Topics

نیوٹرل طرزفکر

 

1۔ذہن میں کوئی نقطہ ء فکر آنے کے بعد اس پرغیر جانب دار ہو کر سوچنا اور فیصلہ کرنے کے بعد زبا سے اس کا اظہار بھی غیر جانب دار نہ طور پر کرنا نیوٹرل ذہن ہونے کی علامت ہے۔

2۔کسی بھی نقطے پر گہرائی میں تفکر کرنا نیوٹرل ذہن کی خاصیت ہے۔

3۔عدالت کاذہن نیوٹرل ذہن ہے۔

4۔تکلیف اور راحت کو اللہ پاک کی جانب سے جاننا نیوٹرل ذہن ہونے کی علامت ہے۔

5۔کسی کو برانہ کہنا اور کسی کوبراسمجھ کر اس سےنفرت و بغض نہ رکھنا نیوٹرل ذہن کی علامت ہے۔

6۔Not to be personally involved یعنی اپنی ذات کو کسی معاملے میں ملوث نہ کرنا۔

7۔اللہ پاک کی مخلوق کی بے لوث خدمت کرنا اور اس سلسلے میں اللہ کے ذہن سے کام لینا نیوٹرل ذہن کا کام ہے۔

8۔ ذہن میں غرور و تکبر ہونا۔ کسی کو اپنے سے کمتر نہ جاننا نیوٹرل ذہن کی صفت ہے۔

9۔ سچائی کی جانب مائل رہنا اور ہر خیال کو مثبت انداز میں معنی پہنانا نیوٹرل طرز فکر ہے۔

10۔اجتماعیت اورانفرادیت کے مفادات میں مساوات برقرار رکھنا نیوٹرل ذہن کاکام ہے۔

11۔راحت و تکلیف میں قلبی کیفیات میں ٹھہراؤہونا اور طبیعت میں استغنا ئ پیدا ہونا نیوٹرل طرز فکر ہے۔

12۔اللہ کی رضا میں راضی برضا ہونا اور کسی بھی کام میں ذاتی مفاد کو مد نظر نہ رکھنا نیوٹرل طرز فکر ہے۔

13۔خوشی و غم کے عارضی جذبات سے آزاد ہوجانا نیوٹرل ذہن کی فکر ہے۔

14۔خیر اور شر کی حکمتوں کاپہچاننانیوٹرل ذہن کا کام ہے۔

15۔دماغ میں آنے والے خیالات پر کنٹرول ہوجانا نیوٹرل ذہن کی علامت ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭

سوالات

سوال نمبر1    نیوٹرل ذہن کیا ہے؟ اور اس کو ہم کس طرح حاصل کرسکتے ہیں؟

سوال نمبر2    نیوٹرل ذہن حاصل کرنے کے فوائد کیا ہیں؟

سوال نمبر3      ہم نیوٹرل ذہن حاصل کرکے اللہ سے کس طرح قریب ہوسکتے ہیں؟

سوال نمبر4    پیغمبرانہ طزر فکر کیا ہے؟

سوال نمبر5    پیغمبروں کے سوچنے کا انداز کیا ہوتا ہے؟

سوال نمبر6      روحانی طالب علم کیلئے طرزفکر کا صحیھ ہونا کیوں ضروری ہے؟

٭٭٭٭٭٭٭

اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے۔ صفت عدل۔جس کا سم عادل ہے۔ اسم عادل کی صفات نیوٹرل ذہن ہے۔ عدالت کے ذہن کو نیوٹرل ذہن کہا جاتا ہے۔ کسی بھی معاملے پر جج غیر جانب دار ہوکر فیصلہ کرتاہے۔غیر جانب دار انہ ذہن کی سوچ نیوٹرل سوچ ہے۔ جو معاملے کی گہرائی میں پہنچ جاتی ہے۔ یوں تو ہر آدمی کا ذہن نیوٹرل ہونا چاہئے تاکہ وہ اللہ کی مخلوق کو بلاوجہ آزار پہچانے سے باز رہ سکے۔مگر مشکل تو یہ ہے کہ دنیا میں نیوٹرل ذہن کے لوگ کم ہی ملتے ہیں۔ خیر ہمیں عام لوگوں سے کوئی سروکار نہیں اس وقت ہمارا موضوع روحانی انسان ہے۔ روحانی انسان کا ذہن غیر جانبدار  ہونا بے حد ضروری ہے۔ غیر جانبدارانہ سوچ معاملے کی تہہ تک پہنچ جاتی ہے جب کہ جانبدار سوچ کے آگے اس کی غرض دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ ذہن کی فکر اس رکاوٹ کی وجہ سے وہیں رک جاتیہ ے اور صحیح علم حاصل نہیں ہوتا۔ حرکت کا رک جانا موت ہے۔ حرکت کا جاری رہنا زندگی ہے۔ زندگی کی ہر حرکت ہمارے اندر واقع ہوتی ہے۔ زندگی کا دوسرا رخ موت ہے زندگی بیک وقت دو رخوں میں کام کررہی ہے۔ مدت کا لمحہ غیب کا لمحہ ہے۔ زندگی کی ہر حرکت غیب سے ظاہر میں آکر اپنا مظاہرہ کرتی ہےاور غیب میں واپس چلی جاتی ہے۔ ایک آدمی جب قدرت کے اس نظام کو پہچان لیتا ہے تو اسے اس بات پر یقین ہوجاتا ہے کہ ہر شے اللہ کی جانب سے آرہی ہے اور اللہ کی جانب لوٹ رہی ہے۔ وہ اس بات سے بھی واقف ہوجاتا ہے کہ زندگی میں پیش آنے والی ہر واردات اس کے اندر ہورہی ہےاور اندر سے ہی باہر آرہی ہے۔ پس اس کا ذہن باہر پیش آنے والے واقعات کو غیب میں وارد ہونے والے حقائق کا عکس سمجھتا ہے اور اس عکس سے غیب کے حقائق کا کھوج لگانے کی کوشش کرتا ہے۔

قلب و دماغ کے اندر لمحات کے عکس کی صورت فلم کے نیگیٹو کی سی ہے۔ نیگیٹو سے جب تصویر بنتی ہے تو یہ تصویر نیگیٹوکا ہی عکس ہوتی ہے۔مگر آنکھ اس تصویر کو واضح طورپر دیکھ لیتی ہے۔ ہر شخص اس بات سے واقف ہے کہ فلم کا پہلے نیگیٹو تیار ہوتا ہےپھر نیگیٹو سے فوٹو بنتی ہے۔ نیگیٹو ایک ہوتا ہے مگر فوٹو سے کاپیاں جتنی مرضی بناسکتےہیں۔ گویا نیگیٹو اصل ہے یا original ہے۔ جب ایک نیگیٹو سے بہت زیادہ کاپیاں بنائی جائیں تو کاپی یا فوٹو اتنا صاف نہیں آتا۔ فوٹو میں دھندلاہٹ آنے لگتی ہے۔ اس حوالے سےہم روحانی نقطہ ء نظر سے بشر کے کردار کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اللہ پاک کی تمام مخلوق میں بشر ایک ایسا کردار ہےجو تخلیق کا جوہر ہے یا خالق کا بنایاہوا شاہکار ہے ۔ شاہکار اور جوہر تخلیق کی بہترین صورتہے۔ روحانی راست پر چلنے والا بندہ ساری   عمر ؓؓاپنے انر جوہر کی تلاش میں رہتا ہے۔ زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کو وہ جانتا ہے کہ زمین پر بسنے والی ہر چیز اور ظاہر میں رونما ہونے والا ہر واقعہ فوٹو ہےاور اسکرین پر فلم کا مظاہرہ ہے۔ دنیا کے اسکرین پر دیکھنے والی آنکھ فرد کی آنکھ ہے جو بشر کی حیثیت سے پہچانی جانی جاتی ہے۔ روحانی شعور رکھنے والا بندہ جب قدرت کے اس قانون سے واقف ہوجاتا ہےتو وہ جان لیتا ہے کہ خوس اس کی اپنی آذات کے اندر ہی فلم چل رہی ہےاورفلم کا ہر نیگیٹیو اس کے اپنے دماغ کے اندر موجود ہے۔ پس وہ ہر چیز کے حقائق اپنے اندر ہی تلاش کرتا ہے۔ جس طرح فلم کے نیگیٹیوسے روشنی گزرتی ہے اور اسکرین سے ٹکراتی ہے تو آنکھ تصویر کو واضح طور پر اسکرین پر دیکھ لیتی ہے۔ روشنی بند ہوجائے تو نہ نیگیٹیو دکھاءی دیتا ہے نہ تصویر۔ اس کامطلب روشنی ہی نظر ہے۔ یہ نظر پہلےنیگیٹیو دیکھتی ہے پھر اسکرین پر فوٹو دیکھتی ہے۔ مگر شعور یا عقل انسانی کی فکر الٹے رخ چل رہی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہر واقعہ پہلے ظاہر میں رونما ہوتا ہے۔ بھلا سوچئے تو سہی یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ کیا نیگیٹیو کے بغیر فوٹو بن سکتی ہے۔ کیا فلم کی فوٹو پہلے بنتی ہے اور نیگیٹیو بعد میں بنتا ہے یا فلم کی ریل کے بغیر فلم اسکرین پر دیکھی جاسکتی ہے۔ مطلب یہ کہ دنیا میں ظاہر ہونے سے پہلے ہر واقعہ غیب کے عالم سے گزرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر ایک فرد زمیں پر وجود ہے تو زمین پر آنے سے پہلےغیب میں موجود تھا۔ غیب کے عالم میں اپنی زندگی گزار کر دنیامیں آیا ہے۔ اب اگر اسے اپنی زندگی کی حرکات و سکنات سے پوری طرح واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت پڑے تو یہ علم اسے دنیاوی زندگی کی حرکات میں دکھاءی نہیں دے سکتا۔ کیونکہ اسکرین پر تو صرف ایک ایک نیگیٹیو کا مظاہر ہوتا ہے۔ ساری فلم تو یکجا طور پر ریل کے اندر ہوتی ہے۔ اس کے لئے نظر کاغیب میں مشاہدہ کرنا ضروری ہے۔اس لئے ظاہری حواس کو ناقص کہا گیا ہے کیونکہ یہ ٹائم اینڈ اسپیس کے حواس ہیں جو محدودیت کے حواس ہیں ۔ نیوٹرل  ذہن وہ ہے جو محدویت سے نکل کر لال محدودیت میں داخل ہوجائے۔ لا محدودیت غیب ہے۔

کائنات کا نظام قدرت کے نہایت ہی منظم قوانین اور سسٹم پر چل رہا ہے اوراس قانون میں اور اس کے سسٹم میں ازل سے لے کر ابد تک نہ کوئی تبدیلی ہے نہ کسی قسم کی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔یہ سسٹم ازل سے جاری ہے اور ایک ہی نہج پر جاری ہے۔ نیوٹرل سوچ قدرت کےسسٹم کو پہچاننے والی فکر ہے۔ یہ دنیا اور اس دنیا میں انسان کا بھیجا جانا خاص حکمت کے تحت ہے اور وہ حکمت ہے شعور کا غیب کی دنیا سے تعار حاصل کرنا کیونکہ ہر ذی شعور دنیا سے پھر غیب میں لوٹنے والا ہے۔ قدرت کی جانب سے غیب کا تعارف کرانے والی ایک مخصوص ایجنسی موجود ہے جو رشدو ہدایت دینے والا شعبہ ہے۔ تمام پیغمبران علیہ السلام اس شعبہ کے تحت قدرت کی جانب سے دنیا میں بھیجے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو غیب سے متعارف کرائیں اور دنیا وی زندگی اور غیب کی زندگی کے درمیانی ربط کی نشاندہی کریں۔ انسان کی اص زندگی آخرت کی زندگی ہے۔دنیاوی زندگی عارضی ہے اس عارضی زندگی میں آدمی حقیقت سے ناواقفیت کی بناء پر سخت پریشان و بے سکون ہوجاتاہےاور عدم تحفظکا شکار ہوجاتاہے۔ فطری طور پر بشری تقضہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اسے راحت و آرام ملے۔ قدرت کی جانب سے رب کی طرف سے مخلوق کے فطری تقاضوں کو پوراکرنے کا اہتمام موجود ہے۔ یہی اہتمام رزق کی صورت میں وسائل کی فراہمی ہے۔ نیوٹرل فکر اپنے اردگرد پھیلے ہوئے وسائل کی آسانی کے ساتھ کھوج لگا لیتی ہے۔ روحانی علوم حاصل کرنے کے لئے قدرت نے جو وسائل مہیا کررکھے ہیں۔ نیوٹرل ذہن ان وسائل کو بھی آسانی کے ساتھ ڈھونڈ نکالتا ہے ۔ روحانی نقطہء نظر سے نیوٹرل ذہن پیغمبرانہ سوچ ہے۔پیغمبر کامل بشریت کا بہترین نمونہ ہیں۔ اللہ کی فکر میں بشر کا جو تصور ہےاس تصور کی تصویر پیغمبر علیہ السلام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر پیغمبر اپنے دور کا ایک کامل بشر ہے۔ ہر دور بشری شعور کی نشوونما کا ایک دور ہے۔ جیسے ہر آدمی اپنی زندگی میں بچپن ، جوانی اوربڑھاپے کے دور سے گزرتا ہے۔ یہ تینوں دور انسانکی   عمر ؓؓکے مخصوص حصے ہیں جن میں آدمی کی نشوونما مخصوص حد میں ہوتی ہے اور عقل و شعور بھی ایک ہی تناسب میں بڑھتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطے کا بچہ بچہ ہی کہلائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی فکر میں بشر کا کامل تصور بھی مختلف  ادوار سے بشتریت کا گزرنا ہے۔جس طرح ایک فرد بچپن ، جوانی اور بڑھاپے کے دور میں اپنی نشوونما یا  اپنے شعور کی نشوونما کرتا ہے۔ اللہ کے تصور میں بشر کی فکر جن سیڑھیوں سے اتر کر ایک کامل بشر کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ فکر کے ہر زینے پر بشر کی ایک تصویر ہے۔ یہی تمام ہستیاں پیغمبران علیہ السلام ہیں۔ فکر کا کامل نمونہ نبیؐ آخر الزماں حضورپاکؐ کی ذات اقدس ہے۔ دنیا کے ہر دور میں جو پیغمبر زمین پر آئے وہ اس دور کے شعور کی مکمل تصویر تھے۔ ہمیں دنیا میں زندگی گزارنے کے طور طریقے بھی پیغمبروں کے ذریعے معلوم ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب پیغمبر اس دور کے شعور کا کامل نمونہ ہیں اور آخرالزماںؐ آنے والی ہستی اپنی اکملیت کی بناء پر ہر دور کے شعور کی نمائندگی کرتی ہے۔

حسن یوست د عیسیٰ ید بیضا داری

گرچہ خوہاں ہمہ دارند تو نتہا داری

روحانی شعور فکر کےاسی زینے سے اوپر چڑھتا ہے۔ جس زینے سے پیغمبران علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے۔ روحانی علوم سیکھنے کے لئے پیغمبروں کی طرز فکر اور ان کے عادات و اطوار کو اپنانا ضروری ہے۔ طرزفکر میں سب سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ پیغمبرعلیہ السلام کے سوچنے کا انداز کیا ہے۔ قرآن اور تمام آسمانی کتابیں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ سارے پیغمبروں کے سوچنے کا انداز ایک ہی ہے۔وہ یہ کہ ہر چیز اللہ کی جانب سے آرہی ہے اور اسی کی جانب لوٹ کر جارہی ہے۔ وہ اپنی طرف آنے والی ہر شئے کو سب سے پہلے اللہ کی جانب منسوب کرتے یعنی کسی بھی شئے کا تعلق اپنی ذات سے براہ راست نہیں بلکہ اللہ کے ذریعے جانتے۔ اس طرح اللہ کا نور شئے کی پہچان کا باعث بن جاتا جو کہ حقیقت ہے کیونکہ اللہ کا علم ہی انسان کے ذہن میں منتقل ہوتا ہے۔ پیغمبروں کی یہی فکر نیوٹرل ذہن ہے۔ نیوٹرل ذہن رکھنے والے کے دماغ میں جیسے ہی کوئی خیال آتا ہے خیال کے ساتھ ساتھ اس کا ذہن سب سے پہلے اللہ کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے خیال کی روشنی کے اندر اللہ کے تصور کی نورانیت جذب ہوجاتی ہے۔ یہی نورانی لہریں ذہن کی توانائی بن جاتی ہیں اور اس توانائی سے شعور کی نشوونما بھرپور طور پر ہوتی ہے۔ یعنی اعمال و افعال درست ہوجاتے ہیں۔ ایک روحانی طالب علم کے لئے طرزفکر کا درست ہونا بنیادی ضرورت ہے تاکہ اس کے روحانی شعور کی صحیح خطوط پر پروش  ہوسکے۔


Majlis tafheemo danish

سعیدہ خاتون عظیمی