Topics

پولیس کا ذہین ترین سراغراں

                ” آپ کیا مدد کریں گے کامران بھائی۔ جبکہ مجھے خود صحیح صورتِ حال کا پتہ نہیں ہے۔“ ناصر نے جز بز ہو کر جواب دیا۔

                ” پھر بھی کچھ تو معلوم ہو آخر کوئی سر پیر تو ہوگا حالات کا۔“

                کامران پولیس کا ذہین ترین سراغراں تھا اور بات اگلوانے کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ ایس پی نے کافی اعتماد کے ساتھ یہ کیس اس کے سپرد کیا تھا۔ باوجود کم عمری کے اس نے اپنے محکمے میں بہت تھوڑے عرصہ میں شہرت حاصل کر لی تھی۔

                بات ابھی یہیں تک پہنچی تھی کہ ناصر کا گھر آگیا۔ ناصر نے کامران کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

                 ” کامران بھیا! وہ میرا گھر ہے سامنے۔۔ آیئے ۔۔ اندر چل کر بیٹھتے ہیں۔“

                 ناصر نے دروازہ کھٹکھٹایا اور تھوڑی دیر  کے بعد ناصر کی ماں نے دروازہ کھول دیا۔ ناصر کے ساتھ ایک نئے آدمی کو دیکھ کر اس کی ماں ایک طرف ہوگئی اور  ناصر، کامران کے ساتھ داخل ہو گیا۔

                ” ناصر بیٹے اتنی دیر۔۔۔ کہاں رہ گئے تھے آج؟“ ماں نے پوچھا

                ” بس دیر ہوگئی ماں۔۔ اگر ہو سکے تو دو پیالی چائے بنا دو۔۔ یہ میرے دوست ہیں کامران صاحب۔۔۔ بہت ہمدرد آدمی ہیں“ ناصر نے ماں کو بتایا اور اس طرح ماں کا اصل سوال ٹال گیا۔

                ” ابھی بناتی ہوں بیٹے۔ تم  چلو اندر۔۔۔“ ماں نے کہا اور اس کے ساتھ ہی  ان پر کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ ناصر کمرہ میں جانے کے بجائے پلٹ کر فوراً ماں کے پاس آیا اور قریب پڑی چارپائی پر لٹانے کے لئے سہارا دے کر بولا۔

                ” رہنے دو ماں۔۔ میں ہوٹل سے چائے لے آؤں گا تم آرام کرو۔“

                ” ارے نہیں بیٹے۔ یہ روگ تو زندگی کے ساتھ ہے۔ گھر کے کام تو کرنے ہی پڑٖتے ہیں۔ اللہ تمہیں خوش رکھے۔۔۔۔۔ اب میں ٹھیک ہوں تم جاؤ۔ اپنے دوست کے پاس بیٹھو۔۔ میں چائے بناتی ہوں۔“ ماں نے ناصر کو پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

                ناصر کچھ دیر کھڑا ہو کر اپنی ماں کو حسرت سے دیکھتا رہا اور پھر ٹھنڈی سانس بھر کر کمرے میں داخل ہو گیا۔

                کامران چارپائی پر بیٹھا ہوا کسی سوچ میں غرق تھا۔

                ” کیا سوچ رہے ہو کامران بھیا۔۔“ ناصر نے پوچھا

                ” ہوں۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔ بس ایسے ، تمہارے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔ اب بتاؤ یہ واقعات کس طرح ظہور میں آئے“ کامران نے کہا۔

                ” کامران بھائی! حالانکہ یہ ہماری پہلی ملاقات ہے لیکن آپ کے ہمدردانہ رویہ کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ہماری دوستی برسوں پُرانی ہے۔“ نا صر نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے اظہار ِ خیال کیا۔

                ”خلوص کے لئے ماہ و سال کی طوالت بے معنیٰ ہے ناصر بھائی۔۔“

                ” تم ٹھیک کہتے ہو۔۔۔ ان واقعات کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ آج جب میں کام پر سے واپس آرہا تھا تو جنگو نے مجھے راستے میں روک لیا۔ جانتے ہو تم جنگو کو؟“ ناصر نے سوال کیا

                ” اسے کون نہیں جانتا۔۔ وہ تو شیطان کی طرح بدنام ہے۔۔ اس نے کیوں روکا تھا تمہیں؟“ کامران نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔

                ” جی وہ ہمیشہ دادا گیری کرتا ہے۔ جب موقع ملے پیسے چھین لیتا ہے۔ آج بھی اس نے اپنے بھتے کا تقاضہ کیا تھا اور مار پیٹ پر اتر آیا تھا۔۔۔ بس اس کے بعد میرے ذہن پر تاریکی چھا گئی۔ شاید اس کی مار کی وجہ سے میں اپنے حواس کھو بیٹھا تھا۔ جب ہوش آیا تو جنگو اور اس کے ساتھی تو نہیں معلوم کہاں چلے گئے لیکن پولیس والوں نے پکڑ لیا اور لے جا کر حوالات میں بند کر دیا۔“ ناصر نے بتایا۔

                ” کیوں۔۔ کیوں بند کر دیا تھا تم کو۔۔؟“ کامران نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔

                ” بس جی وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے جنگو کو زخمی کر دیا ہے اور وہ ہسپتال میں پڑا ہے۔ آپ ہی انصاف کریں کامران بھائی! میں جنگو کو کیسے زخمی کر سکتا  ہوں  ، میری تو اسے دیکھ کر ہی روح فنا ہو جاتی ہے۔ وہ مار مار کر میرا بھرکس نکال دیتا ہے۔۔۔ میں اس پر ہاتھ اُٹھاؤں گا؟؟ وہ سب تو کہہ رہے تھے کہ میں نے اس کے دو ساتھیوں کو بھی زخمی کر دیا ہے۔ تینوں کی حالت نازک ہے۔ بھلا آپ کو میں ایسا آدمی نظر  آتا ہوں؟۔۔“ ناصر نے اپنی بپتا کامران کو سناتے ہوئے کہا۔

                ” عجیب و غریب اور حیران کر دینے والے واقعات ہیں۔۔۔ اچھا پھر کیا ہوا؟  کامران نے پوچھا۔

                ” بس جی یہیں تو دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔۔۔ میں تھانے میں کھڑا افسروں سے التجا کر رہا تھا۔ کہ پھر نجانے کیا ہو گیا مجھے۔۔۔ اور جب ہوش میں آیا تو آپ کو اپنے اوپر جھکا پایا۔۔۔ نہ تھانہ تھا نہ پولیس والے تھے۔۔۔ سڑک پر پڑا ہوا تھا۔۔۔ اب آپ بتائیے میں ان باتوں سے کیا نتیجہ نکالوں؟“

                ناصر نے خلا میں گھورتے ہوئے رک رک کر کہا۔

                ” ناصر بیٹے! چائے لے جاؤ۔۔ ماں نے آواز دی۔۔۔

                ”آیا ماں۔۔۔“ ناصر نے کہا اور چائے لے کر واپس آگیا۔

                 کامران چائے پیتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اس قدر سادہ لوح انسان فریب کاری  کا مرتکب ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اپنے پیشہ ورانہ تجربے کی روشنی میں اس کے لئے یہ یقین کرنا  زیادہ مشکل نہیں تھا کہ ناصر ضرور کسی خوفناک سازش کا شکار ہوا ہے۔۔ لیکن واقعات کی عینی شہادتیں اسے مشکوک ثابت کرنے پر جمی ہوئی تھیں۔ بہرحال ان شہادتوں کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا تھا۔ ناصر کے خیال میں کہیں سے کوئی اہم کلیو غائب ہے۔

                ”کامران بھائی! پولیس والوں نے یہ  الزام بھی لگایا تھا کہ جنگو کو زخمی کر کے اس کی ساری پونجی لوٹ لی ہے۔۔ یہ دیکھیئے میرے پاس تو صرف اپنی مزدوری۔۔۔۔۔۔۔“ ناصر نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پیسے نکالنے چاہے۔

                ” ارے !یہ کہاں سے آیا؟“ ناصر کا ہاتھ جیسے ہی جیب سے باہر آیا۔ اس میں چند نوٹوں کے علاوہ جنگو کا پھولا ہوا بٹوا بھی موجود تھا ناصر کو جیسےسانپ سونگھ گیا۔۔۔۔۔ نوٹوں کی گڈیاں بٹوے سے باہر جھانک رہی تھیں۔۔۔ ناصر کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔۔۔ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔

                کامران نے معنی خیز نظروں سے ناصر کی طرف دیکھا۔۔۔ اب تک ناصر کے بارے میں جو نظریہ اس نے قائم کیا تھا وہ باطل ہوتا ہوا نظر آیا۔ اس نے سوچا کہ ہو سکتا ہے گھاگ مجرموں کی طرح ناصر شروع سے لے کر اب تک اداکاری ہی کر رہا ہو۔۔ لیکن پھر دوسرے لمحے اسے سائیں بابا کے الفاظ یاد آگئے اور کامران عجیب شش و پنج میں پڑ گیا۔

                ” کیا یہ بٹوہ تمہارا نہیں ہے؟“ اس نے ناصر سے پوچھا۔

                ” ن۔۔۔نہیں۔۔۔۔ نہیں کامران بھائی۔۔۔!“

                 ناصر کی آواز میں لکنت پیدا ہو رہی تھی اور وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے بٹوے اور اس میں رکھی ہوئی رقم کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور بدن پر کپکپی طاری ہو گئی تھی۔

                ” خدا شاہد ہے بھیا۔ مجھے نہیں معلوم یہ بٹوا کیسے میری جیب میں آگیا۔“ ناصر رحم طلب نظروں سے کامران کی طرف دیکھ رہا تھا۔

                کامران نے آگے بڑھ کر ناصر کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا اور بولا۔

                ” گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ مجھے یقین ہے تم بے قصور ہو۔ سانچ  کو آنچ نہیں۔ اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو میرا مشورہ ہے کہ تمہیں فوراً تھانے پہنچ کر ساری حقیقت بیان کر دینی چاہیئے۔ ورنہ یہ رقم تمہارے لئے مصیبتوں اور پریشانیوں کے دروازے کھول دے گی یہ تمہارے خلاف ناقابلِ تردید ثبوت ہوگا۔“

                ” تھانے والے مجھے پکڑ لیں گے!“ ناصر نے ڈرتے ہوئے کہا۔

                ” نہیں بھئی جب تم خوود ان کے پاس  جاؤ گے تو صورتِ حال دوسری ہوگی۔ ایس پی صاحب میرے جاننے والے ہیں۔ میں ان سے تمہاری سفارش کروں گا۔ “ کامران نے ڈھارس بندھائی۔

                ” نہیں بھائی مجھے خوف معلوم ہوتا ہے۔۔۔ حالات میرے خلاف جارہے ہیں ۔ کوئی میری بات کا یقین نہیں کرے گا۔۔۔ میں انھیں کیسے یقین دلاؤں گا۔۔“ ناصر  روہانسا ہو کر بولا

                ” ناصر۔۔۔ ناصر۔۔۔ مرد ہو کر روتے ہو۔۔۔ اللہ پر بھروسہ کرو۔ میں تمہیں  کسی مشکل میں  نہیں پھنسنے  دوں گا۔۔۔ تم چلو تو سہی۔۔“ کامران نے اسے دلاسہ دیا۔

                ” کامران بھیا! میرا اس دنیا میں سوائے بیمار ماں کے اور کوئی نہیں ہے۔ اگر ان لوگوں نے مجھے گرفتار کر لیا تو میری ماں کا کیا بنے گا۔ وہ تو پہلے ہی بہت دُکھی ہے۔ دوا وارو کئے بغیر مر جائے گی بے چاری۔۔“

                ” دیکھو ناصر! جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں۔ اگر تم خود قانون کے سامنے پیش نہ ہوئے تو پولیس جلد یا بدیر تم تک پہنچ جائے گی اور پھر تمہارے لئے زیادہ پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ تم کو چاہیئے کہ ایک قانون پسند شہری کی طرح خود کو قانون کے حوالے کر کے انصاف چاہو ورنہ ان حالات میں پتہ نہیں کیا کچھ ہو جائے۔ سب میں دیکھ رہا ہوں کہ تم ایک سادہ لوح ہو۔ تمہارے لئے یہی بہتر ہے چلو  ساتھ میرے ۔ کامران نے کہا۔

                ” چلوں۔۔!“ ناصر گھگایا۔

                ”ہاں بھئی۔ فکر مت کرو سب ٹھیک ہو جائے گا“ کامران نے کھڑےہوتے ہوئے کہا۔

                ” ناصر نے ماں سے کہا کہ وہ کامران کے ساتھ ایک ضروری کام سے جا رہا ہے اگر دیر ہو جائے تو فکر نہ کرے اور بادل نخواستہ کامران کے ساتھ باہر آگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                نستور کے لئے انسانوں کی یہ دنیا واقعی ایک عجوبے سے کم نہیں تھی۔ اس کا تعلق قوم جنات سے تھا اور ایک سیاح کی طرح وہ کار خانہ قدرت کی دوسری مخلوقات کو دیکھنے کا عزم لے کر اپنے لوگوں سے رخصت ہوا تھا۔ اس کے والدین نے اس طرح جانے کی مخالفت بھی کی تھی۔

                نستور کے والد اپنے علاقے کے ایک معزز جن تھے۔ نستور کے دل میں انسانی دنیا دیکھنے کی خواہش اس لئے بھی کروٹیں لے رہی تھی کہ وہ اپنے والد کے ساتھ ان کے پیر و مرشد کی خدمت میں کئی مرتبہ حاضری دے چکا تھا۔۔۔ اور پیر و مرشد کا تعلق انسانوں کی اسی حسین و جمیل اور پراسرار دنیا سے تھا۔ پیر و مرشد نے نستور کے والد کی طرح روحانیت کی کئی منازل اس کو بھی طے کرا دی تھیں اور وہ نستور سے اپنی اولاد کی طرح محبت کرتے تھے۔

                ایک دن جبکہ پیر و مرشد بہت خوش  بیٹھے تھے نستور نے ان سے یہ انسانی دنیا جو اس کی نظروں میں حسین و جمیل ہونے کے علاوہ بہت زیادہ پراسرار بھی تھی دیکھنے کی اجازت حاصل کر لی۔ حالانکہ یہ اجازت مشروط تھی لیکن جن شرائط کا پیر و مرشد نے وعدہ لیا تھا نستور کے خیال میں ان کی پابندی ممکنات میں سے تھی۔ لہذا نستور آب و گل کی اس دنیا کی سیاحت کے لئے نکل کھڑا ہوا۔

                اس دنیا میں آزادی سے قدم رکھتے ہی نستو ر پر بوکھلاہٹوں کا دورہ پڑ گیا۔

                جنات کی دنیا بھی عام لحاظ سے تو اسی انسانی دنیا سے مشابہ تھی۔ لین دین، ملازمتیں، اونچ نیچ، تجارت، طبقات، اچھائیاں برائیاں نیکی اور بدی، شجاعت اور بہادری، رحم دلی اور سخاوت، ظلم، کینہ پروری  اور ذلت، حسد اور شک، دیانت اور امانت، بے ایمانی اور خباثت غرضیکہ ہر وہ چیز جو کسی نوع میں ممکن ہو سکتی ہے ان میں بھی موجود تھی۔

                لیکن نستور کے لئے یہ بات حیران کن تھی کہ اللہ تعالیٰ کی اس عجوبہ روزگار مخلوق کے یہاں ان تمام باتوں کی ان تمام اقدار کی کوئی حد  متعین نہیں ہے اور یہ بات اس کے لئے کسی اچنبھے سے کم نہیں تھی۔ اس کی دنیا اور ماحول میں تو ہر بات اور ہر معاملے کی حدود کا  یقین تھا۔

                 اس دنیا میں اس کے والد کے پیرو مرشد جیسے عظیم المرتبت اور صاحب کمال بزرگ بھی تھے جن کی پاک باطنی اور عظمت بے مثال تھی اور اس امر میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں تھی کہ ان جیسا روشن ضمیر اور صاحب ِ علم شاید جنات کی دنیا میں ایک بھی نہ تھا۔۔۔ ورنہ اس کے والد بزرگوار اپنی دنیا چھوڑ کر پیرو مرشد کے سامنے کیوں زانوئے تلمذ تہ کرتے۔

                 اس دنیا میں غیر اخلاقی اقدار کی بھی اس قدر فراوانی تھی کہ یہاں آتے ہی چند واقعات نے نستور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ پہلے تو وہ ایک عام سیاح کی طرح دیکھتا ہوا گزرتا رہا لیکن ناصر کا معاملہ ان سب سے جدا تھا۔

                نستور نے دیکھا کہ ایک سیدھا سادا انسان جو ہر معاملے میں بےضرر ہے ہر چہار طرف سے مصائب میں گھر گیا ہے۔ پہلے تو ایک بدمعاش نے اس کا ناطقہ بند کر رکھا تھا۔ پھر وہ ہیولا اس پر سوار ہو گیا۔۔۔ اور اس کی مدد کرنے کے بجائے اس کے لیے مصیبت بن گیا۔ اس نے جان چھوڑی تو پولیس والوں نے گھیراؤ کر لیا۔ اب پھر پولیس کا ایک سراغرساں اسے بہلا پھسلا کر تھانے کی طرف لے جا رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                کامران ناصر کو لے کر پولیس اسٹیشن پہنچ گیا۔ اسے باہر بینچ پر بٹھا کر ایس پی کو اطلاع دی کہ ناصر آگیا ہے اور باہر بیٹھا ہوا ہے۔ جبکہ پورے تھانے میں ناصر کی دوبارہ آمد سے بے چینی سی پھیل گئی تھی۔

                ایس پی کے پوچھنے پر کامران نے تمام واقعات بے کم وکاست بیان کر دیئے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس کے خیال میں واقعی ناصر بے قصور  معلوم ہوتا ہے۔ یہ ضرور کوئی غیر معمولی طلسمی چکر ہے۔

                ایس پی نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد پوچھا۔” اب وہ کس کیفیت میں ہے؟“

                ” بالکل نارمل سر! وہ آپ سے مدد کا طلبگار ہے۔“ کامران نے رائے دی۔

                ' ٹھیک ہے۔ فی الحال اس کے قبضے سے جنگو سے حاصل کردہ رقم برآمد کر کے حوالات میں بند کر دو۔“ ایس پی نے حکم دیا۔

                ” سر! سائیں بابا سے ملنا فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے!۔ کامران نے کہا۔

                ” اچھا! تو تم بھی ان اوہام کا شکار ہو۔“

                ” سائیں بابا کے بارے میں لوگوں کے خیالات کچھ اور ہیں سر!“

                ”پھر؟“

                ” میرا مطلب ہے سر۔۔۔۔۔“

                ” تم جا سکتے ہو۔۔۔ ایس پی نے بیچ میں سے کامران کی بات کاٹ کر حکم دیا۔

                ابھی ناصر کو حوالات میں سلاخوں کے پیچھے بیٹھے ہوئے چند لمحے بھی نہ گزرے تھے کہ اس کے کانوں میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں اور جب اس نے ان آوازوں کی طرف  اپنا ذہن مرکوز کیا تو آواز ئی

                ”ناصر!“

                ”اوہ“ وہ چونک کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔

                                ناصر کے ذہن پر کیف و سرور کی ایک وجدانی کیفیت طاری ہوتی جا رہی تھی۔ مستی کا ایک عالم تھا۔ جس میں وہ ڈوبتا جا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بوجھل ہوتی چلی جا رہی تھیں اور غنودگی ایک نشہ کی طرح اس پر اپنا تسلط جما رہی تھی اس نے سنبھلنے کی لاحاصل کوشش کی اور اپنے سر کو پکڑ لیا لیکن گھنٹیوں کی آواز اسے انبساط کی وادیوں میں لے گئی۔ غنودگی میں اُس نے دیکھا کہ ایک خوبصورت باغ ہے جہاں عطر بیز ہوائیں مشامِ جان کو معطر کر رہی تھیں۔ رنگا رنگ پھول سر اُٹھائے کسی کی آمد کے منتظر تھے۔ ہر شہار سو بھینی بھینی خوشبو کی مہکار پھیل رہی تھی۔ پرندے چہچہارہے تھے۔ فضا ایک خوش رنگ ٹھنڈی اور فرحت بخش دودھیا چاندنی میں نہائی ہوئی تھی آسمان قسو قزح بنا ہوا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ ہر چیز پر بہار چھائی ہوئی ہے۔ ماحول اٹھکھیلیاں   کرتی ہوئی پاکیزگی کامظہر تھا۔ ناصر نے ایسی دنیا کاہے کو دیکھی تھی۔ وہ اس عجیب و غریب منظر کو دیکھ کر مسحورہو رہاتھا کہ اسے اپنے پیچھے مدھم سروں میں ساز بجتے ہوئے سنائی دیئے پھر دوسرے لمحے ناصر نے محسوس کیا کہ سازوں کے پس منظر میں بالکل واضح طور پر کوئی اس کا نام لے کر پکار رہا ہے۔

                ” ناصر! ادھر دیکھو!“

                ناصر نے غیر ارادی طور پر پلٹ کر دیکھا تو اس کے ذہن میں پھلجھڑیاں سی پھوٹتی ہوئی نظر آئیں اس نے دیکھا کہ ایک حسین و جمیل نوجوان اسے میٹھی میٹھی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ ناصر نے محسوس کیا کہ نوجوان کی مخمور آنکھوں سے ایک برقی رو نکل کر اس کے سراپا میں منتقل ہو رہی ہے۔ ان نگاہوں کی ضیا پاشی اپنی تمام تر شدت کے باوجود ایک معصوم اپنائیت کا اظہار کر رہی تھی جیسے کسی تعارف کے بغیر ہی اجنبیت کی دیوار کو گرا دینے پر تلی ہو۔

                ماحول کے تاثر نے ناصر پر جو کیف و سرورکی کیفیت طاری کر دی تھی اس جوانِ رعنا کی نگاہوں کی جلوہ افروزی نے اسے دو آتشہ کر دیا تھا۔ وہ ایک معمول کی طرح اس کی طرف بڑھا۔ اجنبی نوجوان نے بھی باوقار انداز میں ناصر کی پزیرائی کی اور کہا۔

                ” کیسا محسوس کر رہے ہو دوست؟“

                ” آپ اپنا تعارف نہیں کرائیں گے؟ ناصر نے جواب دیا۔

                ”ضرور کرائیں گے۔“

                ” میں کہاں آگیا ہوں۔۔۔۔۔ اور کیسے آیا ہوں؟“ ناصر نے گرد و پیش دیکھ کر دوسرا سوال کیا۔

                ”تشریف رکھیئے۔“ اجنبی نے گھاس کے ایک خوشنما تختے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور خود بھی قدم قدم اس کی طرف بڑھا۔

                ” میرا نام نستور ہے۔“

                ” میں نے اس سے پہلے آپ کو کبھی نہیں دیکھا۔ مجھے کیسے جانتے ہیں آپ؟“ ناصر نے پوچھا۔

                ” بس جانتا ہوں۔۔۔ دوستی کرنا چاہتا ہوں تم سے۔“ نستور نے کہا

                ” مجھ حرماں نصیب سے دوستی کر کے آپ کو کیا ملے گا؟“ ٹھنڈی سانس لے کر کہا

                ” دوستی فائدے اور نقصان کے بوجھل الفاظ سے ماروا ہوتی ہے۔“ نستور نے گھاس پر بیٹھتے ہوئے کہا۔                    

                ”میں خدا جانے کس طلسمی چکر میں گرفتار ہو گیا ہوں سمجھ میں نہیں آتا آخر یہ ماجرا کیا ہے، حالات و واقعات کا کوئی سرا نہیں ملتا۔ یا تو میرا دماغ خراب ہو گیا ہے یا لوگوں کو مجھ سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔۔۔ لیکن پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا تھا بس اچانک۔۔۔۔“

                ” ناصر میاں! مجھے سب معلوم ہے۔ واقعی آپ کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔“ نستور نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔

                ” آپ کو معلوم ہے۔ مگر کیسے؟ شاید ہماری پہلی ملاقات ہے۔“ ناصر نے حیران ہو کر پوچھا۔

                ” ملاقات تو پہلی بار ہوئی ہے تم سے لیکن جیسا کہ میں نے ابھی کہا میں تمہارے بارے میں وہ کچھ بھی جانتا ہوں جو تم خود نہیں جانتے۔“ نستور بولا۔

                ” یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟“

                ” وہی جو میں کہہ رہا ہوں ۔ اچھا آنکھیں کھولو۔“ نستور نے کہا۔

                ” آنکھیں کھولوں۔۔ بھئی کھلی ہوئی تو ہیں میری آنکھیں۔“

                ناصر نے اپنی پلکیں جھپکائیں۔۔ اور صرف ایک لمحہ جو پلک جھپکنے میں صرف ہوا ناصر کو دوبارہ حوالات کے ماحول میں لے آیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ گھٹنوں میں سر دیئے حوالات میں بیٹھا پلکیں جھپکا رہا ہے۔

                دروازے پر کھڑا ہوا سنتری اپنے ساتھی سے پوچھ رہا تھا جو ابھی کسی کام سے ادھر آیا تھا۔

                ” یار تم نے سینٹ یا عطر  وغیرہ لگایا ہے کیا؟“

                ” نہیں تو۔۔۔ لیکن خوشبو مجھے بھی آرہی ہے۔“ دوسرے ساتھی نے جواب دیا۔

                ” یہ مست و بے خود کر دینے والی خوشبو اس سے پہلے تو کبھی  نہیں سونگھی ۔ لگتا ہے جیسے خوشبو حوالات کے اندر سے آرہی ہے۔“ سنتری نے سلاخوں کے دوسری طرف نظر دوڑائی۔

                ” اس سے دور ہی رہنا۔ تم کو شاید معلوم نہیں ہے یہ کتنا خطرناک آدمی ہے۔ تم تو شہر گئے ہوئے تھے۔ تمہارے پیچھے یہاں بہت کچھ ہو چکا ہے “ دوسرے سپاہی نے اسے آگاہ کرتے ہوئے مختصراً ساری روداد بھی سنا دی۔

                ناصر گردن کو جھٹکا دے کر کھڑا ہو گیا اس کے دماغ میں وادی کی خوشبو ابھی تک بسی ہوئی تھی۔ وہ جلدی سے سلاخوں کے قریب آ کر سنتری سے بولا۔

                ” تمہیں بھی خوشبو آرہی ہے نا؟“

                اور سنتری سہم کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ پھر خجل سا ہو کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔ دوسرا سپاہی بھی جلدی جلدی ایک طرف چلا گیا۔

                ناصر پژمردہ ہو کر واپس اپنی جگہ پر آگیا۔ وہ سوچنے لگا میں نے کوئی خواب دیکھا ہے پھر خیال آیا نہیں یہ خواب نہیں ہو سکتا۔ میں نے سب کچھ کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ خواب اس قدر تفصیل سے یاد نہیں رہتے اور پھر حوالات  میں اس کو اپنی موجودگی ہی خواب معلوم ہونے لگی۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں اور بڑبڑانے لگا۔ یہ میرا واہمہ ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں حوالات میں بند ہوں۔۔۔ ناکردہ گناہ۔۔۔ بلاوجہ۔۔۔۔ اے کاش! وہ میرا وہم نہ ہوتا۔۔ کتنا اچھا تھا وہ نوجوان۔۔ اس نے اپنا نام نستور بتایا تھا۔۔۔۔”نستور!“

                ناصر خود کلامی کے سے انداز میں پکار اُٹھا اور ٹھیک اسی لمحہ اس کی سماعت سے گھنٹیوں کی آواز دوبارہ ٹکرائی اور جواب ملا۔

                ” کیا بات ہے ناصر!“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                ایس پی اپنی خواب گاہ میں بے چینی سے ٹہل رہا تھا اس کی سوچ کا محور ناصر تھا۔ واقعات جس طرح ظہور پذیر ہوئے تھے وہ ان کی کڑیاں ملانے سے قاصر تھا۔ کامران نے سائیں بابا کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ہو سکتا ہے وہ اس راز سے پردہ اُٹھانے میں تعاون کریں ۔ لیکن جہاں تک ایس پی کی معلومات کا تعلق تھا وہ تو ایک پاگل فقیر تھا اور پاگل کسی کے مسائل سلجھایا نہیں کرتے وہ تو مسائل میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ کچھ دیر بعد وہ ایک آرام کرسی پر بیٹھ گیا اور بیوی کو آواز دی۔۔۔!

                ”بیگم!“

                ” ابھی آتی ہوں۔ “ دوسرے کمرے سے بیوی نے جواب دیا اور ایس پی پھر گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

                ”کیا بات ہے؟“ بیوی نے خواب گاہ کا پردہ اُٹھا کر پوچھا۔

                ”ہوں۔۔۔ بیگم! میں نے ایک پیالی چائے کے لئے کہا تھا۔“ ایس پی نے چونک کر جواب دیا۔

                ”اس وقت آپ ہیں کہاں۔۔ چائے آپ کے آگے میز پر رکھی ہے اور اب تو یہ ٹھنڈی بھی ہو گئی ہوگی۔ اور بنا دوں“ بیوی نے پوچھا

                ” پلیز! اگر زحمت نہ ہو۔۔۔۔“

                ” کیسی باتیں کرتے ہیں، آپ کی خدمت میرے لئے زحمت کیسے ہو سکتی ہے۔“ بیوی نے پیار بھری نظروں سے شوہر کی طرف دیکھ کر کہا اور چائے کی پیالی اُٹھا کر لے گئی۔

                ایس پی اسی طرح بیٹھا سوچتا رہا کہ بیوی چائے بنا کر لے آئی۔ چائے کی پیالی اس مرتبہ اس نے شوہر کے آگے رکھ دی اور قریب ہی پڑی ہوئی دوسری کرسی پر بیٹھ کر کہا۔

                ” چائے پی لیجیئے نہیں تو یہ بھی ٹھنڈی ہو جائے گی۔“

                ” ہاں۔۔۔ آں! پیتا ہوں۔۔۔“ ایس پی بولا۔

                ”آپ کچھ زیادہ ہی پریشان نظر آتے ہیں۔ کیا بات ہے؟“

                ” کچھ نہیں، کوئی خاص بات نہیں ہے۔ بس ایک کیس خاصا الجھ گیا ہے۔ تم آرام کرو۔۔“

                چائے پی کر ایس پی آرام کرسی پر دراز ہو گیا۔

                کہتے ہیں نیند سولی پر بھی آجاتی ہے۔ ایس پی بھی تھوڑی دیر کے بعد شعوری حواس سے آزاد ہوگیا۔

                ” ادھر دیکھو!“

                ایس پی کے کان میں آواز ائی اور وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ اس کے سامنے ایک روشن ہیولا کھڑا ہوا تھر تھر ارہا تھا۔ خوف کے مارے ایس پی کی گھگی بندھ گئی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے اس غیر معمولی روشن مجسم صوورت کی طرف دیکھا۔

                ” غور سے سنو! ناصر میرا معمول ہے۔ مجھے اپنے معمول کی ضرورت ہے اگر تم نے اپنی مداخلت ترک نہ کی تو بھیانک نتائج کی ذمہ داری تمام تر تمہارے اوپر عائد ہوگی۔ ابھی تو جنگو اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھ پیر ٹوٹے ہیں۔ لیکن اگر تم باز نہ آئے تو تھانے کے اندر خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ ہوش وحواس سے کام لو اور جنگو کے انجام سے عبرت پکڑو۔۔۔“ ہیولا اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا۔ پھر رفتہ رفتہ روشنی سے مرکب یہ سراپا بتدریج فضا میں تحلیل ہو گیا۔ ایس پی پسینہ میں شرابور تھا۔۔۔ ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر سنسنی پیدا کر رہی تھی۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور باوجود کوشش کے وہ پلکیں نہیں جھپکا سکتا تھا۔ پھر اس کی آنکھوں کے آگے رنگ برنگے دائرے گردش کرنے لگے۔ خوف سے اس کا بُرا حال تھا۔ ہیولے کی شبہیہ اس کے دماغ پر نقش تھی۔

                تقریباً پندرہ بیس منٹ تک یہی کیفیت اس کے اوپر طاری رہی۔ پھر وہ اپنے ہوش و حواس میں آگیا۔ اس نے سوچا۔ ہو سکتا ہے ناصر بے قصور ہو۔ اور واقعی کوئی مافوق الفطرت ہستی اس پر قابض ہو ساری رات وہ جاگتا رہا باوجود کوشش کے اسے نیند نہیں آئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                ناصر نے حیران ہو کر آنکھیں کھولیں۔ نستور اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہی ماحول اور ویسا ہی منظر تھا۔

                ”یہ سب کیا ہے نستور بھائی! آپ کون ہیں؟“

                ” ابھی تم نے خود ہی کہا ہے نستور بھائی۔۔۔ تمہارا بھائی ہوں، تمہارا دوست ہوں، تمہارا ہمدرد ہوں۔“

                خوشگوار ماحول کے باوجود تغیر ہر آن اور ہر لمحہ نے ناصر کو حواس باختہ کر دیا تھا۔ اس بار وہ فضا کی پُر سحر کیفیت سے اتنا لطف اندوز نہیں ہو سکا جتنا پہلی بار ہوا تھا۔

                ” نستور بھائی سچ سچ بتاؤ۔ یہ حقیقت ہے یا خواب۔ ابھی تو میں حوالات میں بند تھا ، تمہارے پاس کیسے آگیا۔ کیا تم کوئی جادو گرہو؟۔“

                ” نہیں بھئی جادو گر نہیں ہوں۔ جیسے تم اللہ کی مخلوق ہو ویسے ہی میں بھی ایک مخلوق ہوں۔“ نستور نے جواب دیا

                ” میں اس سے کیا نتیجہ اخذ کروں۔ میرے شعور و ادراک میں یہ بات نہیں آتی کہ حوالات میں بند کوئی قیدی یہاں کیسے آسکتا ہے؟“ ناصر نے کہا۔

                ” تم اب بھی حوالات میں ہو۔ بس دیکھنے کا انداز بدل گیا ہے۔ اگر چاہو تو اس قید سے آزاد ہو سکتے ہو کوئی تمہیں روکنے والا نہیں ہے۔ اُٹھو ۔ دیکھو۔ تالا کھلا ہوا ہے۔ سیدھے اپنے گھر جاؤ۔ تمہاری ماں بہت پریشان ہے۔“ نستور نے کہا۔

                ناصر نے نہ چاہتے ہوئے بھی آنکھیں کھول دیں سامنے حوالات کا دروازہ تھا ۔ سنتری کا دور دور کہیں پتہ نہیں تھا اور لوہے کا وزنی تالا کنڈے میں لٹکا  تھا۔ ناصر نے ہتھیلیوں سے اپنی آنکھوں کو ملا اور اُٹھ کر حوالات سے باہر آگیا۔ پہلے اس نے متلاشی نظروں سے ادھر اُدھر دیکھا نستور کو دیکھا اور تھانے سے باہر نکلا چلا گیا۔ کسی نے بھی اسے نہیں روکا ایک فرد واحد بھی نظر نہیں  آیا جو اس کا راستہ روکتا۔ پولیس اسٹیشن پر سناٹا چھایا ہوا تھا اور ناصر نے گھر کی راہ لی اس کے ذہن میں صرف نستور کی یہ بات تھی کہ اس کی ماں بہت پریشان ہے۔

                رات کے وقت تقریباً ایک بجے جب اس نے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی تو دوسرے ہی لمحے دروازہ کھل گیا معلوم ہوتا تھا جیسے ناصر کی ماں دروازے کے پاس بیٹھی اس کی منتظر ہو۔

                ” ناصر! اتنی دیر لگا دی بیٹے۔ میرا تو خون خشک ہو گیا تھا۔۔“ ماں نے اسے اپنے بازؤوں میں سمیٹتے ہوئے کہا۔

                 اور ناصر اس طرح ماں سے لپٹ گیا جس طرح کوئی شیر خوار بچہ ماں کے سینہ سے لگ کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ ماں نے بلائیں لیتے ہوئے کہا۔

                ” ایسا کون سا کام آن پڑا تھا میرے لال جس میں آدھی رات تک تجھے اپنی دکھیا ماں کا خیال تک نہ آیا۔“


Hayola

Sadiqul israr

روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ قسط وار مضمون ھیولا۔۔جن ، انسان اور روح کے درمیان کش مکش پر میں ایک خوب صورت کہانی  کی دستاویز پیش خدمت ہے۔