Topics
۱۔ اللہ تعالی ٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو
استعمال کر کے خوش ہونا اللہ کا شکر ہے۔
۲۔ اللہ
تعالی ٰ کی نعمتیں جس میں صحت ، مال و دولت، عقل و شعور اور تمام صلاحیتیں ہیں
اپنے لیے اور دوسری مخلوق کے فائدے کے لیے استعمال کرنا شکر ہے۔
۳۔ علم حاصل کرنے کے بعد اس پر عمل کرنا اللہ
کا شکر ہے۔
۴۔ آداب تشکر یہ ہے کہ انسان ہر حال خوشی اور
غم میں راضی برضا رہے۔
۵۔ آداب
تشکر یہ ہے کہ اللہ تعالی ٰ کی نعمتوں کا اعتراف ہو اور اپنی کم مائیگی اور بے بسی
کا اظہار ہو۔
۶۔ روحانی صلاحیتوں کا استعمال کرنا شکر ہے۔
۷۔ اللہ کی رضا میں راضی ہونا اور ہر بات کو
خوشی سے قبول کرنا آداب تشکر ہے۔
۸۔ اللہ پاک سے محبت کرنے کا نام تشکر ہے۔
۹۔ ہر عمل و حرکت صرف اللہ کے لیے کرنا تشکر
ہے۔
۱۰۔ اللہ کا شکر یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق کو ایک
خاندان سمجھنا اور دنیا میں محبت پھیلانا۔
۱۱۔ اللہ تعالی ٰ
کی عطا کردہ صلاحیتوں کو پہچان کر ان سے کام لینا اور دوسروں کو ان صلاحیتوں کی
جانب متوجہ کرنا ، دوسرے لفظوں میں عل سیکھنا اور سکھانا شکر ہے۔
۱۲۔ آداب تشکر یہ
ہے کہ اللہ پاک نے جو نعمتیں دی ہیں ان پر شکر کرنا اور جو نہیں دیں ان پر ملال نہ
کرنا۔
۱۳۔ اللہ پاک کی
تمام نعمتوں کو اللہ کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا شکر ہے۔
۱۴۔ اللہ پاک
فرماتے ہیں۔” اے آل داؤد عمل کرو شکر کا۔ میرے بندوں میں سے بہت ہی کم شکر کرنے
والے ہیں۔“ساتھ ہی اللہ پاک فرماتے ہیں۔ ” اگر تم شکر کرو گے تو ہم اس میں مزید
اضافہ کریں گے۔“ یعنی جو آدمی اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں کو اپنے اور بنی نوع
انسانی کے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے وہ اس میں مزید ترقی کرتا ہے جیسا کہ
مشہور ہے۔ ” علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے۔“
۱۵۔ خداوند کریم
کا ہر نعمت کا شکریہ نہایت محبت اور انکساری سے کرنا جو اس نے دیں اور جو دینے
والا ہے۔
۱۶۔ اللہ ہی تمام
وسائل پیدا کرتا ہے شکر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کو کثرت سے یاد کرے اور یہ
تسلیم کرے کہ اچھا اور برا وقت اللہ ہی کی جانب سے ہے۔ آداب تشکر کا تقاضہ یہ ہے
کہ انسان ہر حال میں اللہ کا شاکر رہے۔
۱۷۔ To
thanks Allah by always remembering him, when something bad or good happening to
you.
٭٭٭٭٭
سوالات
سوال نمبر۱۔ نعمتوں
کا استعمال اللہ کاشکر کیسے ہے؟
سوال نمبر۲۔ شکر کے
کیا فوائد ہیں؟
سوال نمبر۳۔ ناشکری
کے کیا نقصانات ہیں؟
سوال نمبر۴۔ شکر کر
کے بندہ اللہ سے کس طرح قریب ہو سکتا ہے؟
سوال نمبر ۵۔ اسمائے
الہٰیہ کا نظام کائنات میں کس طرح جاری و ساری ہے؟
٭٭٭٭٭
سورہ النمل
میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ” ایک شخص جس کو کتاب کا علم تھا کہنے لگا میں آپ کی
آنکھ جھپکنے سے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کیے دیتا ہوں۔ جب سلیمان علیہ السلام نے
تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا یہ میرے پرور دگار کا فضل ہے تاکہ مجھے
آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفرانِ نعمت کرتا ہوں اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے
ہی فائدے کے لیے کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا پرور دگار بے پروا کرم
کرنے والا ہے۔“
حضرت
سلیمان علیہ السلام کی سلطنت انس و جن کے علاوہ چرند پرنداور ہوا سب پر تھی۔ ایسی
عظیم الشان اور یکتائے روز گار سلطنت کے بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ پیغمبر بھی
تھے۔ یعنی آپ کے کندھوں پر دین اور دنیا دونوں کی زمہ داریوں کا بوجھ بھرپور تھا۔
رعایا کے انتظام و خوشحالی کی فکر کے ساتھ ساتھ آپ کو اسلام پھیلانے کی فکر بھی
رہتی تھی۔قرآن نے اسی سورہ میں ملکہ سبا کو اسلام
کی دعوت دینے کے متعلق تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے سوچا کہ
ملکہ سبا کو اپنے دربار میں بلانے سے پہلے
اس کا تخت یہاں آنا چاہیئے تاکہ اس کے ذریعے اس کی دانائی کا امتحان لیا جائے کہ
وہ پہچانتی ہے یا نہیں۔ آپ نے دربار میں اس کا ذکر کیا کہ کون یہ کام کر سکتا ہے۔
ایک جن جس کا نام عفریت تھا کہنے لگا کہ
آپ کا دربار برخاست ہونے سے پہلے میں تخت کو آپ کے سامنے حاضر کر دوں گا۔ یہ بات
سن کر ایک شخص جس کو کتاب کا علم یعنی روحانی علوم حاصل تھے، کہنے لگا کہ میں آپ
کی پلک جھپکنے سے پہلے حاضر کئے دیتا ہوں۔ اسی وقت جب حضرت سلیمان نے نظر کی تو وہ
پاس تھا۔ اس پر حضرت سلیمان پہچان گئے کہ یہ سب اللہ پاک کی آزمائش ہے کہ میں شکر
کرتا ہوں یا کفرانِ نعمت۔ ان آیات میں جو اصول بیان کیا گیا ہے وہ آداب تشکر سے
متعلق ہے۔ حضرت سلیمان کا اپنی رعایا اور اپنے ماتحتوں سے کام لینا ہی اللہ کا شکر
کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو استعمال کرنا نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے
بے شمار صلاحیتیں عطا کی ہیں جیسے اس قصے میں غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ
حضرت سلیمان علیہ السلام کے اندر حکومت کرنے کی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود تھیں ان
کی رعایا میں ایسی مخلوق بھی شامل تھی جن پر آج تک کوئی بھی حکمرانی نہ کر سکا۔ اس کا مطلب یہ کہ ان کا
تصرف ہوا۔ جنات جانوروں وغیرہ پر تھا۔ اس عظیم الشان حکومت کے لیے اللہ کا شکر
کرنابھی ضروری تھا۔ شکر اسی وقت ہو سکتا تھا جب آپ اپنے ماتحت چیزوں اور مخلوق سے
کام لیتے اور فائدہ اٹھاتے۔ سو یہی آپ نے کیا کہ
جہاں آپ کو ضرورت پڑی اپ نے اپنے ماتحتوں سے کام لیا اور نبوت کے کاموں میں
اور سلطنت کے کاموں میں ان کی مدد لی۔
سورہ
ابراہیم میں یہی بات اللہ پاک دوبارہ فرماتے ہیں کہ ” اور جب تمہارے پرور دگار نے
تم کو آگاہ کیا کہ شکر کرو گے تو تمہیں زیادہ دوں گا اور نا شکری کرو گے تو میرا
عذاب بھی سخت ہے۔“
اس آیت میں
بھی یہی بات کہی جا رہی ہے کہ تم میری نعمتوں کو استعمال کرو گے۔ انہیں خرچ کرو گے
تو میں اور دوں گا اور اگر جمع کر کے رکھو گے تو وہ بھی چھین لوں گا۔ اس میں
دنیاوی نعمتیں بھی شامل ہیں اور روحانی صلاحیتیں اور علم بھی۔ آدمی جب صلاحیتوں سے
کام لیتا ہے تو یہ صلاحیتیں اور زیادہ ابھرتی ہیں اسی طرح علم جب پھیلتا ہے تو اور
زیادہ ذہن و دل کھلتا ہے۔ مگر اگر علم سیکھ کر پریکٹس میں نہیں لاتا تو کچھ عرصے
میں بھول جاتا ہے۔ اس طرح وہ کفرانِ نعمت کرتا ہے۔ اللہ کے نزدیک یہی ناشکری ہے۔
اس پر عذاب کی وعید ہے۔
اسی طرح
سفر کے دوران قصر نماز کا حکم ہے۔ یہ اللہ کی جانب سے مسافرت میں آسانی رکھی گئی
ہے جو اس آسانی کو قبول
نہیں کرتا او ر پوری نماز پڑھتا ہے ۔ یہ بھی اللہ کی ناشکری
ہے اور کفران نعمت ہے کہ ایک نعمت آپ کو اللہ نے دی اور آپ نے اسے
قبول نہ کی۔ ہماری دنیاوی زندگی عملی زندگی ہے۔ ہم جو کچھ
کرتے ہیں تمام اعمال کا ریکارڈ ہو رہا ہے جو نعمت اللہ نے ہمیں دی جب ہم
اس کو استعمال کرتے ہیں تو اللہ کے حکم پر عمل کرنے کا
ریکارڈ بن جاتا ہے ۔ نعمت کو استعمال کر کے جو فائدہ اور خوشی ہوتی ہے تو اللہ بھی
اپنے بندے کو خوش دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور اسی خوشی میں وہ
اور نوازتا ہے۔ کیونکہ مخلوق کے اس نعمت سے فائدہ اٹھانے پر اس کی
صفت کریمانہ جوش میں آتی ہے جیسے ماں باپ بچے کو ایک کھلونا
خرید کر دیتے ہیں جب بچہ اس کھلونے سے خوش ہو ہو کر کھیلتا ہے تو
ماں باپ اسے دوسرا
لا کر دیتے ہیں تاکہ اس کی خوشی اور دلچسپی بچے کے ساتھ وابستہ ہے۔ جس طرح بچہ اور
ماں باپ کے درمیان ایک
ایسا رشتہ ہے کہ اگر بچے کو تکلیف پہنتی ہے تو ماں باپ کو
بھی درد ہوتا ہے اور اس رشتے کو توڑا نہیں جا سکتا۔ یہ وہ اٹوٹ بندھن ہے جو
فطرت کا تقاضہ بن
کر ہر مخلوق کے اندر جاری و ساری ہے۔ اس رشتے کے ٹوٹنے سے نظام میں گڑ بڑ واقع
ہوتی ہے۔ مگراس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ کا پورا نظام تباہ ہو جاتا ہے بلکہ ایک
فرد اور اس متعلقہ افراد پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک بجلی گھر
سے سارے شہر کو بجلی سپلائی ہوتی ہے اور ہر گھر کا ایک علیحدہ میٹر اور علیحدہ
نظام ہے۔ الگ فیوز سسٹم ہے تاکہ اگر خرابی ہو تو ایک گھر متاثر ہو نہ کہ پورا شہر۔
اللہ پاک کی ہستی بحیثیت خالق اور رب ہونے کے مرکزیت کا درجہ رکھتی ہے۔ اس مرکز سے
کائنات کا ذرہ ذرہ منسلک ہونے مجبور ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اگر بجلی گھر نہ ہو گا
تو کسی ایک گھر میں بھی بجلی نہیں جلے گی۔ اس طرح کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کا محتاج
ہے۔ مگر مرکز کی جانب سے ہمیشہ سپلائی کا ایک مستقل نظام ہوتا ہے تاکہ سرکل چلتا
رہے۔ اللہ کی جانب سے بھی اس کے اسمائے الہٰیہ کے نظام مستقل طور پر کائنات کو
انرجی پہنچانے کے لیے موجود ہیں۔ مگر خرابی اس وقت آتی ہے جب بندے کی جانب سے کوئی
رکاوٹ آ جاتی ہے۔ اس کو ہم اس مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے موٹر وے پر سو گاڑیاں
اسی میل کی رفتار سے چل رہی ہیں کسی وجہ سے ایک گاڑی میں کوئی نقص آجاتا ہے وہ اسی
میل کی رفتار سے چلتے چلتے ایک دم دو میل کی رفتار پر آجاتی ہے۔ اب نتیجہ یہ ہوتا
کہ اس کے پیچھے آنے والی تمام گاڑیاں اس گاڑی سے ٹکرا جاتی ہیں کیونکہ رفتار کی
وجہ سے سرکل قائم تھا اور سب اپنی اپنی جگہ پر چل رہے تھے، رفتار جیسے ہی رکی ،
تصادم ہوگیا اور سب کا نظام بگڑ گیا۔اسی طرح بندے کی جانب انرجی مرکز کی طرف سے
آرہی ہے۔ مرکز سے بندے کا رابطہ قائم رہا تو مرکز کے ارادے اور انسان کے ارادے کے
درمیان ایک رابطہ قائم رہتا ہے اور دینے اور لینے کا سلسلہ ایک چکر کے طور پر چلتا
رہتا ہے مگر جب بندہ اللہ کی نعمت کا کفران کرتا ہے جیسے دنیاوی سامان ذخیرہ کرتا
ہے یا اپنی صلاحیتوں سے خاطر خواہ کام نہیں لیتا تو دینے والے کی نظر ان معاملات
کو ذخیرہ اندوزی میں شمار کرتی ہے اور رکاوٹ جانتی ہے کیونکہ اس سےچکر ٹوٹ جاتا ہے۔ خواہ وقتی طور پر ہو یا
مستقل طور پر۔ اس کا اثر بندے پر تو پڑتا ہی ہے۔ دینے والا مرکز تو ایک مستقل نظام
کے تحت چل رہا ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی ہے نہ تعطل واقع ہوتا ہے۔ تبدیلی اور تعطل
مخلوق کے اندر ہوتا ہے جس کی وجہ سے مخلوق ہی نقصان اٹھاتی ہے۔ لہذا آداب تشکر یہی
ہے کہ جو نعمتیں اللہ نے عطا کی ہیں انہیں اللہ کے قانون اور رضا کے مطابق استعمال
کیا جائے۔
روحانی شعور
وہ طرزِ فکر ہے جو اللہ کے تفکر سے سوچتا ہے اور اللہ کے ارادے سے عمل کرتا ہے۔
روحانی شعور کی ہر لمحے یہی تلاش رہتی ہے کہ فلاں فکر سے اللہ کا کیا مقصد ہے۔
فلاں بات میں اللہ پاک کیا کہنا چاہتے ہیں۔ روحانی شعور جب ہر وقت اللہ پاک کے
تفکر میں غور کرتا رہتا ہے تو اس پر اشیا ء کی حکمتیں کھل جاتی ہیں۔ اسی طرح جب ہم
روحانی شعور کے ذریعے اللہ پاک کی نعمتوں کا تصور کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے تفکر
میں نعمت کے کیا معنی ہیں تو ہمیں اپنی اس
حالت اور اس وجود کی جانب دھیان دینا پڑتا ہے جو وجود اللہ سے قریب تر ہے اور یہ
وجود روح ہے۔ وہ روح اعظم جس کا تعلق براہ راست اللہ پاک سے ہے۔ جسے اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں نے کُن
کہہ کر پیدا کیا اور آدم کو اسمائے الہٰیہ کے علوم عطا کیے۔ پیدا کرنا خالقیت کا
وصف ہے اور عطا کرنا ربوبیت کا وصف ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں نے کن کہہ کر
ایک دم میں ہی ساری کائنات کی ارواح کو پیدا کر دیا اور اب کوئی بھی نئی روح پیدا
نہیں ہوگی بلکہ تمام روحیں ازل میں ایک دم میں ہی وجود میں ا چکی ہیں ۔ اس کا مطلب
ذات ِ باری تعالی ٰ کے ساتھ روحوں کا رشتہ قدیم ہے اور جس صفت کے ساتھ روح کو حیات
کی انرجی تقسیم ہو رہی ہے تاکہ وہ اپنے وجود کو برقرار رکھ سکے، وہ صفت ربوبیت ہے۔
یعنی صفات باری تعالیٰ کے ساتھ روح کا رشتہ حادث ہے۔ پس ذات خالق اپنی ذات میں
یکتا ہے اور اپنی صفات میں علیم ہے۔ روح کو اللہ تعالیٰ کی صفت علیم کے ساتھ نسبت
ہے۔ اسی نسبت کا عکس اسمائے الہٰیہ کے وہ علوم ہیں جو آدم کو عطا کیے گئے ہیں جس
لمحے یہ نسبت ٹوٹ گئی اسی لمحے روح آدم کا وجود ختم ہو جائے گا۔ پس آدم کے لیے
اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت اسمائے الہٰیہ کے علوم ہیں۔ جو بندہ ان علوم کے
سیکھنے کی جانب پیش رفت کرتا ہے اللہ پاک اس کو اپنی راہیں دکھا دیتے ہیں۔ خواہ وہ
مرد ہو یا عورت۔ اللہ کے نزدیک روح نفس واحدہ ہے۔ وہ صرف مرد یا صرف عورت نہیں
بلکہ صرف روح ہے اور روح کے اندر مرد اور عورت دونوں کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ انسان
کے لیے بحیثیت آدم اللہ پاک کے شکر کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اسمائے الہٰیہ کے علوم
سیکھ کر اپنی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرے تاکہ اپنے ازلی وجود کو پہچان سکے اور
ازلی شعور کے ساتھ اپنے رب کی نعمتوں کو پہچان کر ان سے لطف حاصل کرے۔ اگر باپ
اپنے بچے کو کوئی چیز لے کر دیتا ہے اور بچہ اس سےخوش نہیں ہوتا تو باپ کو بچے سے
دو گنا افسوس ہوتا ہے۔ ایک تو اپنے لاحاصل کام پر دوسرے بچے کی ناخوشی کے احساس
محسوس کر کے۔ اللہ ہمارا رب ہے اس نے ہمیں جو نعمتیں عطا کی ہیں ان سے بہتر تو ہو
ہی نہیں سکتیں۔ مگر ان سےہم جب تک خوش ہو کر لطف اور فائدہ نہیں اٹھائیں گے ہمارے
رب کا دل کیسے خوش ہوگا۔ اسے اپنی عطا کا تو علم ہے مگر جب تک ہمیں بھی اس کی
عنایتوں کا علم نہیں ہوگا اس وقت تک اس کا بھی مقصد پورا نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ
ہماری پیدائش سے اس کا مقصد یہی ہے کہ اس کی عنایتوں اور نعمتوں کے ساتھ اس کی
ربوبیت کو پہچانیں۔ ربوبیت کی پہچان تو جب ہوگی جب ہم اس سے واقف ہوں گے۔ جو لوگ ربوبیت کے تفکر کے اس بھید سے واقف ہوگئے انہوں
نے اللہ کا شکر اور حق ربوبیت ادا کرنے کا
راستہ ڈھونڈ لیا اور اللہ کی ان ازلی نعمتوں کا سراغ لگا لیا جس کے سامنے انہیں دنیا کی تمام دولتیں ہیچ نظر آئیں۔ حضرت
ابراہیم ؒ بلخ کے بادشاہ تھے۔ جب اللہ تعالیٰ کی ہدایت انہیں پہنچی تو ان پر اللہ
کے تفکر کی نعمتوں اور سلطنتوں کے اسرار کھل گئے ۔ اسی لمحے انہوں نے دنیا کی
سلطنت چھوڑ دی اور اس کے عوض اللہ نے انہیں ایسی بادشاہی عطا کی جس کی نظیر مشکل
سے ملتی ہے۔
آپ کا ایک مشہور قصہ ہے کہ ایک بار آپ دریائے دجلہ کے کنارے
بیٹھے اپنی گدڑی سی رہے تھے کہ ایک شخص نے آکر
آپ سے پوچھا کہ
بلخ کی سلطنت چھوڑ کر آپ کو کیا ملا۔ آپ نے سوئی دریا میں ڈال دی اور اشارہ کیا
ہزاروں مچھلیاں دجلہ سے نکلیں اور سب کے منہ میں سونے کی ایک ایک سوئی تھی۔ آپ نے
کہا مجھے یہ سوئیاں نہیں چاہیے میں اپنی سوئی چاہتا ہوں ایک چھوٹی مچھلی سامنے آئی
اس کے منہ میں آپ کی سوئی تھی وہ آپ نے لے لی اور اس پوچھنے والے سے کہا کہ بلخ کی
سلطنت ترک کر کے جوادنی بات مجھے حاصل ہوئی وہ یہ ہے۔
اللہ پاک نےساری کائنات انسان کے لیے
بنائی ہے
اور انسان اس سے فائدہ اور لطف اٹھا سکتا ہے۔ بشرطیکہ اپنے اندر کائناتی صلاحیتیں
بیدار کر لے تاکہ کائنات کی ہر شئے کو اپنے ارادے کے ساتھ استعمال کر سکے۔ اپنے
اندر روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرنا ہی اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا ہے۔ اللہ پاک ہمیں
اپنی روح کا عرفان عطا فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭٭٭