Topics
۱۔ خواہش نام و نمود شیطنت ہے۔ بابا جی کا
ارشاد ہے کہ حاسد ، متکبر، غصیلا اور وہ بندہ جس میں خواہش نام و نمود ہو وہ
روحانی ہو ہی نہیں سکتا۔
۲۔ کائنات کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی جو
فکر کام کررہی ہے وہ فکر یہ ہے کہ ” میں اپنی صفات کے ساتھ مخلوق میں پہچانا
جاؤں۔“ کائنات کے ذرے ذرے کو اللہ پاک کی یہ فکر منتقل ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ہر
شئے اپنے اندر کی صلاحیتوں کا اظہار کر رہی ہے۔ مگر جب اس اظہار کا رخ بندے کی
اپنی ذاتی انا کی جانب ہو جاتا ہے تو اس کے اندر تکبر پیدا ہو جاتا ہے اسی کی وجہ سے دوسری برائیاں
بھی جنم لیتی ہیں جس میں سے ایک خواہش نام و نمود بھی ہے۔
۳۔ خواہش نام و نمود انا کی خواہش ہے اور انا
تو صرف اللہ ہی کی ہے۔ ایک روحانی آدمی میں ایسی خواہش نہیں ہونی چاہیے کیونکہ
روحانی تعلیمات اپنی انا کی نفی کرنا سکھاتی ہیں بلکہ اپنے کام میں اللہ کی توفیق اور اس کی رضا کو پیش ِ نظر
رکھنا چاہیے۔
۴۔ خواہش نام و نمود دراصل ہوس و حرص کا دوسرا
نام ہے۔ اس سے اپنی انانیت کو تقویت پہنچتی ہے اور انسانیت کی تقویت روحانی طرز ِ
فکر کے بالکل ہی برعکس ہے۔
۵۔ خواہش نام و نمود آدمی کو اپنے خول میں
بند کر دیتی ہے کیونکہ اس کی ہر سوچ انفرادی ہوتی ہے جب کہ روحانی طرزِ فکر آدمی
کو کل ذات سے متعارف کراتی ہے۔
۶۔ کبر و تکبر کی وجہ سے آدمی کے اندر خواہش
نام و نمود پیدا ہوتی ہے۔ انسان فانی ہے اسے ایک نہ ایک دن فنا ہو ہی جانا ہے۔
ہمیشہ نام صرف اللہ ہی کا باقی رہنے والا ہے۔ یہ خواہش نہایت ہی منفی سوچ ہے
جو روحانی آدمی میں تو کیا کسی عام آدمی
میں بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔
۷۔ روحانی ترقی میں جا ہ طلبی اور خود نمائی
بنیادی رکاوٹ ہے کیونکہ روحانی سفر میں آپ کو اپنی انا کی مکمل نفی کرنی پڑتی ہے۔
نام و نمود کی خواہش انا کو سرکش اور باغی بنا دیتی ہے۔
۸۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” جو اپنے رب سے
ملنے کی خواہش رکھے اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو
شریک نہ کرے۔ “ خواہش نام و نمود چونکہ
اخلاص اور للہیت کے خلاف ہے اس لئے یہ بھی شرک ہے۔ نتیجتاً خواہش نام و نمود رکھنے
والا بندہ اللہ کو نہیں پا سکتا۔ آدمی جتنا عجز و انکسار اور کسر نفسی سے کام لیتا
ہے اتنا ہی وہ ہر دل عزیز ہوتا ہے۔ بقول شاعر کہ ” دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار
ہوتا ہے۔“ عموماً دیکھا گیا ہے کہ خواہش نام و نمود رکھنے والے بندے شیخی بگھارتے
ہیں جب کہ اللہ پاک کسی شیخی بگھارنے والے ناشکرے کو پسند نہیں کرتے۔
۹۔ روحانی آدمی کے پیشِ نظر اللہ کی رضا اور
اس کی خوشنودی ہونی چاہیے۔ جیسے ہی انسان کے اندر خواہش نام ونمود پیدا ہوتی ہے اس
کی فکر میں محدودیت اور جمود طاری ہو جاتا ہے۔ اللہ چونکہ لامحدود ہستی ہے تو
لامحدود طرزِ فکر ہی اللہ سے ملا سکتی ہے
۱۰۔ تاریخ شاہد ہے کہ زمانہ قدیم سے اللہ نے جب
انسان کو اپنی نعمتوں سے نوازا تو وہ خود کو خدا سمجھ بیٹھا۔ اس کی واضح مثال
فرعون کی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا والوں کے لئے عبرت کا نشان بنا دیا ہے۔
تکبر اور خواہش نام و نمود فرعونیت ہے۔
۱۱۔ جب
آدمی کے اندر خواہش نام و نمود ابھرتی ہے تو وہ حلال اور حرام کا فرق بھول جاتا ہے۔
۱۲۔ خواہش نام و نمود سے آدمی اپنے اعمال کا
ریکارڈ خراب کرتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن ایک سخی کا حساب
کتاب ہو رہا ہوگا اور وہ کہے گا کہ اے اللہ میں نے آپ کے راستے میں اتنا اتنا مال
خرچ کیا۔ اللہ پاک فرمائیں گے وہ تو تونے میرے لیے نہیں بلکہ اپنے نام و نمود اور
شہرت کے لیے کیا تھا کہ لوگ کہیں کہ یہ بڑا سخی آدمی ہے اور یہ شہرت تجھے دنیا میں
حاصل ہو چکی۔ اسی طرح ایک مجاہد کو لایا جائے گا وہ کہے گا میں نے تیرے راستے میں اپنی
جان دے دی۔ اللہ پاک فرمائیں گے تو نے اس لیے جان دی کہ تو لوگوں میں بہادر کہلائے وہ کہہ چکے۔ اس
سے ثابت ہوتا ہے کہ جس کام میں اخلاص کی
بجائے خواہش نام و نمود ہوتی ہے وہ عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہوتا۔
٭٭٭٭٭
سوالات
سوال
نمبر ۱۔ خود نمائی کے کیا کیا نقصانات ہیں؟
سوال
نمبر۲۔ انفرادی اور اجتماعی سوچ میں کیا
فرق ہے؟
سوال
نمبر۳۔ کبر و تکبر کے کیا نقصانات ہیں؟
بیان کریں۔
سوال
نمبر ۴۔ ”ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لیے جو
اپنی نمازوں سے بے خبر ہیں“ اس کی تشریح
کریں۔
سوال
نمبر۵۔ غصہ کے کیا کیا نقصانات ہیں؟ بیان
کریں۔
٭٭٭٭٭
قانون
قدرت کے مطابق ہمارے اندر تقاضے بھی دو رخوں میں تخلیق ہورہے ہیں۔ ایک رخ میں
تقاضوں کا مرکز اپنی ذاتی انا ہوتی ہے دوسرے رخ میں تقاضوں کا مرکز اللہ کی انا
ہوتی ہے۔ ہر وہ تقاضہ جس کا مرکز انسان کی ذاتی انا ہے وہ شیطنیت ہے۔ آپ جانتے ہیں
کہ شیطان نے نافرمانی ہی اس وجہ سے کی کہ
اس کے سامنے صرف اپنی ذات تھی۔ اپنی ذات کے آگے اس نے اپنے رب کو بھی بزرگ نہ جانا
اور گستاخی پر اتر آیا۔ پس ذاتی انا کا ہر تقاضہ اللہ سے دور کرنے والا ہے۔ جب
تقاضے کا مرکز اللہ کی انا ہوتی ہے تو ہر تقاضہ روح کا تقاضہ ہوتا ہے۔ روح کا ہر
تقاضہ وہ فطرت ہے جس میں اللہ کی حکمت اور مصلحت کام کر رہی ہے۔ یعنی روح کے ہر
تقاضے میں اللہ کی رضا شامل ہے۔ روح کے تقاضے ہی شعور میں منتقل ہوتے ہیں اور
جسمانی حرکات و اعمال بنتے ہیں مگر خرابی اس وقت آتی ہے جب آدمی ان تقاضوں کے سورس
اور مرکز سے واقف نہیں ہوتا یا واقف ہونے کے باوجود بھی انہیں اپنی ذات سے منسوب کر لیتا ہے تو
فرد تو مٹی سے بنا ہے۔ہر شخص کو ایک نہ
ایک دن مرنا ہی ہے۔اگر آدمی کی مرکزیت اپنی ہی ذات ہوگی تو عمل کا ہر ریکارڈ بھی
اپنی ہی ذات تک محدود ہو جائے گا۔ جب جسم پر موت وارد ہو جائے گی ور فرد کا دنیاوی
شعور ختم ہو جائے گا تو اعمال کا ریکارڈ
بھی ختم ہو جائے گا جب کہ سزا و جزا کا دارومدار اعمال پر ہے۔ اگلی دنیا میں آدمی
بالکل ہی مفلس اور تہی دست ہوگا۔ اسی کے
متعلق اللہ میاں فرماتے ہیں کہ ” مومنو! اس شخص کی طرح مت ہو جانا جو لوگوں
کو دکھاوے کے لیے مال خرچ کرتا ہے اور خدا ور روزآخرت پر ایمان نہیں رکھتا تو اس
کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پرتھوڑی سی مٹی پڑی ہے اور اس پر زور کا مینہ برس کر
اسے صاف کر ڈالے۔ یہ لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اور خدا
ایسے ناشکروں کی ہدایت نہیں دیا کرتا۔“(سورہ بقرہ ۲۹۴)
جس طرح کرنسی میں کھوٹے سکے کی کوئی قیمت نہیں ہے اسی طرح انفرادیت کے دائرے
میں اعمال بھی کھوٹے سکے کی طرح ہیں۔ جو آخرت کی دنیا میں قابل قبول نہیں ہوتے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ نے نام و نمود کی خاطر
احسان جتانے والے کو سخت ناپسند فرمایا ہے اور صرف یہی نہیں کہ آدمی مال
خرچ کرنے میں ہی دکھاوے سے کام لیتا ہے بلکہ اللہ پاک کی عبادت کرنے میں بھی دکھاوے سے کام لینا اللہ کے نزدیک سخت ناپسند
فعل ہے۔ ایسے ریا کار کی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ چناچہ اللہ پاک اپنے کلام میں
فرماتے ہیں کہ ” خرابی ہے ایسے نمازیوں کی جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں جو ریا
کاری کرتے ہیں۔“(سورہ الماعون)
اس
آیت سے ہمیں یہ بھی ہدایت ملتی ہے کہ اپنی نمازوں اور عبادتوں کو پوشیدہ رکھنا
چاہیے۔ انسان کا نفس نہایت ہی کمزور اور شیخی باز ہے۔ ضرورت سے زیادہ اپنی عبادت
کاتذکرہ آدمی کے اندر ریا کاری پیدا کر دیتا ہے۔ درپردہ اس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ
اس کی عبادت کی وجہ سے وہ لوگوں میں متقی
اور پرہیز گار مشہور ہو جائے گا اور لوگ اس کی عزت کریں۔ پس اسی بہانے اس کا ذہن
اللہ کی خوشنودی سے ہٹ کر دنیا والوں کی خونودی پر اٹک جاتا ہے اور اس کا ہر کام
دنیاوی زندگی کے لئے ہو جاتا ہے مگر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی دوسرے
آدمی کی نقل کر کے اس سے کام سیکھتا ہے۔ ایسی صورت میں نیک اعمال اور عبادتیں بھی
دوسرے کی نگاہ میں لائق تقلید ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں نیک اعمال کا ظاہر کرنا
احسن ہے کہ یہ دوسرے کی جاہلیت دور کر کے اسے علم کی طرف راغب کرتا ہے۔
جب
ہم گزشتہ ادوار میںروحانی بندوں کے واقعات
اور طرز ِ زندگی پر نظر کرتے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو ادب
سکھانے سے پہلے خود ادب سیکھا اور جب خود اللہ کی راہوں سے واقف تب دوسرے کا ہاتھ
تھاما تاکہ یقین کے ساتھ اسے اس راستے سے گزاردیں۔ حضرت عمر ؓؓؓ کا قصہ ہے کہ ان کے دور خلافت میں ایک
خاتون اپنے بچے کو لے کر آپ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں ” یا امیر المومنین! یہ بچہ
میٹھا بہت کھاتا ہے میری بات نہیں سنتا۔
آپ اسے منع فرما دیں۔ حضرت عمرؓنے فرمایا۔” ایک ہفتے بعد فلاں دن آنا۔ وہ وقت
مقررہ پر آگئیں، بچہ بھی ساتھ تھا۔ حضرت عمرؓنے بچے کو اپنے پاس بلایا اور اس کی
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بس یہ کہا کہ
”
دیکھو بیٹے! زیادہ میٹھا کھانا اچھا نہیں ہے۔ آئندہ زیادہ میٹھا مت کھانا۔“
پھر ماں سے کہا کہ” بس ٹھیک ہے میں نے اسے نصیحت
کر دی ہے اب یہ زیادہ میٹھا نہیں کھائے گا۔“
ماں
سخت حیران ہوئی۔ کہنے لگی۔” اے مومنین کے
سردار!اگر اتنی سی بات کہنی تھی تو وہ تو آپ اسی دن کہہ سکتے تھے اس کے لیے ایک
ہفتے کا انتظار کیوں کروایا۔“
حضرت
عمرؓنے فرمایا کہ۔” دراصل جب تم پہلی بار یہاں آئیں اس وقت میں خود میٹھے کا بڑا
شوقین تھا اور میٹھا کھاتا تھا۔ اس ایک ہفتے میں میں نے میٹھا بالکل ترک کر دیا۔
بس اب بچے کے حق میں میری نصیحت بھی کام
کرے گی۔“
اس
سے ظاہر ہوا کہ جب تک آدمی اس چیز پر
کاربند نہ ہو جائے دوسرے کو نصیحت کرنا فضول ہے۔شعور کی تمام خرابیاں مٹی
کی کثافتیں ہیں جس طرح گندے برتن میں دودھ جیسی سفید اور صاف شئے بھی خراب ہو جاتی
ہے اسی طرح شیطانی طرزَ فکر کے زیرِاثر عقل و شعور میں رحمانی فکر کو بھی شیطانی
رنگ دے دیتا ہے۔ اپنے نفس کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے تمام روحانی مفکروں اور پیشواؤں نے اپنے شاگردوں کو سالہا
سال تربیت کی۔ اس تربیت میں نفس کو ادب سکھانے والی ریاضتیں اور عبادتی بھی شامل
ہیں اور نفس کو اس کی بے بسی ، معذوری اور خلاللت سے آشنا کرنے والی مشقیں بھی
ہیں۔ ریاضتوں اور عبادتوں میں جسمانی سکھ اور آران کو ترک کرنے والے عملیات ہیں جب
کہ خود اپنی نگاہ میں اپنے نفس کی بے وقعتی اور خلالت کو دکھانے والی مشقیں بھی ہیں تاکہ عزت نفس کا احساس ہی
مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق بندہ یہ بات یقین کی حد میں جان جائے کہ
عزت بھی اللہ ہی کی جانب سے ہے اور ذلت بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔روحانی علوم
سیکھنے کے لیے روحانی طرزِ فکر اختیار کرنا لازمی امر ہے اور روحانی طرزِ فکر
اختیار کرنے کے لیے عبادتیں، ریاضتیں اور
نفس کو قابو رکھنے والی مشقیں کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ روحانی طرزِ فکر کا مطلب یہ
ہے کہ دماغ میں انے والے ہر خیال کو عقل روحانی طرزِ کے مطابق معنی پہنائے ۔ ہر
اطلاع جو شعور کو ملتی ہے وہ روح کی جانب سے ملتی ہے۔ روحانی طرزِ فکر میں روح کے
ذہن سے اطلاع کو معنی پہنائے جاتے ہیں۔ قدرت کا قانون سب کے لیے یکساں طور پر کام
کررہا ہے۔ روحانی طرزِ فکر میں اپنی عقل وشعور کو ڈھالنے کے لیے جس طرح ایک روحانی
بندے کو تربیتی دور سے گزرنا پڑتا ہے اسی طرح ہر پیغمبر علیہ السلام بھی نبوت سے
پہلے اس دور سے گزر چکے ہیں۔ پیغمبروں کے حالات زندگی ہمیں اس بات کی خبر دیتے ہیں
کہ تقریباً ہر پیغمبر نے اپنے بچپن و لڑکپن کے دور میں نبوت سے پہلے بکریاں ضرور چرائی ہیں۔ قرآن میں بھی اس
کا ذکر ہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ،
حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس گئے تو وہ ان کی بکریاں چرانے پر مقرر تھے۔ پیغمبروں
کی زندگی کا ہر عمل اللہ پاک کی زبردست حکمتوں کے ساتھ ہے اور باعث تقلید ہے۔
سوائے اس کے جس میں اللہ پاک نے ناخوشی کا اظہار فرمایا ہے جیسے حضرت یونس علیہ
السلام کا مچھلی کے پیٹ میں جانے کا واقعہ۔ مگر ایسے واقعہ بھی پیغمبروں کے اللہ
پاک کی حکمت کے ساتھ ہیں اور ان کی یہ حکمت ہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اللہ
پاک کن چیزوں کو پسند نہیں کرتے اور کون سی باتیں و اعمال انسان کو اللہ کے غضب
کا شکار بنا دیتی ہیں تاکہ ان سے بچا جا سکے ۔ اب ہم پھر اس عمل کی جانب
آتے ہیں جو آسمانی کتابوں کے مطابق زیادہ
سے زیادہ پیغمبروں کا عمل رہا ہے یعنی بکریاں چرانے کا عمل۔ غور کرنے پر یہ
سمجھ میں آتا ہے کہ پیغمبرانہ طرزِ فکر کو
استوار کرنے کے لیے بکریاں چرانے کا عمل ایک تربیتی مشق ہے۔ بکری اور بھیڑ انسانوں
کے لیے بکریاں سب سے زیادہ ایثار انہ فطرت
رکھتے ہیں۔ ان کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ ان کے کھالوں سے لباس بنایا جاتا ہے۔ یہ
نہایت بے ضرر جانور ہے۔ گوشت کے ساتھ ساتھ ان کا دودھ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ غرض
کہ ان کی ساری زندگی انسان کے لیے وقف ہے۔
جب ہم پیغمبرانہ طرزِ زندگی پر غور کرتے ہیں تو ہم یہی دیکھتے ہیں کہ کسی بھی
پیغمبر کی زندگی ان کی اپنے لیے نہ تھی بلکہ ان کی ساری زندگی مخلوقِ خدا کی بے
لوث خدمت میں گزر گئی۔ نہ انہوں نے اپنے
بال بچوں کے لیے جائیدادیں بنا کر چھوڑیں، نہ ہی وہ اپنے بال بچوں کی ذمہ داری میں
لگ کر امت کی طرف سے اور اپنے مشن سے غافل ہوئے۔ نہ ہی وہ اپنے نفس کی خاطر داری
میں کبھی مشغول ہوئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع ہی سے انہیں پیغمبرانہ طرزِ فکر
اختیار کرنے کی تربیت دی گئی۔ اسی تربیت کا ایک حصہ بکریاں چرانے کا زمانہ بھی تھا
تاکہ بکریوں کے قریب رہنے سے ان کے مزاج اور ان کی طرزِ زندگی کا مشاہدہ ہو اور چونکہ پیغمبرانہ طرزِ فکر کا انداز غورو
فکر کرنا ہے۔ اپنی فطرت کے مطابق پیغمبر اپنے مشاہدے میں غور و فکر کریں۔ پس قدرت
نے شروع ہی سے انہیں ایسے مواقع عطا
فرمائے کہ وہ اپنی فطرت طبع کے مطابق غوروفکر کر کے اس میں سے مفید مطلب جواہر
تلاش کریں۔ روحانی علوم پیغمبروں کے علوم ہیں۔ روحانی علوم سیکھنے کے لیے
پیغمبرانہ طرزِ فکر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ پیغمبروں نے کبھی اپنی ذات کی حیثیت
سے نہیں بلکہ کل بنی نوع انسانی کی حیثیت سے
تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی وہ کچھ سوچتے اپنی ذات کو بحیثیت پوری قوم کے
رکھ کر سوچتے اور ان کا ہر عمل تمام انسانوں کے لیے فائدے مند ثابت ہوتا ۔ جب اپنی
ذات کی انفرادیت ہی ذہن سے نکل جائے تو آدمی کے اندر خواہش نام و نمود پیدا نہیں
ہو سکتی۔ مگر آج ساری دنیا دیکھتی ہے کہ
پیغمبروں کا نام ہر دور میں نہایت ہی عزت سے لیا جاتا رہا ہے اور ہزاروں
سال گزرنے کے بعد بھی ان کے کام دنیا میں پہلے کی طرح ہی باقی ہیں۔ ہر موجودہ نسل
آنے والی نسل کو ان کے نام روشناس کرانا اپنا فرض اور ذمہ سمجھتی ہے۔ اس سے یہ
نتیجہ نکلتا ہے کہ جب آدمی اپنے نفس سے
فنا ہو جاتا ہے تو اللہ کے ساتھ باقی رہ جاتا ہے۔ پھر جس طرح اللہ کا نام ہمیشہ
باقی ہے اسی طرح اس کا نام بھی جب تک اللہ
چاہتا ہے باقی رکھتا ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ہم نے کسی شئے کو محض نہیں بنایا
۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شئے کی پیدائش میں اللہ کا ارادہ کام کر رہا ہے۔ روح
کا ہر تقاضہ اللہ کا ارادہ ہے۔ اللہ کا امر کائنات میں جو
کچھ کرنا چاہتا ہے یا ارادے کا نور روح کے اندر منتقل ہوجاتا ہے اور روح کا تقاضہ بن جاتا ہے۔ اس طرح
کہ اللہ کا ارادہ جو کرنا چاہتا ہے روح کے اندر جب اللہ کے ارادے کی روشنی جذب
ہوتی ہے تو روح کے اندر وہی کام کرنے کا تقاضہ پیدا ہوتا ہے اور اس تقاضے کے اوپر
روح فوراً عمل شروع کر دیتی ہے۔ روح اس بات سے واقف ہے کہ اللہ اس سے یہ کام لینا
چاہتا ہے۔ روح کا تقاضہ جسم کے ذریعے تکمیل پاتا ہے۔ جب جسمانی شعور یا
مادی عقل اپنے اندر ابھرنے والے تقاضے کو نہیں جانتی اور ان کی حیثیت سے
واقف نہیں ہو پاتی تو پھر وہ اسے جسم کا
تقاضہ سمجھ لیتی ہے اور اپنی ذات سے منسوب کر لیتی ہے اور اپنی ذات سے منسوب کر لیتی ہے جس کی وجہ
سے خرابیاں آتی ہیں۔ عقل جب اپنی ذات کی
طرف دیکھتی ہے تو اسے چھوٹا کام بھی بڑا دکھائی دیتا ہے اور اس کے اندر غرور و
تکبر پیدا ہوجاتا ہے اور اپنے آپ کو اور اپنے اعمال و افعال کو ظاہر کرنے کا شوق
ہو جاتا ہے۔ یہی اشتیاق لوگوں میں نام و نمود کی خواہش کو ابھارتا ہے۔ ایک روحانی
کردار کے لیے نفسانی خواہشات روحانی راستوں کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدرت ایسے
وسائل پیدا کرتی ہے کہ ان کے اندر کی انفرادی سوچ اجتماعی سوچ میں بدل جائے اور ان
کی ذات سے مخلوق فائدہ فائدہ اٹھا سکے۔ اللہ پاک روحانی علوم اپنے بندوں کو اسی
لیے عطا کرتے ہیں تاکہ اللہ پاک دنیا میں
اپنی مخلوق کے لیے جو ارام و آسائش بہم پہنچانا چاہتے ہیں وہ ان بندوں کے ذریعے سے عطا کریں اور بندوں کے
اندر محرومی کا خوف دور کر کے ان کے ذہنوں کو سکون آشنا کریں اور انہیں اپنی جانوں
کے لیے مستقل طور پر سکون و آرا م پہنچانے والی ہستی سے روشناس کرا دیں۔ جب بندہ
اللہ کے ارادے پر کام کرتا ہے تو اللہ اسے اپنے کام کے لیے چن لیتا ہے اور اس کا
رابطہ لامحدودیت سے جا ملتا ہے پھر وہ اپنے نفس کی کمزوریوں اور خرابیوں سے امن
حاصل کر لیتا ہے۔