Topics
۱۔ راز ایک خفیہ علم ہے جو ایک امانت کے طور
پر حاصل ہوتا ہے۔ راز فاش کرنا خیانت ہے اور اس کےحق سے خود کو محروم کرنا ہے۔ صبر
و ضبط سے رازداری کی سکت بڑھائی جا سکتی۔
۲۔ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا راز دار ہے۔ رازداری
ایک نیکی ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں جس نے اپنے بھائی کا راز اپنے سینے میں رکھا اور
اس کو افشا نہ کیا تو اللہ پاک قیامت کے دن اس کے راز دوسروں پر ظاہر نہیں کریں
گے۔
۳۔ کائنات
میں اللہ پاک کی جو مشیت کام کر رہی ہے وہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان
راز ہے جو عام سے پردے میں ہے۔ اللہ کی عطا کردہ فراست کے ذریعے مشیت کے علوم
سیکھے جا سکتے ہیں۔
۴۔ راز داری سے مطلب ہے اللہ تعالی کے وہ علوم
جو عوام الناس کی فہم سے باہر ہیں کسی سے بیان نہ کیے جائیں کیونکہ بعض روحانیت
میں ایسی باتیں بھی آدمی کے علم میں آجاتی ہیں جو فائدے کی جگہ نقصان کا باعث بن
سکتی ہیں۔ حتی کہ اپنے خواب بھی خاص
بندوں کے علاوہ ہر کسی سے بیان نہ کیے جائیں۔ رازداری کی سکت بڑھانے کے لیے بہترین
طریقہ یہ ہے کہ کم سے کم گفتگو کی جائے اس وجہ سے چپ کے روزے کی پریکٹس کرائی جاتی
ہے۔
۵۔ ایک روحانی بندے کا اللہ سے رابطہ راز داری
ہے۔ اگر بندہ یہ تینوں اصول اپنا لے ۔ کم سونا، کم بولنا، کم کھانا تو اس سے
روحانی سکت بڑھ سکتی ہے۔
۶۔ حضرت غوث پاکؒ فرماتے ہیں کہ بندہ اللہ کا
سر یعنی راز ہے۔ خیال کی لہریں جو عالم امر سے دماغ پر وارد ہوتی ہیں، زیادہ بولنے
سے ان کی قوت زائل ہو جاتی ہے۔ ایک روحانی
بندہ جو اللہ تعالیٰ کا امین ہے۔ روحانی راستے پر چلتے ہوئے اس کے اوپر ایسی
حقیقتیں منکشف ہوتی ہیں کہ اگر بیان کر دی جائیں تو لوگوں کے لیے فائدے مند ثابت
نہیں ہو سکتی۔ وہ اپنے ثابتہ کےریکارڈ میں دیکھ کر کئی ہزار سال پہلے اور بعد کے
ریکارڈ سے واقف ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ؒسے روایت ہے کہ مجھے حضور پاک
ﷺ سے دو قسم کے علوم منتقل ہوئے۔ ایک کو میں نے ظاہر کر دیا اور دوسرے کو چھپا
لیا۔ اگر ظاہر کر دیتا تو لوگ مجھے زندہ نہ چھوڑتے یعنی عوام کے شعور سے اونچی بات
اگر کر دی جائے تو عقل اسے قبول نہیں کرتی۔
۷۔ اللہ تعالی ٰ غیب میں ہے۔ غیب جس کو نظر نہیں اتا اس کے لیے راز
ہے۔ روحانی آدمی کی آنکھ جب غیب میں
دیکھتی ہے تو ان چیزوں کا مشاہدہ کرتی ہے جو
عام آدمی کے لیے راز ہے۔ روحانی آدمی اللہ کے رازوں کو عوام کی سکت کے
مطابق عام کرتے ہیں۔
۸۔ ایک انسان کو اپنے اوپر اتنا کنٹرول ہونا
چاہے کہ وہ کسی کے راز کو راز رکھ سکے۔ اور یہ کہ کنٹرول انسان اسی وقت حاصل کر
سکتا ہے جب اس کے اندر صبر و ضبط ہو اور اس کا ارادہ مضبوط ہو۔ اللہ نے فرمایا ہے
کسی کے راز کو راز رکھو گے تو حشر کے دن اللہ بھی تمہارا پردہ رکھے گا۔
۹۔ روحانی راستوں میں سالک کو کئی مراحل سے
گزرنا پڑتا ہے۔ اس راستے میں ورادات و کیفیات ایک راز ہے۔ جسے عوام الناس سے
پوشیدہ رکھنے کی سالک میں سکت ضروری ہے۔ راز کو راز رکھنے سے سکت بڑھتی ہے۔
۱۰۔ کیفیت جذب سے امانت کی سکت بڑھتی ہے۔
۱۱۔ راز ایک امانت ہے۔ امانت میں خیانت کو اللہ
تعالی نے ناپسند فرمایا ہے۔ رازداری کی سکت کو بڑھانے کے لیے خاموشی کی عادت ڈالنا
ضروری ہے۔ گاڑی جتنا روڈ پر چلتی ہے اتنا ہی اس کے ایکسیڈنٹ کا خطرہ زیادہ ہوتا
ہے۔ آدمی جتنی زیادہ باتیں کرے گا اتنا ہی زیادہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کے منہ
سے راز کی کوئی بات نکل جائے اور جتنی آدمی کے اندر گہرائی اور وسعت یعنی ظرف پیدا
ہوگا اتنا ہی وہ خاموش رہے گا۔
؎ کہہ رہا ہے شور دریائے سے سمندر کا
سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش
ہے
۱۲۔ A Roohani Person see’s
with his conscious and subconscious therefore the Rooh has a connection with
Allah. An average person only see’s and decide with his conscious scene. A
Roohani person therefore has tolerance
will power and patience and high level of under standing. He is able to decide
which knowledge is tolerable to that body.
۱۳۔ رازداری ایک
امانت ہے جس طرح کسی کی چیز رکھ کر امانت
میں خیانت نہیں کرنی چاہیے اسی طرح اگر کوئی راز اپنا آپ کو بتاتا ہے تو وہ آپ کے
پاس امانت رکھواتا ہے۔ حد سے حد کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اس راز کو امانت سمجھ کر
حفاظت کریں۔ پہلے چھوٹی چھوٹی باتوں پر تجربہ کریں کہ اپ میں کہاں تک سکت ہے پھر
بڑی باتیں خود ہی راز رکھنا آسان ہو جائیں گی۔
٭٭٭٭٭
سوالات
سوال نمبر۱۔ راز
و نیاز کی کیا حقیقت ہے؟ بیان کریں۔
سوال نمبر۲۔ راز کو
راز رکھنا کیوں ضروری ہے؟
سوال نمبر۳۔ حضرت
ابو ہریرہ کا فرمان ہے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے مجھے علم کے دو
پیالے ملے ایک کو میں نے چھپالیا اور دوسرے کو ظاہر کر دیا، اس کی تفصیلات بیان
کریں۔
سوال نمبر۴۔ کم
کھانا، کم بولنا، کم سونے میں کیا حکمت پوشیدہ ہے، بیان کریں۔
٭٭٭٭٭
روحانی
علوم کائنات کی اشیاء کے پس پردہ کام کرنے والے عوامل کے علوم ہیں۔ ہر شئے کے پس
پردہ اس شئے کی حقیقت کام کر رہی ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں نے کن کہا اور تمام روحیں وجود میں
آگئیں یعنی روحوں کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ کے امر کن سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے
امر کن سے روحوں کو تخلیق اور وجود میں آنے کے بعد روحوں کے اندر زندگی کی حرکت کی
ترتیب کے علوم وہ ہیں جو اللہ کی جانب سے آدم کو عطا ہوئے ہیں۔ یہ تمام غیب کے
علوم ہیں۔ غیب کی حرکات و سکنات کا سایہ
ہی مادی کائنات ہے۔ ظاہری حواس سائے کی حد تک کام کرتے ہیں مگر باطنی حواس سائے سے
گزر کر شئے کے باطن میں پہنچ جاتے ہیں۔ عام آدمی صرف ظاہری حواس سے کام لینا جانتا
ہے وہ باطنی حواس سے واقف نہیں ہوتا مگر روحانی علوم کا طالب اپنے باطنی حواس کو
متحرک کر کے اپنی باطنی صلاحیتوں سے واقفیت حاصل کرتا۔ باطنی صلاحیتیں روح کی
صلاحیتیں ہیں۔ روح کی صلاحیتوں سے واقفیت غیب کا انکشاف کرتی ہے۔ یہ انسانی فطرت
ہے کہ جس چیز کو آنکھ دیکھ لیتی اس کے
متعلق اسے یقین کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے مگر آنکھ سے دیکھے بغیر یقین کی جگہ شک اور وسوسہ جنم لیتا ہے۔
قلب کی آنکھ جب کھلتی ہے تو غیب میں دیکھ کر غیب پر ایمان پختہ ہو جاتا ہے مگر ایک عام آدمی کے لیے ایمان کا یہ درجہ حاصل
کرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی نظر غیب میں کام نہیں کرتی۔ بعض وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ غیب
مشاہدے میں نہ ہو مگر روز مرہ زندگی کا کوئی واقعہ آدمی کو غیب پر یقین کا درجہ
دلا دیتا ہے اور پھر یہی غیب کی نظر بن جاتی ہے۔ غیب کو سمجھنے کے لیے ایک مخصوص
طرزِ فکر درکار ہے جو روحانی طرزِ فکر ہے ۔ روحانی طرزِ فکر کے بغیر غیب میں دیکھی
ہوئی اشیاء کو صحیح معنی نہیں پہنائے جا سکتے۔ جس طرح استدراجی لوگ بھی غیب کا
مشاہدہ تھوڑا بہت ضرور کرتے ہیں مگر استدراجی طرزِ فکر میں اور روحانی طرزِ فکر
میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ استدراجی طرز فکر میں اس کے اندر آدمی جو کچھ مشاہدہ
کرتا ہے وہ مشاہدہ اعراف کی تخریبی ذہنیت کی مالک روحوں اور شر پسند جنات کی
انسپائریشن کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استدراجی علوم لوگوں کو فائدے کی
بجائے نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کے برخلاف روحانی طرزِ فکر کے تحت جو کچھ بھی مشاہدہ
ہوتا ہے وہ رحمانی قوتوں کے زیرِ اثر ہوتا
ہے۔ رحمانی قوتوں میں اولیاء اللہ کی ارواح مقدسہ پیغمبران علیہ السلام کی ارواح
مقدسہ اور ملائکہ اور رجال الغیب شامل
ہیں۔ استدراجی علوم اور مشاہدہ و تصرف کا دائرہ عالم ناسوت کی حدود تک ہے۔ مگر
رحمانی اور روحانی علوم کا دائرہ تصرف اور مشاہدہ علم و عمل عرش تک ہے۔ عرش کی ایک
بلندی بیت المعمور ہے اور جیسا کہ آپ پہلے بھی سن چکے ہیں کہ بیت المعمور ابراہیم
علیہ السلام کا مقام ہے۔ اس مقام پر جن تجلیات و انوار کا نزول رہتا ہے۔ حضرت
ابراہیم علیہ السلام ان انوار و تجلیات کے علوم سے پوری طرح باخبر ہیں اور ان
انوار پر آپ کو تصرف حاصل ہے۔ بیت المعمور
پر نزول ہونے والی تجلیات کا کائنات میں کیا عمل دخل ہے یہ اللہ تعالیٰ کے ایسے
اسرار ہیں جن کے علوم اللہ پاک نے اپنے پیغمبر کو عطا کیے ہیں۔ پیغمبروں کے ذریعے روحانی علوم
ان کے وارثین میں منتقل ہوتے ہیں۔ پس جس طرح پیغمبران علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے
علم الاسرار کی سکت رکھتے تھے ان کے وارثین بھی سکت رکھتے ہیں۔ سکت کے بغیر یہ
علوم منتقل نہیں ہوتے۔ ایک روحانی استاد بھی اپنے شاگرد کو روحانی علوم اسی وقت
منتقل کرتا ہے جب اس کے اندر سکت پیدا ہو جاتی ہے ۔ بعض وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ
شاگرد اپنے تئیں یہ سمجھ لیتا ہے کہ مجھ میں اب اتنی سکت پیدا ہو چکی ہے کہ ہر قسم
کے اسرار کو اپنے اندر محفوظ کر سکتا ہوں۔
اسی سلسلے میں ایک قصہ حضرت جنید بغدادی ؒکا بھی بہت مشہور ہے جو اس طرح ہے کہ ان
کا ایک مرید تھا۔ کافی عرصہ ان کی صحبت میں رہنے کے بعد ایک دن اس کے اندر یہ خیال
پیدا ہو گیا کہ اب میں اس قابل ہو گیا ہوں کہ اسم اعظم کے اسرار جان سکوں۔ یہ سوچ کر اپنے استاد کے پاس آیا اور
مصر ہو گیا کہ مجھے اسم اعظم کی تعلیم دیجئے۔ حضرت جنید بغدادی ؒنے اس کے اصرار کو
دیکھ کر اسے کہا اچھا پہلے تم میرا یہ کام کردو پھر میں تمہیں اسم اعظم بتا دوں
گا۔ آپؒ نے ایک خوان پوش ڈھکا ہوا اسے دیا کہ یہ فلاں دریا میں ڈال آؤ۔ مرید ابھی
آدھے راستے میں ہی تھا کہ اس کے اندر تجسس پیدا ہوا کہ خوان پوش کو کھول کر تو
دیکھوں کہ اس کے اندر کیا ہے؟ چند قدم چلنے کے بعد اس کا تجسس اتنا بڑھا کہ اس نے
خوان پوش کا ڈھکنا اٹھا دیا۔ ڈھکنے کا ٹھنا تھا کہ ایک چوہا نکل کر بھاگ گیا۔ اب
مرید پریشان ہو کر آدھے راستے سے ہی واپس آگیا۔ حضرت جنید بغدادی نے
پوچھا تم نے دریا میں ڈال دیا؟ کہا ڈال دیا۔ پوچھا کیا دیکھا؟ کچھ نہیں۔ حضرت جنید
نے فرمایا ۔ جب تم ایک چوہے کی حفاظت
نہیں کر سکے تو اسم اعظم کی کیا کرو گے۔
ایسا
نہیں ہے کہ اللہ نے اپنے اسرار کسی کو بتائے ہی نہیں بلکہ اللہ کے اسرار اللہ کے
بندوں کے لیے ہیں۔ اللہ کے بندے وہ ہیں جن کا ذہن اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع
ہوتا ہے یعنی مشیت ایزدی کے تحت کائنات میں جو کچھ رونما ہو رہا ہے اس سے اللہ کے
بندے واقف ہوتے ہیں۔ یہ واقفیت بھی اللہ کی رضا اور اس کی مصلحت کے تحت ہوتی ہے
تاکہ اس کے بندے اس کے عطا کردہ
اختیارات کو پہچان سکیں۔ اللہ پاک نے
اسمائے الہٰیہ کے علوم عطا کر کے انسان کو اپنا نائب اور زمین پر اپنا خلیفہ بنا
کر بھیجا ہے۔ بندے کے اختیارات نیابت اور خلافت کے دائرے میں کام کرتے ہیں۔ نیابت
کے علوم کائنات کے انتظامی امور اور تخلیقی فارمولوں کے علوم ہیں۔ اس شعبے کو شعبہ
کو شعبہ ارشاد کہا جاتا ہے۔ شعبہ تکوین کا انتہائی درجہ نبوت ہے اور شعبہ رشد و
ہدایت کا انتہائی درجہ رسالت ہے۔ اللہ پاک کے پیغمبران علیہ السلام نے ان درجات
میں علوم حاصل کیے ہیں اور سب پیغمبروں کے ذریعے سے یہ علوم لوگوں تک پہنچ رہے
ہیں۔ روحانی طرزِ فکر پیغمبروں کی طرزِ فکر ہے۔ جیسے جیسے کوئی بندہ روحانی طرزِ
فکر اختیار کرتا جاتا ہے ویسے ویسے وہ
ذہنی طور پر پیغمبروں کے قریب ہوتا جاتا ہے۔ اس ذہنی ہم آہنگی کے نتیجے میں سالک
کے اندر پیغمبروں کے اور اپنے مرشد کے علوم منتقل ہوتے ہیں۔ اس کی مثال یوں دی جا
سکتی ہے کہ دماغ ایک کمپیوٹر ہے اور اس کمپیوٹر کی کنجی انسان کے ہاتھ میں ہے۔ اس
کمپیوٹر کے اندر اسمائے الہٰیہ کے علوم فیڈ ہیں۔ پیغمبران علیہ السلام علوم کو
لوگوں کے دماغ یا کمپیوٹر میں فیڈ کرتے ہیں۔ اس طرح ایک دماغ پروگرامنگ کرتا
ہے تو دوسرا دماغ اس پروگرام کو ریسیو
کرتا ہے۔ اس کام کے لیے ذہنی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں روحانی
سلاسل کی بنیاد پڑی۔ روحانی علوم حاصل
کرنے کے لیے مرید کا اپنے مرشد یا روحانی استاد کے ساتھ ہم آہنگی نہایت ہی ضروری
ہے۔ سوچنے کا انداز جب ایک ہو جاتا ہے تو ایک ذہن کی فکر دوسرے ذہن میں منتقل ہونے
لگتی ہے اور رفتہ رفتہ مرید اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس کے ذہن کا رابطہ غیب میں کام
کرنے والی فرشتوں پیغمبروں کی ارواح اور روحانی طرزِ فکر کی حامل ارواح سے ہو جاتا
ہے اس پر غیب کے علوم کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
پیغمبروں
کا مشن لوگوں کو اللہ پاک کی ذات و صفات سے متعارف کرانا ہے۔پیغمبروں کا مشن رہتی
دنیا تک قائم رہنے والا ہے کیونکہ ہر دور میں بنی نوع انسانی کو اپنے خالق اور رب
کو پہچاننے اور جاننے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں قدرت ایسے انسان پیدا
کر دیتی ہے جو اللہ کے مشن کو جاری و ساری رکھتے ہیں۔ روحانی مشن میں کام کرنے
والا لوگوں کا روحانی معالج بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کا سابقہ بہت سے دکھی اور
ضرورت مند لوگوں سے پڑتا رہتا ہے۔ ایسے میں لوگوں کی ذاتی اور نجی باتوں کو اپنے
سینے میں محفوظ رکھنا اس کی ایک اخلاقی زمہ داری ہے جس کی وجہ سے ٓپس میں انس و
محبت کے تعلقات پیدا ہو جاتے ہیں اور بھروسہ قائم ہو جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگ
اس کے سامنے اپنے دل کی بھڑاس نکال کر ہلکے پھلے ہو جاتے ہیں۔ بزرگوں کا قول ہے کہ
آدمی آدمی کا علاج ہے۔ ایک روحانی شخصیت بہت سے دکھی
انسانیت کا مداوا بن جاتی ہے۔ بشرطیکہ اس کے اندر رازداری کی سکت ہے جو بندوں کے
راز اپنے اندر چھپا لیتا ہے۔ اللہ اس سے اس قدر خوش ہو جاتا ہے کہ اس پر اپنے
اسرار کھول دیتا ہے۔
انسان کے اندر کام کرنے والی تمام
صلاحیتیں اسمائے الہٰیہ کا نور ہے۔ جب بندے کے اندر یہ نور متحرک ہو جاتا ہے تو اس
کے اندر اس نور کا ادراک پیدا ہو جاتا ہے۔ یہی ادراک آگے چل کر حواس میں منتقل ہو
جاتا ہے اور آدمی اس نور و روشنی کو اپنی صلاحیت کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اللہ
پاک ستار العیوب ہیں۔ اسم ستار کا نور ہر عیب کا ڈھانپنے والا ہے۔ جب کوئی بندہ
لوگوں کے راز جاننے کے باوجود بھی انہیں اخفا نہیں کرتا بلکہ انہی اپنے سینے میں
محفوظ رکھ کر اسے اس کی شرمندگی اور رنج و غم کے نقصان سے بچانے کی فکر میں لگا
رہتا ہے تو اس پر اسم ستار کے انوار کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ خود اس کے عیب
اس روشنی میں چھپ جاتے ہیں اور جس طرح اللہ کا نور اس کے عیبوں پر پردہ ڈال دیتا
ہے بندے کے اندر اس کے نور کے ساتھ ساتھ اسم ستار کا ذہن اور فکر بھی منتقل ہو
جاتی ہے۔ اسی فکر اور صلاحیت کے ساتھ وہ لوگوں کے عیبوں پر بھی پردہ ڈالنا سیکھ لیتا ہے اور ان کے
رازوں کو اپنے قلب میں پوشیدہ رکھنے کا گر سیکھ لیتا ہے۔ روحانی علوم کتابیں پڑھ
کر حاصل نہیں ہوتے بلکہ علم کی روشنیاں جذب کرنے سے حاصل ہوتے ہیں۔ ہر روشنی کسی
نہ کسی اسم کی روشنی ہے۔ جب یہ انوار
قلب وذہن میں جذب ہو جاتے ہیں تو آدمی کے
ذہن میں اسمائے الہٰیہ کی فکر کام کرنے
لگتی ہے اور دل اس فکر کو تصوراتی سانچے میں ڈھال دیتا ہے جہاں قلب کی نظر اسے
دیکھ لیتی ہے اور آدمی اسے پہچان لیتا ہے۔ روحانی فکر جان لیتی ہے کہ آدمی کے اندر
اللہ کی صفات کام کر رہی ہیں۔ پس وہ اپنا رخ فطرت کی جانب موڑ دیتا ہے اور خود
اپنے اندر کام کرنے والی فطرت سے قریب ہو کر اس کے اصل سورس تک رسائی حاصل کر لیتا
ہے۔ فطرت کا پہچاننا ہی اسمائے الہٰیہ کا پہچاننا ہے۔ اسمائے الہٰیہ کی پہچان آدمی
کی باطنی صلاحیتوں کو ابھارتی ہے۔
اللہ پاک ہمیں ایسے روحانی حواس عطا
فرمائے کہ ہم ان کے ذریعے کائنات میں کام کرنے والے اسمائے الہٰیہ کے نظام کو
پہچان جائیں اور اللہ پاک کو اس کی صفات کے ساتھ پہچان جائیں جیسا اس کے پہچاننے
کا حق ہے۔
٭٭٭٭٭