Topics

حقوق العباد

 

۱۔       ہر رشتے دار سے اللہ کی خوشنودی کے لیے اور اسی رشتے کے واسطے سے محبت کی جائے اور اسی حساب سے اس کے حقوق ادا کیے جائیں۔

۲۔       Treat everybody equal to the best of your ability.

۳۔       اللہ کی رضا کے لیے ہر انسان کی ضرورت کو اپنی گنجائش کے مطابق بے لوث ہو کر پورا کرنا حقوق العباد ہے۔

۴۔       حقوق العباد خلق ہے جو قریب ترین حلقہ احباب سے شروع ہوتی ہے اور یہ دائرہ وسیع ہو کر ساری مخلوق کو احاطہ کر لیتا ہے۔

۵۔       اللہ کی مخلوق سے اللہ کے لیے محبت کرنا اور کسی کا دل نہ دکھانا حقوق العباد میں آتا ہے۔

۶۔       تمام انسان آپس میں ایک خاندان ہے۔ اس خاندان کو بکھرنے سے بچانے کا نام حقوق العباد ہے۔

۷۔       ایک روحانی آدمی میں یہ صلاحیت ہونی چاہئے کہ وہ اللہ کی مخلوق کی بے لوث خدمت کرے اور ان کے  ساتھ بغیر کسی توقع کے خیر خواہی اور دوستی قائم رکھے۔

۸۔       حضور پاک ﷺ  کی طرزِ فکر کے مطابق ہر ایک سے حسن سلوک رکھنا حقوق العباد ہے۔

۹۔       انسان کے اندر جب تک اپنی انا کا غلبہ رہتا ہے وہ دوسروں پر اپنے حقوق کا تعین کرتا ہے اور کبھی بھی اپنے دوسروں کا کوئی حق نہیں سمجھتا۔ وہ ہر وقت اپنی ذات کو سامنے رکھتا ہے۔ ایسا انسان کبھی بھی روحانی نہیں ہو سکتا۔ ایک روحانی آدمی یہ بات جانتا ہے کہ وہ تعلقات کی ایک زنجیر میں بندھا ہوا ہے۔ یعنی انسانی معاشرے کا ایک فرد ہے اور اس لحاظ سے دوسرے انسانوں کے اس پر حقوق ہیں اور وہ ان حقوق کو کما حقہ پورا کرتا ہے۔ وہ ہر  حالت میں غصے پر قابو رکھتا اور دوسرے لوگوں کو ان کی زیادتی پر معاف کر دیتا ہے۔

۱۰۔    عزیز و اقارب کی بے لوث خدمت کی جائے۔ ایک روحانی آدمی کے نزدیک حقوق العباد یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مرشد کے حوالے کر دے۔

۱۱۔    محبت کے ساتھ حسن سلوک حقوق العباد ہے۔

۱۲۔    اللہ نے ہر رشتے کے مطابق دوسرے پر اس کے حقوق عائد کیے ہیں۔ اللہ کی رضا کے مطابق اس کو خوش اسلوبی کے ساتھ نبھانا حقوق العباد ہے۔

۱۳۔    اللہ کی تمام مخلوق کے ساتھ محبت کرنا اور ان کے حقوق پورے کرنا خاص طور سے اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا حقوق العباد ہے۔

۱۴۔    حقوق العباد میں سب سے زیادہ حق ماں باپ کا پھر بہن بھائی اور رشتے داروں کا ہے۔ حقوق العباد کا مطلب یہ ہے کہ آدمی تمام لوگوں کے ساتھ درجہ بدرجہ احسن سلوک رکھے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھے۔ کسی کو دکھ نہ پہنچائے۔ قرآن میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے۔

۱۵۔    اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں اپنے بندوں کے اوپر جو میرے حقوق ہیں وہ معاف کر سکتا ہوں لیکن جس نے حقوق العباد پورے نہ کیے میں اسے معاف نہ کروں گا۔ حقوق العباد میں پہلے اپنے گھر والے ، ماں باپ، بہن بھائی، بیوی شوہر بچے اور پھر محلے والے پھر ملک والے اور پھر تمام بنی نوع انسانی آجاتے ہیں۔

۱۶۔    روحانی انسان کا یہ مقصد ہونا چاہیے۔

                             ہر اک سے نیکیاں سدا بلا تمیز و نیک و بد

                             اسی کو ہم تو حاصل حیات کہتے آئے ہیں

۱۷۔    To show Allah that you love and care for the people he has made to live with us in this world.

۱۸۔    ایک روحانی آدمی جو کہ امن و محبت کا پیامبر ہوتا ہے سب سے پہلے اس کے ارد گرد کے لوگ اس کی اس صفت سے مستفیض ہوتے ہیں۔ جوں جوں اس کا دائرہ کار بڑھتا ہے ساری خلق خدا کو اہ اللہ کا کنبہ جان کر اللہ کے واسطے سے ان سے خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آتا ہے۔

۱۹۔    تخلیقی قانون کے مطابق حقوق العباد کے بھی دو رخ ہیں۔ ایک صلہ رحمی ایک قطع رحمی۔ صلہ رحمی تعلقات کو جوڑنا اور قطع رحمی تعلقات کو توڑنا ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں۔ ” وہ لوگ اس چیز کو توڑتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کے لیے کہا ہے۔ یوں وہ زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ایسے لوگ خسارے میں ہیں۔“

۲۰۔    حقوق الہٰی اور حقوق العباد دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اللہ کے بعد سب سے زیادہ حق اللہ کی مخلوق کا ہے۔

٭٭٭٭٭

سوالات

سوال نمبر۱۔   حقوق العباد سے کیا مراد ہے؟

سوال نمبر۲۔   حقوق اللہ کیا ہوتے ہیں؟

سوال نمبر۳۔   شریعت ، طریقت، حقیقت اور معرفت میں کیا فرق ہے؟

سوال نمبر ۴۔  اللہ کی رضا کس طرح حاصل کی جا سکتی ہے؟

٭٭٭٭٭

          روحانی راستہ عام لوگوں کے راستے سے ہٹ کر ہے۔ قرآن میں بھی اللہ پاک نے لوگوں کو دو طرح سے مخاطب کیا ہے۔

ایک جگہ تو فرماتے ہیں۔ ” اے ایمان والو! دوسری جگہ فرماتے ہیں۔ اے لوگو! جہاں ایمان والوں کہہ کر مخاطب ہیں وہاں مراد روحانی راستوں پر چلنے والے ہیں اور جہاں صرف اے لوگو کہا گیا ہے وہاں مراد تمام بنی نوع انسانی ہیں۔ اللہ کی جانب سے جو علوم انسان کوعطا کیے گئے ہیں وہ چار درجات میں ہیں۔ شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت۔ یہ چاروں درجات چار عالمین ہیں۔ان عالمین کو عالم ناسوت ، عالم ملکوت ، عالم جبروت اور عالم لاہوت کہا گیا ہے۔ ان عالمین میں اللہ تعالیٰ کی سنت قوانین کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔

اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اللہ پاک کی سنت میں کوئی تبدیلی یا تعطل نہیں ہے۔ ازل سے ابد تک جاری و ساری ہے۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ سنت کا ہر قانون ازل سے چلتا ہے۔ ازل وہ زمانہ ہے جب اللہ پاک نے کن کہا۔ زمانہ ازل کن کا آغاز ہے۔ ہر قانون اللہ پاک کی جانب سے چلتا ہے اور ساری کائنات سے گزرتا ہوا واپس اللہ پاک کے پاس لوٹ جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہر قانون اور ہر سنت عالم لاہوت، عالم جبروت، عالم ملکوت سے ہوتی ہوئی پھر عالم ناسوت یعنی مادی دنیا میں پہنچتی ہے اور دنیا کی ہر شئے اور ہر مخلوق اس پر عمل کرتی ہے اور اس قانون کے مطابق اپنی زندگی گزارتی ہے۔ فرد کی زندگی جیسے ہی ان کے راستے سے ہٹتی ہے اسے کوئی نہ کوئی پریشانی اور تکلیف لاحق ہو جاتی ہے۔ اس کی مثال ہم گردش کے قانون سے دے سکتے ہیں۔ جیسے نظام شمسی میں تمام سیارے اپنے اپنے محور اور مدار پر گردشیں کرتے ہیں۔ یہ محور اور مدار چاند ستاروں کے لیے مقرر کردہ راستے ہیں۔ ان راستوں سے ہٹ کر چاند ستاروں کی گردش کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ذرا بھی ادھر اُدھر ہوئے اور سارا نظام گڑ بڑ ہو جائے گا اور ایک کا اثر پورے نظام پر پڑے گا۔ اس لیے ہر سیارہ اپنے مخصوص زون میں ہی مستقل طور پر حرکت کرتا رہتا اور ازل سےوقت کا تعین اسی طرح دن رات کے بننے سے شمار ہوتا ہے۔ ماہ و سال کا تعین بھی سالہا سال گزرنے پر ایک ہی رہتا ہے ۔ کیونکہ گردش کا قانون ایک ہے۔ ایسا قانون ہے کہ جس میں کوئی ردو بدل  اور تعطل نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سنت اللہ کے بنائے ہوئے وہ اٹل قوانین ہیں جن کے اوپر کائنات کا نظام چل رہا ہے۔ نظام اگر ٹوٹ گیا تو کائنات تباہ ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک کی جانب سے عالمین کے نظام کو برقرار رکھنے کا پورا پورا اہتمام کیا گیا ہے۔ کل مخلوق میں انسان  وہ ہستی ہے جسے اللہ میاں نے اپنے علوم سے نوازا ہے۔ یہ علوم ان ہی چار عالمین کے علوم ہیں جو ابھی ہم بیان کر چکے ہیں۔ روحانیت ان چاروں عالمین کے قوانین و ضوابط کا سیکھنا اور ان پر عمل کر کے اپنی زندگی کو پیغمبروں کے نمونے پر ڈھالنے کا نام ہے۔ روحانی علوم چونکہ روح کے علوم ہیں جس کی وجہ سے ان عالمین میں آدمی کا داخلہ روحانی طور پر ہوتا ہے۔ جسمانی طور پر نہیں کیونکہ عالم ناسوت کی زندگی گزار کر جب ہم ملکوتی دنیا میں داخل ہوتے ہیں تو ہمارا جسمانی نظام بکھر جاتا ہے اور جسم جو کہ مٹی کے ذرات ہیں وہ روح کی روشنی سے الگ ہو کر پیوند زمین بن جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب دنیاوی زندگی گزار کرروح ملکوتی زندگی میں داخل ہوتی ہے تو ملکوتی روشنیاں لطیف ہونے کی وجہ سے مٹی کے کثیف ذرات کو اٹھا نہیں پاتی اور جسم کو چھوڑ کر آگے بڑھ جاتی ہیں۔ جب روح کی روشنی جسم کو چھوڑ دیتی ہے تو مٹی کے ذرات بکھر جاتے ہیں کیونکہ مٹی کے ذرات کو صورت شکل دینے والی روح کی روشنی ہی ہے۔ یہ عالم ناسوت میں  موت وزیست کا ایک ایسا نظام ہے جو اللہ کی سنت کے مطابق کہ ہر شئے کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ ازل سے جاری و ساری ہے جب سے دنیا وجود میں آتی ہے اس موقع پر ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ آخر شہیدوں کی موت اور اولیا ء اللہ و پیغمبران کی اموات پر یہ خصوصیت کس اصول پر ہے اور کن وجوہات کی بناء پر ہے کہ ان کے اجسام بکھرتے نہیں ہیں تو غور کرنے پر یہ بات بھی آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجاتی ہے کہ سنت کا قانون تو ایک ہی ہے کہ ہر شئے پر موت ضرور آنی ہے۔

اس قانون سے باہر تو پیغمبر بھی نہیں ہیں۔ اسی قانون کی ایک شاخ یا اصول  یہ ہے کہ شہیدوں کو مردہ نہ کہو۔ وہ زندہ ہیں اور اللہ کے یہاں سے رزق پا رہے ہیں تو اس اصول کے تحت آدمی ان کے اجسام کو مردہ اس لئے قرار دے دیتے ہیں کہ ان کا رزق دنیا سے اُٹھ جاتا ہے اور اب رزق کا رخ اللہ تعالیٰ کی جانب براہ راست چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے دنیا والے انہیں زندوں میں شمار نہیں کرتے۔ کیونکہ دنیا کی زندگی اسباب و وسائل پر حرکت کر رہی ہے۔ دنیاوی اسباب و وسائل کی فراہمی کا رابطہ ٹوٹ جانے کا نام موت ہے۔ مگر عام طورسے تو یہ ہوتا ہے کہ جیسے ہی دنیاوی اسباب و وسائل سے رشتہ ٹوٹا آدمی مر جاتا ہے اور اس کا جسم بھی کچھ دنوں بعد مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو جاتا ہے لیکن ان لوگوں کے اجسام اپنی اصلی حالت پر قائم رہتے ہیں۔ جن کا رزق دنیا سے ہٹ کر اللہ تعالی ٰ کے ذمہ واجب ہو جاتا  ہے۔ ان مخصوص لوگوں کے اجسام کواس اصول کے تحت روح کی روشنی حشر تک فیڈ کرتی رہتی ہے جس کی وجہ سے وہ قائم رہتے ہیں۔ اس طرح ان مخصوص لوگوں کی زندگی عالم ناسوت میں اور عالم ملکوت میں دونوں رخوں میں بیک وقت جاری رہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبروں اور اولیاء اللہ کی زیارتوں پر حاضری دینے سے ان لوگوں کی توجہ ہوتی ہے اور حاجت مندوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ گویا یہ مخصوص بندے جو اللہ کے  پیارے ہیں ان کی دنیاوی زندگی بھی اللہ کے اصولوں کے مطابق بسر ہوئی ہے اور پردہ فرمانے کے بعد بھی وہ اللہ کے مشن پر کام کرتے رہتے ہیں اور اپنے ذمے اللہ تعالیٰ کے واجب کردہ حقوق العباد کا حق ادا کرتے رہتے ہیں۔

          شعور کو ہم ایک نقطے سے تعبیر کرتے ہیں۔ شعوری حواس کمزور اور ناقص ہیں۔ یہ فطری کمزوری شعور کو محتاج بناتی ہے۔ شعور کی محتاجی دور کرنے کے لیے ہر واوقت تین لاشعور اسے گھیرے رہتے ہیں۔یہ تین  لاشعور روح کی روشنیوں کے تین زون ہیں۔ ہر زون ایک عالم غیب ہے۔ جن کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ روح اپنی روشنیاں شعور کے نقطے میں داخل کرتی رہتی ہے اور شعور کا نقطہ روشنیاں جزب کر کے روشن ہوتا جاتا ہے۔ پھر نقطے کی روشنی ان دائروں میں پھیلتی ہے جہاں جہاں تک روشنی پہنچتی ہے، شعور ان عالمین کا مشاہدہ کرتا ہے۔ شعور کے روشنی کو جذب کرنے کے بھی دو طریقے ہیں۔ ایک جانب دنیاوی روشنیاں دوسری جانب روح کی روشنیاں جذب کرتا ہے۔ دنیاوی روشنیاں جذب کرنے سے صرف دنیاوی علوم حاصل ہوتے ہیں اور روح کی روشنیاں جذب کرنے سے روحانی علوم حاصل ہوتے ہیں ۔ ان دونوں طرح کے عمل سے شعور کی نشونما ہوتی ہے مگر ایک رخ میں شعور کی نشونما عالم ناسوت کی حد تک ہوتی ہے۔ اس سے آگے شعور نہیں جا سکتا۔ دوسرے رخ میں نشونما شعور کی سکت کے مطابق ان چار عالمین تک ہوئی ہے۔ جنہیں ہم عالم لاہوت ، جبروت، ملکوت اور ناسوت کہہ چکے ہیں۔ لاہوت تجلیات کا عالم ہے جو ذات کی تجلی ہے۔ یہ عالم معرفت ذات کے علوم حاصل کرنے کا شعور پیدا کرنے سے روح کی آنکھ سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا جبروت تجلی صفات کا عالم ہے جو معرفت صفات کے شعور کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ عالم ملکوت یہ قلب کے شعور سے حاصل ہوتا ہے اور عالم ناسوت مادی شعور کے ذریعے سے۔ ہر عالم میں انسان کے اوپر وہی قوانین لاگو ہوتے ہیں جو اس عالم میں جاری و ساری  ہیں۔ عالم ناسوت اور عالم ملکوت کے درمیان جو سنت الہٰیہ کے قوانین کام کر رہے ہیں وہ شریعت کہلاتے ہیں۔ عالم ملکوت اور عالم جبروت کے درمیان جو سنت الہٰیہ کے قوانین جاری و ساری ہیں وہ طریقت کہلاتے ہیں اور عالم جبروت اور عالم ملکوت کے درمیان  جو سنت الہٰیہ کے قوانین کام کرتے ہیں وہ حقیقت کہلاتے ہیں۔ حقیقت کو پہچاننے کے بعد بندہ جب اللہ کی ذات کے ساتھ قرار پکڑ لیتا ہے تو پھر اسے اللہ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے اور اللہ کی بقا کے ساتھ اسے بقا حاصل ہوجاتی ہے۔ یہ علوم کا وہ دائرہ ہے جس میں ایک روحانی شعور اپنی نشونما حاصل کرتا ہے یہی وہ علوم ہیں جو بطور ورثہ آدم کی جانب سے اس کی اولاد کو تقسیم ہو رہےہیں۔ قرآن نے حقوق العباد کے لیے نہایت ہی وضاحت سے بیان کر دیا ہے کہ ماں باپ بھائی بہن کے ساتھ کیا سلوک کریں۔ یتیموں، بیواؤں، پڑوسیوں غرضیکہ ہر ایک کے ساتھ قران نے بہتر سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ آدمی کے شعور کا نقطہ جیسے جیسے پھیلتا جاتا ہے ،اس کی روشنی قرآن کے جس جس اصول کے اوپر پڑتی ہے وہ اس کو اپناتا جاتا ہے۔ جیسے ایک آدمی حقوق العباد کی فکر کے ساتھ جب اپنے ماحول پر نظر کرتا ہے تو اس کی نظر صرف ماں باپ کو دیکھتی ہے۔ بھائی بہن کو دیکھتی ہے مگر بیوی بچوں پر فکر کی روشنی نہیں پڑتی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ماں باپ، بھائی بہنوں کے ساتھ تو اچھا سلوک کرتا ہے اپنی سمجھ کے مطابق ۔ مگر بیوی بچوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ ان کے نان نفقے کا خیال نہیں کرتا۔ ان کے آرام کی جانب سے غفلت برتتا ہے۔ ان کی تربیت سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے۔ غرضیکہ ان کی کوئی تنگی و تکلیف اسے دکھائی نہیں دیتی۔ اسی طرح ایک آدمی حقوق العباد میں اپنے گھر والوں سے بھی اچھا سلوک کرتا ہے مگر پڑوسیوں کا حق نہیں نبھاتا۔ پڑوسی اس سے نالاں رہتے ہیں۔ ایک آدمی حقوق العباد میں اتنا اگے بڑھ جاتا ہے کہ ساری دنیا کے انسان اور ساری مخلوق اسے اپنی طرح جاندار اور ذی روح دکھائی دیتی ہے ۔ وہ کسی چیونٹی کو بھی گزند پہنچانے کی نیت نہیں کرتا اور نہ ہی ایسا کوئی فعل اس سے سر زد ہوتا ہے۔ ان مختلف مثالوں سے آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ فکر کیا ہے اور سنت الہٰی کے قوانین کیا ہیں اور یہ کس طرح ہمارے اوپر لاگو  ہوتے ہیں۔

          ہر فکر اللہ کے علم کا ایک نقطہ ہے۔ اس نقطے کو ہم اللہ کے علم کی ایک فلم کہیں گے۔ فکر کا یہ نقطہ ایک تجلی ہے۔ جب یہ تجلی روح کے زہن میں منتقل ہوتی ہے تو روح کی فکر کہلاتی ہے۔ روح اس فکر کا ایک نام رکھتی ہے۔یہ نام وہی ہوتا ہے جو اللہ کے کلام میں ہے۔ اب ہم روح کی ایک فکر کی جانب آتے ہیں۔ اس فکر کا نام حقوق العباد ہے۔ فکر کی یہ تجلی روح کے ذریعے سے شعور کے اندرمنتقل ہو جاتی ہے۔ تجلی کی روشنی  شعور میں اس کی سکت کے مطابق جزب ہوتی ہے۔ اسی مناسبت سے شعور اس فکر کی روشنی میں اس عالم کا مشاہدہ کرتا ہے اور شعوری طور پر اس فکر پر عمل کرتا ہے۔ روحانی راستوں پر کوشش یہی کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ روح کی روشنی کو جذب کیا جائے۔ اوپر کی مثالوں سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ روح کی روشنیوں کے ضائع ہونے سے شعور کو کیسی کیسی پریشانیوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اللہ کے حکم کو صحیح طور پر سمجھنے اور عمل کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ ایک پیغمبر جب اللہ کی فکر کو پہچان کر اپنے شعوری ارادے کے ساتھ اس پر عمل کرتا ہے تو اسے ہر حال میں رضائے الہٰی اور تائید غیبی حاصل ہوتی ہے۔ اس عمل عالمین کی وسعتوں میں پھیل جاتا ہے۔ ساری کائنات اسے ایک شہر لگتی ہے اور ساری مخلوق ایک کنبہ۔ وہ سب کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہے۔ اس کے نزدیک اپنا بیٹا اور کسی دوسرے کا بیٹا دونوں برابر ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ اپنے بیٹے کے لیے جان دے سکتا ہے تو کسی دوسرے کے بیٹے کے لیے بھی جان قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ یاد کیجئے۔ طوفان

 نوح علیہ السلام میں حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا کو ایمان نہیں لایا تھا ایک پہاڑی پر چڑھ گیا اور حضرت نوح علیہ السلام کے کہنے کے

باوجود بھی نہ مانا۔ کہنے لگا کہ میں اونچائی پر ہوں مجھے سیلاب کیسے بہائے گا۔حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ پاک سے کہا کہ یا اللہ میاں یہ

میرا بیٹا ہے یہ ڈوب رہا ہے اسے بچا لیجئے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں۔ اے نوح علیہ السلام! یہ تیری آل نہیں ہے۔ اللہ پاک کے اتنا کہنے پر

وہیں چپ چاپ بیٹھ جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ حضرت نوح علیہ السلام کا یہ فرمانا اے میرے رب یہ حضرت نوح علیہ السلام میرا بیٹا ہے

اسے بچا لیجئے۔ یعنی اس کے میرے اوپر پدرانہ حقوق ہیں۔ یہ میری بات نہیں مانتا کہ کشتی میں سوار ہو جائے۔ اب اس پدرانہ حقوق کی پاس داری تیرے سپرد ہے۔ اللہ پاک نے فوراً اپنے پیغمبر کو یہ کہہ کر اس ذمہ داری سے بری کر دیا کہ اے نوح علیہ السلام یہ تیری آل نہیں ہے۔ یعنی اے نوح علیہ السلام تیرے ذمہ تیری اولاد کے جو حقوق تھے وہ ہم نے اٹھا لیے۔ اس وجہ سے کہ جس طرح باپ کے حقوق اپنے بیٹے پر ہیں۔ بیٹے کے حقوق بھی باپ پر ہیں۔ باپ اگر اپنا حق پہچانتا ہے اور بیٹا نہیں پہچانتا تو باپ اس کے لیے جواب دہ نہیں ہے۔

          پیغمبروں کا ہر عمل ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ ان  کی پوری زندگی قدرت کے بنائے ہوئے نظام کے ساتھ اس کی سنت کے دائرے میں جاری و ساری ہے۔ جب ہم ان کے واقعات میں غور و فکر کرتے ہیں تو اس ہمیں اللہ کی سنت  کے بہت سے قوانین معلوم ہو جاتے ہیں۔ قرآن حقوق العباد کے لیے جو حکم دیتا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔

          ”تو اہل  قرابت اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق دیتے رہو۔ جو لوگ رضائے الہٰی کے طالب ہیں یہ ان کے حق میں بہتر ہے اور یہی لوگ نجات حاصل کرنے والے ہیں۔“ (سورہ روم ۳۸)

          پیغمبروں کی ہر فکر معرفت کے دائرے میں کام کرتی ہیں۔ انہیں اللہ پاک کی ذات وصفات کے علوم حاصل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ہر عمل قابل تقلید ہے۔ وہ اللہ کی ذات سے قریب ہیں۔ ایک روحانی طالب علم کا شعور پیغمبروں کی فکر کی روشنی میں  آہستہ آہستہ اگے بڑھتا ہے۔ اور زندگی کے متعین کردہ اصولوں کو پیغمبرانہ فکر کے ذریعے اپناتا ہے۔ جس طرح ایک پیغمبر نے اپنے قرابت داروں سے محتاجوں سے مسافروں سے سلوک روا رکھا۔ وہ بھی ان کی تقلید اور پیروی کرتا ہے۔ عام آدمی کی سوچ اس سے مختلف ہوتی ہے۔ عام آدمی پیغمبروں کی تعظیم تو ضرور کرتا ہے مگر ان کی تقلید نہیں کرتا ۔ یہ میں اپنا تجربہ بیان کر رہی ہوں۔ کسی پر الزام نہیں دے رہی۔ بہت سے لوگوں  سے میری روحانی مشن کے سلسلے میں ملاقات اور بات چیت ہوئی کہ روحانی علوم پیغمبروں کے علوم ہیں انہیں سیکھ کر ان پر ہم اس وقت عمل کر سکتے ہیں جب ان مقدس ہستیوں کی فکر اور ذہن ہمارے اندر بیدار ہوگا۔ تب ان کی فکر سے ہمارا رابطہ ہو گا اور ہمارے اعمال و افعال میں پاکیزگی  آئے گی۔ مگر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ عام طور پر لوگوں کا یہی خیال ہے کہ پیغمبروں کا طرز عمل اختیار کرنا نا ممکن ہے۔ یہ سوچ کر لوگ اپنے آپ کو روحانی علوم سیکھنے سے دستبردار کر لیتے ہیں۔ کیسی بدنصیبی  کی بات ہے۔ اللہ تو ہر لمحے یہ  دعوت دے رہا ہے کہ اے میرے بندے تجھے میری ہی جانب آنا ہے۔ ذرا تو سوچئے ہم کوئی جرم کرتے ہیں تو اپنی ماں کے سامنے جانے سے شرماتے ہیں۔ باپ کا سامنا کرتے ڈرتے ہیں، بیوی یا شوہر سے منہ چھپاتے ہیں اور نہیں ڈرتے تو بس اللہ کے سامنے  جانے سے نہیں ڈرتے۔ واہ کیا خوب سوچتے کہ جن راستوں پر چل کر اللہ کے بندے اللہ تک پہنچے ہیں۔ ہم بھی انہی راستوں پر قدم رکھیں۔ اللہ تک پہنچنے کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار راستے ہیں۔ جتنے پیغمبر اس دنیا میں آئے اتنے ہی راستے اللہ تک پہنچنے کے ہیں اور ان سے ایک بھی نہ زیادہ نہ کم۔ نہ ہی ان کے علاوہ کوئی اور ایک بھی راستہ ایسا ہے جو اللہ تک بندے کو لے کر جاتا ہے۔ ہر گز  بھی نہیں۔ پھر پیغمبروں کی تقلید کے سوا آپ کے پاس اور کون سا راستہ رہ جاتا ہے اللہ تک پہنچنے کا۔ آپ برملا کہہ دیجئے کہ کوئی بھی نہیں۔ اس کے سوا نفس کے وہ اندھیرے راستے ہیں جو آدمی کو شیطان تک پہنچا دیتے ہیں۔ شیطانی راستے پر اللہ کو قہر ہے اور قہر کی وہ بھیانک صورتیں ہیں جنہیں نفس خوشنما کر کے دکھاتا ہے۔ نفس شیطانی تاریکی کا نقطہ ہے۔ وہ ظلمت و تاریکی اور جہل کی ہر تصویر کو پسند کرتا ہے اور نفس رحمانی نور کا نقطہ ہے۔ وہ نور  کی ہر شئے کو پسند کرتا ہے۔ روحانی شعور نور کے عالم کا شعور ہے۔ ایک روحانی بندہ دنیا میں رہتے ہوئے نور کے عالمین سے اپنا رابطہ جوڑ لیتا ہے اور دنیا والوں کے ساتھ عالم نور کے مروجہ قانون کے مطابق سلوک کرتا ہے، نور پاک ہے اس کے اندر نور کی پاکیزگی منتقل ہو جاتی ہے اور وہ اللہ کے قانون اور سنت کے مطابق حقوق العباد ادا کرتا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭٭٭٭٭

 

 

 


Majlis tafheemo danish

سعیدہ خاتون عظیمی