Topics

اللہ اور اس کے رسول کی باتیں


                شعبان کا مہینہ تھا۔ ایک روز اویس شام کو کچھ دیر سے گھر پہنچے تو اسماءاور بچوں کو اپنا منتظر پایا۔ ابھی سب کھانے کے لئے میز پر بیٹھے ہی تھے کہ اویس نے بچوں سے پوچھا:

                عمرہ اور دربار نبویﷺ میں حاضری کے لئے کون کون جانا چاہتا ہے؟

                مجھے لے چلیں، مجھے بھی لے چلیں، میں بھی جاؤں گی۔ چاروں بچے ایک ساتھ بول بڑے۔

                اسماءکچن سے دوڑی دوڑی آئیں اور پوچھا کیا کہا، عمرہ کے لئے جانا ہے؟ انشاءاللہ ہم سب جائیں گے۔ اسماءنے گویا سب کی ترجمانی کی۔

                ٹھیک ہے، انشاءاللہ ہم سب چلیں گے۔

                اویس کے تین بچوں نے قرآن پاک ختم کر لیا تھا جبکہ فیضان ابھی قاعدہ پڑھ رہا تھا۔

                اس روز کھانے کے دوران اور کھانے کے بعد مکہ اور مدینہ کی ہی باتیں ہوتی رہیں۔ اللہ کی باتیں……اللہ کے رسولﷺ کی باتیں……

                اویس اور اسماءایک بار پہلے بھی بیت اللہ اور دربار رسولﷺ میں حاضری کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے بچوں کے لئے یہ پہلا موقع تھا۔

                ہم کب جائیں گے؟ امل نے اپنے ابو سے پوچھا۔

                انشاءاللہ اگلے ماہ کسی تاریخ کو۔

                اگلے ماہ یعنی رمضان میں، سندس نے پوچھا۔

                جی میری بیٹی۔ اویس نے بہت پیار سے جواب دیا۔

                عمرہ کیا ہوتا ہے؟ فیضان نے پوچھا۔

                عرب کے شہر مکہ میں ایک مسجد ہے جسے مسجد الحرام کہتے ہیں۔ اس مسجد کے صحن میں ایک چھوٹی سی عمارت ہے اسے کعبتہ اللہ یا اللہ کا گھر کہتے ہیں۔

                میں نے تو کعبہ دیکھا ہے وہاں سے اذان کی آواز آتی ہے۔ فیضان نے معصومیت سے کہا۔

                ابو! ٹی وی پر جو اذان آتی ہے یہ اس کے بارے میں بتا رہا ہے۔ سندس نے وضاحت کی۔

                عمرہ کسے کہتے ہیں؟ فیضان نے پھر پوچھا۔

                اللہ کی وحدانیت اور بندگی کا اقرار کرتے ہوئے مسجدالحرام میں حاضر ہو کر اللہ کی حمد و ثناءکرتے اور دعائیں مانگتے ہوئے خانہ کعبہ کے گرد چکر لگانا۔ یعنی طواف کرنا اس کے بعد خانہ کعبہ کے قریب واقع دو پہاڑیوں صفا و مروہ کے درمیان چلنے یعنی سعی کے عمل کو عمرہ کہا جاتا ہے۔

                کیا اللہ میاں خانہ کعبہ کے اندر رہتے ہیں؟ فیضان نے پوچھا۔

                بابا جی تو کہتے ہیں کہ اللہ میاں ہر جگہ ہیں۔ وہ تمہارے دل میں رہتے ہیں۔ نعمان بولا۔

                کعبہ کو اللہ کا گھر کہا جاتا ہے۔ کعبہ وہ مقدس مقام ہے جس کی طرف رخ کر کے مسلمان اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اس کی بندگی کا اقرار کرتے ہیں۔ اس طریقہ عبادت کو صلوٰۃ کہتے ہیں۔ کعبہ اللہ کے ماننے والوں کو مرکزیت فراہم کرتا ہے چونکہ یہ مرکز اللہ کے حکم پر بنایا گیا ہے اس لئے اس مقام پر اللہ کی بے شمار رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے۔ یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اکیلا اس کا مالک اور منتظم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا خالق ہے۔ وہ بہت مہربان ہے۔ ہم جہاں کہیں بھی اللہ کو پکاریں ، وہ ہماری سنتا ہے۔

                کیا یہ ساری دنیا اللہ نے اکیلے بنائی ہے؟ خود ہماری زمین ہی بہت بڑی ہے۔ سندس نے لہجہ میں حیرت لئے ہوئے کہا۔

                یہ ساری دنیا زمین، آسمان، چاند، ستارے، انسان، جانور ان سب کو اللہ نے بنایا ہے۔

                اور فرشتوں اور جنات کو؟ فیضان نے پوچھا۔

                فرشتوں کو، جنوں کو، ساری کائنات میں، زمین میں، آسمان میں جو بھی مخلوق ہے سب کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہت مہربان ہے۔ اللہ نے ساری کائنات محبت کے ساتھ بنائی ہے۔ اللہ نے ہوا بنائی ہے، پانی بنایا ہے۔ ہمارے کھانے پینے اور استعمال کے لئے قسم قسم کی چیزیں پیدا کی ہیں۔ اللہ کی رحمت ہر طرف چھائی ہوئی ہے۔

                ہماری کلاس میں ایک لڑکی کہہ رہی تھی کہ اس کی امی کہتی ہیں کہ جو بچہ جھوٹ بولے گا۔ اللہ میاں اس کی زبان جلتے ہوئے کوئلہ سے جلائیں گے۔ وہ کہہ رہی تھی کہ اسے اللہ سے بہت ڈر لگتا ہے۔

                ابو! کیا اللہ میاں بچوں کی زبانیں جلائیں گے؟ امل نے درمیان میں ایک نئی بات چھیڑ دی۔

                اویس نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر کر کہا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔ چھوٹے بچے بہت معصوم ہوتے ہیں۔ اللہ میاں کو بچے بہت اچھے لگتے ہیں۔ جب ہی تو ہر بچہ معصوم اور خوبصورت لگتا ہے۔ اگر اللہ میاں کو بچے پیارے نہ ہوتے تو وہ انہیں اتنا پیار اور اتنا خوبصورت کیوں بناتا؟ جو بچے سے پیار کرتا ہے وہ اس کی زبان کیوں جلائے گا۔

                کوئی بچہ اگر جھوٹ بولے تو اللہ میاں اس کی زبان نہیں جلائیں گے؟ فیضان نے پوچھا۔

                جہاں تک جھوٹ بولنے کا تعلق ہے تو یہ بات سمجھ لو کہ جھوٹ بولنا بری بات ہے۔ انسان کو سچ بولنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سچ بولنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔ جھوٹ بولنا اللہ کو پسند نہیں ہے۔ اویس نے اس کے گال پر پیار سے تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

                کیا اللہ تعالیٰ ہم سے بہت پیار کرتے ہیں۔ امل نے پوچھا۔

                اچھا یہ بتاؤ تمہاری امی تم سے کتنا پیار کرتی ہیں؟

                بہت زیادہ بہت ہی زیادہ امل نے دونوں بازو دائیں بائیں پھیلاتے ہوئے کہا۔

                تمہاری امی اگر کسی بات سے تمہیں منع کریں تو کیا وہ کام کرو گے؟

                نہیں کریں گے۔ سب نے ایک ساتھ کہا: اسماءنے ممتا کے بھرپور جذبوں کے ساتھ مسکراتے ہوئے اپنے بچوں کو دیکھا۔

                کیوں نہیں کرو گے؟ اسماءنے پیار بھرے لہجے میں بچوں سے پوچھا۔

                اس لئے کہ اپنے امی ابو کا کہنا ماننا چاہئے۔ امی ابو اگر کسی کام سے منع کرتے ہیں تو بچوں کو وہ کام نہیں کرنا چاہئے۔ اگر کسی بچہ کی امی کو پتہ چلے کہ بچہ نے ان کا کہنا نہیں مانا تو انہیں اچھا نہیں لگے گا۔ امل جلدی جلدی بولی۔

                تم کوئی ایسا کام کرنا چاہو گی جو تمہاری امی کو اچھا نہ لگے؟ اویس نے پوچھا۔

                نہیں۔ امل نے کہا۔

                کیوں؟

                اس لئے کہ ہماری ماں ہم سے پیار کرتی ہیں، ہمارا بہت خیال رکھتی ہیں۔

                سندس نے اپنی ماں کے ہاتھوں کو پیار کرتے ہوئے کہا۔

                اور تم؟ اویس نے چاروں بچوں کی طرف نظر ڈالتے ہوئے کہا۔

                ہم بھی ان سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ہم آپ سے بھی بہت پیار کرتے ہیں۔

                چاروں ایک ساتھ بولے۔ بچوں کے اس اظہار پر اویس اور اسماءخوشی سے مسکرانے لگے۔ چند لمحوں بعد اویس نے پوچھا۔

                تمہاری امی ابو تم سے بہت پیار کرتے ہیں۔ تمہیں معلوم ہے کہ یہ پیار کہاں سے آیا؟

                بچے حیران نظروں سے اپنے ابو کو دیکھنے لگے۔ نعمان اس سوال پر مسکرانے لگا۔

                کیوں نعمان بھائی آپ کیوں مسکرائے؟ سندس نے پوچھا۔

                بھئی آپ ہمارے امی ابو ہیں۔ آپ کو اپنے بچوں سے پیار ہو گا ہی۔ نعمان نے اپنے والدین کی طرف خوشی سے دیکھتے ہوئے کہا۔

                مگر ذرا غور تو کرو۔ پیار کیوں ہو گا۔ اویس نے نعمان سے کہا۔

                غور کرنے کے لئے بڑی عجیب باتی کہی ہے۔

                یہ بات اس وقت شاید تمہیں عجیب لگ رہی ہو مگر جب تم غور و فکر کرو گے تو یہ حقیقت تمہارے سامنے آئے گی کہ ماں باپ کے دل میں بچوں کے لئے پیار اللہ تعالیٰ ڈالتے ہیں۔ بچوں کے لئے ماں باپ کے دل میں پایا جانے والا پیار اللہ کی محبت اور رحمت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

                میری سمجھ میں آ رہا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ بچوں سے پیار کرتے ہیں اس لئے انہوں نے ماں اور باپ کے دل میں بھی بچوں کے پیار ڈال دیا ہے۔ امل نے بات سمجھتے ہوئے کہا۔

                ابھی تم نے کہا تھا تم کوئی ایسا کام نہیں کرو گی جو تمہاری امی کو چھا نہ لگے۔ اویس نے امل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

                جی! امل نے جواب دیا۔

                تم نے یہ بھی کہا ہے کہ تم ایسا اس لئے نہیں کرو گی کیونکہ تمہاری امی تم سے پیار کرتی ہیں، تمہارا خیال رکھتی ہیں۔

                جی!

                اور تمہیں یہ بھی پتہ چل گیا کہ تمہارے ماں باپ کے دل میں تمہارے لئے یہ پیار اللہ نے ڈالا ہے۔

                جی بالکل!

                اللہ تعالیٰ آپ سب سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ان کے پیار کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ میرے بچو! آپ کو ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہئے جو اللہ کو اچھا نہ لگے۔ جھوٹ اس لئے نہیں بولنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے کو پسند نہیں کرتے۔

                مجھے تو اللہ میاں بہت اچھے لگتے ہیں۔ جو کام اللہ کو پسند نہیں میں نہیں کروں گا۔ میں کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔ کیوں ٹھیک ہے نا؟ فیضان نے اپنے ابو سے کہا۔

                بالکل ٹھیک بیٹے شاباش۔ گڈ بوائے۔ اویس نے خوشی کا اظہار کیا۔

                اللہ کو کون کون سے کام پسند ہیں؟ سندس نے سوال کیا۔

                اللہ تعالیٰ سچ بولنے کو پسند کرتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ ہمدردی کرنے اور ان کے کام آنے کو پسند کرتے ہیں۔ والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو پسند کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پڑوسیوں کے ساتھ اچھے سلوک کو پسند کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو صفائی پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ انسان علم حاصل کرے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو علم حاصل کرنے اور اپنی تخلیقات میں غور و فکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ بچو! زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرو۔ تم سب پڑھ لکھ کر اپنا اپنے والدین اور قوم کا نام روش کرو گے تو تمہارا یہ عمل اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ بنے گا۔

                اللہ تعالیٰ کو کون کون سی باتیں پسند نہیں ہیں؟ امل نے پوچھا۔

                اللہ تعالیٰ کو جھوٹ پسند نہیں ہے۔ کسی انسان کا دوسرے انسان کو تکلیف پہنچانا، ظلم و نا انصافی، پڑوسیوں کے ساتھ برا سلوک اللہ کو پسند نہیں ہے۔ لوگوں کا اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو صاف نہ رکھنا بھی اللہ کو ناپسند ہے۔ علم حاصل نہ کرنا بھی اللہ کو پسند نہیں۔

                سندس نہایت توجہ کے ساتھ سن رہی تھی۔ اس کے ذہن میں ایک سوال آیا۔

                اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ کیا چیز ناپسند ہے؟

                اللہ ایک ہے۔ اللہ نے ساری کائنات بنائی۔ کائنات میں بسنے والی ہر مخلوق کو پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ اکیلا ساری کائنات کا مالک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ عبادت اور بندگی صرف اللہ کے لئے ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرے تو یہ اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کو اپنا رب مانے لیکن اس کے ساتھ کسی اور کو بھی اس کا شریک ٹھہرائے، یہ بات بھی اللہ کو بالکل پسند نہیں۔ عبادت صرف اور صرف اللہ کے لئے ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔

                اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ نعمان نے سوال کیا۔

                اللہ کی عبادت کی جائے۔ اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کی جائے۔ جن کاموں کے کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے وہ کام کئے جائیں۔ جن کاموں سے اللہ نے منع کیا ہے۔ وہ کام نہ کئے جائیں۔ بغور دیکھا جائے تو اس میں بھی سراسر انسانوں کا ہی فائدہ ہے۔

                اس میں انسانوں کا ہی فائدہ ہے……وہ کیسے؟ نعمان نے حیرت کے ساتھ اویس سے سوال کیا۔

                عبادت تو اللہ کے لئے کی جاتی ہے، نیکی کے کام بھی اس لئے کئے جاتے ہیں کہ اللہ خوش ہو۔ نیک کام کرنے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں۔ یہ بات عبادت کرنے والے فرد کے لئے ذاتی طور پر اطمینان اور تسکین کا سبب تو ہو سکتی ہے لیکن اس سے دوسرے لوگوں کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ سندس کا اشتیاق اور تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔

                جی ابو! اگر میں پابندی سے نماز ادا کروں، روزے رکھوں، رات بھر نفل ادا کروں، قرآن کی تلاوت کروں تو اس سے میرا رب مجھ سے خوش ہو گا لیکن دوسرے لوگوں کو میری ان عبادتوں سے کیا فائدہ پہنچے گا؟ نعمان  نے بہت اہم بات پوچھی۔

                تم نے بالکل ٹھیک کہا کہ عبادت تو صرف اللہ کے لئے ہی ہے۔ عبادت دراصل اللہ کی بندگی کا اقرار کرتے ہوئے اس کی مرضی  کے مطابق زندگی بسر کرنا اور کائنات کی تخلیق کا مقصد جاننا ہے۔ اویس نے بچوں کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

                آپ کی باتیں درست ہیں لیکن میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ میری عبادتوں سے دوسرے لوگوں کو کیا فائدہ پہنچے گا؟

                جی بیٹے! میری یہ باتیں تمہارے سوال کے جواب میں ہی ہیں۔ عبادت اللہ اور بندے کے درمیان ایک تعلق ہے۔ لیکن یہ صرف رسمی تعلق نہیں ہے۔ اللہ اور بندے کے درمیان یہ تعلق اس کی ساری زندگی کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس تعلق کا تقاضہ ہے کہ انسان اللہ کی مشیت، اللہ کی مرضی اور اللہ کے ارادے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرے۔

                ہم اس بارے میں کیسے جان سکتے ہیں؟ سندس نے پوچھا۔

                قرآن اور اللہ کے نبی حضرت محمدﷺ کی تعلیمات کے ذریعے انسان اللہ کی مشیت سے بخوبی آگاہ ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیقات پر، اللہ کی نشانیوں پر غور کرو۔ تمہیں ہر جگہ ایک نظم و ضبط ہم آہنگی و توازن نظر آئے گا۔ اپنے ارد گرد بھی نظر دوڑاؤ۔ ہر طرف اللہ کی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ زمین اور اس کی کشش یعنی گریویٹی، کرہ ارض پر ایک چوتھائی خشکی اور تین چوتھائی پانی یعنی سمندر، سمندر سے بخارات کے ذریعے بادلوں کا بننا، ان بادلوں کا سمندر سے خشکی کی طرف سفر کرنا، خشکی پر آ کر ان بادلوں کا برسنا اور زمین کو حیات و زرخیزی عطا کرنا، اونچے اونچے پہاڑوں پر برف کا جمنا، اس برف کا پگھلنا اور اس سے دریاؤں کا نکلنا، ان دریاؤں کا زمین کو سیراب کرتے ہوئے سمندر میں جا گرنا یہ سب اللہ کی نشانیاں ہیں۔ اللہ کی کروڑوں اربوں نشانیوں میں سے صرف سمندر، بادل، بارش، برف پوش پہاڑ اور دریاؤں کی تخلیق پر ہی غور کرو۔ تمہیں علم ہو جائے گا کہ یہ سارا عظیم الشان نظام کس کے لئے چلایا جا رہا ہے۔ یہ سارا انتظام انسانوں اور زمین پر بسنے والی دوسری تمام مخلوقات کو رزق کی فراہمی، صحت، خوشی اور سکون فراہم کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے۔

                کیا بارش اس لئے برستی ہے کہ مجھے خوشی حاصل ہو؟ نعمان نے کہا۔

                ہاں میرے بچو! ہمارا پیارا اللہ بارش اس لئے برساتا ہے کہ لوگوں کو خوشی حاصل ہو۔

                اے میرے اللہ! تو کتنا پیارا ہے۔ امل نے بڑے پیار سے کہا۔

                اگر اللہ میاں مجھے مل جائیں تو میں انہیں خوب پیار کروں۔ اے اللہ! تو مجھے اپنی گود میں بٹھا لے۔ فیضان میاں بھی پیچھے رہنے والے نہیں تھے۔

                بیٹے! تمہیں شاید اس بات کا احساس نہ ہو لیکن تمہیں اللہ نے اپنی رحمتوں بھری آغوش ہی میں تو رکھا ہوا ہے۔

                سچ ابو!

                بالکل سچ بیٹے!

                کیا اللہ میاں مجھ سے پیار کرتے ہیں؟ وہ مجھے جانتے ہیں؟ انہیں میرا نام معلوم ہے؟ انہیں میرا نام کس نے بتایا ہے؟ اللہ سے قربت محسوس کر کے فیضان خوشی سے جھوم اٹھا اور ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے۔

                فیضان کے بچے چپ ہو جا، میرے سوال کا جواب ملنے لگتا ہے اور توپیچ میں بول پڑتا ہے۔ امل نے چھوٹے بھائی کو لاڈ بھری ڈانٹ پلائی۔

                ارے بیٹی! اس کے معصوم سوالات تو دل کے تاروں کو چھیڑ دیتے ہیں۔ اویس نے فیضان کے معصومانہ سوالات پر خوش ہوتے ہوئے کہا۔

                فیضان بیٹے! اللہ میاں آپ کو جانتے ہیں۔ انہیں آپ کا نام بھی معلوم ہے۔ رہا یہ سوال کہ انہیں آپ کا نام کس نے بتایا ہے۔ بھئی اللہ کو آپ کا، میرا، آپ کا امی کا، بھائی بہنوں کا سب کا نام معلوم ہے۔ اللہ کو کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اللہ کے علم میں سب کچھ ہے۔

                اویس اور بچوں کے درمیان یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اسماءکمرہ میں داخل ہوئیں اور بولیں:

                جناب عالی! کچھ اندازہ ہے کتنی رات گزر چکی ہے۔ ساڑھے بارہ بج رہے ہیں۔

                او ہو، باتوں باتوں میں پتہ ہی نہ چلا۔

                ابو! آپ کے ساتھ باتوں میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ نعمان گھڑی دیکھتے ہوئے بولا۔

                اویس نے مسکراتے ہوئے نعمان کے کندھے کو شفقت سے تھپکایا۔

                مما! ہماری سٹنگ چلنے دیں۔ صبح تو چھٹی ہے۔ نعمان نے ماں سے مطالبہ کیا۔

                کئی ہفتوں بعد ابو سے آج اتنی دیر تک باتیں ہوئیں۔ جی چاہتا ہے کہ یہ باتیں ہوتی رہیں۔

                بیگم صاحبہ! بچے ابھی یہ محفل برخاست کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

                آپ کل صبح سویرے سے اٹھے ہوئے ہیں۔ تھک گئے ہوں گے، اب آرام کریں۔

                بچوں کے ساتھ باتوں میں وقت گزرنے کا احساس رہا نہ تھکن محسوس ہوئی۔ اپنے پیارے بچوں کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہ بھی توانائی دیتی ہے۔ کسی کام میں اگر آپ کی بہت زیادہ دلچسپی ہو تو تھکن کا احساس نہیں ہوتا اطمینان اور سکون ملتا ہے۔ اطمینان قلب اور سکون سے جسم میں انرجی دوڑ جاتی ہے۔

                ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی۔ چائے یا کافی کا موڈ ہے؟ اسماءنے اپنے شوہر سے پوچھا۔

                واہ کیا اچھی بات کی۔ میرے لئے گرما گرم کافی اور بچوں کے لئے ایک ایک گلاس دودھ۔ اویس نے اپنی بیوی کی طرف ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

                او کے۔ اسماءکچن کی طرف جانے کے لئے مڑی ہی تھیں کہ فیضان نے آواز لگائی میرے لئے فرنچ فرائز اور ٹماٹو کیچپ۔

                ابھی لائی!

                سردیوں کے دن تھے۔ کراچی میں شدید سردی تو کبھی کبھار ہی ہوتی ہے۔ اس روز بھی موسم کچھ زیادہ ٹھنڈا نہ تھا مگر اس وقت خشکی میں کچھ اضافہ ہو گیا تھا۔ بچوں نے ہلکے سوئیٹر پہن لئے۔ سندس جا کر اویس کے لئے پانی لے آئی۔

                ابو! آپ یہ چادر اوڑھ لیں۔

                تھینک یو بیٹی۔

                ابو! آپ کہہ رہے تھے کہ اللہ کی تخلیقات میں ہمیں ہر جگہ ایک نظم و ضبط اور توازن نظر آتا ہے۔ نعمان نے گفتگو دوبارہ شروع کی۔

                اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک مقررہ وقت تک زندگی گزارنے کے لئے اس زمین پر بھیجا ہے۔ انسان کو زمین پر بھیجنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی تمام بنیادی اور لازمی ضروریات مثلاً ہوا، پانی، زرخیز زمین، درخت، پھل، پھول، کھانے پینے کی اشیاءمثلاً گندم، چاول، دالیں، سبزیاں وغیرہ پیدا کر دیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ زمین پر انسان امن و سکون، خوشی و تحفظ کے احساس کے ساتھ زندگی گزارے۔ چونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک حد تک بااختیار بنایا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے زمین پر وسائل پیدا کرنے کے بعد ان کے حصول اور تقسیم کا عمل خود انسانوں پر چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ ان وسائل کی تقسیم میں کوئی فرد یا گروہ کسی دوسرے فرد یا گروہ کے ساتھ نا انصافی اور حق تلفی نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ انسان اس زمین پر صحت و تندرستی کے ساتھ زندگی بسر کرے۔ اللہ تعالیٰ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ایک انسان کو دوسرے انسان سے کوئی تکلیف یا دکھ نہ پہنچے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ سب چاہنا دراصل اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے لیکن اس مرضی کا پورا کیا جانا اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ جو لوگ اس مرضی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اللہ کے پسندیدہ لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جو لوگ اس مرضی کو پورا نہیں کرتے یا اس کے خلاف کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ پوری بات تمہاری سمجھ میں آ گئی؟

                جی ابو!

                میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ فیضان بولا۔

                فیضان! تم مما کے پاس جاؤ۔ وہ تمہارے لئے فرنچ فرائز تیار کر رہی ہیں۔ اویس نے فیضان سے کہا۔

                ٹھیک ہے! میں مما کے پاس جا رہا ہوں۔ واقعی فیضان کی عمر اور ذہنی سطح ان باتوں کو پوری طرح سمجھنے کے لئے ابھی کم تھی۔

                اویس بچوں سے مخاطب ہوئے۔ اب ذرا پھر غور کرو، عبادت کیا ہے؟

                عبادت ہے اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنا اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنا۔

                کیا اس بات کو اس طرح نہیں کہا جا سکتا کہ عبادت اللہ تعالیٰ کی پرستش کے ساتھ ساتھ اللہ کی مرضی کا جاننا اور اسے پورا کرنے کی کوشش کا نام ہے؟ سندس نے سوال کیا۔

                بالکل اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے۔ سندس کی بات سن کر اویس نے کہا۔

                تو پھر غور کرو، اللہ تعالیٰ کیا کیا چاہتے ہیں؟ اویس نے بچوں سے ہی سوال کر دیا۔

                نعمان نے کچھ دیر سوچ کر کہا۔

                اللہ تعالیٰ ظلم و انصافی پسند نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ انسان صحتمند اور خوش و خرم رہے۔ کسی کو کسی سے دکھ یا تکلیف نہ پہنچے۔ اللہ تعالیٰ نے وسائل اپنی پوری مخلوق کے لئے بنائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں سب بندے مل بانٹ کر وسائل استعمال کریں کوئی کسی کا حق نہ مارے۔

                شاباش! تم نے بالکل صحیح نتیجہ اخذ کیا۔ اب ذرا سوچو جو بندہ اللہ کی حقیقی معنوں میں عبادت کرنے والا ہو گا کیا وہ ظلم و انصافی کرنے والا ہو سکتا ہے؟ اویس نے سوالیہ انداز میں سب کی طرف دیکھا۔

                ہرگز نہیں!

                ایسے بندہ سے دوسروں کو تکلیف پہنچے گی؟

                بالکل نہیں!

                کیا وہ کسی کا حق غصب کرنے والا ہو سکتا ہے؟

                نہیں! تینوں بچوں نے یک زبان ہو کر کہا۔

                اللہ کی عبادت کرنا، اللہ کے آگے سر جھکانا کوئی وقتی مرحلہ یا عارضی عمل نہیں ہے۔ اللہ کی بندگی اللہ کی عبادت ایک مکمل پیکج ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے لئے آسانیاں فراہم کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا نظام ایسے خطوط پر استوار ہے جس میں تعمیر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو خیر پسند ہے۔ لہٰذا وہ تمام کام جن سے انسانوں اور دوسری مخلوقات کے لئے آسانیاں فراہم ہوتی ہوں، لوگوں کی مدد ہوتی ہو، وہ تمام کام جن کی بنیاد خیر خواہی پر ہو اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ کام ہیں اور عبادت میں شامل ہیں۔

                اس کا مطلب یہ ہوا کہ نماز، روزہ کی ادائیگی کے بعد بھی عبادت کا عمل جاری رہتا ہے؟ نعمان نے وضاحت چاہی۔

                بالکل! عبادت کا عمل دن رات، صبح سے شام، شام سے صبح تک جاری رہتا ہے۔ وہ تمام کام جو اللہ کی رضا کی خاطر لوگوں کی بھلائی کے لئے، لوگوں کو راحت و آرام پہنچانے، لوگوں کی تکالیف اور مصائب کو کم یا ختم کرنے کے لئے کئے جائیں اللہ کی عبادت میں شامل ہیں۔ اب تم ہی بتاؤ ایسی عبادت میں کیا لوگوں کا فائدہ نہیں ہے؟

                جی ابو! ہم یہ بات اچھی طرح سمجھ گئے ہیں اور ہم ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔

                اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا کریں۔ اویس نے کہا اور سب نے یک زبان ہو کر آمین کہا۔

                اسماءکافی، دودھ اور فرنچ فرائز لے کر سب کے درمیان ٹرے رکھ کر اویس کے برابر میں بیٹھ گئیں۔ فیضان بھی اپنی ماں کے ساتھ بیٹھ گیا۔


MUALIM

ڈاکٹر وقاریوسف عظیمیؔ

وقار یوسف عظیمی، میرے بیٹے، میرے لخت جگر ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیائؒ کی گود میں کھیلے ہوئے ہیں۔ اپنا بچپن قلندر باباؒ کی انگلی پکڑ کر گزارا ہے۔ جوانی میں ان کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔                مجھے خوشی ہے کہ ان کے قلم کو قدرت نے یہ وصف بخشا ہے کہ ’’معلم‘‘ جیسی کتاب منظر عام پر آ گئی ہے……اظہار بیان، سادہ اور دلنشین ہے۔

                کسی کتاب کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قاری کو اکتاہٹ نہ ہو اور کتاب کا پس منظر کتاب پڑھتے وقت آپ کے سامنے فلم بن جائے۔ تحریر کے الفاظ اگر کردار بن جائیں اور ان کرداروں میں جان پڑ جائے تو اس بات کی علامت ہے کہ مولف یا مصنف دل گداز اور صاحب طرز قلمکار ہے۔                میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب میرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیائؒ کی تربیت کا کمال ہے کہ حکیم وقار یوسف عظیمیؔ نے اتنی اچھی کتاب تحریر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ آمین

                                                                                                                                                 خواجہ شمس الدین عظیمیؔ

                مرکزی مراقبہ ہال

                سرجانی ٹاؤن۔ کراچی