس قدر عادی ہو گیا ہوں کہ دوسرے  ملک میں جا کر وہاں کا صرف پانی ہی پینا پسند کرتا ہوں۔“

                ” آپ کی مشرق نوازی کا بہت بہت شکریہ سر۔“ فرہاد نے کہا۔ آپ کم از کم پانی  تو میزبان ملک کا پی لیتے ہیں۔ بعض لوگ تو پانی بھی مغرب سے لاتے ہیں۔“

                اس طرح کی پُتکلف گفتگو کے درمیان سب لوگ لنچ کھا کر فارغ ہو گئے اور اپنے اپنے کمروں میں طلے گئے۔

                فرہاد تھکا ہوا تھا۔ واپس لوٹتے ہی وہ مسہری پر دراز ہو گیا۔ بستر پر لیٹ کر اس نے گھڑی دیکھی، تقریباً دو بج چکے تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ گھڑی بالکل صحیح چل رہی ہے۔ یہ بات اسے حیران کیے دے رہی تھی کہ اس کے ریسٹ ہاؤس سے باہر جاتے ہوئے اور ویرانے میں پہنچ کر نستور سے گفتگو کرنے اور پھر واپسی تھی۔ کیا وقت کی نبضیں تھم گئی تھیں۔ یا وہ کسی اور دنیا میں چلا گیا تھا ۔ مگر اسے اچھی طرح  معلوم تھا کہ وہ موہنجوداڑو کے سب سے بڑے ٹیلے کی اوٹ میں کھڑا تھا اور جہاں جہاں وہ اس اثنا میں گیا تھا ان تمام اشیاء اور چیزوں کا تعلق اسی ارضی دنیا سے تھا۔ البتہ اس حسین عورت اور نستور کا کردار غیر مرئی ہو سکتا ہے۔ تو کیا اس عالم  ارضی میں غیر ارضی مخلوق کے ساتھ گزارنے والے لمحے کیا ارضی وقت کے دائرے سے باہر ہو جاتے ہیں اور پھر نستور کو جس کا تعلق جنات سے ہے ، غیر ارضی مخلوق نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ٹھیک ہے کہ جنات انسانی آبادیوں میں نظر نہیں آتے۔ لیکن وہ ریتے تو زمین پر ہی ہیں۔ شاید قدرت نے ان کی پہنچ اور دائرہ کار میں زمین و آسمان کی وسعتوں کو لامحدود کر دیا ہے۔

                ” مجھے نستور کا حکم ہر حال میں ماننا ہی پڑے گا۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں ہے مگر یہ سب کس طرح ممکن ہوگا ۔ ابھی تو اس وفد کا پورے ملک کا دورہ کرنے کا پروگرام ہے اور وہ ان کا افسر مہمان داری سے بھلا میرے لئے  کس طرح ممکن ہے کہ میں فوراً جا کر ناصر سے ملوں۔“ اس نے پریشان ہو کر کروٹ بدلی۔ معاً اس کمرے میں کسی غیر مئی وجود کا احساس ہوا۔ وہ اس کی موجودگی محسوس کر سکتا تھا۔ مگر اسے نظر نہیں آرہا تھا۔ کمرے میں ایک عجیب دل خوش کُن خوشبو پھیلتی ہوئی محسوس ہوئی جس سے اس کا مشام جان معطر ہوتا چلا گیا۔ کمرے میں اس خوشبو کی موجودگی نے اس تمام توہمات اور تفکرات دور کر دیئے۔ اس کی تھکن کافور ہو گئی اور ذہن  بالکل ہلکا پھلکا ہو گیا ۔ اس کی آنکھیں اس خوشبو کے احساس سے بوجھل ہوتی گئیں۔ اس نے نیند میں ہلکی سی سرگوشی سنی کوئی اس سے کہہ رہا تھا کہ اسے فکر مند نہیں ہونا چاہیئے۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس سرگوشی کرنے والے کو دیکھنے کی خواہش  کے باوجود نیند کی لذت ایسی تھی کہ اس نے آنکھ کھولنے میں بھی تکلف محسوس کی۔

                جب وہ سو کر اُٹھا تو بالکل ہشاش بشاش اور رتازہ دم تھا۔ اس نے گھڑی دیکھی شام کی چائے کا وقت ہوا ہی چاہتا تھا۔ جلدی سے اُٹھ کر وہ غسل خانے میں چلا گیا اور نہانے کے بعد لباس پہن کر شام کی چاہئے مہمانوں کے ساتھ پینے کے لئے ریسٹ ہاؤس کی سبزہ زار کی طرف چل دیا۔ جہاں ملازم نے گارڈن چیئرز لگا دی تھیں۔ اور شام چائے کا انتظار کر رہا تھا۔

                اس کا بے تکلف دوست ڈیوڈ بھی لان میں پہنچ چکا تھا لیکن وہ کرسی پر بیٹھنے کی بجائے باقی ساتھیوں کی آمد کا انتظار میں ٹہل رہا تھا۔

                ” ہیلو  ڈیوڈ ، گڈ ایوننگ۔“

                ” ہیلو فرہاد گڈ ایوننگ۔“

                ان دونوں کے درمیان رسمی گفتگو ہوئی ۔ فرہاد بھی اس کے  پاس پہنچ کر ٹہلنے لگا۔ تھوڑی دیر تک دونوں کے درمیان کوئی گفتگو نہ ہوئی اس کے بعد ڈیوڈ نے سوال کیا۔

                ” مسٹر فرہاد خیریت تو ہے آپ لنچ پر بہت  گھبرائے ہوئے تھے۔“

                ” تو کیا اس وقت میں مطمئن دکھائی دے رہا ہوں۔“ فرہاد نے مسکراتے ہوئے کہا۔

                ”ہاں اس وقت آپ کافی ہشاش بشاش نظر آرہے ہیں۔ مگر دوپہر کو آپ واقتاً بہت پریشان نظر آرہے تھے۔“ ڈیوڈ نے اس کے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا۔

                ” ہاں مسٹر ڈیوڈ میں پریشان تو تھا بات ہی ایسی تھی مگر۔۔۔۔۔ اب ایسی کوئی پریشانی محسوس نہیں کر رہا ہوں۔ مگر بات ہے پریشان کن ہی۔“ فرہاد نے ٹھہر ٹھہر کر طویل فقرہ پورا کیا۔

                ” بہت خوب مسٹر فرہاد ، آپ اس وقت بھی مذاق کے موڈ میں ہیں یعنی آپ پریشان بھی ہیں اور نہیں بھی ۔“ ڈیوڈ نے ہنس کر کہا۔

                ”دراصل مسٹر ڈیوڈ۔ میں نے جو عجیب و غریب واقعہ ناصر نامی ایک شخص کے بارے میں آپ کو سنایا تھا۔ میں اسی سلسلے میں پریشان ہوں۔“ فرہاد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔

                ” تو کیا وہ شخص یہاں تک آ کر تمہیں پریشان کر رہا ہے۔“ ڈیوڈ نے حیرانی سے دریافت کیا۔

                ” نہیں نہیں ڈیوڈ۔ جیسا کہ میں   تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ میں اسے بے قصور سمجھتا ہوں مگر اب مجھے کوئی غیر مرئی طاقت ناصر کی امداد کرنے کا حکم دے رہی ہے۔“ فرہاد نے کہا۔

                ” عجیب بات ہے۔“ ڈیوڈ نے کہا

                ” ہاں ہاں بالکل عجیب وغریب ۔۔ لیکن ڈیوڈ تمہارے لئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیئے۔ تم تو خود روحانی علوم اور غیر مرئی واقعات سے دلچسپی رکھتے ہو۔“

                ” نہیں نہیں میرا مقصد یہ نہ تھا میں تو ان چیزوں کا قائل ہوں۔ مجھے خود اپنی زندگی میں ایسے بہت سے عجیب و غریب واقعات سے سابقہ رہا ہے اور میں نے شاید تمہیں بتایا بھی تھا کہ میں نے اپنے تجربات و مشاہدات کو ایک اخبار میں لکھا بھی تھا۔“ ڈیوڈ نے کہا۔

                ڈیوڈ کی بات درمیان میں سے کاٹتے ہوئے فرہاد نے کہا۔

                ” اور تم نے وعدہ بھی کیا ہے کہ جیسے ہی تمہاری یہ کتاب ناشر چھاپے گا تم اس کی ایک کاپی مجھے بھیج دو گے۔“

                ” بالکل یہ پکا وعدہ ہے مسٹر فرہاد۔“

                ابھی دونوں کے درمیان باتیں ہو رہی تھیں کہ انہوں نے رالف کو اپنی طرف  تیزی سے بھاگتے دیکھا۔ ” خیریت تو ہے۔ کیا ہوا؟ ڈیوڈ اور فرہاد کی زبان سے بیک وقت یہ جملہ نکلا۔ وہ گفتگو بھول کر رالف کی طرف دیکھنے لگے۔ جو اب ان کے قریب پہنچ چکا تھا ۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا اس کے چہرے سے خوف اور اضطراب عیاں تھا۔

                فرہاد نے بے چینی سے پوچھا۔” مسٹر رالف کیا بات ہے؟ ڈیوڈ بھی اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھے جا رہا تھا۔

                رالف نے اٹک اٹک کر گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا ۔” ہمارے افسر اعلیٰ کی طبیعت خراب ہو گئی ہے۔ میں انہیں شام کی چائے کے لئے پہنچا تو وہ فرش پر بے ہوش پڑے ہوئے تھے نہ جانے کب سے۔ اسی وقت میں نے مسٹر ڈیوڈ کو کمرے میں دیکھا وہ موجود نہیں تھے۔ میں نے دوسرے ساتھیوں کی مدد سے انہیں اُٹھا کر بستر پر لٹا دیا ابتدائی طبی امداد کے نتیجے میں انہیں ہوش آگیا ہے مگر وہ پیٹ میں شدید درد کی شکایت کر رہے ہیں اور ان کا سر چکرا رہا ہے۔“

                یہ خبر سن کر ڈیوڈبھی پریشان ہو گیا اور وہ رالف کو وہیں چھوڑ کر اپنے افسر اعلیٰ کے کمرے کی طرف بھاگا یہ خبر سُن کر ایس پی فرہاد چند لمحوں کے لئے بالکل ساکت و صامت ہو گیا ۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے جو واقعات رونما ہو چکے تھے ان کی روشنی میں فرہاد کو یقین ہو گیا کہ اسی پر اسرار روحانی قوت نے ، جو ناصر کو تباہی سے بچانا چاہتی اس کے واپس پہنچنے کے اسباب فراہم کر دیئے ہیں۔ مگر ابھی اسے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ کس طرح اس غیر ملکی وفد کو واپس کراچی جانے پر آمادہ کر سکے گا۔گو وہ موہنجوداڑو میں تھے اور انہیں لاڑکانہ پہنچنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوگی  اور لاڑکانہ پہنچ کر اچھے سے اچھے ڈاکٹر سے علاج کرایا جا سکتا ہے کیونکہ پیٹ کا درد کسی قدر شدید نوعیت کا کیوں نہ ہو بہر حال اس کے لئے شاید خود غیر ملکی وفد کا سربراہ اپنا دورہ مختصر کرنا پسند نہ کرے گا۔ وہ انہی سوچوںمیں ڈوبا ہو ا تھا کہا رالف کی آواز اسے خیالوں کی دور وادیوں سے عالم حقیقت میں لے آئی۔

                ”مسٹر فرہاد آپ ہمارے وفد کے سربراہ کے لئے کیا کر رہے ہیں آپ کس سوچ میں پڑ گئے ۔ چلیے انھیں دیکھئے اور جو کچھ ممکن ہو کیجیئے۔“

                ” اوہ۔۔۔۔ مسٹر ۔ آپ پریشان نہ ہوں۔۔ اوہ۔۔۔ وہ کھوئے ہوئے سے انداز میں بے ربط گفتگو کر رہا تھا۔ بہر حال اپ فکر مند نہ ہوں میرے بس میں جو کچھ ہو گا میں ضرور کروں گا ہم اس وقت ڈاکٹر کو بلاتے ہیں دراصل میں یہی سوچ رہا تھا کہ کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔ خیر آئیے چلتے ہیں۔“ یہ کہہ کر ایس پی فرہاد اسے لئے ہوئے وفد کے سربراہ کے کمرے کی جانب روانہ ہوگیا۔

                دروازے کے قریب پہنچ کر وہ ایک دم ٹھٹھک کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے غیر ملکی ہمراہی نے دروازہ آگے بڑھ کر کھول لینا چاہا مگر اس نے اگے بڑھ کر اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ وہ سوالیہ نگاہوں سے ایس پی فرہاد کی جانب دیکھنے لگا۔

                ” کیوں کیا بات ہے؟“ رالف نے جھنجھلائے ہوئے انداز میں  پوچھا۔ آپ کیوں اندر جانا نہیں چاہتے۔“

                 مگر ایس پی فرہاد نے کوئی جواب نہ دیا وہ اس طرح مبہوت اور ششدر کھڑا ہوا تھا اوراس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں جیسے وہ عالم خواب میں ہو یا  پھر خلا میں کسی انجانی چیز کی جانب بڑے انہماک سے دیکھ رہا ہو۔

                رالف نے اس کے اسی عالم محویت میں اس سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور دروازہ کھول کر اپنے بیامر افسر اعلیٰ کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ ایس پی فرہاد اس درجہ خود فراموشی کی حالت میں تھا کہ اسے کچھ پتہ نہ چل سکا۔ تھوڑی دیر پہلے جو عورت اپنی ساحرانہ آنکھوں کی کشش میں اسے اسیر کر کے موہنجوداڑو کے ویرانے میں لے گئی تھی۔ وہ ابھی ابھی غیر ملکی وفد کے افسر اعلیٰ کے کمرے سے نکلی تھی۔ وہ اسے وہاں پاکر مبہوت ہو گیا تھا۔ اب وہ اندر کمرے میں جانے کی بجائے اس عورت کے تعاقب میں روانہ ہو گیا۔ اس عورت کی پشت اب اس کی جانب تھی۔ لہذا وہ اس کے سراپا کا جائزہ لے سکتا تھا۔ اس قبل وہ اس عورت کی ساحرانہ آنکھوں کی کشش کا اس درجہ اسیر  ہو گیا تھا کہ وہ ایک لمحے کو اس کی آنکھوں کے سامنے سے اپنی نظریں نہیں ہٹا سکا تھا مگر اب وہ آگے آگے تھی اس نے دیکھا کہ وہ متناسب جسم اور قدو قامت کی حسین عورت تھی۔ اپنی پوشاک سے وہ کسی معزز اور متمول خاندان کی عورت نظر آ رہی تھی۔ جب سر سے اس کی نگائیں اس حسین و جمیل عورت کے جسم کا طواف کرتی ہوئی پیروں تک آئیں تو وہ یہ دیکھ کر حیران اور بھونچکا  رہ گیا کہ اس عورت کے پیروں میں جوتا نہیں تھا۔ وہ ننگے پاؤں چل رہی تھی مگر ایک بات اور زیادہ حیران کن تھی کہ اس کے پیروں کے تلوے بہت زیادہ صاف و شفاف تھے ان پر ذرا بھی گرد نہیں لگی ہوئی تھی اور ان پیروں کی نفاست و نزاکت دیدنی تھی۔ حالانکہ ننگے پیروں چلنے  والے عورتوں یا مردوں میں پیروں کی یہ خوبصورتی برقرار نہیں رہتی۔ وہ اس کا تعاقب کرتے ہوئے ریسٹ ہاؤس کی بیرونی راہ داری میں آگیا۔ اب فرہاد اور وہ حسین عورت تنہا رہ گئے تھے۔ چلتے چلتے وہ عورت ایک دم رُک گئی اس نے پلٹ کر ایس پی کی جانب دیکھا اس کی انہی ساحرانہ آنکھوں سے اس کی  نگائیں ملیں اور خیال کی ایک  رو اسے اپنی پیشانی سے ٹکراتی ہوئی نظر آئی اسے یوں محسوس ہوا گویا وہ آنکھیں اسے واپس چلے جانے کو کہہ رہی ہوں ۔ پھر اس عورت کے چہرے پر ایک دلربانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔

                دوسرے لمحے ایس پی فرہاد کے دل میں یہ ِخیال تقویت پکڑ چکا تھا کہ اسے تعاقب ترک کر کے یا اس حسین و اجنبی عورت سے گفتگو کے شوق کو تشنہ چھوڑ کر واپس غیر ملکی وفد کے افس اعلیٰ کی عیادت اور ضروری انتظامات کرنے کی غرض سے نہایت تیزی سے پہنچنا چاہیئے۔

                یہ خیال آتے ہی وہ الٹے قدموں واپس ہوا۔ چند قدم چل کر تجسس اور کھوج نے اسے پھر اس اجنبی عورت پر ایک نظر ڈالنے کو اکسایا جب اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ حسین پیامبر غائب ہو چکی تھی۔

                اس حسینہ کے یکا یک غائب ہو جانے کے بعد جب وہ تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا غیر ملکی وفد کے سر براہ اعلعٰ کے کمرے میں پہنچا تو ڈیوڈ اور رالف  دونوں  فکر مند تھے۔ سربراہ اعلیٰ کا چہرہ بالکل پیلا پڑ گیا تھا اور اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے رونما ہونے شروع ہو گئے تھے۔ وہ درد کے سبب بے قرار ہو رہا تھا یوں لگتا تھا کہ درد کی لہرا اس کے اندر اس طرح ابھرتی اور گزرتی ہے کہ وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپ اُٹھتا ہے۔

                رالف نے ایسی آنکھوں سے جس میں شکایت پنہاں تھی، ایس پی فرہاد سے پوچھا” میں حیران ہوں کہ آپ کو کیا ہو گیا ہے، آپ دروازے تک آ کر کہیں اور چلے گئے تھے۔“

                ” مجھے معاف کر دو رالف۔ لیکن حالات ایسے ناقابل ِ بیان ہیں کہ میں اپنی صفائی میں تم سے کوئی خاص بات نہیں کہہ سکتا۔ ایس پی فرہاد نے ملتجانہ انداز  میں  جواب دیا۔

                ڈیوڈ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا” مسٹر فرہاد میرے خیال میں صاحب کی حالت بگڑتی ہی جا رہی ہے ، فرسٹ ایڈ کے طور پر ہم نے جو کچھ کاروائی کرنا تھی کی جا چکی ہے۔ اب کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیئے۔“

                ”آپ کا کہنا بالکل مناسب ہے لیکن مسٹر دیوڈ اس ویرانے میں کسی ڈاکٹر کا ملنا مجھے تو ناممکن بات نظر آتی ہے۔ قریب ترین شہر لاڑکانہ ہے مگر وہاں کسی ڈاکٹر کا ٹیلی فون نمبر بھی نہیں معلوم ہے خیر ٹھہریے میں جا کر ریسٹ ہاؤس کے ملاز م سے بات کرتا ہوں۔ آپ لوگ اس وقت تک مریض کے کمرے میں ہی رہیئے۔“

                ایس پی فرہاد نہایت تیزی سے قدم اُٹھاتا ہوا پہلے کچن میں گیا اس کا خیال تھا وہ ملازم کچن میں ہی ہوگا۔ لیکن وہاں جا کر معلوم ہوا کہ وہ کچن میں نہیں ہے۔ اس نے ادھر اُدھر ملحقہ کمروں میں نظر دوڑائی اسے آوازیں دیں۔ مگر کوئی جواب نہ ملا۔ ابھی وہ اسی شش و پنچ میں تھا کہ ملازم کہاں چلا گیا ہے کہ وہ سامنے سے آتا ہوا نظر آیا۔

                ” کہاں چلے گئے تھے تم؟ ایس پی فرہاد نے اس سے پوچھا۔

                ” سر یہیں ریسٹ ہاؤس میں ہی تھا۔“ ملازم نے جواب دیا۔

                ”ہم لوگ اس وقت شدید پریشانی میں مبتلا ہیں، کیا یہاں کوئی ڈاکٹر بھی مل جائے گا۔“

                ملازم نے جواب دیا کہ ریسٹ ہاؤس کے آس پاس تو کسی ڈاکٹڑ کے ملنے کی امید نہیں ہے۔ ٹیلی فون ڈائریکٹری کی تلاش کی گئی مگر وہ بھی مل کے نہیں دے رہی ہے۔ ایس پی فرہاد دوبارہ مریض کے کمرے  میں پہنچا اور اس نے جا کر رالف اور ڈیوڈ دونوں سے کہا۔

                ” خود ڈاکٹر کو بلانے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں ہے۔ اتفاق سے اس وقت ٹیلی فون ڈائریکٹری بھی نہیں مل رہی ہے جس سے کسی ڈاکٹر سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہو۔ رالف اور ڈیوڈ اس کی طرف پریشانی اور گھبراہٹ کے ملے جلے تاثرات سے دیکھ رہے تھے۔ ”مسٹر ڈیوڈ۔۔ “ نام کو ذرا کھینچتے ہوئے فرہاد نے کہا۔

                ” ملازم کو بھی ڈاکٹر بلانے کے لئے بھیجا جا سکتا ہے۔ مگر میرا خیال ہے کہ میں خود لاڑکانہ شہر جاؤں اور کسی ڈاکٹر کو بلا کر لاؤں۔ فاصلہ کوئی اتنا زیادہ نہیں ہے ڈیڑھ دو گھنٹے کے اندر  اندر بخوبی واپس آسکتا ہوں ۔ مگر اس میں نہ جانے مریض پر کیا گزر جائے۔“

                تھوڑی دیر وہ تینوں خاموش رہے ان کے سامنے مریض پڑا ہوا تھا۔ جو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد درد کی شدت سے چلا اُٹھتا تھا یوں لگتا تھا جیسے جوئی اسے اذیت دے رہا ہو۔

                ” مسٹر فرہاد “ ڈیوڈ ، سکوت توڑتے ہوئے گویا ہوا۔” میرے خیال میں ہمیں مریض کو اپنے ہمراہ ہی لے جانا چاہیئے۔ تاکہ ڈاکٹر کی امداد حاصل کرنے میں ہمیں کم سے کم وقت لگے۔ “ رالف نے بھی اس کی تجویز کی تائید کی۔

                نہایت عجلت میں انہوں نے سامان پیک کیا، ایک کار میں جسے فرہاد خود چلا رہا تھا انہوں نے پچھلی سیٹ پر مریض کو لٹا یا اور اگلی سیٹ پر ڈیوڈ اس کا شریکِ سفر تھا۔ ایک کار میں باقی اراکین بیٹھ گئے۔ تیز رفتاری سے سفر کرتے ہوئے وہ لاڑکانہ پہنچے۔ ریسٹ ہاؤس پہنچ کر انہوں نے جلدی جلدی ایک بستر تیار کر کے اس میں مریض کو لٹایا۔ اب ڈاکٹر کی تلاش کا مرحلہ تھا۔ ریسٹ ہاؤس کے ملازموں سے فرہاد کو معلوم ہو گیا تھا کہ ڈاکٹر بی اے علی شہر کے قابل ترین ڈاکٹروں میں سے ہے۔ چناچہ فرہاد کار لے کر اسی وقت ڈاکٹر کے بنگلے پر جا پہنچا شہر کی اس کالونی میں جہاں شہر کے متمول اور معزز لوگ رہتے تھے۔ اس وقت کوٹھیوں پر رات کے سائے پھیل چکے تھے۔ ڈاکٹر بی اے علی کی کوٹھی تلاش کرنے میں اسے کوئی خاص دشواری نہ ہوئی۔کوٹھی پر پہنچ کر اس نے کال بیل دبائی۔ ملازم نے باہر آکر نام دریافت کیا اور اسے اندر لے جا کر ملاقاتیوں کے کمرے میں بٹھا دیا۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت مصروف تھے۔ چند لمحوں تک تو وہ میز پر پھیلے ہوئے رسالوں کا جائزہ لیتا رہا مگر پھر اکتا کر اس نے رسالے دیکھنے بند کر دیئے اور کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ جب پراسرار قوت سے موہنجو داڑو کے ویرانے میں ملاقات کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں دوبارہ آیا تھا اور اسے غیر ملکی وفد کے سر براہ اعلیٰ کے اچانک بیمار ہو جانے کی اطلاع ملی تھی تو اسی وقت اس کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ اس بیماری کا تعلق جسم سے نہیں ہے اور شایدوہی پراسرار قوت جس نے اسے فوراً واپس چلے جانے کو کہا تھا۔ اس بیماری کا سبب بنی ہے۔ مگر وہ اپنے اس خدشے کا اظہار کسی سے نہیں کر سکتا تھا۔ کیوں کہ اس کا کوئی عقلی ثبوت وہ فراہم نہیں کر سکتا تھا ڈیوڈ سے اس کی بے تکلفی تھی اور ان دونوں میں اس دوستی اور بے تکلفی کی وجہ روحانی معاملات میں دلچسپی بھی تھی۔ مگر وہ ڈیوڈ سے بھی اس خیال کا اظہار کرتے ہوئے جھجک رہا تھا۔ مگر  جب وہ مریض کے کمرے کے باہر پہنچا تھا اور اس نے اسی پر اسرار حسینہ کو وہاں سے نکلتے ہوئے دیکھا تھا تو اس کا یہ وہم یقین  کی حد تک پہنچ گیا تھا کہ یہ سب کاروائی اس کی جلد از جلد روانگی کو منطقی اور ناگزیر صورت دینے کے لئے پُراسرار قوت کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ اس یقین کے باوجود وہ اپنا فرض سمجھ رہا تھا کہ ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کیا جائے اور مریض کو دکھایا جائے۔ وہ انہی سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ ایک میٹھے اور نرم لہجے نے اس کی محویت کو توڑ ڈالا۔ ڈاکٹر کمرے میں آ چکا تھا۔ اس نے آتے ہی کہا۔

                ” معاف کیجیئے گا آپ کو انتظار کی زحمت ہوئی فرمایئے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔“ ایس پی فرہاد نے اپنا تعارف کرایا اور اپنے آنے کا اصل مقصد بیان کیا۔

                ڈاکٹر بی اے نے جس کے چہرے پر مریض کا حال سُن کر ایک گھمبیرتا سی پیدا ہو گئی تھی۔

                 ڈاکٹر بی اے علی کا خیال تھا کہ شاید کھانے میں کوئی بد احتیاتی ہونے کی بنا پر ایسا ہوا ہوگا۔ کیوں کہ غیر ملکی حضرات ایشیائی ممالک میں غذا غیر خالص ہونے کی بنا پر اکثر و بیشتر اسی نوع کے امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

                ریسٹ ہاؤس پہنچ کر ڈاکٹر بی اے علی نے بہت توجہ اور دیر تک مریض کا معائنہ کیا اور مریض کے خون اور پیشاب کا میکینکل تجزیہ کرانے کے بعد ڈاکٹر نےا سی رات فرہاد کا اطلاع دی کہ بظاہر مریض کو کوئی مرض  نظر نہیں آتا۔ تجزیاتی رپوٹوں میں ہر چیز نارمل اور صحیح ہے۔

                ڈاکٹر کی اس رائے کو سننے کے بعد وہ اور زیادہ پریشان ہو گیا۔ وہ متفکر اور پریشان واپس ریسٹ ہاؤس  میں آیا۔ ڈاکٹر کی تجزیاتی رپورٹ پڑھنے کے بعد ڈیوڈ اور رالف بھی اپنے افسر اعلیٰ کے عجیب و غریب مرض کے بارے میں پریشان ہوگئے ایس پی فرہاد نے ان سے کہا۔” میرے خیال میں ہمیں دورہ منسوخ کرنا پڑے گا کیوں مسٹر ڈیوڈ کیا خیال ہے آپ کا؟“

                ”ہاں شاید یہاں کراچی کے مقابلے میں زیادہ بہتر طبی فراہم نہ ہو سکیں گی۔“ڈیوڈ نے اظہار ِ خیال کیا۔

                ” نہیں مسٹر ڈیوڈ۔ ایسی بات تو نہیں ہے اس شہر میں بھی اچھے معروف اور قابل ڈاکٹر موجود ہیں مگر پھر بھی میرا خیال ہے کہ۔۔۔۔ اور اس کے بعد کچھ نہ کہہ سکا۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر فرہاد نے کہنا شروع کیا۔

                ” مسٹر ڈیوڈ۔ میں ابھی آپ کو اس سلسلے میں کچھ نہیں بتا سکتا مگر میرا خیال ہے کہ اپ کے افسر اعلیٰ یہاں سے کراچی پہنچتے ہی صحت یاب ہو جائیں گے۔“

                ” اس کی کوئی خاص وجہ؟“ رالف نے دریافت کیا۔ ” کیا یہاں کی تیز گرمی اور خراب موسم کی بنا پر آپ ایسا کہہ رہے ہیں۔“

                ” ممکن ہے مسٹر رالف ایسا ہی ہو۔“

                ڈاکٹر بی اے علی بے ہوشی کی دوا مریض کو کھلا گیا تھا تاکہ درد کی شدت کم ہو جائے رات کے نو بجے تک فرہاد کے اس مشورے کو سب نے تسلیم کر چکے تھے کہ انھیں اولین فرصت میں واپس کراچی چلے جانا چاہیئے۔ فیصلہ ہو جانے کے بعد فرہاد ان لوگوں سے رخصت ہو کر ائیر پورٹ چلا گیا تا کہ سیٹیں ریزرو کرا سکے۔ وہاں جا کر اسے شدید مایوسی ہوئی کیوں کہ صبح کی فلائٹ کی تمام سیٹیں ریزرو ہو چکی تھیں۔ ویٹنگ لسٹ میں بھی کئی مسافروں کے نام تھے جنہیں سیٹ منسوخ ہونے کی صورت میں اولین موقع دیا جاتا۔ فرہاد نے ریزرویشن آفس کے افسر کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ اگر کچھ سیٹیں کینسل ہوتیں تو ان کے وفد کو بطور خاص زیرِ غور لایا جائے گا۔

                افسر اعلیٰ نے اس کی بات  تسلیم کرتے ہوئے کہا ” مجھےآپ کی مشکلات اور بے چینی کا اندازہ ہے۔ مگر یہاں سے ہر فلائٹ پر شاذو نادر ہی سیٹیں کینسل ہوتی ہیں ۔ بہرحال اگر ایسا کچھ ہوا تو میں اپ کو ریسٹ ہاؤس میں اطلاع دے دوں گا۔“

                فرہاد نے اُٹھ کر رخصت ہوتے ہوئے ہاتھ ملایا اور بولا۔ ” مجھے امید ہے کہ ہم اسی فلائٹ سے جا سکیں گے۔ میرا فون نمبر نوٹ کر لیں۔ ہم معمولی  نوٹس  پر بھی آجائیں گے۔ فرہاد خدا حافظ کہہ کر رخصت ہوا اور واپس ریسٹ ہاؤس آگیا۔

                وفد کے تمام اراکین بے چینی سے اس کی واپسی کا انتظار کر رہے تھے اس کے پہنچتے ہی ڈیوڈ اور رالف نے بے چینی سے دریافت کیا۔

                ” کیا سیٹیں ریزرو ہوگئی ہیں؟“

                ” نہیں ابھی تک تو کوئی اُمید نہیں ہے۔ کئی روز متعلقہ افراد نے وعدہ کیا ہے کہ اگر کوئی سیٹ کینسل ہوئی تو وہ ہمیں دے دیں گے۔“

                ڈیوڈ نے کہا۔” اگر صرف دو سیٹیں ہی مل جائیں تو میں صاحب کو لے کر چلا جاؤں گا ۔ باقی لوگ کار یا ٹرین کے ذریعے آسکتے ہیں۔“

                ” بہرحال کوئی نہ کوئی صورت تو اختیار کرنا ہی پڑے گی۔“ فرہاد نے کہا۔

                ” ویسے تمام ارکان اپنا اپنا سامان پیک کر لیں ممکن ہے ہمیں فوری نوٹس پر صبح کی فلائٹ سے جانا ہی پڑ جائے۔“

                مریض کی تیمار داری کے لئے ڈاکٹر بی اے علی نے ایک نرس بھیج دی تھی۔ لہذا وفد کے تمام اراکین  فراہاد اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تھے۔ نرس کو ہدایت کر دی گئی تھی کہ ایمرجنسی کی صورت میں وہ آکر فوراً اطلاع دے دے۔

                فرہاد اپنے بستر پر لیٹے لیٹے خیالات کے تانے بانے سلجھا رہا تھا۔ نیند اس  سے کوسوں دور تھی۔ رات کے بارہ بج چکے تھے۔ اس نے گھڑی دیکھی اور بے چینی سے کروٹ بدلی۔ اس کا دل کہہ رہا تھا کہ وہ کل صبح کی فلائٹ سے ضرور چلے جائیں گے وہ بہت دیر تک ناصر کے بارے میں سوچتا رہا۔ کہیں اس کی عدم موجودگی میں  متعلقہ تھانے کے اہلکاروں نے اس کے خلاف کوئی نئی کاروائی شروع نہ کر دی ہو ویسے  تو وہ انھیں ناصر کے سلسلے میں احتیاط برتنے کی ہدایت کرآیا تھا مگر نہ معلوم حالات کیا رُخ اختیار کر جائیں اور پولیس والوں کو کوئی سخت قدم اُٹھانا نہ پڑ جائے۔ انہی خیالوں میں نہ جانے کب اسے نیند آگئی۔

                ٹیلی فون کی آواز نے اسے جگا دیا۔ اس وقت رات کے ساڑھے چار بجے تھے ۔ اس نے گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے وقت دیکھا اور ٹیلی فون پر ہیلو کہنے کے بعد بولا

                ” ریسٹ ہاؤس فرہاد ایس پی“ دوسری طرف سے آواز آئی۔ میں ریزرولیشن آفس سے بول رہا ہوں۔ آپ کے لئے پانچ سیٹوں کا انتظام ہو گیا ہے۔ فلائٹ صبح ساڑھے چھ بجے جانے والی ہے۔

                فرہاد نے خوش ہو تے ہوئے کہا۔” اوہ تھینک یو آپ کی بہت مہربانی۔ مگر یہ ایک دم پوری سیٹوں کا انتظام کیسے ہو گیا؟“

                دوسری طرف سے جواب ملا۔ دراصل اسی فلائٹ سے جانے والے پانچ مسافر جو ایک کار میں سفر کر رہے تھے رات کسی وقت ایک حادثے سے دو چار ہو جانے کی بنا پر زخمی ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنا سفر ملتوی کر دیا ہے۔“

                ” اچھا خدا حافظ۔ ہم وقت مقررہ پر پہنچ جائیں گے۔“ فرہاد نے یہ کہتے ہوئے تیلی فون رکھ دیا اور شب خوابی کا گاؤن درست کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکلا تا کہ فرداً فردا   وفد کے تمام اراکین کو جا کر اطلاع دے سکے۔


Hayola

Sadiqul israr

روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ قسط وار مضمون ھیولا۔۔جن ، انسان اور روح کے درمیان کش مکش پر میں ایک خوب صورت کہانی  کی دستاویز پیش خدمت ہے۔