Topics

سخاوت

 

۱۔       اللہ کی راہ میں کھلے دل سے اپنے مال ،  جان، وقت اور صلاحیتوں کا استعمال کرنا  جودو سخا ہے۔ جیسا کہ مشہور ہے کہ اصل غنا  دل کا غنا ہے۔

۲۔       ہر کسی کے ساتھ خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آنا جو دو سخا ہے۔

۳۔       اللہ کے دیئے ہوئے میں سے مالی طور پر ، عملی طور پر اور علمی طور پر اپنے بھائیوں کی مدد کرنا جو دو سخا ہے۔

۴۔       سخاوت یہ ہے کہ آدمی اپنی ضرورت کا کفیل اللہ کو مان کر اس کی رضا کے لئے خرچ کرے اور اللہ کی مخلوق کی ضروریات کو  پورا کرے۔

۵۔       جان سے بڑھ کر کوئی شئے نہیں ہے۔ اپنی زندگی اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کر دینا جودو سخا ہے۔

۶۔       حضور پاک ﷺ کی طرزِ فکر کو اپناتے ہوئے اپنی جان و مال سے لوگوں کی مدد کرنا جودو سخا ہے۔

۷۔       Give in the ways of God with me thought of any wordly gains

۸۔       اللہ تعالی ٰ کی عطا کردہ صلاھیتوں اور نعمتوں کو صحیح طریقے سے خرچ کرنا جودو سخا ہے۔

۹۔       انسان کے پاس ہر شئے اللہ کی امانت ہے۔ امانت کو اصل مالک تک پہنچانا جودو سخا ہے۔

۱۰۔    ایسا کام اللہ کی مخلوق کے لئے کرنا جس میں ذاتی مفاد شامل نہ ہو سخاوت ہے۔

۱۱۔    کسی شئے کی خود کو سخت ضرورت ہوتے ہوئےبھی دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینا جدو سخا ہے۔

۱۲۔    وسعت قلبی کا نام جودو سخا ہے۔

۱۳۔    اللہ کی راہ میں اپنی عزیز ترین چیز کی قربانی جودو سخا ہے۔

۱۴۔    اللہ رب بن کر ساری کائنات کی کفالت کر رہا ہے۔ اپنے اندر موجود ربوبیت کی صلاحیتوں کا ستعمال جودو سخا ہے۔

سوالات

سوال نمبر۱۔   سخاوت کیا ہے اور اس کے کیا کیا فوائد ہیں؟

سوال نمبر۲۔   سخاوت ایک سالک کے لئے کیوں ضروری ہے؟

سوال نمبر۳۔   سب سے بڑے سخی اللہ تعالیٰ ہیں، ہم کس طرح یہ طرزِ فکر حاصل کر سکتے ہیں؟

سوال نمبر۴۔   کیا سخاوت میں اعتدال بھی ضروری ہے، وضاحت کریں۔

٭٭٭٭٭

          جودوسخا ایک ہی صفت کے دو رخ ہیں۔ جیسے سمندر کے  دو رخ ہیں۔ ایک رخ پانی کے اوپر والی سطح ہے۔ دوسرا رخ پانی کی گہرائی ہے۔ اسی طرح جودوسخا اللہ کی صفت کا سمندر ہے۔ ہم اس سمندر کے اوپر والی سطح کو سخا کہتے ہیں اور گہرائی کو وجود سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا اسم ہے جواد۔ یہ اسی اسم کی سفت ہے۔ جود کے معنی یہ ہیں کہ کسی کی مدد کرنے میں آدمی اپنے یا پرائے کی کوئی تمیز نہ کرے۔ اسم جواد کی فطرت ، سخاوت اور فیاضی ہے۔ زمین پر بستے ہوئے ہم اللہ کی اس صفت کا مظاہرہ ہر طرف اور ہر وقت دیکھتے ہیں۔ اللہ کی ہر سفت ایک مستقل نظام کی سورت میں ہمارے سامنے جاری و ساری ہے۔ ہوا، پانی، رزق، وسائل غرضیکہ ہر شئے مخلوق کی ضروریات سے بڑھ کر ہی ہیں۔ جہاں کہیں کسی چیز کی کمی ہوتی ہے وہاں اللہ کی جانب سے نہیں ہوتی۔ بلکہ مخلوق کی جانب سے ہوتی ہے۔ انسان کی نا اہلی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ انسان جب اللہ پاک کی عطا کی ہوئی نعمتوں میں سخاوت کی جائے کنجوسی کرنے لگتا ہے تو اللہ بھی اپنے وسائل سمیٹ لیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسمائے الہٰیہ کا نور صرف روشنی نہیں ہے بلکہ نور ایک مستقل نظام کی صورت ہے ۔ اس کے اندر تخلیقی سلاحیت ہے۔ اس کے اندر شعور ہے اور یہ نظر بھی ہے۔ ہر اسمائے الہٰیہ کی ایک مخصوص فطرت ہے۔ اس فطرت میں ردو بدل ناممکن ہے۔ انسان کے ذریعے اسمائے الہٰیہ اپنی فطرت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہے اگر آدمی سخاوت و فیاضی کرتا ہے تو اسم جواد کے انوار اس کے اس عمل کی حرکت کے لئے انرجی بنتے ہیں۔ جب تک آدمی نیک نیتی سے یہ عمل کرتا ہے اسے اسم جواد کی طرف سے سپلائی ملتی رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے وسائل میں ترقی اور برکت ہوتی رہتی ہے۔ مگر جیسے ہی نیت میں فتور اتا ہے خود غرضی و کنجوسی مزاج میں آجاتی ہے اسم جواد کی روشنیاں منہ موڑ لیتی ہیں جس کی وجہ سے خلاء رہ جاتا ہے۔ خلاء شعور یا نفس ہے۔ اب آدمی جو عمل کرتا ہے وہ روشنی سے خالی ہوتا ہے۔ روشنی سے خالی ہونے کی وجہ سے اس عمل کو انرجی نہیں ملتی بلکہ اس   کا محدود ارادہ اور عقل ہی اس کی انرجی مہیا کرتے ہیں۔ اس کا عمل نفسانی خواہش کے زیرِ اثر ہوتا ہے جو نہ دنیا میں مقبول ہوتا ہے نہ اللہ کے یہاں۔

          تمام پیغمبروں نے اپنی اپنی سکت کے مطابق اللہ کی اس صفت کا مظاہرہ کیا۔ قصہ مشہور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بغیر مہمان کے کھانا نہیں کھاتے تھے۔ ایک دفعہ تین دن تک کوئی مہمان نہ آیا۔ اپ نے بھی اپنی عادت کے مطابق بغیر مہمان کے کھانا نہ کھایا۔ مگر جب بشری تقاضے نے ستایا اور بھوک لگنے لگی تو اللہ سے دعا کی اے اللہ کوئی مہمان بھیج تاکہ میں کھانا کھاؤں اور اپنی بھوک مٹاؤں۔ پیغمبر کی دعا تھی جلد ہی قبول ہوگئی کسی نے دروازے پر صدا لگائی، بھوکا ہوں کوئی کھانا کھلا دے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کا نام پوچھا۔ اس بوڑھے نے نام بتایا۔ پوچھنے پر یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ بوڑھا اتش پرست ہے۔ آپ علیہ السلام کے ذہن میں آیا یہ اللہ تعالیٰ کو خالق نہیں مانتا اسے روٹی کیوں دی جائے اس خیال کے تحت انہوں نے اس بوڑھے کو بغیر کھانا کھلائے رخصت کر دیا پھر اللہ سے درخواست کی کہ کسی موحد کو بھیج تاکہ  وہ میرا مہمان بنے۔ اللہ پاک نے اپنے پیغمبر سے فرمایا۔

          ” اے ابراہیم سن! میں ستر برس سے اس بوڑھے کو کھانا کھلا رہا ہوں ان ستر برسوں میں اس نے ایک دن بھی مجھے اپنا خالق نہ کہا مگر اس کے باوجود بھی میں اسے روٹی دیتا رہا۔ تجھ سے ایک دفعہ کی روٹی بھی نہیں کھلائی گئی۔“

          یہ سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے معافی مانگی۔ اس بوڑھے کو تلاش کیا اور روٹی کھلائی ۔ جب  اس بوڑھے نے یہ واقعہ اللہ پاک کی ناراضگی کا سنا تو آتش پرستی چھوڑ کر ایمان لے آیا۔ بلا شبہ پیغمبروں کے ہر عمل میں اللہ کی حکمت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا درجہ فیاضی میں سخاوت پر تھا۔ جود پو نہیں۔ اس موضوع پر دوسری مثال حضور پاک ﷺ کی ہے۔ آپ ﷺ کے پاس موحد اور غیر موحد آتے ہی رہتے ہیں۔ آپ ﷺ کا سلوک سب کے ساتھ برابر کا تھا۔ ایک مرتبہ یہودیوں کا سردار آپ ﷺ کے پاس آیا۔ آپ ﷺ نے اپنے کندھے سے چادر اتار کر اس کے لیے زمین پر بچھا دی۔ اور اس پر اسے بیٹھنے کو کہا۔ وہ شخص بھی اپنی قوم کا سردار تھا۔ اس کا قبیلہ اس کی عزت کرتا تھا۔ حضور پاک ﷺ کی نظر فراست نے دیکھ لیا کہ اللہ نے اس شخص کو عزت دی ہے۔ مجھے اس کی عزت برقرار رکھنی چاہیے۔ پس اس نے جب حضور پاک ﷺ کا یہ حسن سلوک دیکھا اور اپنے لیے ایسی عزت دیکھی تو بہت متاثر ہوا اور اپنی قوم میں جا کر حضور پاک ﷺ کی تعریف کی۔ جس کے نتیجے میں تمام قوم مسلمان ہوگئی۔ حضور پاک ﷺ کا عمل سخاوت میں جود پر تھا جو سخاوت کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔ جس میں اپنے پرائے کا خیال تک نہیں آتا۔ سخاوت کے درجہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل سے ایک بوڑھا فرد ایمان لایا اور جود کے درجے میں حضور پاک ﷺ کے عمل سے پورا قبیلہ ایمان لے آیا۔

          سخاوت میں اپنے  پرائے کا فرق کرنا اللہ کو پسند نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اسم جواد کی فطرت کی منافی ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ فطرت اسمائے الہٰیہ کی صفات ہے۔ کائنات کی ہر شئے اسمائے الہٰیہ کی  صفات کا ڈسپلے (Display)  کر رہی ہے۔ ڈسپلے وہی درست ہو سکتا ہے جو فطرت پر ہو۔ فطرت سے ہٹ کر کوئی بھی عمل اسلام کے دائرے سے خارج سمجھا جائے گا۔ کیونکہ دین اسلام ہے ہی فطرت کا مظاہرہ۔ فطرت کا سب سے بہترین مظاہرہ روح کر رہی ہے کیونکہ روح کی فطرت اسمائے الہٰیہ کے انوار  ہیں۔ آدم کو جن اسمائے الہٰیہ کے علوم عطا کیے گئے ہیں ان تمام اسمائے الہٰیہ کے انوار روح کے اندر کام کر رہے ہیں۔ یہی انوار روح کی فطری صلاحیتیں ہیں۔ انسان کے عمل میں جب فرد کا ارادہ غالب  آجاتا ہے تو پھر عمل میں نقص پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ انفرادی شعور محدودیت ہے جب کہ روحانی شعور لامحدویت ہے۔ روحانیت سیکھنے کے لئے روحانی شعور اور روحانی صلاحیتوں کا بیدار کرنا ضروری ہے۔ روحانی صلاحیتیں اسی وقت بیدار ہو سکتی ہیں جب بندہ روح کی فطرت کے مطابق عمل کرے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت دو قسم کی ہے۔ ایک معرفت ذات دوسری معرفت صفات۔ صفات کی معرفت یہ ہے کہ کوئی بندہ اپنے اندر کام کرنے والی صلاحیتوں کو ان کی فطرت کے مطابق استعمال کرتا ہے اور اس عمل میں اس حد تک آگے بڑھ جاتا ہے کہ اپنا فعل اسے اللہ کا فعل دکھائی دیتا ہے۔ وہ پہچان لیتا ہے کہ میرے اندر کی صلاحیت میری اپنی ذاتی نہیں بلکہ اس کا مالک اللہ ہے۔ تب اس صفت کے ذریعے اس کا رابطہ اللہ پاک سے ہو جاتا ہے اور وہ بندوں میں اسی صفت کے نام سے مشہور ہو جاتا ہے جیسے حاتم طائی۔ اگرچہ قبیلے کے سردار کا نام تھا مگر اپنی سخاوت کی وجہ سےضرب المثل بن کر رہ گیا ہے۔ اب سارا زمانہ حاتم طائی کے نام سے سخاوت کو پہچانتا ہے۔

          سخاوت ایسی صفت ہے جو ہمارے اندر کی بے پناہ کثافتیں دور کر دیتی ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ آدمی کے اندر سے مال کی محبت اور طمع نکل جاتی ہے۔ مال کو اللہ نے فتنہ کہا ہے یعنی اس کی محبت میں فساد ہے۔ اس کا مشاہدہ اس دنیا میں تقریباً ہر شخص کو ہو چکا ہوگا۔ مال و دولت کے پیچھے اپنا خون جانی دشمن  ہو جاتا ہے۔ غرضیکہ مال کی محبت آدمی کا دل اتنا سخت کر دیتی ہے کہ آدمی قتل جیسا گناہ کبیرہ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ جھوٹ ، حسد ، دکھاوا، جنجوسی اور جانے کن کن بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ہر دم جب مال میں ذہن اٹکا رہے گا تو اللہ کا دھیان کب آئے گا۔ مال کی محبت آدمی کے دل سے اللہ کی محبت نکال دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے  کا حکم دیا گیا ہے۔ جہاں جہاں قائم الصلوٰۃ کا حکم قرآن میں آیا ہے ساتھ ہی زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم  بھی ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنا بھی صلوٰۃ کی طرح فرض قرار دیا گیا ہے تاکہ بندہ جس طرح نماز ادا کرنے کا عادی ہو جائے اسی طرح زکوٰۃ ادا کرنے کا بھی عادی ہو جائے اور مال و دولت کی محبت دل سے نکال کر اپنی عبادت کو خالص اللہ کے لیے مخصوص کر دے۔ قرآن نے سورہ بقرہ میں طاغوت کا ذکر کیا ہے۔

          ” اللہ مددگار ہے ایمان والوں کا نکال لے جاتا ہے انہیں اندھیروں سے نور کی طرف اور جنہوں نے کفر کیا۔ ان کے ساتھ طاغوت ہیں۔ نکال لے جاتے ہیں انہیں نور سے اندھیروں کی طرف۔ یہی لوگ دو زخی ہیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“

                             (آیت ۲۵۷)

          طاغوت کا مطلب ہے خدا کے سوا کوئی اور جس کی پرستش کی جائے وہ طاغوت ہے۔ کوئی بندہ مال کی محبت میں  قدرت کے بنائے ہوئے قانون کی پاسداری نہیں کرتا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل میں مال کی محبت اللہ کی محبت سے زیادہ ہے۔ دین عمل کا نام ہے۔ زبان سے کہہ دینا کافی نہیں ہے۔ عملی طور پر جب آدمی مال کی محبت کا مظاہرہ کرتا ہے اور اسے اللہ کی رضا کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تو مال اس کے لئے طاغوت بن جاتا ہے۔ پرستش کا عمل ذہن کی مرکزیت سے ہے۔ سیدھی سی بات ہے اگر ذہن کی مرکزیت اللہ ہے تو آپ اللہ کی پرستش کرتے ہیں اور اگر ذہن کی مرکزیت اللہ کے سوا دنیا کی کوئی شئے ہے تو آپ اس شئے کی پرستش کرتے ہیں۔ اللہ کے سوا باقی سب کی محبت پرستش کی حد تک کرنا طاغوت کی پرستش کرنا ہے۔ طاغوت میں سب سے بڑا طاغوت آدمی کی اپنی انا اور مال ہے۔ انسان کی اپنی انا خود پسندی میں انسان کو اتنا دور لے جاتی ہے کہ آدمی خدائی کا دعویٰ کر بیٹھتا ہے۔ اسی طرح مال کی محبت بھی آدمی کو اتنا دور لے جاتی ہے کہ آدمی اللہ کے بنائے ہوئے سارے اصول توڑ کر گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو جاتا ہے اور جب پوری قوم اس بیماری میں مبتلا ہو جائے تو اللہ اسے اپنے غضب کا نشانہ بنا لیتا ہے۔ اللہ رحم فرمائے۔ مال کی محبت آدمی کو خود غرضی کی طرف مائل کر دیتی ہے۔ آدمی اتنا خود غرض بن جاتا ہے کہ خود اپنی ذات سے آگے سوچ ہی نہیں سکتا۔ اللہ پاک کی ہستی ایسا لامحدود خزانہ ہے کہ جس خزانے سے ہر شئے کو اس کی زندگی کی ضروریات فراہم ہو رہی ہیں اللہ پاک کی صفات اس کا خزانہ ہے اور اس انمول خزانے میں سے اللہ نے انسان کو بھی ایک حصہ عطا کیا ہے۔ انسان کو اس حصہ کا وارث بنا دیا ہے۔ آدمی کی تمام  سلاحیتیں اس کی وراثت کا خزانہ ہے جس کے علوم اور اس کے استعمال کا طریقہ بھی اللہ نے سکھا دیا ہے۔ اصل سخاوت اور جو د اللہ کے خزانے میں ہے۔ قدرت نے جو نعمتیں انسان کو عطا کی ہیں خواہ وہ مال ہو ، علم ہو، جسمانی قوت ہو، حسن سلوک ہو، محبت ہو، کوئی بھی چیز جس سے خلق خدا کو فائدہ پہنچے جس میں قدرت کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق سخاوت سے کام لینا فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہی وہ دین جس کا پیغام تمام پیغمبر لے کر آئے۔ دین اسلام انسان کے اندر کام کرنے والی فطرت کے علوم ہیں۔  روحانی طالب علم اپنے اندر کی فطرت کو ابھارتا ہے۔ ہمارے سامنے کتنی ہی مثالیں ہیں ان لوگوں کی جنہوں نے اپنے اندر اس حقیقت کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور اس مختصر سی  زندگی میں حق کو پالیا۔

بزرگوں کے قصے ، اولیاء اللہ کے واقعات اور پیغمبروں کے حالات زندگی ہمارے لئے اسباق کی حیثیت رکھتے  ہیں۔ انہیں بار بار پڑھ کر  ان کی تقلید کرنے سے ہمیں بھی وہی کچھ حاصل ہو جاتا ہے جو ان ہستیوں کو اس عمل سے حاسل ہوا۔ سخاوت کے واقعات سے کتابیں بھری پڑی ہیں مگر عمل کے بغیر علم بے کار ہے۔ اس لئے کہ تخلیقی قانون کے مطابق ہر شئے دو رخوں میں تخلیق کی گئی ہے۔ کن کے بعد کا تمام مظاہرہ دو رخوں مین ہے۔ اللہ پاک کے کن کہنے سے علم کا مظاہرہ بھی دو رخوں میں ہوا ہے ۔ ایک رخ علم ہے دوسرا رخ علم کی حرکت یا عمل ہے۔ جو رخ علم ہے اس میں کوئی تبدیلی اور تغیر نہیں ہے۔ یہ اللہ کی سفت ہے اور جو رخ عمل ہے یہ حرکت ہے۔ جو ہر آن تغیر پذیر ہے۔ کائنات تغیر اور حرکت کا نام ہے۔ کائنات کا جوہر انسان ہے پس انسان مجموعہ  ہوا کائنات کی کل حرکات کا۔ فطرت کائنات کی وہ حرکات ہیں جن کا ظہور کن کہنے سے ہوا ۔ ان حرکات  کا دائرہ ہی کائنات ہے۔ جب کوئی بندہ اپنی انا کو کائناتی انا کے ساتھ منسلک کر دیتا ہے یعنی وہ جان لیتا ہے کہ کائنات کا ہر ذرہ ایک خالق کا تخلیق کردہ ہے اور جس طرح میرے اندر خالق کی پہچان کام کر رہی ہے اسی طرح ہر ذرے میں خالق کو پہچاننے والا شعور موجود ہے۔ اسی شعور کے ذریعے ساری کائنات ایک دوسرے کو پہچانتی ہے۔ پس کائناتی شعور سے منسلک ہونے والا بندہ فطرت کے اصولوں کو جان لیتا ہے اور فطرت خود اس کی ہر حالت میں حفاظت کرتی ہے۔ اس سلسلے میں حضرت رابعہ بصری ؒ کا ایک مشہور واقعہ ہے۔

          ایک مرتبہ آپ کثرت عبادت کی وجہ سے تھک کر سو گئیں۔ ایک چور آیا اور آپ کی چادر لے کر چلا۔ راستہ بھول گیا۔ مجبوراً چادر جہاں سے اُٹھائی تھی وہیں رکھ دی پھر واپس چلا تو راستہ مل گیا۔ اس کو پھر طمع نے گھیرا وہ واپس پلٹا اور چادر اُٹھا لی پھر جو پلٹا تو پھر راستہ کھو گیا۔ اس طرح کئی بار ہوا جب بھی چادر اُٹھا کر چلتا دروازہ ہی نہ ملتا۔ یہاں تک کہ اس نے ایک غیبی آواز سنی کہ :

          ”اے شخص! تو اپنے اپ کو کیوں افت میں ڈالتا ہے اس لئے کہ جس کی  یہ چادر ہے وہ کئی برس سے اپنے آپ کو میرے سپرد کر چکی ہے ۔ جب سے شیطان بھی اس کے پاس نہیں ایا پھر چور کی کیا مجال ہے کہ اس کی چادر کو چرا لے جائے۔ گو ایک دوست سو رہا ہے مگر دوسرا دوست اس کی حفاظت کے لئے موجود ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ اس کی چیز چرا لے  جائے۔“

          بزرگوں کے واقعات ہماری زندگی کے لئے مشعل راہ ہیں۔ جب انسان دنیا کی طمع چھوڑ کر اللہ کی محبت اپنے دل میں بسا لیتا ہے تو اللہ اسے اپنی ایسی نعمتیں اور ایسے انمول خزانے عطا کرتا ہے جس کی سخاوت اسے تونگر بنا دیتی ہے۔ انسان ان خزانوں کا دفینہ ہے۔


 


Majlis tafheemo danish

سعیدہ خاتون عظیمی