Topics
۱۔ حسد
کرنا آدمی کو اللہ کے احسانات سے دور کر دیتا ہے اور آدمی اللہ کا ناشکرا بن جاتا
ہے۔ اس سے بچنا اللہ کی نعمتوں کا شکر کرنا ہے۔
۲۔ حضور پاک ﷺ کی طرزِ فکر اپنانے سے انسان کے
اندر سے حسد دور ہو جاتا ہے۔
۳۔ حسد انسان
میں قابلیت کو زائل کر دیتا ہے۔ حسد ایک آگ ہے جو آدمی کے اعصاب میں شامل ہو کر
تعمیری صلاحیتوں کو تباہ کر دیتی ہے۔
۴۔ حسد احساس
کمتری کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے آدمی غیر جانبدارانہ فیصلہ نہیں کر پاتا۔ اپنے
اندر استغناء پیدا کرنے سے حسدکی بیماری سے اجتناب کیا جا سکتا ہے۔
۵۔ Jealousy lead to evil dead. Roohani Tarz e fikir helps
you to a avoid it.
۶۔ حسد شیطان
کی فطرت ہے۔ حسد کرنے سے انسان اللہ سے دور ہو جاتا ہے اور شیطان سے قریب ہو جاتا
ہے۔ اس سے طرح طرح کی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ مثلاً السر، ڈپریشن وغیرہ۔ اس سے بچنے
کا راستہ یہ ہے کہ اللہ پاک کو اپنے ہر کام میں شامل کر لیا جائے۔
۷۔ روحانی علوم
لامحدود ہیں۔ حسد کرنے والے کا ذہن محدود ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے حسد کرنے والا
روحانی علوم حاصل نہیں کر سکتا۔
۸۔ حسد ایک
بیماری ہے جس سے دل کمزور ہو جاتا ہے۔ اللہ کا ذکر کرنے سے دل کی ساری بیماریاں
دور ہو جاتی ہیں۔
۹۔ حضور پاک ﷺ
کا ارشاد ہے کہ ” حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح سوکھی لکڑیوں کو آگ۔“
روز مرہ زندگی میں حسد کا نقصان یہ ہے کہ انسان کی ذہنی وسعت کم ہو جاتی ہے اور وہ
تعصّبات میں گھر جاتا ہے ۔ حسد کا اجتناب یہ ہے کہ ایک دوسرے کی قابلیت کو خدا کی
دین سمجھنا اور کھلے دل سے اس کی تعریف کرنا۔
۱۰۔ حاسد یہ چاہتا
کہ جو چیز دوسرے کو حاصل ہے اگر اسے نہیں مل سکتی تو دوسرے کے ہاتھ سے بھی جاتی
رہے۔ حسد ایک انتہائی منفی جذبہ ہے۔ جس کا سب سے پہلا مظاہرہ شیطان نے کیا۔ اس نے
کہا کہ جس طرح آدم کی وجہ سے وہ راندہ ءدرگا ہوا وہ بھی آدم کی نسل کو برباد کر کے
چھوڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نے حاسد کے شر سے پناہ مانگنے کی ترغیب دی ہے۔ ” و َ مِنْ شَرِّ حَاسِد اِذْا حَسَدْ۔“ (سورہ فلق)
۱۱۔ حسد کرنے والے
کو انفرادی نقصان جیسے بلڈ پریشر ہو جاتا ہے اور حاسد کی طرزِ فکر و عمل سے معاشرے
پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ منفی خیالات سے اجتناب ضروری ہے۔
۱۲۔ حسد کی آگ
روحانی راستوں میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سے اجتناب بہت بڑا جہاد ہے۔
۱۳۔ حسد سے نار کی
صفات متحرک ہو کر اعصابی نظام کو درہم برہم کر دیتی ہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے اللہ پاک کی پناہ میں
رہنا اشد ضروری ہے۔
۱۴۔ حسدسے سلگتی
ہوئی گیلی لکڑی کی طرح انسان کے اندر غم اور غصے کا دھواں بھر کر اس کی ساری اچھی
صلاحیتوں کو کھو کھلا کر دیتا ہے۔ جس سے آدمی مثبت انداز میں سوچ ہی نہیں سکتا۔
٭٭٭٭٭
سوالات
سوال نمبر۱۔ حسد کیا ہے؟ اس سے کیوں بچنا ضروری ہے؟
سوال نمبر۲۔ حسد کے نقصانات کیا کیا ہیں؟
سوال نمبر۳۔ جلال اور جمال کی تشریح کریں۔
سوال نمبر۴۔ شیطانی اور رحمانی انسپائریشن میں ہم کس طرح
تمیز کر سکتے ہیں؟
٭٭٭٭٭
اللہ پاک اپنے کلام میں فرماتے ہین کہ
ہم نے ہر شئے کو اس کی فطرت پر پیدا کیا ہے اور اللہ کی فطرت میں اور سنت کے
قوانین میں کوئی ردو بدل یا تغیر نہیں ہے۔ فطرت اسمائے الہٰیہ کے خواص ہیں اور
اسمائے الہٰیہ اللہ پاک کی صفات ہیں۔ سنت
کے قوانین فطرت کو اس کی طبعی حالت پر قائم رکھنے والے نظام ہیں۔ چونکہ اسمائے
الہٰیہ ' فطرت اور سنت کے قوانین ان سب کا تعلق اللہ پاک کی ذات و صفات سے ہے جس
کی وجہ سے اللہ پاک نے فرمایا کہ ان میں تبدیلی اور تعطل ممکن نہیں ہے ۔ کائنات کے
اندر موجود اشیاء میں اگر ہم غوروفکر کریں تو ہر شئے کے اندر فطرت کا ایک مخصوص
نظام کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر مچھلی کا نام لیتے ہی ہمارے تصور
میں ایک ایسی مخلوق آجاتی ہے جس کا تعلق پانی سے ہے۔ ہمارا تصور جب بھی دیکھے گا
تو مچھلی کو پانی کے اندر دیکھے گا۔ گویا پانی میں رہنا مچھلی کی فطرت میں داخل
ہے۔ فطرت سے الگ کر کے مچھلی کا وجود باقی نہیں رہتا۔ مچھلی کی حیات کے نظام کو
جاری و ساری رکھنے کے لئے مچھلی کی پانی میں رہنے والی فطرت کو جدا نہیں کیا جا
سکتا۔ اسی طرح سورج کی فطرت میں روشنی کا
دخل ہے۔ جب بھی سورج کا تصور آتا ہے ہمارے میں روشنی کا ایک ایسا گولا آجاتا ہے جس کے اندر اتنی
روشنیاں ہیں کہ اس کی شعاعیں ایک جہاں کو منور کرتی ہیں۔ گویا سورج کی فطرت میں
جگمگانا ہے۔ سورج سے روشنی کو جدا کر دیا جائے تو سورج کی اصل ذات ہی ختم ہو جائے
گی۔ اسی طرح بے شمار مثالیں ہیں ہم دنیا کی ہر شئے میں غور کر کے اس کے اندر کام
کرنے والی فطرت کا سراغ لگا سکتے ہیں۔ ہر شئے کے اندر فطرت کے نظام کو قائم اور جاری رکھنے والے قوانین اور اصول سنت
کے قوانین کہلاتے ہیں جو ساری کائنات میں جاری و ساری ہیں ۔ فطرت شئے کے اندر روح بن کر کام کر رہی
ہے۔ روح کے بغیر شئے کا وجود نہیں ہے۔
حسد ابلیس کی فطرت ہے۔ اس موقع پر ذہن
میں یہ سوال آتا ہے کہ ابھی ہم نے فطرت کو اسمائے الہٰیہ کے خواص کہا تھا۔ اسمائے
الہٰیہ اللہ کی صفت ہیں۔ اب ہم حسد کو ابلیس کی فطرت کہہ رہے ہیں۔ فطرت میں تغیر
نہیں ہے اور جس شئے میں تغیر نہیں ہے وہ اللہ ہے۔ کائنات میں تغیر ہے اسی لئے تو وہ اللہ سے جدا ہے۔ اصل میں نہ اللہ کی
ذات میں کوئی تغیر ہے نہ صفات میں۔ مگر ساری کائنات اللہ پاک کی صفات کا مظاہرہ کر
رہی ہے اور یہ مظاہرہ براہ راست انوار و تجلیات کا نہیں ہے بلکہ اسمائے الہٰیہ کی
روشنیاں شئے کے قالب یعنی حدود میں رہ کر اپنا مظاہرہ کرتی ہیں جس کی وجہ سے ہر
اچھائی اور برائی کا نتیجہ شئے کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے آدم یا
ابلیس کی غلطی اور اس کی اچھائی یعنی تمام اعمال کا ذمہ دار آدم اور ابلیس کو ہی
ٹھہرایا جائے گا نہ کہ خالق کو۔ حسد کو ہم نے ابلیس کی فطرت اس وجہ سے کہا کہ قرآن
ہمیں اس بات کی اطلاع دے رہا ہے کہ ابلیس آدم کا کھلا دشمن ہے۔ اس نے حسد میں آکر
آدم و حوا کو جنت سے نکلوا دیا۔ ابلیس کی اس فطرت کے ،تعلق اللہ پاک نے صرف قرآن میں
ہی نہیں بلکہ تمام آسمانی کتابوں میں اس کا تذکرہ نہایت تفصیل سے کیا ہے۔ تاکہ آدم
اپنے دشمن کی فطرت سے واقف ہو کر اس سے دور رہنے کی فکر کرے۔ ہر شئے اللہ کے حکم
سے اسمائے الہٰیہ کی صفات کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ابلیس اللہ پاک کی نافرمانی کا
مظاہرہ کر رہا ہے۔ جیسا کہ اپ جانتے ہیں کہ اس
نے اللہ کے حکم سے روگردانی کی ہے۔
قرآن میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اے ابلیس! تجھے کیا ہو گیا کہ جس کو (آدم کو) میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے
بنایا اس کو تو نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا جب کہ میں نے تجھے اسے سجدہ کرنے کا حکم
دیا۔ اللہ پاک کے دونوں ہاتھ دراصل اللہ پاک کی دو شانیں ہیں۔ ایک شان جمالی دوسری
شان جلالی۔ شان جمالی کا مظہر حضور پاک ﷺ ہیں اور شانِ جلالی کا مظہر ابلیس لعین
ہے۔ اللہ کی وحدانیت میں یہ دونوں شانیں یکساں طور پر موجود ہیں اور موجودگی سے
نقصان یا فائدہ زیرِ بحث نہیں آتا بلکہ ان کے مظاہرے یا عمل سے نتیجہ نکلتا ہے۔
چناچہ ان کا مظاہرہ بھی براہ راست نہیں ہے بلکہ بالواسطہ آدم اور ابلیس کے ہے۔
یعنی شان جمالی کا جو بھی مظاہرہ کائنات کی حدود میں ہو رہا ہے وہ مظاہرہ آدم و
حوا کے ذریعے ہو رہا ہے اور شانِ جلالی کا جو بھی مظاہرہ کائنات کی حدود میں ہورہا
ہے وہ مظاہرہ ابلیس کے ذریعے ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی خطاؤں پر دونوں ہی مورد
الزام گردانے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اسمائے الہٰیہ کے علوم عطا کیے ہیں۔
اسمائے الہٰیہ اللہ کا نور ہے۔ اللہ نے آدم کو نور کے علوم عطا کیے ہیں۔ اس نور کا
مظاہرہ آدم کے ذریعے ہو رہا ہے۔ آدم روح اور جسم کا مجموعہ ہے۔ جسم مٹی کا پتلا ہے
مگر روح اسمائے الہٰیہ کا وہ نور ہے جو روح کی حیثیت سے آدم کے پتلے کے اندر داخل
کیا گیا ہے۔ اللہ پاک نے فرشتوں اور ابلیس کو سجدے کا حکم جب دیا تو اسی نور کو
سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا نا کہ متی کے پتلے کو۔ مگر فرشتے چونکہ نوری مخلوق ہیں۔
ان کی نظر نے مٹی کے قالب میں نور کو دیکھ لیا اور جان گئے کہ مٹی کا قالب جس کا
نام آدم رکھا گیا ہے اللہ پاک کی زبردست صفات کا حامل ہے۔ پس فرشتوں نے اس نور
کی عظمت کو سجدہ کر لیا۔ اللہ پاک فرماتے
ہیں کہ ابلیس نار کا بنا ہوا ہے۔ پس ابلیس کی نظر نور میں نہ جا سکی۔ اس کی اپنی
ذات حجاب بن گئی۔ اس نے اپنے اندر نار کے دہکتے شعلے دیکھے اور پھر آدم کا جسم
خاکی دیکھا۔ اسے خاک کے مقابلے میں نار زیادہ روشن دکھائی دی۔ پس وہ اللہ کا
نافرمان بن گیا۔ اس نے اپنی کوتاہ نظری کی بنا ء پر آدم کی بجائے خود اپنے آپ کو
قابلِ تعظیم سمجھ لیا اور آدم سے حسد کرنے لگا۔ یہی وہ لمحہ تھا جس لمحے ابلیس نے
اپنے اندر موجود جلالی صفات یا نار کا مظاہرہ کیا۔ جب تک وہ نافرمانی کا مرتکب
نہیں ہوا تھا اس کے ذریعے سے جلال کا اظہار نہیں ہوا تھا۔ ابلیس کے ذریعے جب اس کی
فطرت کا مظاہرہ ہوا تو اس مظاہرے کو حسد کا نام دیا گیا اور یہ بات کھلم کھلا اللہ
کے سامنے فرشتوں کے سامنے ' آدم کے سامنے اور خود ابلیس کے سامنے اگئی کہ ابلیس
آدم کا دشمن ہے اور کبھی بھی دوست نہیں بن سکتا۔ پس اللہ پاک نے آدم وحوا کو اس
بات کی تنبیہ کر دی کہ اپنے دشمن سے کبھی غافل نہ رہنا۔ اس تنبیہ کا مطلب یہ ہے کہ
اللہ پاک نے آدم کو نوری علوم کے علاوہ نار کے علوم بھی عطا کر دیئے اور اس بات سے
آگاہ کر دیا کہ نوری صفات تمہارے اندر تعمیری صلاحیتوں کو اجاگر کرے گی جب کہ ناری
صفات تمہیں نقصان پہنچائے گی۔ لہذا نقصان سے بچ کر رہنا۔ جنت میں اس کے بعد بھی
ادم و حوا اور ابلیس ساتھ ساتھ رہے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ آدم وحوا نے ابلیس کو
دشمن نہیں بلکہ غلطی سے دوست سمجھ کر اس کی بات مان لی۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں سے
آدم اور حوا کے ذریعے ناری علوم و صلاحیت کا مظاہرہ ہوا۔ مظاہرے کا مطلب یہ ہے کہ
آدم و حوا کے اندر موجود نار کے علم کی شعاعیں متحرک ہوگئیں۔ جیسے ہی نار کے علم
کی روشنی متحرک ہوئی، ان سے غلطی ہو گئی۔ کیونکہ نار نافرمانی کی صفت ہے اور
نافرمانی کا ذہن شعور ہے۔ اس نافرمانی کے نتیجے میں آدم و حوا سے بھی جنت چھن گئی
اور ابلیس بھی ان کے ساتھ نکالے گئے۔ اب صورت حال یوں ہے کہ شیطان کے اندر کی نار
اور آدم کے اندر کا نور دونوں ہی آدمی کی آنکھ سے پوشیدہ ہے۔ اسے نور اور نار کا
اس وقت پتہ چلتا ہے جب اس کے نفس کے ذریعے سے اس کا مظاہرہ ہو جاتا ہے جس کو وہ
اپنے اعمال کہتا ہے۔ خیر اور شر کے حوادث میں اس نے اپنے نفس کی کشی کو چھوڑ دیا
ہے۔ جاننا چایئے کہ آدم وحوا کی ہر خطا نافرمانی کے زہن کی حرکت ہے۔ جس کا نمائندہ
ابلیس ہے۔ بلاشبہ ابلیس نافرمانی اور شر
کا نمائندہ ہے مگر اس کی نمائندگی کو قبول کر کے انسان ہی اس کی تقلید کرتا ہے۔
اگر ابلیس حاسد ہے تو آدمی بھی اس کے حسد کو پسند کر کے اسی طرح عمل کرنے کی کوشش
کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خیر و شر دونوں ہی اعمال و افعال اس کے اپنے نامہ اعمال
میں ریکارڈ کئے جاتے ہیں اور ان کا نفع و نقصان بھی اس کی اپنی ذات کو پہنچتا ہے۔
ابلیس نے آدم کو دیکھ کر سب سے پہلے جس
کیفیت کا اظہار کیا وہ حست اور غرور ہے۔ حسد پیدا ہی غرور سے ہوتا ہے۔ پس جب بھی
آدمی حسد کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر تکبر اور غرور پیدا ہو گیا
ہے۔ تکبر، غرور کا مطلب یہ ہوا کہ مد
مقابل کو اپنے نفس کے سامنے ہیچ اور ذلیل سمجھتا ہے۔ اسی رذیل حرکت سے شیطان راندہ
گاہ ہوا اور یہی رزیل حرکت انسان کو بھی اللہ کی بارگاہ سے دور کرتی ہے۔ ہم پہلے
عرض کر چکے ہیں کہ فطرت میں کوئی تغیر نہیں ہے۔ تکبر و غرور کا ہر مظاہرہ فطرت کے
خلاف ہے۔ یعنی اللہ کی نافرمانی اور ناپسندیگی ہے۔ پس تکبر و غرور کی فطرت ہی
ناپسندیدگی اور نا فرمانی ہوئی۔ جب بھی اس کا عمل ہوگا جس کے ذریعے بھی ہوگا اس کا
نتیجہ وہی حاصل ہوگا جو پہلی مرتبہ ازل میں اس کے مظاہرے پر ہوا یعنی وہ بندہ اللہ
کے عتاب کا شکار ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو قیامت تک کی مہلت دی ہے ۔ اس
کا مطلب یہ ہے کہ ابلیس کی کار فرمائی کو ایک محدود آسمانوں میں شیطانوں کا داخلہ ممنوع
ہے اور جو شیطان آسمان کی خبروں کی سن گن لینے کے لئے آسمان تک چڑھتا ہے اسے
فرشتوں کی فوج مار گراتی ہے۔ زمین سے پہلے آسمان تک عالم ناسوت کی حد ہے۔ شیطان
اور شیطانیت کا دائرہ عمل عالم ناسوت کی حد تک ہے اس کے اوپر شیطانوں کا گزر نہیں
ہے۔ اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ عالم ناسوت کی حد میں نار کا غلبہ ہے۔ نار نور
کی ضد ہے۔ نوری علوم اسمائے الہٰیہ کے علوم کی ضد یعنی اسمائے الہٰیہ کے علوم سے
لاعلمی و بے خبری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم ناسوت یا مادی دنیا کی حدود میں آدمی خود
اپنی زات سے لاعلم ہے۔ جب تک وہ نوری علوم حاصل نہیں کر لیتا اس کے اوپر نار یعنی
لا علمی کا غلبہ رہتا ہے اور وہ دنیا کی زندگی میں شیطانی صفات کا مظاہرہ کرتا
رہتا ہے۔ تکبر و حسد چونکہ شیطانی فطرت ہے۔ جب آدمی اس فطرت کو اپنا لیتا ہے تو اس
کی اپنی فطرت جو کہ نوری ہے وہ ہمیشہ کے لئے پس پردہ چلی جاتی ہے ۔ جیسے کوئلہ آگ
کو اپنے اندر اس طرح سمو لیتا ہے کہ خود اگ بن جاتا ہے پھر اسے کوئی کوئلہ نہیں
کہتا بلکہ آگ کہتے ہیں۔ یعنی کوئلہ اپنی صفت کو چھوڑ کر دوسروں کی صفت کو اپنا
لیتا ہے۔ پس اس کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہی حال آدم کا ہے کہ اللہ نے اسے اپنا
محبوب اور دوست بنایا ہے۔ جب وہ دوست کو چھوڑ کر دشمن کی صفت اور فطرت کو اپناتا
ہے تو اس کی اپنی فطرت اس سے منہ موڑ لیتی ہے۔ موت کے بعد بھی وہ عالم ناسوت کی حد
سے باہر نہیں نکل سکتا اور اس کا حشر نشر بھی دشمن کے ساتھ ہی ہوتا ہے مگر جب آدمی
دنیا میں رہتے ہوئے شیطانی گرفت سے آزاد ہو جا تا ہے تو نار کی بجائے اس کے
اوپر نور کا غلبہ ہو جاتا ہے ۔ نور اللہ
ہے۔ چناچہ آدم کے اعمال و افعال کا مظاہرہ عالم ناسوت کی محدودیت سے نکل کر عالم
نور کی لامحدودیت میں ہونے لگتا ہے۔
لامحدودیت میں
داخل ہو کر اسے ہمیشہ کے لیے شیطان سے پناہ مل جاتی ہے کیونکہ لامحدودیت میں شیطان
کا گزر ہی نہیں ہے۔ لامحدودیت میں داخل ہو کر انسان کے شعور کو نور
سے انرجی ملتی ہے۔ نور کا ہر ذرہ اور نور کی ہر شعاع اپنے اندر اسمائے الہٰیہ کا
ادراک اور علم رکھتی ہے۔ پس آدم علم کے ذریعے اپنے دوست سے قریب ہو جاتا ہے۔
مادی زندگی علم و عمل کا نام ہے۔ مادی
زندگی میں علم خیال کی وہ روشنی ہے جو دماغ سے ٹکرا کر خیال اور تصور کی صورت بنتی
ہے۔ جب یہ تصور گہرا ہو جاتا ہے تو نظر یا انکھ اسے اپنے مقابل دیکھ لیتی ہے۔ آنکھ کے دیکھنے کے اس عمل
کسے ہمیں یہ بات سمجھ میں اتی ہے کہ ہر شئے علم کی صورت میں ہمارے اندر ہوتی ہے
پھر یہ علم مظہر بن کر سامنے ا جاتا ہے اور پھر یہ شئے دوبارہ ہمارے اندر علم کی صورت
میں واپس چلی جاتی ہے۔ ہمارے دماغ سے ہر لمحے نور کی شعاع ٹکراتی رہتی ہے۔ جب
ہمارا شعور اسے قبول کر لیتا ہے تو علم کا نور شعور میں جذب ہو جاتیاہے۔ شعور کی
فطرت خلاء ہے۔ اس خلاء میں جب نار کی مقداریں ذخیرہ ہو جاتی ہیں تو یہ خلاء خود نار یا شیطان بن جاتا ہے اور اسی کی صفت
اختیار کر لیتا ہے اور جب شعور نور کی مقداروں کو جذب کر لیتا ہے تو نور کا پیکر
بن جاتا ہے۔ جس فطرت پر اور اصل صورت پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے گویا اس
زندگی میں ہر آدمی اپنی اس تصویر میں رنگ بھر رہا ہے جو اگلی دنیا کی صورت ہوگی۔
اگر تصویر میں اچھے رنگ بھرتا ہے تو صورت اللہ کی پسندیدہ ہو گی اور اگر غلط رنگ
بھرتا ہے تو اللہ اسے دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔
روحانی راستوں پر قدم قدم پر مصائب کا
سامنا اسی لئے ہوتا ہے کہ شیطان دشمن بن کر ہر دم پیچھے لگا ہوا ہے۔ نہ شیطان کو
ہماری آنکھ دیکھ سکتی ہے نہ رحمٰن کو۔ مگر ہر دو کا گزر ہمارے قلب و ذہن سے ہے۔ ہر
فاسد و سفلی خیال اور منفی سوچ شیطان کی انسپائریشن ہے اور ہر نیک ، اچھا خیال اور
مثبت سوچ رحمٰن کی جانب سے ہے۔ روحانی طالب علم کو چاہیئے کہ وہ ہر وقت اپنے اندر
نظر رکھے۔ ہر خیال پر عمل کرنے سے پہلے اس کی جانچ پڑتال کرے تاکہ اس کی منفیت اور
مثبیت کا اسے علم ہو جائے۔ منفی خیال کو فوراً ہی دماغ سے رد کرنے کی کوشش کرے۔
خیال جب زیادہ دیر دماغ میں ٹھہرا رہ جاتا ہے تو پھر اس کا ہر قدم مظاہرہ اور عمل
کی جانب ہوتا ہے اور عمل کے بعد کا ریکارڈ آدمی کے نامہ اعمال میں درج ہو جاتا ہے
یعنی یہ روشنی شعور میں جذب ہو گئی اور آدمی کی صلاحیت بن گئی۔ جس کا وہ جب چاہے
مظاہرہ کر سکتا ہے۔ منفی عمل کا بار بار مظاہرہ خالق سے قدم قدم دور لے جاتا ہے۔
جس سے روحانی راستوں پر آدمی پیچھے رہ جاتا ہے۔ روحانی راستے پر ایک غلطی آدمی کو
سو برس اس راستے پر پیچھے کر دیتی ہے۔ بعض وقت حسد کی آگ اس طرح اندر ہی اندر
سلگتی رہتی ہے کہ آدمی کو خود بھی پتہ نہیں چلتا۔ مگر روحانی اسکول میں داخلہ لینے
کا مطلب ہی یہی ہے کہ طالب اپنے انر میں ہونے والی ہر حرکت سے واقفیت حاصل کرے۔
طالب کو ہر وقت اپنی ذات میں چوکنا رہنا چاہیئے تاکہ وہ اپنا آپ محاسبہ کرے۔ جس
طرح ہر شخص اپنے گھر کی چوکیداری کرتا ہے کہ کسی اجنبی کو گھر میں گھسنے نہیں دیتا
اسی طرح اس کا اپنا باطن بھی تو اس کا گھر ہے۔ اپنے قلب و ذہن کی چوکیداری کا فرض
بھی اس پر عائد ہوتا ہے۔ تاکہ دل و دماغ میں شیطانی خیالات داخل نہ ہونے پائیں۔
گھر میں جو بھی داخل ہوتا ہے اسے آپ دوست سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ دوستی کا
برتاؤ کرتے ہیں۔ پس اگر شیطان آپ کے گھر میں داخل ہو جائے تو آپ اسے بھی اپنا دوست
سمجھ لیں۔ جب کہ وہ دشمن ہے۔ دشمن کبھی خیر خواہ نہیں بن سکتا۔ طالب کو چایئے کہ
اپنے دل و دماغ کو ہر وقت نظر میں رکھے اور اپنا دروازہ صرف دوست پر ہی کھولے۔
اپنے گھر کے دروازے کی کنجی ہر شخص کے پاس ہوتی ہے۔