Topics

دوسرا تماشہ

                لیکن ناصر کے ساتھ  تو دوسرا تماشہ بن چکا تھا۔جیسے ہی جیپ آنکھوں سے اوجھل ہوئی ناصر کے دماغ کو ایک بار پھر ویسا جھٹکا لگا اور اس کے جسم پر سے ایک ہیولا اتر کر اس ایک فٹ کے فاصلے پر چلنے لگا ۔ ناصر نے اپنے  ہاتھوں سے سر کو تھام لیا اور خالی خالی نگاہوں سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔

                ” یہ مجھے کیا ہو گیا تھا۔؟“ اس نے سوچا۔

                لوگ اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے وہ ان کی نگاہوں کا مفہوم سمجھنے سے قاصر تھا۔ وہ جان پہچان کے لوگوں کی طرف دیکھتا تو وہ دوسری طرف دیکھنے  لگتے۔

                وہی پھل والا قریب ہی ٹھیلا لئے جا رہا تھا اس نے سوچا میں تو پھل لینے والا تھا ۔ اس نے پھل والے کو آواز دی۔

                ” فضلو بھیا!“

                اور فضلو پھل والا اپنا ٹھیلا چھوڑ کر یوں بھاگا، جیسے اس نے سچ مچ کوئی بھوت دیکھ لیا  ہو۔

                ”کمال ہے۔۔۔ کیا میرے سر پر سینگ نکل آئے ہیں۔۔ “ وہ بڑ بڑایا۔

                ” ہاں! سینگ ہی نکل آئے ہیں۔“ ہیولے نے قریب سے جواب دیا۔

                ناصر نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا لیکن جواب دینے والا نظر نہیں آیا۔ اس نے سوچا ہو سکتا ہے یہ میرا وہم ہو۔۔ لیکن پھر آواز آئی۔

                ” وہم نہیں۔ حقیقت ہے ناصر!۔“

                ناصر نے گھبرا کر اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر ادھر اُدھردیکھا ۔ لیکن کوئی ہوتا تو نظر آتا۔ وہ تو ایک ہیولا تھا۔۔۔ غیر مرئی۔۔ ناصر کے ذہن میں فوراً بھوت کا تصور اُبھرا اور خوف کی سرد لہر نے اس کے بدن پر کپکپی طاری کر دی۔

                ناصر کے دل و دماغ کی کیفیات کا اظہار اس کے چہرے سے نمایاں تھا اور صورتِ حال کچھ یوں بن گئی تھی کہ ناصر خود کسی غیر مرئی وجود سے خوف زدہ تھا اور ارد گرد کے لوگ ناصر سے خوفزدہ تھے۔

                ابھی یہ خوف کا تبادلہ ہو ہی رہا تھا کہ پولیس کی مخصوص سیٹیوں کی آواز پھر سنائی دی۔ ناصر نے پلٹ کر دیکھا۔ پولیس کی دو جیپیں اور ایک ٹرک جن میں مسلح پولیس کے جوان ایستادہ تھے تیزی سے اسی  طرف آتے ہوئے دکھائی دیئے۔

                جیپ کاریں اور ٹرک عین ناصر کے نزدیک آکر رُک گئے اور ناصر ہکا بکا ان پر سے اُترتے ہوئے پولیس افسران اور سپاہیوں کو دیکھنے لگا۔ آگے آگے ایس پی اور اس تھانے کا انچارج ایس او تھے ان کے پیچھے وہی اے ایس آئی تھا جو اپنے آپ کو ان دونوں افسران کے پیچھے چھپانے کی کوشش میں عجیب مضحکہ خیز لگ رہا تھا۔

                ٹرک سے اُترنے والے مسلح سبپاہیوں نے فوراً چاروں طرف بیٹھ کر پوزیشن لے لی۔ اور ایس پی باوقار انداز میں ناصر کی طرف بڑھا۔

                ناصر کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ یہ سب پولیس والے میرے گرد کیوں اکٹھے ہو رہے ہیں۔ وہ تو پولیس کے ایک عام سپاہی سے بھی خوف کھاتا تھا۔ کہاں اتنے افسران اور سپاہی اور وہ بھی مسلح۔ وہ حیران و پریشان ان کی طرف دیکھنے لگا۔ ایس پی نے پوچھا۔

”کیا نام ہے تمہارا۔۔؟“

                ”ج۔۔۔۔ج۔۔۔۔جی حضور! میرا ۔۔۔ ن۔۔۔نام!“

                ناصر نے ہکلاتے ہوئے کہا۔

                ” ہاں۔۔۔ نام  پوچھا ہے میں نے۔۔۔“ ایس پی نے کہا۔

                ” ن۔۔۔ن۔۔۔ناصر جناب۔“

                ایس پی نے پیچھے چُھپے ہوئے اے ایس آئی کی طرف دیکھا۔۔۔۔” ڈر کے مارے بات تو اس کے منہ سے نہیں نکل رہی اور تم کہتے ہو کہ یہ خطرناک آدمی ہے۔۔۔؟“

                جناب ہوشیار رہیں۔۔ یہ بن رہا ہے۔۔۔ میں آپ سے سچ۔۔۔۔“

                ” حماقت نہیں۔۔۔ چلو اسے ہتھکڑیاں لگاؤ او حوالات میں بند کر دو۔ بلا وجہ پریشان کر دیا۔۔۔“

                ”حضور میرا قصور؟“ ناصر نے ڈرتے ڈرتے کہا۔

                ” وہ بھی معلوم ہو جائے گا۔ مجھے یقین تو نہیں آرہا کہ تم کچھ کر سکتے ہو۔“

                ” جناب میری ماں بیمار ہے۔ میں اس کے لئے دوا لے کر جاؤں گا۔۔۔۔“

                ” لے جانا دوا بھی۔۔۔“ ایس پی نے کہا اور اپنی جیپ کی طرف مُڑ گیا۔

                ایس ایچ او نے ایک سپاہی کو اشارہ کیا اور اس نے آگے بڑھ کر ناصر کے ہاتھ میں ہتھکڑی ڈال دی۔ اے ایس آئی اب بھی بے یقینی کی کیفیت میں ناصر کو دیکھ رہا تھا اور ناصر ان سب کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے بکری قصائیوں  کو دیکھتی ہے۔

                نہ تو کوئی ہنگامہ ہوا نہ کوئی دقت پیش آئی اور ناصر کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔

                ایس پی نے ایس ایچ او کے دفتر میں بیٹھا ہوا کہہ رہا تھا۔

                ” مسٹر ریاض! یہ کیا چکر ہے، میں دلاور خان کو اتنا غیر ذمہ دار نہیں سمجھتا تھا۔“

                ” جناب۔ میری سمجھ میں خود نہیں آرہا۔ چاروں کانسٹیبل حلیفہ بیان دے چکے ہیں کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے یہ حیرت ناک واقعہ دیکھا ہے۔“

                ” او ہو۔۔۔۔۔! پھر وہی حیرت ناک واقعہ۔۔۔ میں کہتا ہوں ہم بیسویں صدی میں زندہ ہیں۔ اس ترقی یافتہ دور میں آپ نے ایسی خرافات پر یقین کیسے کر لیا۔۔۔۔۔ ریاض پلیز۔۔۔ اصل بات کچھ اور ہے۔۔۔۔ جنگو کے خلاف پہلے بھی شکایات میرے کانوں تک پہنچی ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جنگو کا کوئی دشمن یہ حرکت کر گیا ہو اور جنگو اب اس ہلاکو اس غریب کے سر منڈھنا چاہتا ہو۔۔“

                ” ایسا نہیں ہو سکتا جناب۔ ہم لوگ آپ کے سامنے جھوٹ بولنے کی جرات کیسے کر سکتے ہیں۔ اس میں تو خود ہمارے محکمے کی بدنامی کا اندیشہ ہے۔“

                ” ہوں۔۔“ ایس پی نے کہا۔۔۔” اچھا ناصر کو لاؤ یہاں۔“

                 ایس ایچ او نے گھنٹی بجا کر اردلی کو بلایا اور جیسے ہی اردلی چِک اُٹھا کر اندر داخل ہوا اسے حکم دیا ۔۔۔

                ” ناصر کو حوالات سے نکال کر یہاں لے آؤ۔“

                ” جی بہتر۔۔“ اردلی نے جواب دیا اور باہر نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد دو سپاہی ناصر کو لئے ہوئے اندر آئے۔ ناصر نے آتے  ہی ہاتھ جوڑ دیئے۔

                ” حضور۔۔۔ مائی باپ۔۔۔۔ رحم کیجیئے۔ میرا قصور کیا ہے آخر۔۔؟“

                ” بکواس بند کرو۔۔۔۔“ ایس ایچ او نے کہا اور ایس پی کی طرف دیکھنے لگا۔

                ایس پی نے اے ایس آئی دلاور خان کو بلانے کے لئے کہا۔ انچارج نے ایک سپاہی کی طرف دیکھا پھر کچھ سوچ کر ہیڈ محرر کو فون پر دلاور خان کی طلبی کا حکم دیا۔

                دلاور خان کمرے میں داخل ہوتے ہی لرز اُٹھا۔ سامنے ناصر کھڑا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔

                دلاور خان نے ڈرتے ڈرتے ایس پی کی طرف دیکھ کر سیلوٹ کیا اور ناصر سے دور ہٹ کر کھڑا ہوگیا۔

                ” تمہیں ہوا کیا ہے ۔۔؟“ ایس پی نے جھنجھلا کر کہا۔ ” ایک بے ضرر آدمی سے تم ایسے خوفزدہ ہو جیسے یہ کوئی ہوا ہے۔“

                ” جناب میں آپ کو کیسے سمجھاؤں۔۔۔“ دلاور خان نے کنکھیوں سے ناصر کی طرف دیکھا۔” جناب اگر آپ اس وقت موجود ہوتے تو آپ کے تاثرات بھی یہی ہوتے۔“

                ” شٹ اپ! تم مجھے اتنا بزدل سمجھتے ہو۔۔۔۔“ ایس پی نے میز پر مُکہ مار کر کہا۔

                ” یس سر۔۔۔۔ اوہ۔۔۔۔ نو سر!“ دلاور خان بوکھلا کر بولا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اگر ناصر ذرا بھی اپنی جگہ سے ہلا تو دلاور خان بھاگ  کھڑا ہوگا۔

                ایس پی نے ذرا نرم لہجے میں ناصر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔” اصل واقعہ کیا ہے تم ہمیں بتا دو۔“

                ' حضور مجھے تو جانے دیں۔۔۔ میری ماں بیمار ہے اس کے لئے دوا لے جاؤں گا۔ خدا آپ کا بھلا کرے گا۔۔ آپ کے بچے۔۔۔۔۔“

                ” بکو مت! جو پوچھ رہا ہوں بتاؤ۔۔ تم نے جنگو کو زخمی کیا ہے۔۔؟ ایس پی نے ناصر کی بات کاٹ کر کہا۔

                ” توبہ توبہ کریں حضور! میری یہ مجال۔“ ناصر نے جلدی سے کہا۔

                ” یہ ایسے نہیں بتائے گا۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔“ انچارج نے مداخلت کرتے ہوئے کہا اور ایس پی واپس اپنی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔

                عین اسی وقت ناصر کے ذہن کو پھر جھٹکا لگا۔

                اور ہیولا ناصر کے اندر سما گیا۔ کہاں تو ناصر سر جھکائے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ یکدم تن کر سیدھا ہوگیا۔۔

                ” وہیں کھڑے رہو تھانیدار جی !۔“ ناصر کے منہ سے غراہٹ نکلی۔

                انچارج کے بڑھتے ہوئے قدم رُک گئے اور ایس پی بھی چونک اُٹھا۔ دونوں سپاہی چوکنا ہو کر مستعد ہوگئے ۔ دلاور کا چہرہ سفید پڑ گیا۔

                انچارج نے سپاہیوں سے کہا۔ ” پکڑو اسے ۔“ اور دونوں کو  سپاہی ناصر کی طرف  جھپٹے۔ لیکن ناصر نے دونوں کو گردن سے پکڑ کر یوں اُٹھا لیا جیسے وہ گوشت پوست کے انسان نہ ہوں دو گڈے ہوں۔ وہ بے بسی سے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے اور دلاور خان ایک کونے  میں کھڑا لرز رہا تھا۔ ایس پی اور انچارج دونوں نے اپنے ریوالور نکال لئے ۔۔۔ اسی وقت دلاور خاں چیخا۔

                ” رک جایئے۔۔۔ ایس پی صاحب!“

                دلاورخان انھیں سمجھاؤ۔ گولی چلانے کا انجام کیا ہوگا۔“ ناصر نے تضحیک آمیز انداز میں کہا اور دونوں سپاہیوں کو گردن سے پکڑ ے ہوئے ایس پی  اور انچارج کی طرف بڑھا۔

                دونوں نے ریوالور جھکا لینے میں ہی عافیت سمجھی اور پیچھے ہٹتے ہوئے دیوار سے جا لگے۔ اتنی دیر میں دلاور خان کو موقع مل گیا وہ بے تحاشہ کمرے سے بھاگ نکلا۔۔۔۔۔

                ناصر نے دونوں سپاہیوں کو افسران کے سامنے زمین پر پٹخ دیا جو اس کے شکنجے سے آزاد ہو کر نیم مردہ اور بے حس و حرکت پڑے تھے۔

                ایس پی اور انچارج بہرحال مضبوط اعصاب کے مالک تھے وہ خوفزدہ ہونے کے باوجود اوسان بحال رکھنے میں کامیاب رہے تھے۔

                ناصر اطمینان سے گھوما اور کمرے سے نکل گیا۔ اتنی دیر میں پورے پولیس اسٹیشن میں کھلبلی مچ گئی تھی۔۔ چاروں سپاہیوں اور دلاور خان کی زبانی ناصر کی غیر معمولی  قوت و طاقت کا تذکرہ ہر ایک کی زبان پر آچکا تھا۔۔۔ کسی نے بھی اسے روکنے کی کوشش نہ کی اور وہ تھانے کے احاطہ سے نکلتا چلا گیا۔ لیکن وہ اس بات سے لاعلم تھا کہ اس کے پیچھے تھوڑے فاصلہ سے ایک سایہ اس کا تعاقب کر رہا تھا۔

پولیس اسٹیشن کی تاریخ میں یہ اپنی  نوعیت کا  پہلا واقعہ تھا۔

                ایس پی اور ایس ایچ او  دونو ں نے اپنے اوسان بحال رکھنے  میں بے مثال  جرات کا مظاہر کیا تھا لیکن اس کے باوجود ، دونوں ایک دوسرے سے آنکھیں چُرا رہے تھے ۔ انھوں نے کچھ دیر پہلے دلاور خان اور ان کانسٹبلوں کا مضحکہ اُڑایا تھا اور اب خود دونوں افسران اسی قسم کی سچویشن کا شکار ہو گئے تھے۔

                ایس پی بوجھل قدموں سے چل کر میز کے قریب آیا اور پھر پلٹ کر انچارج  تھانہ سے مخاطب ہوا۔

                ” کامران کو بلواؤ۔۔۔ہری اپ۔۔“

                ”جی بہتر۔۔۔ ایس ایچ او نے کہا اور ٹیلیفون کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ اس نے ہیڈ محرر کو کامران کے بارے میں ہدایت دی۔ اور رسیور کریڈل پر رکھ دیا۔

                چند لمحوں بعد کامران کمرے میں داخل ہوا۔ اور سیلوٹ کر کے اٹینشن ہو گیا۔

                ” اسٹینڈ ایزی۔“ ایس پی نے کہا۔ ” ابھی ابھی ایک ملزم فرار ہوا ہے یہاں سے۔ جانتے ہو اسے؟

                ” یس سر! اس وقت وہی پورے تھانہ کا موضوع گفتگو بنا ہوا ہے۔“ کامران نے جواب دیا۔

                ” تفصیلات بعد میں معلوم کر لینا۔ فی الفور اس کا تعاقب کرو لیکن پوشیدہ رہ کر۔ وقت بالکل نہیں ہے۔ ایسے مواقع پر کن معلومات کی ضرورت ہوتی ہے تم اچھی طرح جانتے ہو۔“ ایس پی نے جلدی جلدی سمجھایا۔” یہ کیس انتہائی پراسرار ہو گیا ہے ۔۔۔ خدا کی پناہ ! میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کسی شخص میں یک بیک اتنی طاقت پیدا ہو سکتی ہے حالانکہ تھوڑی دیر قبل۔۔۔۔ خیر چھوڑو۔ بس اب روانہ ہو جاؤ۔۔۔ میں اسے مِس نہیں کرنا چاہتا۔“

                ” جی بہت بہتر۔“ کامران نے کہا اور اُلٹے پاؤں کمرے سے نکل گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                ناصر ہیولے کا معمول بنا ہوا تیزی سے گھر کی طرف چلا جا رہا تھا کہ راستے میں ایک جگہ بھیڑ دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔کامران بھی سادہ لباس میں اس سے تھوڑی  دُور رک کر جائزہ لینے لگا اور بھیڑ میں اسے ناصر کے قریب آنے کا موقع ملا۔

                سڑک کے کنارے ایک لحیم شحیم شخص جو تقریباً لباس سے بے نیاز تھا بیٹھا ہوا جھوم رہا تھا۔ منہ سے کف بہہ رہا تھا۔ بدن پر میل کی تہیں اس طرح جمی ہوئی تھیں کہ اصلی کھال کی رنگت کا اندازہ کرنا بھی محال تھا ارد گرد پالش کی خالی ڈبیاں بکھری پڑی تھیں۔ اس کی انگلیاں پالش میں لتھڑی ہوئی تھیں نہ صرف انگلیاں بلکہ منہ، ٹھوڑی اور ناک کی پھنگل بھی پالش میں لت پت تھی۔

                قریب ہی دو خوش پوشاک آدمی بیٹھے تھے۔۔۔ چیری بلاسم اور کیوی کی سر بند ڈبیاں ان کے ہاتھوں میں تھیں ارد گرد کھڑے ہوئے لوگ آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔

                ” اللہ کے کھیل بھی نیارے ہیں۔“ ایک بولا۔

                ” ٹھیک کہتے ہو میاں!  اب سائیں بابا ہی کو لو۔ بھلا کوئی انسان بوٹ پالش کھا کر زندہ رہ سکتا ہے؟“ ایک ادھیڑ عمر کے صاحب نے جواب دیا۔

                ” اس پر طاقت کا یہ عالم ہے، ایک دن رنگے نانبائی کو دھکا دیا تھا، اس کے ہوش ٹھکانے آگئے۔“ تیسرے نے لقمہ دیا۔

                ” بھائی جی! اس کے بعد رنگے کے دن کیسے پھر گئے تھے یہ نہیں دیکھا آپ نے!“ کسی نے کہا۔

                ” سائیں  بابا جس کسی سے پالش لے لیتے ہیں اس کی قسمت کے ستارے بدل جاتے ہیں۔۔ ان دونوں کو دیکھو کیسی منتیں کر رہے ہیں لیکن معلوم ہوتا  ہے جیسے سائیں بابا سُن ہی نہیں رہے۔۔۔“ کسی طرف سے آواز آئی۔

                ” اڑے ہٹو نیں! کیوں خالی پیلی بابا کو تنگ کرتا پڑا ہے۔“ ایک مکرانی نے لوگوں کو پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا۔

                سائیں بابا اپنی دھن میں مگن جھوم رہے تھے اور لوگ آپس میں ان کے متعلق تبادلہ ء خیال کر رہے تھے ، ان میں ایسے راہ گیر بھی شامل تھے جو ہجوم کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔۔۔ ایسے لوگ بھی تھے جو سائیں بابا کو کافی مدت سے جانتے اور ان کے عقیدت مند تھے کمی ان بے عقیدہ لوگوں کی بھی نہیں تھی جو ان  باتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے اور سائیں بابا کو ایک  پاگل  سمجھتے تھے ایسے لوگ دبی زبان سے اس بات کا اظہار بھی کر رہے تھے کہ ایسے پاگلوں کی جگہ سوائے پاگل خانے کے اور کوئی نہیں ہونی چاہیئے۔

                اچانک سائیں بابا نے ایک طویل ہُو کا نعرہ لگایا اور اپنی لال انگارہ سی دہکتی آنکھیں مجمعے کی طرف اُٹھائیں۔ ہر شخص اپنے اپنے عقیدے کی عینک لگا کر سائیں بابا کو دیکھنے لگا۔

                سائیں بابا نے ہجوم پر ایک اچٹتی ہوئی سی نگاہ ڈال کر اپنے قریب بیٹھے خوش پوش نوجوان کے ہاتھ سے پالش کی ڈبیہ لے لی۔

                 اس نوجوان کی آنکھوں میں جذبہ تشکر سے آنسو بھر آئے۔

                سائیں بابا بولے۔۔۔ گھر بناتا۔۔ مدینے جاتا۔۔ ہُو۔۔۔ ہُو اُو۔۔ اُو۔۔۔۔۔“

                مجمع میں سے کسی شخص نے کہا۔۔۔” لو بھائی تمہارا تو بیڑا پار ہے۔“

                ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ سائیں بابا نے ایک بار پھر نظریں اُٹھائیں اور ادھر اُدھر ایسے دیکھنے لگے جیسے کچھ تلاش کر رہے ہوں۔

                ”کدھر ہے!!!“

                انھوں نے تیزی سے اپنی جلالی آنکھیں گھمائیں اور اس طرف مُڑے جدھر ناصر کھڑا ہوا تھا۔

                کامران بھی اتنے عرصے میں ناصر کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا۔۔۔ ابھی بابا کی نظریں ناصر تک نہیں پہنچی تھیں کہ وہ لڑکھڑا کر نیچے گر گیا۔

                کامران نے فوراً جھک کر ناصر کو دیکھا وہ بےہوش ہو چکا تھا اور ابھی دو تین آدمی اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ کسی نے کہا۔

                ” بھئی پانی لاؤ۔۔“

                ایک آدمی بھاگ کر کہیں سے پانی لے آیا اور کامران نےچلو میں تھوڑا سا پانی لے کر ناصر کے منہ پر چھینٹا مارا۔ یہ دیکھ کر سائیں بابا بولے۔

                ” نہیں۔۔۔۔۔ یہ نہیں ہے۔ وہ تو بھاگ گیا۔۔۔ ہُو اُو ۔۔۔ اُو۔۔۔“

                اور سائیں بابا اُٹھ کر تیز قدموں سے روانہ ہوگئے۔ کامران کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ اب کیا کرے ۔ ناصر کو چھوڑ کر سائیں بابا کے پیچھے جائے یا ناصر کی دیکھ بھال کرے۔ تھوڑی دیر تک سوچنے کے بعد اس نے طے کیا کہ سائیں بابا تو یہیں سڑکوں پر پھرتے رہتے ہیں ان سے پھر مل لیا جائے گا۔ فی الوقت ناصر کو ہی سنبھالنا چاہیئے۔

                اتنی دیر میں ناصر کو ہوش آ چکا تھا اور وہ ہونقوں کی طرح ایک ایک کی شکل دیکھ رہا تھا۔ کچھ لوگ سائیں بابا کے پیچھے چلے گئے تھے اور دو چار ناصر کے پاس کھڑے ہوئے تھے۔ کامران نے ناصر کے قریب جا کر پوچھا۔

                ” کیسی طبیعت ہے اب آپ کی؟“

                ” ٹھیک  ہی ہوں۔ جانے کیا ہو جاتا ہے مجھے۔ آپ کون ہیں۔۔؟ ناصر نے کامران کی طرف مخمور آنکھوں سے دیکھ کر کہا۔

                ” بھئی میں ایک راہ گیر ہوں۔ یہ سب لوگ بھی آپ کو گرتا دیکھ کر جمع ہو گئے ہیں۔ خیریت تو ہے؟“

                ” میں کہاں ہوں؟“ اس نے ارد گرد حیران و پریشان ہو کر دیکھا پھر بولا۔۔۔” یہ تھانہ تو نہیں ہے۔ میں تو تھانے میں تھا۔۔!“

                ” آپ اپنے حواس درست کر لیں یہ تھانہ نہیں سڑک ہے۔ رہتے کہاں ہیں آپ۔۔؟ آئیے میں آپ کو گھر تک پہنچا دوں۔۔“ کامران نے اسے سہارا دے کر اُٹھاتے ہوئے کہا۔

                ” رہنے دیجیئے۔۔ میں خود چلا جاؤں گا۔ آپ کہاں زحمت کریں گے۔“ ناصر نے کامران کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُٹھتے ہوئے کہا۔

                ” اس میں زحمت کی کیا بات ہے۔۔ یہ تو میرا اخلاقی فرض ہے۔ آپ کی جگہ میں اس حالت میں ہوتا تو کیا آپ میری اتنی سی بھی مدد نہ کرتے۔“ کامران نے ناصر کو قائل کرنا چاہا۔

                 اور لوگوں نے اپنی اپنی راہ لی۔ ناصر ، کامران کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ وہ بے پناہ نقاہت محسوس کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر قبل کے واقعات اسے بالکل  یاد نہیں تھے۔ اسے بس اتنا یاد تھا کہ وہ تھانے میں ایس پی کے سامنے کھڑا تھا۔ پھر کیا ہوا اور وہ کس طرح یہاں پہنچا۔ اس کے ذہن میں کچھ نہیں تھا۔ غیر حاضر دماغی کی یہ کیفیت آج دوسری مرتبہ پیش آئی تھی۔

                ” میں سچ مچ پاگل ہو جاؤں گا۔۔“ ناصر بڑ بڑاہا۔

                ” یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔۔ کچھ مجھے بھی بتائیے۔ آپ کی باتوں میں ربط نہیں ہے۔ ابھی آپ کہہ رہے تھے کہ تھانہ نہیں ہے۔“ کامران نے پوچھا۔

                ” بات ہی کچھ ایسی ہے بھائی صاحب!“ ناصر نے کہا۔

                ” مجھے کامران کہتے ہیں۔ میں ایک سوشل ورکر ہوں۔۔ آپ کی تعریف؟۔۔ کامران نے تعارفی سلسلہ شروع کیا۔۔۔!

                ” میرا نام ناصر ہے۔ یہاں قریب ہی کے علاقے میں مزدوری کرتا ہوں۔۔“ ناصر نے جواب دیا۔

                ” تھانے کا کیا قصہ تھا؟“ کامران نے اسے ٹٹولتے ہوئے کچھ پوچھا۔

                ” کچھ گڑ بڑ ہے ضرور۔۔ سمجھ میں نہیں آتا یہ سب کچھ کیسے ہو گیا۔۔“ ناصر خود کلامی کے سے انداز میں گویا ہوا۔

                ” ناصر بھائی ! آپ تو معمول میں باتیں کر رہے ہیں۔۔۔ کیا گڑ بڑ ہے اور کیا کیسے ہو گیا۔ کچھ وضاحت تو کیجیئے۔ ہو سکتا ہے کہ میں ہی آپ کی کچھ مدد کر سکوں۔“ کامران نے اسے مزید ٹٹولنے کی کوشش کی۔


Hayola

Sadiqul israr

روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ قسط وار مضمون ھیولا۔۔جن ، انسان اور روح کے درمیان کش مکش پر میں ایک خوب صورت کہانی  کی دستاویز پیش خدمت ہے۔