Topics

خیال اللہ کا پروگرام۔ماہنامہ قلندر شعور۔جولائی 2020


آج کی بات

         

خیال اللہ تعالیٰ کا ایک پروگرام ہے جو پوری حیات پر محیط ہے۔ حیات کی ابتدا خیال سے ہے، اسی کے تحت تخلیق دوسرے عالم میں منتقل ہوتی ہے اور حیات و ممات کےدرمیان " وقفہ " خیال ہے۔ خیال لاشعوری تحریک ہے جس کے داخل ہوتے ہی ذہن کی مشینری چلتی ہے اور آدمی دنیا کو پوری جزئیات اور لوازمات کے ساتھ اندر میں دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔لا شعور کی تحریک رک جائے تو خود سمیت ساری دنیا عدم موجود ہو جاتی ہے۔ خیال کے حیات پرمحیط ہونے کے باوجود توجہ نہیں دی جاتی کہ یہ کیا ہے، کس طرح ذہن میں آتا ہے، آتا کہاں سے ہے اور نظر کیوں نہیں آتا جب کہ نقوش سامنے آجاتے ہیں۔

رات دن کا مشاہدہ ہے کہ خیال آنے پر ذہن میں تصویر یں بنتی ہیں اور کائنات میں موجود اشیاء کا انکشاف ہوتا ہے۔ یقیناً خیال جس جہان سے آتا ہے، وہاں کی تصویریں ذہن میں آتی ہیں۔ یہ تصویریں کس جہان کی ہیں جن کو دیکھ کر ہم اِس جہان میں زندگی گزارتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس دینا میں رہ رہے ہیں۔؟

خیال لا شعوری علم ہے جو ذہن پر نشر ہو کر غیب کی دنیا سے متعارف کراتا ہے۔ اس  علم کو ماحول کی چھاپ کےبغیر قبول کرنے سے شعوری تحریکات مغلوب ہوتی ہیں اور ذہن کی فریکوئنسی اس ٹائم اور اسپیس کے قائم مقام ہو جاتی ہے جہاں سے خیال آرہا ہے۔ ذہن میں خیال اس وقت روشن ہوتا ہے جب نقش و نگار واضح ہوتے ہیں۔ نوعِ آدم میں ایک طبقہ اولی الالباب ہے، وہ خیال کو نقوش واضح ہونے سے پہلے نور کی سطح پر دیکھ لیتا ہے۔

خیال کیا ہے۔ ؟ سماوات اور ارض کی تخلیق نور سے ہے۔ یہ امر ظاہر کرتا ہے کہ کائنات میں خیال کی ابتدائی حالت نور ہے۔ نور میں ساری تخلیقات موجود ہیں مگر تخلیقات کےنقوش پر نور غالب ہے۔ نور غالب ہونے سے حواس ایک نقطے میں مرتکز رہتے ہیں اور ٹائم اور اسپیس سمٹ جاتے ہیں جب کہ نقوش غالب ہونے سے حواس تقسیم ہو کر تخلیق کو الگ الگ دکھاتے ہیں۔ اس طرح نور نظر سے اوجھل ہوتا ہے اور طرز فکر پر تغیر غالب ہو جاتا ہے۔

اللہ نور السمٰوٰات والارض۔ (النور:۳۵)

نور ایک ہے، اس میں مخفی مقداریں کثرت میں ہیں۔ کثرت سے اسپیس کا غلبہ ہوتا ہے۔

مثال : سفید کاغذ پر outline بنا کر فاختہ کی جگہ خالی                

چھوڑدیں اور کاغذ دکھا کر گھر والوں سے پوچھیں کہ انہیں کیا

 نظر آتا ہے۔ وہ کہیں گے کہ ہم فاختہ دیکھ رہے ہیں۔

سوال : کیا outline  کے بغیر خالی جگہ پر فاختہ نظر آسکتی ہے۔؟

نگاہ نے کاغذ پر خلا دیکھا۔جس وجہ سےخلا نظر آرہا ہے اسےنہیں دیکھا ۔ واضح ہوا کہ ہم خلاکے علاوہ کچھ نہیں دیکھتے ۔چاند وسورج، پھل ، پہاڑ ، فاختہ اور آدمی سب خلا ہے۔خلا کا مختلف شکلوں میں نظر آنا اس بنیاد کے سبب ہے جس پر outline  بنی ہوئی ہے۔

کائنات اللہ تعالیٰ کی صفات پر قائم ہے اور خیال کائنات کے صفاتی احساس کا مجموعہ ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ کائنات میں جتنا علم ہے،سب خیال میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں علیم ہوں، میں خبیر ہوں، میں سمیع ہوں ، میں بصیر ہوں، میں قدیر ہوں ، میں حکیم ہوں، میں خالق ہوں، میں مالک ہوں، میں رازق ہوں، میں آسمان و زمین کا نور ہوں، میں محیط ہوں، اصل یہ ہے کہ کائنات کا محل وقوع اللہ تعالیٰ کا علم ہے جو خیال کے ذریعے مخلوقات کے ذہنوں پر وارد ہوتا ہے۔ جتنے حواس ہیں سب کا مظاہرہ خیال کے تحت ہے، خیال حذف ہونے سے حواس حذف ہو جاتے ہیں اور ہمارے احساس میں اپنی ذات سمیت کوئی شے باقی نہیں رہتی۔بتانا یہ مقصود ہے کہ خیال کی اصل فریکوئنسی " نور" سے واقف ہو کر بندہ غیب کی دنیا پر داخل ہو سکتا ہے۔

آپ نے حوض میں فوارہ دیکھا ہے جس سے پانی گرتاہے۔ دائرے بنتے ہیں اور کناروں تک پھیل جاتے ہیں۔ حوض میں جتنے دائرے ہیں سب اس ارتعاش سے منسلک ہیں جو فوارے سے شروع ہوا—جب تک آخری لہر کنارے کو نہیں چھو لیتی ، حوض میں ظاہر ہونے والا ارتعاش جاری رہتا ہے۔اگر فوارے کو تحریک نہ ملے تو حوض میں پانی ساکن ہے۔

کائنات میں یہی میکانزم خیال کا ہے۔خیال چشمہء حیات (لائف اسٹریم) ہے، ذہن جس سے ہر لمحہ منسلک رہتا ہے۔ چشمہء حیات سے دھارے تسلسل اور ترتیب سے بہتے ہیں، آدمی اس ترتیب کو قائم نہیں رکھ سکتا کیوں کہ اس کے ذہن کی اسپیس اور ٹائم ، خیال کی اسپیس اور ٹائم سے الگ ہے۔خیال کی اسپیس نور کی اسپیس ہے جس سے آدمی واقف نہیں اس لئے بیداری میں بیش تر خیالات نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ البتہ نیند کی دنیا مختلف ہے۔

نیند اوربیداری دونوں میں خیال ایک ہونے کے باوجود مظاہرے کا طریق کار مختلف ہے۔ آدمی پرتوں کا مجموعہ ہے اور ہر پرت صلاحیت ہے۔ پیاز(onion)کی مثال سے اس کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ نیند کی دنیا میں وہ پرت متحرک ہوتا ہے جس کے لئے ٹائم اور اسپیس مغلوب ہے۔ غور فرمائیں تو نیند میں آدمی ارادے میں معنی نہیں پہناتا بلکہ لا شعوری تحریک کے مطابق عمل کرتا ہے۔بعض اوقات من پسند کام پورا ہونے سے پہلے آنکھ کھل جاتی ہے اور افسوس ہوتا ہے کہ کاش میں اس کے بعد کا منظر دیکھ لیتا۔ یہ خواہش احساس دلاتی ہے کہ نیند اور بیداری دونوں میں حیات لاشعوری تحریک (خیال) کے تابع ہے۔

سائنس روشنی کی رفتار ایک لاکھ 86ہزار دو سو 82میل فی سیکنڈ بتاتی ہے۔ یہ رفتار مفروضے پر قائم ہے کیوں کہ محقق نے روشنی نہیں دیکھی ، وہ روشنی کو رنگ میں دیکھتا ہے اور رنگ کو روشنی سمجھتا ہے ۔ روشنی کی اسپیس کا اندازہ نہیں ہو سکا ، نور سے واقفیت کیسے ہوگی؟

          نور کی اسپیس کاعلم قرآن کریم میں ہے۔ تخلیق کائنات سے متعلق ارشاد ہے،

" اللہ کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا رادہ کرتاہے تو کہتا ہے کہ ہو وہ ہو جاتی ہے۔(یٰس: ۸۲)

اللہ تعالیٰ نے کائنات کو اپنا نور فرمایا ہے لہٰذا نور کی اسپیس – کن فیکون ہے۔ جنت کی زندگی میں اسی اسپیس کی طرف اشارہ ہے جب اللہ تعالیٰ نے بابا آدمؑ اور اماں حوا سے فرمایا،

" اور ہم نے آدمؑ سے کہا تم اور تمہاری زوج جنت میں رہو اور یہاں بٖفراغت جو چاہوکھاؤ پیو۔ مگر اس درخت کا رخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے۔"(البقرہ ۳۵)

آیت میں اشارہ ہے کہ جنت کی لامحدود اسپیس پر نوعِ آدم کو حکم رانی دی گئی ہے جہاں وہ خیال( ارادے) کی رفتار سے سفر کرتا ہے۔ جنت کے حواس سے استفادے کا اصول خوش رہنا ہے کیوں کہ خوش رہنے سے ذہن یکسو رہتا ہے اور صلاحیتیں ایک نقطے پر مرتکز ہو کر ارادے کی قوت بڑھا دیتی ہے ۔جب کہ ناخوشی ذہن تقسیم کرتی ہے اور تقسیم سے حواس کی رفتار بکھر جاتی ہے۔ زمیں ہو یا جنت کی دنیا – زندگی خیال پر قائم ہے۔ اگر خیال میں الوژن ہے تو جنت اسے قبول نہیں کرتی کیوں کہ الوژن ناخوشی ہے۔ خوش رہنے کے اصول پر عمل کر کے اور ناخوشی سے دور رہ کر بندہ جنت کے حواس سے واقف ہو سکتا ہے۔

قارئین خواتین و حضرات !جولائی 2020 کے " آج کی بات" میں کوشش کی گئی ہے کہ لکھنے کا زاویہ تبدیل کیا جائے۔ " آج کی بات" پڑھنے سے الحمدللہ قارئین کی ذہنی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ بتائیے آپ نے تحریر میں کیا تبدیلی محسوس کی-؟

اللہ حافظ

خواجہ شمس الدین عظیمی

Topics


QSM Aaj ki Baat

خواجہ شمس الدين عظیمی

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔