Topics

روزہ میرے لئے ہے ۔ ماہنامہ قلندر شعور ۔ اپریل 2022


 

آج کی با ت

                             (ارشا دربا نی ہے : روزہ میرے لئے ہے اور روزہ کی جزا میں خود ہوں)

          کا ئنا ت قر ب و بُعد* میں تقسیم نظر آتی ہے جب کہ یہاں قرب ہے نہ بُعد۔ ہر شے نقطے میں بند ہے اور وہ نقطہ خیا ل ہے ۔خیا ل کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ذہن میں قرب و بُعد کا زوایہ بنا اور مفروضہ قا ئم ہوا کہ یہ شے قریب اور یہ دور ہے ۔ کو ئی خیا ل میں موجود تصویروں کو قریب سمجھتا ہے اور کو ئی دور۔ لا کھوں میں سے کو ئی ایک شخص دھیا ن دیتا ہے کہ تصویریں کہا ں بنتی ہیں ۔

          کا ئنا ت میں جو کچھ ہے ، سب اندر میں ہے ۔ خیال اندر میں سے آتا ہے اور اندر کی اسکرین پر مظہر بنتا ہے ۔ جب خیا ل وارد ہو تا ہے تو سننے، دیکھنے ، محسو س کر نے ، سمجھنے ، بولنے اور خا موشی کی حس بیدا ر ہو تی ہے ۔ خیا ل نہ آئے تو آدمی اس عالم میں داخل ہو جا تا ہے جہاں ہونے نہ ہو نے کا احسا س نہیں ۔ سوچنا یہ ہے کہ جب خیال اندر میں آتا ہے اور تصویر بھی اندربنتی ہے پھر قریب اور دور کیا ہے ؟

          **----------------------------**

          الہا می کتابوں اور آخری آسما نی کتا ب قر آن کریم میں حوا س کی دوطر زیں بیا ن کی گئی ہیں ۔ ایک نہا ر اور دوسری لیل ہے ۔ لیل و نہا ر کی وجہ سے خیال میں اشیا کی اسپیس پھیلتی ہے یا اصل حالت پر قا ئم رہتی ہے ۔ اسپیس پھیلنے سے تصویروں کا آپس میں زاویہ اس طر ح بنتا ہے کہ فاصلہ غالب ہو جا تا ہے اور یہ ایک دوسرے سے دور نظر آتی ہیں۔ جب خیال میں تصویریں اصل اسپیس میں قا ئم رہتی ہیں تو قریب دور کا فر ق نہیں رہتا۔

          خا لق لیل و نہا ر کا ارشا د ہے ،

          "ان کے لئے ایک نشا نی رات (لیل) ہے ، ہم اس کے اوپر سے دن(نہار) ہٹا دیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جا تا ہے ۔ " (یٰس: ۳۷)

          نہا ر کے معا نی کھو ل دینے والی کے ہیں ۔ یہ وہ حوا س ہیں جن میں سننے ، دیکھنے ، سمجھنے اور محسو س کر نے کی اسپیس پھیل جا تی ہے ۔ اس کے برعکس لیل کے حوا س میں اسپیس لا شعور کے قا ئم مقا م ہو تی ہے ۔ جب لیل کی اسپیس سے لا علم لوگوں پر سے نہا ر کی اسپیس اترتی ہے تو ان پر اندھیرا چھا جا تا ہے ۔ وہ اندھیرے کو رات کا نا م دیتے ہیں جب کہ اندھیرا بھی روشنی ہے ۔

تصور:۔ ایسے کمرے میں بیٹھئے جہاں روشنی نہ ہو، خا مو شی ہو۔ پیٹ خا لی، سانس ہلکا اور دھیما ہو ۔ پا نچ منٹ کا الارم لگا کر سرخ گلا ب کی کلی کا بند آنکھوں سے تصور کیجیئے۔ پلکوں کی ضر ب ڈیلے پر نہ پڑے۔ تصور قا ئم ہو جا ئے تو دیکھئے کہ کلی کھل کر پھول بن رہی ہے ۔ غور یہ کرنا ہے کہ جب کلی کھلتی ہے تو اسپیس کیسے پھیلتی ہے ۔ اسپیس پھیلنے سے اسپیس کو طے کرنے کا ٹائم خو بخود پھیل جا تا ہے ۔ جو پھول سامنے ہے ، وہ کلی سے مختلف نہیں ۔ اس کی اسپیس بند کلی میں سمٹی ہو ئی تھی ۔ یہی مثال لیل و نہا ر کے ٹا ئم اسپیس کی ہے۔

**----------------------------**

          رات کی دنیا دن کی دنیا سے وسیع ہے ۔ رات کی اسپیس میں بیدا رنظر  کے لئے فاصلے مغلوب ہو جا تے ہیں اور وہ ایک دنیا میں بیٹھ کر وقت کے نا قابل شما ر یونٹ میں ، نہ جا نے کتنی دنیا ئیں دیکھ لیتا ہے ، وہا ں چلتا پھرتا ، کھا تا پیتا ، لوگوں سے ملا قات اور سیر کرتا ہے ۔ یہ کیسے ہو تا ہے اور اس سفر میں فاصلے رکا وٹ کیوں نہیں بنتے ۔ ۔۔؟ جواب یہ ہے کہ فا صلے کا ئنا ت میں نہیں ، ذہن میں ہیں ۔ بیدارنظر ذہن میں فا صلوں کو ختم کر کے کا ئنا ت میں موجود دنیا وں کو ایک مقا م پر دیکھتی ہے ۔

          فا صلہ الوژن ہے جسے توڑنے کے لئے لیل کے حواس درکا ر ہیں جیسے نیند کی دنیا ۔ نیند میں آدمی کے اندر اسی شکل و صورت کا مگر مختلف لبا س میں ایک اور آدمی بیدا ر ہوتا ہے  جس کی حسیا ت عا م رفتا ر سے ہزاروں گنا تیز ہیں۔ وہ نیند کی دنیا میں بیدا ری سے بہتر اور پھر پو ر زندگی گزارتا ہے مگر جب جاگتا ہے تو اپنی صلا حیتوں کو نظر انداز کر کے وہ رفتا ر خو د پر حا وی کر لیتا ہے جو ما دی جسم کی ہے ۔ بیدار ہو کر وہ کہتا ہے کہ،

جو کچھ کہ دیکھا خوا بتھا جو سنا افسانہ تھا

          اس طر ح وہ لیل کے حواس کی صلا حیتوں کو رد کر کے ان مظا ہر کا اقرار کر تا ہے جن میں  illusion ہے ۔ ایسے حواس جو فاصلے نہ ہو نے کے با وجود فاصلہ دکھا تے ہیں۔

**----------------------------**

          قرآن کریم شک **  سے پا ک اور کا ئنا تی فارمولوں پر مبنی الہا می کتا ب ہے جس کو سمجھ کر پڑھنے سے ذہن اس نقطے پر آجا تا ہے جہاں سے illusion کی نفی ہو تی ہے ۔

رب العالمین اللہ کا ارشا د ہے ،

          "بے شک ہم نے اسے لیلتہ القدر میں نا زل کیا۔ اور تمہیں کیا ادراک کہ کیا ہے  لیلتہ القدر ۔ لیلتہ القدر بہتر ہے ہزار مہینوں سے ۔ اتر تے ہیں اس میں روح اور فرشتےاللہ کے حکم سے ، سلامتی ہے یہ رات طلوع فجر تک ۔" (القدر: ۱۔۵)

          تفکر طلب ہے کہ قرآن کریم کا نزول اس مہینے میں ہوا جس میں روزہ رکھنے کا حکم ہے ۔ روزہ ظا ہر ی حواس سے توجہ ہٹا کر ذہن کو ان حواس  کی طر ف متوجہ کر تا ہے جو ہما رے اندر مو جو د اور اسپیس کو تسخیر کر نے کا ذریعہ ہیں ۔ روزہ لیل کے حواس میں دا خل ہو نے اور تر ک کا پروگرام ہے جس میں معینہ مدت تک حلا ل چیز حلا ل نہیں رہتی ۔ بھو ک پیا س پر کنٹرول ، گفتگو میں احتیا ط ، غیبت سے پر ہیز ، رزق حلا ل کا حصول، زکوٰۃ، صدقہ خیرا ت، نیند میں کمی اور چو بیس گھنٹے کسی نہ کسی طرح یہ کو شش کی جا تی ہے کہ بندہ  مظا ہر کی گرفت سے آزاد ہو کر اللہ کی طر ف متوجہ رہے ۔ اس طر ز عمل سے حواس مجلا ہو تے ہیں اور بیداری میں رہتے ہو ئے لا شعور میں دیکھنے کی نظر بید ار ہو تی ہے ۔

          لیلتہ القدر حواس کی ایک اعلیٰ اسپیس ہے جو ہزار مہینوں کی اسپیس اور ٹا ئم سے افضل ہے ۔ ایک مہینے میں اوسطاً 30دن 30راتیں اور ایک ہزا ر مہینوں میں 30ہزا ر دن 30ہزار راتیں ہیں یعنی لیلتہ القدر میں حواس کی رفتا ر 60 ہزار گنا بڑھ جا تی ہے ۔ لیلتہ القدر کی مبا رک ساعتوں میں بندہ فرشتوں اور حضر ت جبرئیلؑ سے مصافحہ کر تا ہے اور خو ش نصیب خواتین و حضرات کو تجلی کا دیدار ہو تا ہے ۔ حدیث قدسی ہے :

"روزہ میرے لئے ہے اور روزہ کی جزا میں خود ہوں۔"

          اللہ تعالیٰ نے لیلتہ القدر کو طلوع فجر (مطلع الفجر) تک سلا متی فر ما یا ہے ۔ غور طلب ہے کہ جب کو ئی شے طلوع ہو تی ہے تو اس کی اسپیس کھلتی ہے یعنی اصل حا لت سے ہٹ کر پھیلتی ہے لٰہذا   سلٰم ھی حتٰی مطلع الفجر کو نہا ر کے حوا س سے نسبت ہے ۔ جب تک آدمی لیل کے حواس میں ہے ، سلا متی میں رہتا ہے ۔ روزہ رکھنے سے انسا ن لیل کے حواس میں ہے ، سلا متی میں رہتا ہے ۔ روزہ رکھنے سے انسان لیل کے حواس کا ادراک کر کے اسپیس کے پھیلنے سمٹنے اور قر ب و بُعد کی حقیقت سے واقف ہو جا تا ہے ۔

          جن خوا تین و حضرا ت کو اللہ کی دی ہو ئی توفیق سے لیلتہ القدر کا مشا ہد ہ ہوا، اس سب کو مبا ر ک ہو ۔ دعائے خیر میں یا د رکھئے ، شکریہ۔

اللہ حا فظ

خوا جہ شمس الدین عظیمی

 

 

*بعد ۔ (فاصلہ ، دوری)

**شک ۔ (الوژن یعنی فریب نظر ، تغیر)

Topics


QSM Aaj ki Baat

خواجہ شمس الدين عظیمی

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔