Topics

عقل سلیم

 

۱۔       عقل سلیم سے مراد نور فراست ہے۔ جس کے متعلق اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ” جس کو ہم نے عقل سلیم عطا کی اس کو بہت بڑی خیر عطا کی۔“ نور فراست یہ ہے کہ نظر ظاہر سے باطن میں داخل ہو کر شئے کی حکمت کو پہچان لیتی ہے۔

۲۔       اللہ تعالیٰ کے پیغام کو صحیح معنی پہچاننے کا نام عقل ِ سلیم ہے۔

۳۔       اسمائے الہٰیہ کی روشنیوں کے حواس سے کام لینا عقلِ سلیم ہے۔

۴۔       اللہ پاک نے حضور پاک ﷺ کو عقلِ سلیم عطا کی۔ حضور پاک ﷺ کی طرزِ فکر کو اپنانا عقلِ سلیم ہے۔

۵۔       اپنی توجہ اللہ پاک پر مرکوز رکھنے سے عقلِ سلیم حاصل ہوتی ہے جس سے ہر شئے کی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔

۶۔       کسی چیز کی فطرت اور حکمت کو پہچان لینا عقلِ سلیم ہے۔

۷۔       عقلِ سلیم ایسی صلاحیت ہے جس کے ذریعے ہم اللہ تعالیٰ کے دماغ کو سمجھ سکتے ہیں یعنی معرفت الہٰیہ حاصل کر  سکتے ہیں۔

۸۔       The mind that understand the reality of things

۹۔       پاکیزہ خیالات اور مثبت سوچ کی گہرائی میں کائنات کو جاننا عقلِ سلیم۔

۱۰۔    عقل اور ذہنی صلاحیتوں کو تعمیری کاموں میں صرف کرنا عقل سلیم سے کام لینا ہے۔

۱۱۔    ایسی عقل جو قدرت کی رضا سے ہم آہنگ ہو اور بندگی کے وصف کو پوری طرح قبول کرے عقلِ سلیم ہے۔

۱۲۔    اپنے ضمیر کی آواز سننا اور اس پر عمل کرنا عقلِ سلیم ہے۔

۱۳۔    علم حضوری سے عقلِ سلیم حاصل ہوتی ہے۔

۱۴۔    عقل سلیم سے مراد وہ طرزِ فکر اور سوچ ہے جس میں شک وشبہ کی ذرا بھی گنجائش نہ ہو۔

۱۵۔    اللہ کی  نظر یا انوار قلب میں جاگزیں ہو کر عقلِ سلیم پیدا کرتے ہیں۔

۱۶۔    اللہ کی صفات کا مشاہدہ کرنے سے عقلِ سلیم پیدا ہوتی ہے۔

۱۷۔    غم اور وہم سے بچنے اور چیزوں کی اصلیت پہچاننے سے عقلِ سلیم پیدا ہوتی ہے۔

٭٭٭٭٭

سوالات۔

سوال نمبر۱۔   عقلِ سلیم سے کیا مراد ہے اور نور فراست کیا ہے؟

سوال نمبر۲۔   اسمائے الہٰیہ کیا ہے اس سے ہم کس طرح مستفید ہو سکتے ہیں؟

سوال نمبر      ۳۔       معرفت الہٰیہ کیا ہے؟

سوال نمبر۴۔   ضمیر کیا ہے؟ ضمیر کی آواز کس طرح سنی جا سکتی ہے؟

سوال نمبر۵۔   علم حضوری سے عقل سلیم کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟

٭٭٭٭٭

عقل سلیم اللہ پاک کی جانب  سے خیر ہے۔ یعنی ایسی مثبت فکر جس میں منفیت کا دخل نہیں ہے۔ حضور پاک ﷺ فرماتے  ہیں۔

          ” مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔“

حضور پاک ﷺ کی اس حدیث میں غور کرنے سے عقلِ سلیم کی مکمل پہچان ہو جاتی ہے۔ مومن کے متعلق قرآن یوں کہتا ہے کہ    ”مومن وہ ہے جس کے سینے میں نور داخل ہو۔“

حضور پاک ﷺ کے معراج کی خبر دیتے ہوئے قرآن یہ کہتا ہے کہ ۔ ” دل نے جو دیکھا جھوٹ نہیں دیکھا۔“ اس آیت میں دل کو آنکھ یا  نظر کہا گیا ہے ۔ اب اس کی تشریح یوں بنی کہ جب آدمی کے دل میں اللہ کا نور ذخیرہ ہو جاتا ہے تو وہ مومن کہلاتا ہے۔ اللہ کے نور کی صفت نظر یا بینائی ہے۔ دل میں جا کر یہ نور دل کی نظر بن جاتا ہے۔ دل کی نظر غیب میں دیکھی ہے۔ جیسا کہ معراج میں حضور پاک ﷺ نے جو دیکھا اپنے دل کی آنکھ سے دیکھا۔ نظر کا دوسرا رخ تفکر ہے۔ نظر روشنی ہے اور تفکر اس روشنی میں معنی پہناتا ہے۔

دونوں رخ ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔ اگر آدمی کی بینائی یا نظر نور ہے تو تفکر بھی نور میں ہی کام کرے گا اور اگر بینائی مادی روشنیاں ہیں تو تفکر  بھی مادی روشنی میں کام کرے گا۔یہی نگاہ کا قانون ہے۔ مومن وہ ہے جس کے قلب کی آنکھ کھلی ہو۔ یہ آنکھ غیب میں نور کے عالم میں دیکھتی ہے اور ہر چیز کو دیکھ کر اس کی حقیقت کا مشاہدہ کرتی ہے۔ نور کا تفکر ہی عقل سلیم ہے جو ہر شئے کی گہرائی میں دیکھتا ہےاور اس کی حکمتوں کو پہچان لیتا ہے۔ خبیر، علیم ، بصیر نور کی صفات ہیں۔ خبیر سے مراد باخبر ہونا ہے یعنی اللہ کا نور باشعور ہے۔ وہ جہاں  بھی ہوتا ہے اپنی موجودگی سے اور اپنے گردو پیش سے پوری طرح باخبر ہوتا ہے ۔ علیم یعنی نور کو اپنی ذات اور صفات کا پورا پورا علم ہے۔ وہ اپنے ظاہر و باطن سے مکمل طور پر آگاہ ہے۔ بسیر یعنی بینائی یا نگاہ ، نور بینائی یا نگاہ رکھتا ہے۔ یہ تینوں صفات نور کی صفات ہیں۔

جس طرح سمندر کا ایک قطرہ بھی پانی ہے اور سمندر سارا کا سارا پانی ہے۔ اسی طرح یہ تینوں صفات نور کی فطرت یا ذات میں داخل ہیں  نور خواہ پورا لامحدودیت کا عالم ہو یا نور خواہ اس لا محدودیت کے عالم کا ایک ذرہ ہو۔ یہ تینوں صفات نور کے سارے عالم میں بھی موجود  ہیں اور نور کے ایک ذرے میں بھی موجود ہے۔ نور کا ایک ایک ذرہ کائنات کی ایک ایک روح ہے۔ روح اپنی ذات میں خبیر، علیم، بصیر  ہے۔ روح سے یہی انوار نزول کر کے جسم کی اور دماغ کی حرکات بنتے ہیں اور جسمانی حواس بنتے ہیں۔ اس طرح سارے حواس روح میں  موجود ہیں۔ روح اپنے علوم اور حواس شعور میں منتقل کرتی ہے اور روح جو کچھ نور کے عالم میں دیکھتی ہے آدمی عالم ِ ناسوت میں رہتے  ہوئے اپنے قلب کی آنکھ سے نور کے عالم میں مشاہدہ کر لیتا ہے۔ عقل سلیم نور کی وہ صفت ہے جو اسم خبیر ہے،علیم ہے اور بصیر ہے۔

اس طرح نور کی تینوں صفات عقل سلیم کےحواس بناتی ہیں۔ ان ہی حواس کے ذریعے حضور پاک ﷺ نے معراج میں اللہ پاک کی   تجلیات کا مشاہدہ کیا۔ قرآن میں مسلمان اور مومن کی پہچان الگ الگ بیان کی گئی ہے۔ فرماتے ہیں۔

          ” ابھی تم صرف مسلمان ہو، مومن نہیں ہو۔ ابھی ایمان تمہارے سینوں میں داخل نہیں ہوا۔“

قرآن کی رو سے مسلمان وہ ہے جو مادی آنکھ یا نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے حواس مادی روشنی میں کام کرتے ہیں اور مومن وہ ہے جو  دل کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور ہر شئے کے اندر نور کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اس کے دل کا نور اس کی نگاہ اور حواس بنتی ہے۔

          اب ہم عقلِ سلیم کی روشنی میں ایک مسلمان اور ایک مومن کے کردار کا موازنہ کرتے ہیں تاکہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ مسلمان اور مومن کی مکمل پہچان کیا ہے اور چونکہ ایک مومن کا کردار ہی روحانی کردار ہے اس وجہ سے یہ ہمارے موضوع کے لئے مفید ترین بھی ثابت ہوگا۔ مسلمان وہ ہے جو ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوا۔ پیدا ہوتے ہی اس کے ماں باپ نے اس کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ وہ مسلمان ہے اور ایک مخصوص عقائد کا پابند ہے۔ ماں باپ بچے کے ذہن میں مذہب سے متعلق وہی باتیں منتقل کرتے ہیں جن علوم پر وہ خود عمل پیرا ہیں یا جن مذہبی عقائد سے وہ واقف ہیں۔ بچہ اسے قبول کر کے مسلمان کہلاتا ہے۔ گویا بچہ مذہبی امور پر جو بھی عمل کر رہا ہے وہ اپنے ماں باپ کی پیروی ہے۔ نہ اس میں اس  کے اپنے ارادے کا دخل ہے اور نہ اسے اللہ کی رضا اور ارادے کا کچھ علم ہے۔ ایسی تقلید میں محض ماں باپ کی فرماں برداری کا  تو دخل ہے مگر عقل سلیم کا دخل نہیں ہے۔ جب بچہ اپنا ارادہ استعمال کرتا ہے اپنی عقل سے اللہ کو جاننے اور پہچاننے کی کوشش کرتا ہے تو ماں باپ کے عطا کردہ نظریات کو وہ تنقیدی نگاہ سے دیکھتا ہے نہ کہ عقیدت کی نگاہ سے۔ عقیدت فرمانبرداری سے پیدا ہوتی ہے اور تنقید غیر جانبداری ذہن کی فکرہے۔جیسے  حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ بت تراش تھے۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زہن قطعی طور پر غیر جانبدار تھا۔ اس نے ماں باپ کے اور ساری قوم کے مزہبی عقائد کو تنقیدی نظر سے دیکھا۔ ذہن کی غیر جانبدار فکر اپنے باپ کے فعل کو جب تنقیدی نظر سے دیکھتی ہے تو اس فکر کا نور ان کی عقل کو روشن کر دیتا ہے۔ اس نور کی روشنی میں عقل باپ کے مذہبی عقائد کو گہرائی میں دیکھتی ہے اور حقیقت سے واقف ہو جاتی ہے اور پھر اپنے باپ کی فرمانبرداری کرنے سے انکار کر دیتی ہے کیونکہ عقلِ سلیم اللہ کے ارادے کی حکمت کو دیکھ لیتی ہے جب وہ اللہ کے ارادے اور ماں باپ یا اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے لوگوں کے ارادے میں تضاد دیکھتی ہے تو کسی طور پر بھی عقل تسلیم نہیں کرتی کیونکہ خالق کا ارادہ مخلوق کے ارادے پر سبقت  رکھتا ہے اور عقلِ سلیم خالق کے ارادے کا پہچاننا ہے۔ پس اس واقعہ کی روشنی میں ایک مسلمان اور مومن کا فرق واضح ہو جاتا ہے کہ ماں باپ بچے کو مذہبی عقائد منتقل کرتے ہیں جب بچہ ان کی تقلید کرتا ہے تو وہ  اپنے ماں باپ کے ذہن پر ہوتا ہے۔ خواہ وہ دین اسلام ہو، عیسائیت ہو، یہودیت ہو، یا ہندو ازم ہو یا اور بھی کچھ ہو اس سے غرض نہیں۔ ہمیں تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اللہ پاک کس دین کی تقلید کا حکم دیتے ہیں اور وہ کون سے عقائد اور اصول ہیں جو پیغمبر لے کر آئے ہیں اور اس دین کی رہنمائی کہاں سے حاصل ہو سکتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس ہی واقعہ سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ انفرادی طور پر ہر آدمی و عورت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی اندھی تقلید کے بجائے دین کے معاملات میں خود اپنی غیر   جانبدارانہ فکر کے  مطابق غور و فکر کرے اور وہی ذرائع اس کے لئےاستعمال کرے جن کے لئے اللہ اور اس کے پیغمبروں نے حکم دیا ہے، یعنی کتاب اور سنت۔ کیونکہ ہر فرد اپنی زندگی کے اعمال کا ایک جداگانہ ریکارڈ یا فلم بنا رہا ہے اور اس ریکارڈ یا فلم کا مین کردار فرد کی اپنی ذات ہے نہ کہ ماں باپ یا اور کسی دوسرے کی ذات۔ قرآن میں ایک سے زیادہ پیغمبروں کا تذکرہ ملتا ہے۔ بہت سے پیغمبروں کے متعلق تفصیل سےذکر آیا ہے کہ ان کی پیدائش بت پرستی کے ماحول میں ہوئی۔ اس کا مطلب پیغمبروں کی عقل نے شروع ہی سے دنیاوی روشنیوں کو قبول نہیں کیا بلکہ اس نور کو تلاش کرنے لگے جو نور انہیں اور ساری دنیا کو قوت بخشنے والا ہے۔ حضور پاک ﷺ کی حدیث ہے کہ ہر بچہ اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ فطرت ہی دین اسلام ہے۔ پھر بعد کو اس کے ماں باپ اور ماحول سے یہودی اور نصرانی بنا دیتے ہیں۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ ہر بچہ ایک ہی عقیدے پر پیدا ہوتا ہے۔ اس بات کو قرآن بھی اس طرح کہہ رہا ہے کہ ہم نے ہر شئے کو اس کی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ جو عقل فطرت کو پہچانتی ہے اور فطرت کی روشنی میں پیغمبروں کے لائے ہوئے اصولوں کو مانتی ہے وہی عقل  درست راستے پر ہے۔ خواہ ساری دنیا اسے رد کر دے۔ جیسا کہ پیغمبروں کے ساتھ ہوا کہ ساری قوم میں سے ایک شخص واحد اپنا الگ نظریہ لے کر اُٹھ کھڑا ہوا مگر چونکہ اس کا نظریہ حق پر تھا۔ فطرت کے تمام اصول اس کی رہنمائی کرنے لگے اور وہ ایک آدمی ساری قوم سے ٹکرا گیا۔

          عقلِ سلیم کا ایک اور نمونہ قران میں آیا ہے جو پیغمبرانہ فراست کا آئینہ دار ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اللہ کا پیغام لے کر نمرود کے دربار میں پہنچے تو توحید کے منکر کو قائل کرنے کے لئے عقلی دلیلیں پیش کیں تاکہ اس کی گمراہ عقل صحیح راہ پر لگے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا۔

          ”اے نمرود! تو اپنے آپ کو خدا کہتا ہے مگر خدا کے ذمہ تو ایسے کام ہیں جو مخلوق نہیں کر سکتی۔ مثلاً خدا روز روز مشرق سے سورج طلوع کرتا ہے تو صرف ایک دن مغرب سے سورج کو طلوع کر دے تو پھر تیری خدائی قوت  مانی جائے۔“

           قرآن یہ کہتا ہے کہ یہ بات سن کر نمرود کے ہوش اڑ گئے۔ وہ ہکا بکا رہ گیا۔

          فطرت کے حقائق کو سمجھنے والی عقل کو عقلِ سلیم کہتے ہیں۔ انسان کے اندر اس کا نزول ضمیر کے مقام پر ہو رہا ہے۔ اس مقام پر یہ عقل شئے کے پس پردہ کام کرنے والے حقائق کو آشکار کر دیتی ہے اور پھر آدمی اپنا اختیار شعوری ارادہ مچبت یا منفی طور پر اختیار کرتا ہے۔  ضمیر کا مقام قلب کی گہرائی ہے۔ اسی مقام پر آدمی کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ یہ فیصلہ کرتے وقت کام کی نوعیت کا دل پر انکشاف ہو جاتا ہے۔ اسی کو بصیرت کہتے ہیں۔ بصیرت عقل ِ سلیم کے ہم معنی ہے۔ اس کے ذریعے ہمارے کردار میں  نطم و ضبط پیدا ہو جاتا ہے۔ ہمارے اعمال و افعال میں اعتدال اور تنظیم آجاتی ہے۔ دراصل ضمیر قلب کی وہ گہرائی ہے جہاں روح کی فکر کا نور نزول کرتا ہے۔ یہ روح کی انفارمیشن ہے جو وہ شعور کو دیتی ہے۔ اس مقام پر ناسوتی حواس اس اطلاع یا نور کو جذب کر کے شعور میں پھیلا دیتے ہین۔ آدمی یا اس نور کو جذب کر لیتا ہے یا رد کر دیتا ہے۔ ضمیر کی آواز پر کان دھرنا قبول کرتا ہے اور ضمیر کی آواز سے منحرف ہونا نور کا رد کرنا ہے۔ اللہ اپنی زات میں خبیر ہے۔ لہذا نور کا ہر ذرہ باشعور ہے۔ جب آدمی نور کو جذب کر لیتا ہے تو نور کے اندر موجود شعور خود اس کی اپنی ذات کا شعور بن جاتا ہے جیسے دریا کے پانی کو بالٹی میں بھریں تو اب بالٹی بھر پانی کہیں گے۔ گویا بالٹی کی حدود میں  انے سے پانی بالٹی سے منسوب ہو گیا۔ اب اسے سدریا نہیں کہتے۔ نور جب شعور انسانی میں جزب ہو جاتا ہے تو وہ انسان کا شعور کہلاتا ہے۔ یہ اللہ کی کاریگری ہے کہ اس نے لامحدودیت یعنی نور کو محدودیت یعنی آدمی کے شعور میں منتقل کر دیا ہے۔ لامحدودیت کا شعور محدودیت میں آکر اللہ پاک کے سبحانیت اور پاکی کا اعتراف کر رہا ہے۔ شعور کی منتقلی کن کہنے سے عمل میں ائی اور تجلی کا شعور ٹھوس حالت میں ظاہر ہوگیا۔ عالم ناسوت کے حواس تھوس یا مادی حواس ہیں۔ تجلی لا لطیف ترین شعور چار درجات سے گزر کر مادی شعور میں تبدیل ہوا۔ شعور اول ، شعور دوئم ، شعور سوئم اور شعور چہارم۔ مادی حواس شعور چہارم کا زون ہے ،جس میں ہم رہتے ہیں۔ اللہ کا ہر فعل ایک مربوط نظام کے تحت ہے۔ لطیف ترین شعور کا کثیف ترین شعور مین تبدیل ہو جانا بھی ایک نظام یا سسٹم کے تحت ہے۔ اس نظام کو بدائیت کہتے ہیں۔ بدائیت شعوری دباؤ یا حیاتی دباؤ کے تحت عمل میں آتی ہے۔ حیات بذات خود ایک ایسی حرکت ہے جو اللہ کے حکم سے شروع ہوئی۔ اللہ کے حکم یا امر کی حرکت حیات ہے اور ھیات کا ادراک بدائیت ہے۔ بدائیت حیاتی دباؤ یا حیات کے ادراک کے دباؤ کا نام ہے ۔ جیسے جیسے اللہ پاک کے کن کہنے سے امر کی تجلی لامحدودیت سے محدودیت کی جانب سفر کرتی جاتی ہے محدودیت کی وجہ سے اس کی رفتار میں فرق آتا جاتا ہے۔ رفتار میں فرق انے سے ادراک کی کیفیات و احوال بدل جاتے ہیں اور ادراک کی مسلسل تبدیلی حواس کو جنم دیتی ہے۔ چناچہ مادی حواس حیاتی دباؤ کا نتیجہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی شعوری اعتبار سے اپنے آپ کو جکڑا ہوا محسوس کرتا ہے۔ عقل سلیم وہ نور ہے جو مادیت میں جکرے ہوئے اس شعور کو دنیاوی غلبے سے آزاد کرتا ہے اور شعور کو نور کی رفتار کی طرف لے جاتا ہے جس سے حواس لطیف ہو جاتے ہیں اور امر ربی یا روح کے کندھوں سے حیاتی دباؤ کم ہو جاتا ہے۔

          بدائیت کا عمل اور اس کی تمثیل اس دنیا میں بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ جیسے شبنم کا قطرہ جب سیپی کے اندر قید ہو جاتا ہے تو قطرے کا شعور جو کہ پانی کا شعور ہے اور پانی کا شعور مائع ہونے کی وجہ سے ٹھوس کے مقابلے میں لطیف ہے۔ لطافت کثافت کے مقابلے میں رفتار میں تیز ہوتی ہے۔ جب شبنم کا شعور و ادراک سیپی کے اندر محبوس ہو جاتا ہے تو حیاتی دباؤ جو کہ ایک مسلسل حرکت ہے، کی وجہ سے ادراک اور شعور کی رفتار  آہستہ آہستہ کم ہوتی جاتی ہے۔ جیسے جیسے ادراک سست ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے تبدیلی آتی جاتی ہے۔یہاں تک کہ شبنم کا قطرہ جو کہ پانی کا قطرہ ہے موتی بن جاتا ہے۔ قطرے کا موتی میں تبدیل ہو جانا شبنم کے قطرے کے حواس و ادراک کی تبدیلی ہے۔ ذات وہی رہتی ہے مگر حواس و ادراک بدل جاتے ہیں۔ حواس بدلنے سے شئے میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔ شئے سے مراد ظاہری خدوخال ہیں۔ جیسے مرنے کے بعد بھی آدمی زندہ رہتا ہے مگر یہ زندگی دنیاوی زندگی سے اس لئے مختلف مانی جاتی ہے کہ دنیا کے حواس میں ربدیلی آجاتی ہے۔ یہاں بھی حواس کی تبدیلی آدمی کی حدود کے اندر واقع ہوئی۔ وہاں بھی حواس آدمی کے اندر ہی کام کرتے ہیں۔ جیسے خواب کے حواس اور جاگنے کے حواس دونوں میں کردار آدمی ہے۔ موتی کا شعور موتی کے حواس ہیں مگر لاشعور شبنم کے قطرے کے حواس ہیں۔ اسی طرح آدمی کا شعور مادی حواس ہیں۔ مگر لاشعور روح کے حواس ہیں اور روح کا شعور اللہ کے امر کی تجلی کا شعور ہے۔ یہ ایک ایسی زنجیر ہے جس میں روح اور جسم بندھا ہوا ہے۔ عقل سلیم آدمی کو اس کے اپنے شعور کے اندر ہی  اندر سیڑھی پہ زینہ بہ زینہ لے کر چڑھتی ہے۔ ادراک کی گہرائی کا ہر قدم آدمی کو اپنی روح سے قریب کرتا ہے۔ پس عقل سلیم و ہ شعور ہے جو آدمی کو روح کو سمجھنے اور غیب میں روح کی حرکات کو پہچاننے اور مشاہدہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔

٭٭٭٭٭


Majlis tafheemo danish

سعیدہ خاتون عظیمی