Topics

تختی


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

                زندگی حرکت کا نام ہے۔ کائنات کا وجود حرکت کا مرہون منت ہے۔ سورج حرکت کر رہا ہے ۔ یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں مسلسل حرکت میں ہے۔ زمین پر مخلوقات جن میں پہاڑ، دریا، سمندر، پرندے، مچھلیاں، درندے وغیرہ شامل ہیں اپنی زندگی کے لئے حرکت پر مجبور ہیں۔ اشرف المخلوقات انسان کے لئے بھی حرکت ضروری ہے۔

                حرکت خواہ کسی بھی قسم کی ہو، قوت کی محتاج ہوتی ہے۔ قوت کے اظہار کے مختلف انداز ہیں۔ قوت خود تو غیر مرئی ہے لیکن نظر آنے والے بڑے بڑے عظیم الجثہ اجسام کو حرکت دیتی ہے۔

                انسانی وجود کو متحرک رکھنے والی ایجنسی روح ہے۔ روح کیا ہے؟

                روح اللہ کا امر ہے، یہ روح ہی ہے جسے یہ شرف حاصل ہوا کہ روز ازل اللہ نے اس سے بات کی۔

                کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟

                اس روز اللہ تعالیٰ نے ارواح سے یہ نہیں کہا تھا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ اللہ تعالیٰ چاہتے تو یہ بات براہ راست بتا دیتے۔ اس کے بجائے اللہ تعالیٰ نے مخلوق سے پوچھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔ اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ مخلوق کو جواب دینے کی چوائس دی گئی۔

                یہ آواز سنتے ہی روح نے نظر اٹھا کر دیکھا ہو گا کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے اور کس کی آواز ہے؟

                روح میں تجسس اور تلاش کے جذبوں نے سر اٹھایا۔ اب روح نے سوچا ہو گا کہ اللہ کے سوا کوئی اور بھی رب ہو سکتا ہے؟ ہر طرح کے سوچ بچار کے بعد مخلوق کی ارواح اس نتیجہ پر پہنچیں کہ اللہ کے سوا کوئی اور رب نہیں۔ اللہ ہی ہمارا رب ہے۔ اس نتیجہ پر پہنچنے کے بعد ارواح نے جواب دیا:

                جی ہاں! (یعنی ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ تو ہی ہمارا رب ہے)

                اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ روح نے سب سے پہلے جس ہستی کی آواز سنی، جس ہستی کو تلاش کیا، جس ہستی کے بارے میں سوچا، تجزیہ کیا اور نتیجہ اخذ کیا، جس ہستی کو جیسے بھی اللہ نے چاہا دیکھا، جس ہستی سے بات کی وہ اللہ ہے۔

                انسان کے مادی وجود کو حرکت دینے والی ایجنسی کا نام روح ہے۔ روح کی سماعت، تجسس، تلاش، تفکر، بصارت، تکلم کا سب سے پہلا مرکز اللہ ہے۔

                زندگی حرکت ہے۔ حرکت کے لئے قوت چاہئے۔ قوت توانائی سے حاصل ہوتی ہے۔

                توانائی کا خالق اللہ ہے۔

                انسان کو حرکت میں رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تقاضے تخلیق فرمائے۔ اس حرکت کو درست سمت میں رواں دواں رکھنے کے لئے رہنمائی عطا فرمائی۔  

                اللہ تعالیٰ نے رہنمائی کا سلسلہ اپنے انبیاءکے ذریعے قائم فرمایا۔ انبیاءکرام علیہم السلام نے انسانوں کی تربیت و تعلیم اور معاشرہ کے استحکام اور ارتقاءکے لئے ٹھوس بنیادیں فراہم کیں۔

                نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ نوع انسانی کے سب سے بڑے معلم اور تہذیب انسانی کے سب سے بڑے معمار حضرت محمدﷺ پر تمام ہوا۔

                خاتم الانبیاءمحمدﷺ کی ذات گرامی رہتی دنیا تک کے فرد اور معاشرہ کے لئے توانائی کا منبع و ماخذ ہے۔ محمدﷺ کا عشق قوت کے حصول کا سب سے موثر اور مستحکم ذریعہ ہے۔ محمدﷺ کی تعلیمات فکر و عمل کو اس طرح تحریک دیتی ہیں کہ وہ ہمیشہ درست سمت میں رواں دواں رہتے ہیں۔ ارکان اسلام کے تحت تشکیل دیا گیا عبادات کا نظام اس کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ محمدﷺ کے طرز فکر اور تعلیمات کے مطابق اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت بندگی کے اقرار کے ساتھ کثیر پہلوی مقاصد کی تکمیل کرتی ہے۔ اس کا ایک پہلو افراد کے کردار کی تشکیل اور شخصیت کی تعمیر ہے۔ ایک پہلو انسانوں کے مابین اخوت و بھائی چارے کا قیام ہے۔ ایک پہلو انصاف و مساوات فراہم کرتے ہوئے معاشرہ کی تنظیم اور استحکام ہے۔

                سائنسی علوم کے پھیلاؤ، نت نئے فارمولوں اور طریقوں کی دریافت سے انسان کی سوچ اور طرز زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سات سمندر پار کی افسانوی طلسماتی کہانیوں کی جگہ ٹیلی فون، ٹیلی ویژن، ہوائی جہاز اور کمپیوٹر جیسی سائنسی حقیقتیں خود طلسماتی کردار بن گئی ہیں۔ اطلاعات کا تیز رفتار بہاؤ جغرافیائی سرحدوں اور مملکتوں کے قوانین کو خاطر میں نہیں لا رہا۔ ان سب چیزوں نے انسانی ذہن کی سکت اور فہم و فراست میں بے انتہا اضافہ کیا ہے۔ اس شاندار اضافہ کی بدولت انسان جہاں اس قابل ہو رہا ہے کہ فاصلوں کو سمیٹ سکے اور دنیا کی وسعت کو برقرار رکھتے ہوئے اسے ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کر سکے۔ وہاں ایک صلاحیت یہ بھی پروان چڑھ رہی ہے کہ انسان اپنی روح سے وقوف حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ پیغام یعنی قرآن کے معانی اور مفہوم کو بہتر طور پر سمجھ سکے۔ اپنی روحانی اور ذہنی صلاحیت میں اضافہ کی بناءپر آج انسان اس قابل ہو گیا ہے کہ حضرت محمدﷺ کی ذات اقدس اور آپ کی فکر و تعلیمات کو زیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھ کر نوع انسانی کو فیضیاب کر سکے۔

                محمد رسول اللہﷺ کی تعلیمات پر مبنی نظام پوری دنیا کے لئے امن و سلامتی خیر و فلاح، تعمیر و ترقی، علوم و فنون کے فروغ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ یہ نظام فرد اور معاشرہ کو توازن و اعتدال فراہم کرتا ہے۔ صرف رویوں اور اعمال میں ہی نہیں بلکہ یہ توازن انسان کے مادی تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ روحانی تقاضوں کی تکمیل کے اسباب فراہم کر کے پیدا کیا گیا ہے۔

                اللہ تعالیٰ کی طرف سے صراط مستقیم پر محمدﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنے والا مسافر اس دنیا میں عزت و سربلندی پاتا ہے اور آخرت میں کامیابی کی نوید اس کی منتظر ہے۔

                ان بنیادی مقاصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ اللہ کی کتاب قرآن کے الفاظ میں پوشیدہ معنی اور حکمتوں کو تلاش کیا جائے، محمدﷺ کے احکامات پر محض لفظی طور پر ہی نہیں پورے معنوں کے ساتھ عمل کیا جائے۔ آپﷺ کے احکامات سے وابستہ حکمتوں اور مصلحتوں کو ہمیشہ پیش نظر رکھا جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ کسی چیز کی روح ہی اس کی اصل ہے۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ اللہ کی آیات اور محمدﷺ کے احکامات کی روح سے وقوف حاصل کیا جائے۔

                کتاب معلم اللہ کی آیات اور حضرت محمد رسول اللہﷺ کے فرامین یعنی نور الٰہی اور نور نبوت سے تحریک پا کر لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب اللہ کے حبیب محمدﷺ کے خیالوں میں محو ایک طالب علم صحافی کی ابتدائی کوشش ہے۔

                میری فکر و فہم کی ایک خاص سانچے میں تشکیل اللہ کے ایک عظیم ولی مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاءرحمتہ اللہ علیہ کی نظر کا اعجاز ہے۔

                ’’معلم‘‘ کے خصوصی مخاطب کمپیوٹر دور میں جنم لینے والی نئی نسل کے اراکین ہیں۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ارکان اسلام یعنی کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج کی ادائیگی کے طریقے بیان کرنے کے ساتھ ان عبادات کی معنویت اور مقصدیت کو بھی نوجوان طلبہ اور طالبات کے سامنے اجاگر کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور میری دعا ہے کہ کتاب معلم میں بیان کی گئی باتوں کو پڑھ کر میری قوم کے نوجوان دین اسلام کے ساتھ قلبی و ذہنی وابستگی میں اضافہ محسوس کریں۔ انہیں احساس ہوا کہ ان کا مسلمان ہونا ان کے لئے بے انتہا عزت اور فخر کا سبب ہے، وہ اپنے آپ کو پیدائشی مسلمان سے بڑھ کر شعوری مسلمان محسوس کرنے لگیں۔ یہ مقدس اور محترم احساسات ان میں دین اسلام کے لئے عملی طور پر کام کرنے کا جذبہ بیدار کریں۔ ان کی عبادت مرتبہ احسان کی حامل ہو جائے اور ان کی وہ باطنی نگاہ متحرک ہو جائے جسے روز ازل اللہ تعالیٰ کی تجلی کا دیدار ہو چکا ہے۔

                آخر میں اپنی ایک ذاتی غرض کا اظہار……آپ سے دعا کی التجا کے ساتھ میری روح، میرے قلب میرے وجود کو ہمیشہ اللہ کی محبوب ترین ہستی، باعث تخلیق کائنات حضرت محمدﷺ کے عشق سے ضرب ملتی رہے۔ آمین!

                اس دولت سرمدی میں میرے والدین، میری رفیقہ حیات، میری اولاد اور میرے تمام محبین، میرے ساجھی ہوں۔ آمین! یا رب العالمین۔

 

                                                                                                                                                                وقار یوسف عظیمیؔ

 



MUALIM

ڈاکٹر وقاریوسف عظیمیؔ

وقار یوسف عظیمی، میرے بیٹے، میرے لخت جگر ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیائؒ کی گود میں کھیلے ہوئے ہیں۔ اپنا بچپن قلندر باباؒ کی انگلی پکڑ کر گزارا ہے۔ جوانی میں ان کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔                مجھے خوشی ہے کہ ان کے قلم کو قدرت نے یہ وصف بخشا ہے کہ ’’معلم‘‘ جیسی کتاب منظر عام پر آ گئی ہے……اظہار بیان، سادہ اور دلنشین ہے۔

                کسی کتاب کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قاری کو اکتاہٹ نہ ہو اور کتاب کا پس منظر کتاب پڑھتے وقت آپ کے سامنے فلم بن جائے۔ تحریر کے الفاظ اگر کردار بن جائیں اور ان کرداروں میں جان پڑ جائے تو اس بات کی علامت ہے کہ مولف یا مصنف دل گداز اور صاحب طرز قلمکار ہے۔                میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب میرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیائؒ کی تربیت کا کمال ہے کہ حکیم وقار یوسف عظیمیؔ نے اتنی اچھی کتاب تحریر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ آمین

                                                                                                                                                 خواجہ شمس الدین عظیمیؔ

                مرکزی مراقبہ ہال

                سرجانی ٹاؤن۔ کراچی