Topics
1. تمام خیالات کو فکر
کے ایک نقطے پر مرکوز کرنےسے ذہن کی مرکزیت حاصل ہوجاتی ہے۔
2. کسی ایک نقطے پر ذہن
کی گہرائیوں سے غوروفکر کرنے کے عمل سے ذہن کی مرکزیت قائم ہوتی ہے۔
3. ہر طرف سے دھیان ہٹا
کر ذہنی یکسوئی حاصل کرنا ذہن کی مرکزیت کا عمل ہے۔
4. اللہ تعالیٰ کا
عرفان حاصل کرنے کے مقصد سے مرشد کریم کی ذات کو ذہن کا مرکز بناکر اس کے حکم کی
تابعداری کرنےسے ذہن کی مرکزیت قائم ہوجاتی ہے۔
5. محبت کا دوسرا نام
ذہن کی مرکزیت ہے۔
6. نقطہء فکر کے اندر
ذہن کی تمام قوتوں کو جذب کردینا ذہن کی مرکزیت کہلاتا ہے۔
7. ہرحال میں اللہ کی
جانب نظر کرنا اور ہر کام میں اللہ کی جانب رجوع کرنا ذہن کی مرکزیت ہے۔
8. تمام خیالات کا
نقطہءفکر پر جمع ہوجانا ذہن کی مرکزیت ہے۔
9. نورعلی نورذات میں
تفکر کرنا ذہن کی مرکزیت ہے۔
10.
اپنے اور مخلوق کے درمیان اللہ کی ذات کو واسطہ جاننا ذہن کی مرکزیت کا قائم
ہونا ہے۔
11.
مرکزیت نقطہءعلم ہے۔ روحانی نقطہءنظر سے ذہن کی
مرکزیت ظاہری رخ مرشد کی ذات سے وابستہ ہے اور باطنی رخ نقطہءعلم کے ساتھ وابستہ
ہے۔ نقطہءعلم اللہ تعالیٰ کی صفت علیم کی تجلی کا نقطہ ہے۔ جس کے علوم آدم کو عطا
کئے گئے ہیں۔
12.
نقطہء ذات سے شعور کا رابطہ قائم ہونا ذہن کی
مرکزیت ہے۔
13.
روحانیت میں شیخ کی طرزفکر کو اپنانے سے ذہن کی
مرکزیت حاصل ہوجاتی ہے۔
14.
روحانی نقطہء نظر سے تصور شیخ ذہن کی مرکزیت ہے۔
15.
مرشد کو اللہ تعالیٰ کا نائب جان کر اس کے حکم کی
دل و جان سے تعمیل کرنے سے ذہن کی مرکزیت قائم ہوجاتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
سوالات
سوال نمبر۱ ذہنی
مرکزیت کیا ہے اور اس کو ہم کس طرح حاص کرسکتے ہیں؟
سوال نمبر۲ ذہنی
مرکزیت کے کیا فوائد ہیں؟
سوال نمبر۳ تصور
شیخ سے کس طرح شاگرد کو شیخ کی طرز فکر منتقل ہوتی ہے؟
سوال نمبر۴ فنا
فی الشیخ ،فنا فی الرسول، فنا فی اللہ اور باقی بااللہ میں کیا فرق ہے؟
٭٭٭٭٭٭٭
ذہن کی مرکزیت یقین کا بنیادی اصول ہے جو ذہن کی
تمام قوتوں کے ایک نقطہء فکر پر جمع ہوجانے سے حاصل ہوتی ہے۔ جب ذہن کی تمام قوتیں
ایک مرکزپرجمع ہوجاتی ہیں تو ایک قوت بن جاتی ہے اور اس قوت کا نام یقین ہے۔
یقین کی قوت نقطہء فکر کے اندر داخل ہو کر
اس نقطے سے فکر کے علوم شعور میں منتقل کردیتی ہے۔ اس طرح عقل اسے پہچان جاتی ہے ۔
علم حاصل کرنے کا جو سسٹم ظاہری علوم حاصل کرنے کے لئے ہے باطنی علوم حاصل کرنے کے
لئے بھی انہیں اصولوں کو اپنا نا ہوگا۔ جس طرح ذہن کی مرکزیت توجہ اور غوروفکر سے
دنیاوی علوم حاصل ہوجاتے ہیں اسی طرح ذہن کی مرکزیت توجہ اور غوروفکر روحانی علوم
حاصل کرنے کے لئے بھی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ تصور شیخ ذہن کی مرکزیت ہے جو
روحانی طالب علم یا مرید کو اپنے مرشد کے تصور سے حاصل ہوتی ہے۔شیخ کا تصور جب
مرید کے ذہن کا مرکز بن جاتا ہے تو شیخ کے علوم مرید کو منتقل ہونے لگتے ہیں۔
روحانی علوم کی منتقلی کے اسی اصول کے پیش نظر روحانی استاد کا ہونا ضروری ہے۔
ساری کائنات اللہ تعالیٰ کے علم کا مظاہرہ ہے۔
انسان کا ہرعمل اور ہرایجاد بھی اس کے اندر محفوظ علم کانتیجہ ہیں۔ مثال کے طورکسی
آدمی کے ذہن میں ٹیبل بنانے کا خیال آیا۔ یہ خیال ٹیبل کا علم ہے۔ خیال کے اندر
ٹیبل کی مکمل صورت ہے۔ یہی خیال جب عمل کے دائرے میں آیا تو ٹیبل نظر کے سامنے
آگیا۔ یعنی علم کا مظاہرہ ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شئے سوائے علم کچھ بھی
نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ کے علم میں کائنا ت ہمیشہ سے موجود تھی ۔ کُن کہہ کر علم کا
مظاہرہ ہوگیا۔اس کا مطلب یہ ہواکہ شئے سوائے علم کےکچھ نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ کے
علم میں کائنات ہمیشہ سے موجود تھی۔ کُن کہہ کر علم کا مظاہرہ ہوگیا۔ اس فکر پر
غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ذہن کی مرکزیت درحقیقت علم کا وہ نقطہ ہے جو
شیخ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے یا جو بھی توجہ کا مرکز ہو۔ یہاں سے مرکزیت کے دو
رُخ سامے آجاتے ہیں۔ ایک مرکزیت کا ظاہری رخ یا صورت دوسرا باطنی رخ جو ظاہری رخ
کے پس پردہ کام کررہا ہے۔ مرکزیت کا عمل دونوں رخوں میں آدی اندرکام کررہا ہے۔ ایک
رخ میں آدمی ظاہر کی شئے کو توجہ کا مرکز بنا لیتا ہے اوراس کی فکر شئے کی گہرائی
میں پہنچ کر اس کے باطن کے علوم حاصل کرلیتی ہے۔ دوسرے رخ میں آدمی کے ذہن پر کوئی
خیال وارد ہوتاہے۔ یہ خیال توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ آدمی کے مادی حواس
بھی ذہن کے خاکے کو مادی صورت میں لانے پر کوشاں ہوجاتے ہیں اور تصور کا خاکہ
مظاہراتی جامہ پہن کر نظر کے سامنے آجاتا ہے۔ فکر کے دونوں رخوں میں مرکزیت علم کا
نقطہ ہے۔ کبھی نگاہ اس نقطے کو ذہن کے اندر دیکھتی ہے اورکبھی اس نقطے کو باہر
دیکھتی ہے۔ظاہری رخ چونکہ محدودیت میں اپنا ڈسپلے کرتا ہے اس لئے مدت معینہ میں
اپنا مظاہرہ ختم کرکے فناہوجاتاہے۔ مگر باطنی رخ جو علم ہے وہ بقاہے کیونکہ علم
اللہ کی صفت ہے اور اللہ اپنی ذات و صفات میں ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ اس کے ساتھ
ہی اللہ لامحدود ہستی ہے۔لہذالامحدود ہستی کے علم کاپھیلاؤبھی لا محدودیت میں ہے۔ لا محدودیت میں ہر شئے علم
کے ایک نقطے کی حیثیت سے موجود ہے۔ یہ نقطہ اللہ کی صفت علیم کی تجلی ہے۔ ہر شئے
کی اصل ذات یہی تجلی کا نقطہ ہے۔ اسی نقطے
میں ساری کائنات بند ہے۔ آدم کو اسی نقطہء ذات
کے علوم عطا کئے گئے ہیں۔اسی نقطہ ء ذات کی روشنیاں آدم کے اندر ادراک اور
حواس بنتی ہیں۔ روحانی علوم سیکھنے کے لئے دراصل اسی نقطہ ء ذات کو ذہن کا مرکز (Focus) بناتے ہیں۔مرکزیت کے اعتبار سے اس نقطے کے چار مدارج ہیں۔ فنا فی
الشیخ ، فنا فی الرسول، فنا فی اللہ ، باقی باللہ۔
مرید جب شیخ کو اپنے ذہن کا مرکز بنالیتا ہے تو شیخ
کی طرزفکراس میں منتقل ہوجاتی ہے۔ اس کی سوچ بالکل شیخ کی سوچ کے مطابق ہوجاتی ہے۔
گویا دو ذہن شئے کو ایک ہی زاویئے سے دیکھتے ہیں۔ شیخ اور مرید کے ذہنوں میں ہم
آہنگی ہوجاتی ہے اور دونوں کو سوچنے اور سمجھنے کا انداز ایک ہوجاتا ہے۔ مرید کے
اندر شیخ کی طرز فکر منتقل ہونےکو فنا فی الشیخ کہتے ہیں۔ اب پھر مرید اپنے
نقطہءذات میں صعود کرکے فنا فی الشیخ کے درجے سے اوپر اٹھتا ہے۔اس کی توجہ کا مرکز
پیغمبر کی ذات بن جاتی ہے۔ وہ غیرارادی و ارادی طور پر پیغمبر کی طرزفکر کو اور ان
کے اعمال و افعال کو اپناتا جاتاہے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کے
سوچنے کا انداز پیغمبر کے ذہن کے مطابق بن جاتا ہے۔ اس طرح پیغمبر کے ذہن کے متعلق
دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ یہ فنا فی الرسول کا درجہ ہے۔ پھر جس طرح پیغمبر نے اللہ کو
جانا اور پہچانا اس کا ذہن بھی اس اندازِ پہچان کی جانب متوجہ ہونے لگتا ہے۔ اس
طرح آہستہ آہستہ اللہ کی صفات اورذات کی جانب اس کا ذہن جانے لگتا ہے۔اور اللہ پاک
کی صفات اس کے اندر منتقل ہونے لگتی ہیں یعنی اس کے اپنے نقطہءذات سے صفات کےانوار
اس کے ذہن میں جذب ہونے لگتے ہیں۔وہ اللہ کےذہن سے سوچتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس
کا ذہن امر الٰہی کی حرکت کا میڈیم بن جاتا ہے۔ وہ اللہ کے ارادے اور مشیت ایزدی
کی حکمتوں سے واقف ہوجاتا ہے ۔ اس کےذہن کی ہر حرکت مشیت ایزدی کے تابع ہوجاتی ہے۔
اس پر اللہ تعالیٰ کےاسرارکھلنے لگتے ہیں۔ اس درجے میں بندے کا ہر فعل اللہ کا فعل
بن جاتا ہے اور بندہ اپنے اعمال کی خرابیوں سے بے پرواہوجاتا ہے۔ اسی کو روحانیت
میں غیر مکلف ہونا یا سدا سہاگن کہا جاتا ہے۔ اس اسٹیج پر بندے کے ارادے پر اللہ
کا ارادہ غالب آجاتا ہےاس کا ادراک کل کا ادراک بن جاتا ہے۔ یہ فنا فی اللہ کا
درجہ ہے۔ جب سالک اس مقام پر ٹھہر جاتا ہے یعنی اس کا پنا ارادہ مکمل طور پر اللہ
تعالیٰ کا امر بن جاتا ہے۔ اس کی اپنی ذات کی نفی ہوجاتی ہے۔ یہ وہ اسٹیج ہےجس پر
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہےکہ آدم یا کائنات پر ایک وقت ایسا بھی آچکا ہے جب وہ
ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ اس صورت میں اس کی ذات کے تمام ڈائی مینشن قطعی طور پر فنا
ہوجاتےہیں۔اس کی ذات فنا ہوجاتی ہے۔ پس ایک ماوراء ہستی باقی رہتی ہےجو اپنی ذات
میں حی قیوم ہے۔ یہ باقی باللہ کا درجہ ہے۔یہ وہ حالت ہے جو کُن کہنے سے پہلے آدم
یا کائنات اللہ کے علم میں موجود تھی۔ بندہ اپنے نقطہء ذات میں صعودکرتا ہوا ازل
کے اس مقام پر جا کھڑا ہوتا ہےجہاں اللہ کے علم میں اس کا وجود تھا۔ اللہ کے علم
میں بندے کی موجودگی کا ادراک باقی باللہ ہے۔ یہ ادراک بحیثیت ذات واحد کے ہے۔ اس
مقام پر آکر تجلی کے ادراک کا سفر ختم ہوجاتا ہے۔ ادراک یا یہ سفر کُن کہنےسے اسی
مقام پر شروع ہوا تھا اور اسی مقام پر ختم ہوتا ہے۔ جیساکہ اللہ نے فرمایاہے کہ ہر
شئے اللہ کی جانب سے آتی ہے اور اللہ کی جانب لوٹ کر جانے والی ہے۔ روحانی علوم
اسی دائرے کے علوم ہیں۔ جو آدمی کے باطن کے علوم ہیں۔ نقطہء ذات کا دراک روح کے
اندر بہتا ہے۔ ایک روحانی طالب روح کی روشنی کےدریا میں سفر کرتا ہوا تجلی ذات کے
نقطے تک پہنچ جاتا ہے۔ نزولی حالت میں تجلی کا ادراک اپنی آخری حد کو پہنچ کر شعور
میں تبدیل ہوجاتاہے۔ شعور سے پھر واپس روحانی شعور اپنی اصل ذات یا تجلی کے نقطے
کی جانب لوٹتا ہے۔ روحانی انسپائریشن کے حساب سے شعور سے نقطہءذات تک بہتر
ہزارپردے یا سیڑھیاں ہیں۔ ہر پردہ ادراک کا ایک زون ہے۔ یہ ادراک روح کا ادراک ہے
جو کُن کے بعد اسے حاصل ہوا۔ ہر زون ایک عالم ہےجس میں روح کا ادراک ہے جو کُن کے
بعد اسے حاصل ہوا۔ہرزون ایک عالم ہے جس میں روح بستی ہے۔ اس اعتبار سے دنیاوی شعور
جب بہتر ہزارگنا تیز ہوجاتا ہے تو اسے تجلی کا مشاہدہ ہوجاتاہے۔روحانی راستہ روح
کے ادراک کے ان پردون سے گزرتا ہے۔ سالک جس زون سے گزرتا ہے اسی زون کے حواس
وکیفیات اس پر وارد ہوتی ہیں اور وہ ان میں معنی پہناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندے
کو احسن تقویم ی اعلیٰ علیین کے حواس پر پیدا کیا ہے۔ اعلیٰ علیین ، علیین کے حواس
تجلی کا ادراک ہے جو دنیاوی شعور سے بہتر گنا زیادہ ہے۔