Topics

مجاہدہ

1.     اپنی خواہشات پر رضائے الٰہی کا رنگ چڑھا مجاہدہ ء نفس ہے۔ اس کا مظاہرہ اس طرح ہو کہ کوئی کام رضائے الٰہی کے بغیر نہ ہو۔

2.     اپنی عام روزمرہ کی زندگی سے ہٹ کر کچھ ایسی روٹین اپنا نا جس سے مادیت سے ذہن ہٹ کر اللہ تعالیٰ کی جانب راغب ہو۔

3.     مادی اشیاء کی پروانہ کرتے ہوئے ہر شئے کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے جان کر اس پر شکر گزار ہونا مجاہدہ نفس ہے۔

4.     اپنے ارادے پر اللہ تعالیٰ کے ارادے کو ترجیح دینا مجاہدہ نفس ہے۔

5.     اللہ کے سوا کسی سے توقعات نہ رکھنا مجاہدہ نفس ہے۔

6.     ہر غم وخوشی میں اللہ کو شریک کرنا مجاہدہ نفس ہے۔

7.     خواہشات کی تکمیل صحیح طورپر کرنا اور خیالات کا مفہوم مثبت انداز میں لینا جاہدہ نفس ہے۔

8.     اللہ کے نور سے نفس کو پاک کرنا یعنی کثافت ختم کرکے لطافت بھرنا جاہدہ نفس ہے۔

9.     ایثارکا نام جاہدہ نفس ہے۔

10.                        اپنی خواہشات کو اللہ کی رضا کے تابع کرنا اور ہر اس برائی سے دور رہنا جس قرآں منع کرتا ہے جاہدہ نفس ہے۔

11.                        اپنی طرز فکر کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھال لینا جاہدہ نفس ہے۔

12.                        بے جا خواہشات ہر کنٹرول کرنا جاہدہ نفس ہے۔

13.                        نامساعد حالات سے سمجھوتہ کرلینا جاہدہ نفس ہے۔

14.                        اپنے نفس کو تکلیف و رنج دے کر دوسرے کو خوش کرنا جاہدہ نفس ہے۔

15.                        غرور کا ترک کرنا جاہدہ نفس ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭

سوالات

سوال نمبر۱         جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا اس حدیث کا مفہوم کیا ہے؟

سوال نمبر۲         جاہدہ نفس کیا ہے اور روحانیت میں اس کے کیا فوائد ہیں؟

سوال نمبر۳         سالک کے لئے جاہدہ نفس  کیوں ضروری ہے؟

سوال نمبر۴         غروراورحسد کے کیا نقصانات ہیں؟

٭٭٭٭٭٭٭

مثل مشہور ہے کہ ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی۔ مگر آنکھ اسے سونا ہی سمجھ لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظر کی اس اطلاع پر تمام اعضاء حرکت میں آجاتے ہیں اور آدمی اسے سونا سمجھ کر اٹھا لیتا ہے۔ مگر جب عقل اس میں غور کرتی ہے تو پھر اس کی اصیت معلوم ہوجاتی ہے۔ دنیاوی نفس ہر شئے کو مادی حواس کےذریعے سے پہچانتا ہے۔مادی حواس ناقص ہیں۔ آنکھ دیکھ کربھی دھوکہ کھا جاتی ہے۔ کان سن کر بھی بہرے بن جاتے ہیں۔ عقل غوروفکر کرکے بھی لا علم اور تشنہ رہ جاتی ہے۔ کان سن کر بھی بہرے بن جاتےہیں۔ عقل غوروفکر کرکے بھی لا علم اور تشنہ رہ جاتی ہے۔ غرض کہ یہ دو حواس ہیں جو اللہ کے علوم اور کائنات کو سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہیں۔ مجاہدہ نفس درحقیقت وہ مشقیں اور اعمال ہیں جن کے ذریعے نفس کی کمزوری دور ہو۔ مجاہدہ نفس بھی وہ خاصل غذا ہے جو کمزور اور ناقص نفس کو دی جاتی ہے تاکہ وہ اس کے ذریعےسے قوت پکڑے۔ انسان کے جسم میں دماغ ہی وہ مشین ہے جس کے ذریعے سے انسان خوداپنی ذات سے بھی اور کائنات کے ساتھ بھی اور االلہ کے ساتھ بھی رابطہ رکھتا ہے۔ یعنی ہر شئے کو انسان عقل سے پہچانتا ہے۔ دنیاوی عقل اتنی ناقص ہے کہ اس کی فکر شئے کی گہرائی میں مشکل سے ہی پہنچتی ہے۔ اللہ تک پہنچنا اس کے لئے ناممکن ہے۔ روحانی راستے پر چلنے والے کا منشاء اور کوشش و جستجو یہی ہوتی ہے ک اسے اللہ کا سراغ مل جائے اور اللہ کےعلم میں بندے کا جو مقام ہے وہ اسے پہچان جائے۔جب اس کام کے لئے وہ اپنی دنیاوی عقل سے کام لینا ہے تو اسے پتہ چلتا ہےکہ اس عقل کے ساتھ تو وہ مکھی اور مچھر کے اندربھی کام کرنے والی روشنیوں کا سراغ نہیں لگا سکتا۔ کجا اللہ کا نور کہ جس ی وہ جستجو میں ہے۔ جیسے جیسے اس کے اندر نور کو پانے کی جستجو بڑھتی جاتی ہے ویسے وہیسے اسے اپنے نفس کی کمزوریوں کا احساس ہوتا جاتا ہے۔دوسری جانب عقل کی کمزوری اس کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیتی ہے۔ ایسی صورر میں جب تجسس چاروں طرف سے عقل کو گھیر لیتا ہے تو آدمی اپنے کمزور نفس کو اللہ کی جانب قدم بڑھانے پر آمادہ کر لیتا ہے اور اس کی کمزوریوں پر نظر رکھتے ہوئے اسے ان مجاہدوں سے گزارتا ہے جو نفس کے نقائص کو دور کرکے اسے اللہ کے راستوں پر چلنے میں مدد دیتے ہیں۔ یعنی وہ مادی عقل کو مادی روشنیوں کی بجائے نورارنی روشنیوں سے سیراب کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ عقل کی مادی روشنی نور میں گم ہو جاتی ہے اور اس کا روحانی شعور بیدار ہوجاتا ہے۔

قرآن نے مجاہدہء نفس کے لئے صلوٰۃ اور زکوٰۃ کا پروگرام بنایا ہے۔ صلوٰۃ کے ذریعے آدمی اپنے جسم اور ذہن کو اللہ کی فرمانبرداری میں لگاتاہے اور زکوٰۃ کے ذریعے زندگی کو آرام و آسائش فراہم کرنے والے وسائل کو صرف اپنی ذات کےلئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی آرام و آسائش پہچانےکے لئے استعمال کرنا سیکھتا ہے۔ انسان تقاضوں کا مجموعہ ہے۔ دیناوی نفس کے اندر دنیاوی ضروریات کے تقاضے ابھرتے رہتے ہیں اور روحانی نفس کے اندر روح کے تقاضے پیدا ہوتے رہتے ہیں ۔ دنیا میں آدمی چونکہ ظاہری حواس و احساسات کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے اس لئے دنیاوی تقاضوں کی شدت حواس کے دائروں میں زیادہ محسوس کرتا ہے۔ اس شدت کے پردے میں روحانی تقاضے حواس سے اوجھل ہوجاتےہیں۔ اب جب تک باطنی حواس کو ظاہری حواس پر غالب نہ کیا جائے گا روح کے تقاضو ں کا پتہ نیں چلے گا۔ دنیاوی نفس چونکہ مادی شعور ہے اس لئے مادی دنیا کی ہر شئےکے لئے اس کے اندر ایک کشش پائی جاتی ہے۔ وہ لوگ جو آخرت کی دنیا کے طالب ہیں و ہ اس بات کو جانتے ہیں کہ اگر ان کا دھیان مادی دنیا میںلگ گیا تو جسمانی زندگی ختم ہونے کے بعد یہ سارے عیش بھی ختم ہوجائیں گے اور آخرت مین وہ تہی دست ہوں گے۔ اس لئے وہ اپنے اوپر جب کرکے اپنی خواہشات کو کنٹرو کرتےہیں اوراپنے نفس کو عبادت و ریاضت کےذریعے زیادہ سے زیادہ اللہ کی جانب راغب رکھنے کی کوشش کرتےہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ پاک فرماتےہیں کہ " وہ لوگ جنہوں نے کوشش کی ہمارے دین میں ہم ان کو اپنے راستے دکھادیتے ہیں۔"

خواہش نفس کا ترک کرنا مجاہدہ ہے۔ کیونکہ جب نفس کی خواہش پوری نہیں ہوتی تو نفس بہت تلملاتا ہے۔ ایسی صورت میں صبروضبط کے ساتھ کام لینا پڑتا ہے۔صبر نفس کےلئے ایسا ہے جیسے موم بتی کے لئے آگ کہ اس کے جلانےسے موم بتی پگھل جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جل جل کے بالکل ہی ختم ہوجاتیہ ے۔ صرف پگھلا ہوا موم باقی رہتا ہے مگر موم بتی کی صورت ختم ہوجاتی ہے ۔ اب اس  موم کو موم بتی نہیں کہا جاسکتا۔ مجاہدہء نفس میں آدمی اس قدر صبروضبط سے کام لیتا ہےکہ رفتہ رفتہ موم بتی کی عدم نفس بھی جل جل کر اپنے آپ کو ختم کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ نفسانی خواہشات پر روحانی تقاضے غالب آجاتے ہین اور روح اللہ کے امر کی ادائیگی نفس کے ساتھ آسانی سےکرلیتی ہے۔

نفس کی سب سے بڑی خرابی اور بیماری غرور ہے جو خواہش نفس کی پیروی سے پیدا ہوتا ہے۔ غرورسے حسد جیسی بیماری بھی لاحق ہوجاتی ہے۔ حسد آگ ہے جو آدمی کی نیکیوں کوجلا کر تباہ کردیتی ہے۔ شریعت کے جتنے بھی اصول ہیں وہ سارے کے سارے نفس کو کنٹرول میں رکھنے کےلئے ہیں۔ ہر مذہب میں روزے فرض کئے گئے ہیں۔ مادی نفس کی ظاہری صورت جسم ہے اور باطنی صورت عقل ہے۔ مادی نفس اپنی ایندھن اور انرجی غذا کے ذریعے حاصل کرتاہے۔ کھانا کھانے سے جسم بھی توانا ہوتا ہے اور مادی شعور بھی مطمئن ہوجاتاہے۔ اس طرح غذا کےذریعے مادی نفس کے دونوں رخ تقویت حاصل کرتےہیں۔ روزے میں جب غذا نہیںملتی تو جسم بھی کمزور پڑجاتا ہے اورا س کے ساتھ ساتھ شعوروعقل بھی ناتوں ہوجاتی ہے۔ مگراللہ پاک فرماتے ہیں کہ ہم نے ہر شئے کو متعین مقداروں میں بنایا ہے۔ پس جیسے ہی ظاہری حواس کےدائروں میں مادی روشنیوں کی کمی ہوجاتی ہے روح کی روشنیاں اس کی جگہ لےلیتی ہیں۔ مسلسل روزے رکھنے سے آہستہ آہستہ نفس کی روشنیوں کی جگہ روح کی روشنیاں نفس کے دائرے میں منتقل ہوتی جاتی ہیں۔ جیسے جسم کا گندا خون نکال کر ساتھ ہی ساتھ دوسرا خون ڈالا جاتا ہے۔ روح کی روشنیاں نور ہیں۔نور عقل کو سوچنے سمجھنے کی ایسی صلاحیتیں مہیا کرتا ہے کہ عقل مادی دنیا کی چمک اور کشش سے آزاد ہوکر فکر کرتی ہےاوشئے کی حکمتوں میں غورکرتی ہے۔ گذشتہ زمانےکے لوگ اپنےنفس کو بڑے کٹھن مجاہدوں سے گزارتے تھے۔ جیسے جاڑوں کی ٹھنڈی راتوں میں سرد پانی سے غسل کرنا ، لذیذ کھانوں سےپرہیز کرنا صرف روکھی سوکھی غذا کھانا ، ٹاٹ اور گدڑی کا لباس پہننا، اس کے علاوہ گھروں سے دور جنگل میں نکل کر عبادت وریاضت کرنا، لوگوں کے درمیان نفس کوذلت ورسوائی میں دیکھ کر صبر کرنا، ان کے علاوہ ایسی ہی بے شمار ریاضتیں تھیں جن کے ذریعے ہمارے بزرگوں نےروحانی راستوں میں کامیابی حاصل کی۔ ہر دور کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔ تقاضوں کی مناسبت سے اعمال و افعال بھی بدل جاتے ہیں۔ آج کے دور میں روحانی علوم سیکھنے کےلئے نفس کو جن مجاہدوں سے گزرنا پڑتا ہے وہ پہلے ادوار کی نسبت بالکل مختلف ہیں۔ آج کے دور میں جنگل بیابان ہی جانے کا تصور نہیں ہے۔ روکھی سوکھی غذا کھانے اورٹاٹ یا گدڑی پہننےکا تصور بھی ختم ہوچکا ہے۔آج کے دور میں سائنسی ترقی کی وجہ سے عقل مادی راستوں پر بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ آدمی انواع واقسام کی دنیاوی اشیاء میں ہر وقت گھرا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کےذۃن پر حاوی روشنیوں کا دباؤ پڑتا رہتا ہے۔ عقل ہر وقت اس بوجھ تلے دبی رہتی  ہے۔ آج کے دور میں معاشرے میں عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے گھر میں ہی آدمی کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لئے نفس کو مجاہدوں کی چکی میں پسنا پڑتا ہے۔ اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ روحانی علوم سیکھنے کےلئے اوراللہ تک پہنچنے کے لئے نفس کو تکلیف دینا ضروری ہے۔ سو یہ سنت پہلے بھی تھی اور پہلے وقتوں میں بھی اس پر عمل ہوتا رہتا ہےاو آج کے دور میں بھی اس پر عمل ہورہا ہے۔ بس نفس کے آزاد کے سامان بدل گئے ہیں۔ اللہ نے شریعت کے جو احکامات تمام لوگوںپر فرض کئے ہیں مثلاً روزہ، نماز، زکوٰۃ، صدقہ، خیرات، حقوق العباد، حلال حرام میں تمیز غرض کہ وہ احکامات جو ہر مذہب میں ضروری قرار دیئے گئے ہیں وہ نفس پر قابو پانے کےلئے اور اس کی پاکی کےلئے ضروری ہیں۔ ترک خواہشات اللہ کی رضا کی نیت سے ہونی چاہئے۔ تاکہ نفس کی ضرورت کےتحت مثلاً بیماری کےخوف سے کوئی کھانا چھوڑ دے تو یہ روزہ نہیں کہلائےگا۔ نا ہی اس کا فائدہ روزے کا ہوگا۔ کمزوری بدن وشعور توضرور ہوگا مگر چونکہ اللہ کا تصورنہیں ہے اس لئے ایسے بھوکے رہنے سے ناتواں عقل باغی ہوکر اور بھی غلط انداز میں سوچنا شروع کردےگی۔ ایسے بھوکےرہنے سے روحانی شعور نہیں بڑھتا۔ نہ ہی روحانی صلاحیتیں غالب آتی ہیں۔ یہی بات اللہ بھی اپنےکلام میں فرماتےہیں کہ اللہ تک تمہاری نیت پہنچتی ہے، عمل نہیں۔ نیت ارادے کی وہ قوت ہے جع عمل کےلئے توانائی فراہم کرتی ہے۔ اگر نیت اللہ کی رضا ہوگی توارادے کے اندر اللہ کےنورسے عمل کو حرکت کی توانائی منتقل ہوگی اوراگرنیت میں نفس کی خوشی ہے تو نفس کی روشنیوں سے کام کرنے کی قوت عمل میں منتقل ہوگی۔ جن روشنیوں سے حرکت ہوگی عمل کی حرکت بھی اس مناسبت سے ہوگی۔ اللہ کی رضا کی نیت بندے کے عمل کو اللہ کےقریب کردیتی ہے اور نفس کی نیت بندےکے عمل کو نفس سے قریب کردیتی ہے۔ بندے کی محبت ان اعمال کی کسوٹی پر پرکھی جاتی ہے جس طرف کا پلڑا بھاری ہوگا سی طرف راہ ملے گی۔

آج کے دور یں جب کہ دنیاوی مصروفیات حدسے بڑھ گئی ہیں٫ معاشرتی زندگی کو برقرار رکھنے کےلئے آدمی کوہر وقت روزگارسے ہرفرصت نہیں ملتی۔ عورتوں کو گھریلو کام دو منٹ چین نہیں لینے دیتے۔ بے شک یہ ساری الجھنیں ہیں اور ضرورہیں مگر جتنا حق ہمارے نفس کاہم پر ہے اتنا ہی حق ہمارے خالق کا بھی ہماری جانوں پر ہے۔اگر ہم نفس کےآرام کی خاطر بارہ گھنٹے کام کرسکتے ہیں تو روح کےآرام کی خاطر بھی تو اپنےرب کےبنائے ہوئے اصولوں پر عمل کرسکتے ہیں۔ چوبیس گھنٹوں میں سے ایسا روٹین بنانا چاہئے کہ بندہ نفس کو اللہ کی جانب اور اپنی روح کی جانب متوجہ کرنے کا بھی کچھ سامن کرے ۔ جیسے صلوٰۃ ۔قرآن کا باترجمہ پڑھنا اور اس کی آیات میں غورکرنا، مراقبہ کرنا ، خدمت خلق کےلئے کوئی کام کرنا علم روح کی غذا ہے۔ روح کی توانائی کےلئے روحانی اور بزرگوں کے واقعات پر مبنی لٹڑیچر پڑھنا ۔ ہر کام کےساتھ ساتھ اپنے دل میں اللہ کا تصور قائم رکھنا۔ یہ ساری ایسی مشقیں ہیں جنہیں اگر پابندی کےساتھ روزمرہ زندگی کے کاموں میں شامل کرلیا جائے تو نفس ان کے ذریعے ادب سیکھے گا اور روحانی صلاحیتیں بیدار ہونے لگیں گی۔ نفس کا ایک حربہ مکر کرنا بھی ہے۔ وہ انسان کے نیک ارادوں کےاردگرد مکر کا ایک جال بن دیتا ہے۔ ایک روحانی شخصیت نفس کے اس فریب سے دھوکہ نہیں کھاتیہ بلکہ ایسے موقع پر نفس کی مخالفت کرکے نیک ارادوں کو عملی جامہ پہناتی ہے۔ نفس کو کنٹرول میں رکھنے کا بہترین ذریعہ اللہ کا ذکر اوراللہ کا تصور ہے۔ جب اللہ کا تصور قلب وذۃن میں اس طرح جاگزیں ہوجاتا ہےکہ دل میں اس کی محبت جڑ پکڑ لیتی ہے تب نفس پر اللہ کی محبت کارنگ چڑھ جاتا ہے اور نفس کا رنگ اس کے پردے میں چھپ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں نفس مخالف نہیں بلکہ موافق ہوجاتا ہے اور بندہ اللہ کی رحمتوں کا مستحق ہوجاتا ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭


 


Majlis tafheemo danish

سعیدہ خاتون عظیمی