Topics

کشش اور گریز ۔ مئی 2025


آ ج کی با ت

 

          زمین ایک نہیں ، بے شما ر ہیں ۔ بے شما ر زمینوں میں آدمی کی شما ریا ت سے زیادہ نوعیں آبا د ہیں ۔ ہر نو ع کے لئے زمین ما ں ہے ۔ ما ں زمین ایثا ر کی لہروں پر قا ئم ہے اور اندرمیں سے ظا ہر ہونےوالی تخلیقا ت سے کشش کے ذریعے بندھی ہو ئی ہے ۔ کشش کی لہریں زمین کے رحم میں کیسی کیسی صورتیں بنا تی ہے ! ہر صورت ایک ڈائی ہے جس کا نقش زمین کے اندر میں محفوظ* ہے ۔ جب بندہ خا لق کا ئنا ت اللہ کی صنا عی "زمین" میں غوروفکرکرتا ہے اور فکر کی طر زیں کیئر آف اللہ طر زفکر کی آئینہ دار* ہو تی ہیں تو ما ں زمین خوش ہو تی ہے اور دعا دیتی ہے ۔ زمین میں تخلیقا ت پر یقین کے ساتھ غوروفکر کرنے والا ذہن ثقل سے آزاد ہو کر کشش کی اس اسپیس میں داخل ہو جاتا ہے جس سے زمین و آسما ن کے کنا رے کھل جاتے ہیں ۔ خالقِ سما وات و ارض کا ارشا د ہے ،

                     "اے گروہِ جن و انس! تم آسما نوں اور زمین کے کنا روں سے نکل کر دکھا ؤ۔ تم نہیں نکل سکتے سلطا ن سے ۔"(الرحمٰن :۳۳)

.._________________________..

          آپ نے اسکول ، کا لج اور یونیورسٹی کی درسی کتا بوں میں کثر ت سے کشش ِ ثقل کے الفا ظ سنے اور پڑھے ہیں لیکن اندر میں آنکھ دیکھتی ہے کہ کشش ۔۔۔ ثقل کی پا بند نہیں ہے ، یہ ۔۔۔ لطیف بھی ہو تی ہے ۔ جسے ہم ثقل کہتے ہیں ۔۔۔۔ وہ گریز کی لہریں ہیں ۔

۱۔ گریز کیا ہے اور کشش کسے کہتے ہیں ۔۔۔؟

۲۔ کیا گریز بھی کشش ہے ؟

۳۔ اگر گریز کشش نہیں ہے پھر کششِ ثقل کیا ہے ؟

          کا ئنا ت دو رخ پر حر کت میں ہے ۔  ایک رخ اپنی طر ف متوجہ کر تا ہے جسے کشش کہتے ہیں ، اور حرکت کے دوسرے رخ سے گریز پیدا ہوتا ہے ۔ گریز بھی کشش ہے جو خلا کے ذریعے یعنی دوری پیدا کر کے اپنی مقداریں قا ئم رکھتا ہے ۔

          قابلِ قدر خواتین و حضرات ، طالبا ت و طلبہ بچو ، بزرگو اور دوستو! آ پ نے جو پڑھا ، وہ راز ہے ۔ راز کی بات کو پردے میں پڑھیں۔ جو کشش بندے کو اللہ سے دور کر تی ہے ، اسے کشش ِ ثقل کہتے ہیں اور جو کشش بندے کو اللہ سے قریب کر تی ہے ، وہ کششِ لطیف ہے ۔ بلندی کی طرف لے جا نے والی کشش "لطیف" ہے ۔ پستی کی جا نب لے جا نے والی کشش میں ثقل ہے ۔ بلندی اور پستی کیا ہے ۔؟

          پستی اور بلندی کا تعلق اورپر نیچے ڈا ئی مینشن سے نہیں ہے ۔ آدمی جس زمین  پر رہتا ہے ، اسے نیچے اور آسما ن کو اوپر سمجھتا ہے جب کہ آسما ن خو د پر آبا د مخلوقا ت کے لئے زمین ہے  اور زمین اپنے سے نیچے رہنے والی مخلوقا ت کے لئے آسما ن ہے ۔ ہر شے دورخ*  پر قا ئم  ہے  جب کہ دونوں رخوں کی مرکزیت ایک ہے ۔ شک سے متا ثر ذہن شے میں مشترک قدر* کو نظر انداز کر کے دورخوں (دوئی۔ تقسیم ) کو مرکز بنا لیتا ہے ۔

          کا ئنات کی ہر شے میں ربط ہے ۔ ربط "قدرِ مشترک" کا اظہا ر ہے ۔ قدر ۔ مشترک ہو تو ڈائی مینشن کی نفی ہو جا تی ہے ۔ اس با ت کو سمجھنے کے لئے مندرجہ بالا پیرا گراف کی پا نچ لا ئنیں دوبا رہ پڑھئے۔

          عرض یہ کر نا ہے کہ پستی اور بلندی کا تعلق ڈا ئی مینشن سے نہیں ۔ ذہن و فہم سے ہے ۔ ہر وہ خیال جس میں اللہ کاتصور غالب ہے ، بلند ہے اور ہر وہ خیا ل جس میں اللہ سے دوری ہے ، پستی ہے ۔ یہا ں سے کششِ ثقل اور کششِ لطیف کا تعین ہو تا ہے ۔

..__________________________..

          آدمی آسما ن کے دوسرے رخ پر رہتا ہے ۔ زمین اندر میں دَور کر نے والی کشش ِ لطیف آدمی سے کہتی ہے کہ جسے تم کششِ ثقل کہتے ہو، وہ میرے اندر میں نہیں ، تمہا رے اندر ہے ۔ میں تو آئینہ ہوں جس میں تم خو د کو دیکھتے ہو، میں فرما ں بر دار ہوں ، ایثا ر کر تی ہوں ۔ جو خمیر تمہیں میرے اندر میں نظر آتا ہے ، وہ تمہارے اندر ہے ۔ جب خمیر کا خما ر تمہارے اندر میں مغلوب ہو گا تو میرے اندر مو جو د نور تمہیں نظر آئے گا۔ قر آن کریم میں ارشا دہے ،

"اللہ آسما نو ں اور زمین کا نو ر ہے ۔" (النور :۳۵)

          آدمی جنت میں نا فرما نی کر کے جس نظر کو ایکٹو کر کے زمین پر آیا ہے ، وہ نظر عینک بن گئی ہے ۔ اگر وہ نا فرما نی تر ک کر دے تو فرما ں برداری نظر بن جا ئے گی اور وہ دیکھے گا کہ ہر شے نو ر کے غلا ف میں بند ہے ۔ لطا فت کے بغیر کو ئی شے قا ئم نہیں رہتی جب کہ کثا فت ٹو ٹ پھوٹ پیدا کر تی ہے ۔ سیب گھٹنے بڑھنے اور سڑنے کے عمل سے گزر تا ہے ، سیب ختم ہو جا تا ہے ، سیب کا علم ختم نہیں ہوتا ، سیب کی نسل چلتی رہتی ہے ۔ جس شخص پر نا فرما نی کا غلبہ ہے ، وہ سیب میں گھٹنے ، بڑھنے اور تعفن کو دیکھتا ہے ۔ جس پر فرماں برداری غالب ہے ، وہ دیکھتا ہے کہ سیب روشنی کی جن مقداروں سے بنا ہے ، اللہ کی رحمت سے ان مقداروں کو یکجا کر کے وہ سیب کو ظا ہر کر سکتا ہے ۔

..__________________________..

          کا ئنا ت کشش پر قا ئم ہے ۔ کشش سے غا فل ذہن گریز میں یکسو ہے ۔

حدیثِ قدسی ہے ،

          "میں چھپا ہواخزانہ تھا ۔ میں نے محبت سے مخلوق کو پیدا کیا تاکہ میں پہچا نا جا ؤں۔ "

          "میں پہچا نا چاؤں" ان الفا ظ میں کشش کا قا نو ن ہے ۔ کشش کے معنی اپنی طر ف متوجہ کرنا ہے ۔ جب تک کا ئنا ت عدم سے وجود میں نہیں آئی ، مخلوقا ت کے لئے کشش کا نظا م ایکٹو نہیں تھا ۔ جب کا ئنا ت کا مظا ہر ہ ہو گیا ، اس مقصد کے ساتھ کہ مخلوقا ت اللہ کوپہچا نیں، کشش کا نظا م حر کت میں آگیا ۔ اللہ نے محبت سے یعنی کشش کے فارمولے کے ساتھ مخلو ق کو پیدا کیا تا کہ مخلو ق اللہ کی جانب متوجہ ہو اور معرفت حا صل کرے۔

          توجہ طلب ہے کہ مخلو ق کے لئے کشش کی ابتدا اللہ کے "چاہنے" سے ہو ئی کہ اللہ پہچا نا جا ئے ۔ کشش کیا ہے ۔؟ اللہ کا چاہنا اور اللہ کا چاہنا ہے ۔ اللہ کے سوا جو خیا ل غا لب ہو ، وہ گریز ہے ۔ کشش کی لہریں زمین کے اندر با ہر ، تما م مخلو قات  میں ہر جگہ ہیں ۔ آدمی کہتا ہے کہ زمین کی کشش ہمیں کھینچتی ہے ۔ یہ کہنا گریز ہے ۔ زمین اللہ کی تخلیق ہے ۔ درست یہ ہے کہ زمین میں اللہ کی صفا ت کی کشش ہمیں متوجہ کرتی ہے ۔ ایسا کہنے سے گریز کی لہریں مغلوب ہوتی ہیں ۔۔۔۔ شے سے پہلے ذہن اللہ کی طر ف متوجہ ہو تا ہے ۔

          قارئین! اس تحریر میں قوانین ہیں ۔ لکھ کر ادارہ "ما ہنا مہ قلندر شعور" کو بھیجئے۔

          جو کچھ عرض کیاہے ، وہ " کل کی با ت" ہے ۔ کل کی با ت، "آج کی با ت" ہے ۔ آپ کچھ سمجھے ۔۔۔؟ کشش خلا کو پرُ کر تی ہے ، گریز سے خلا ظا ہر ہوتا ہے ۔ اللہ سے دوری خلا ہے اور خلااللہ سے محبت اور اللہ کی معرفت سے پرُ ہوتا ہے۔

اللہ حا فظ

خواجہ شمس الدین عظیمی

 

 

*محفوظ (ریکا رڈ۔ نقش)            *آئینہ دار(عطا س ، ترجما ن )

*دورخ ۔ گریز ہے جو خلا پر قا ئم ہے ۔ خلا دوری ہے اور دوری ثقل ہے۔

* مشترک قدر ۔ کشش ہے اور کشش ربط ہے۔

Topics


QSM Aaj ki Baat

خواجہ شمس الدين عظیمی

اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔ (سورۂ عنکبوت 69(

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اولیاء اللہ کے فیض سے ماہنامہ"قلندر شعور" کے ذریعے ہم آپ تک ایسے مضامین پہنچائیں گے جن کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول ﷺ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور بندہ یہ د یکھ لیتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔

اس ماہنامہ میں انشاء اللہ تسخیر کائنات سے متعلق قرآنی تفہیم، خلاء میں سفر کرنے کے لئے جدید تحقیقی مضامین، حمد اور نعتیں، اصلاحی افسانے، پی ایچ ڈی مقالوں کی تلخیص، سائنسی، علمی، ادبی، سماجی، آسمانی علوم، خواب۔۔۔ ان کی تعبیر، تجزیہ و مشورہ پیش کئے جائیں گے۔

دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ادارہ "ماہنامہ قلندر شعور" کو ارادوں میں کامیاب فرمائیں۔