Topics

ایک مسلم گھرانہ


                یہ تقریباً روز کا ہی معمول تھا۔ اویس شام کو دیر گئے جب گھر واپس لوٹتے تو ان کی بیوی اسماءہونٹوں پر مُسکان سجائے اس کا استقبال کرتیں۔ بچے پاس آ کر سلام کرتے، ہاتھ ملاتے، پیار کرتے۔ کبھی زیادہ شوخی میں ہوتے تو شور مچاتے ہوئے ان سے لپٹ جاتے۔ مگر اس سارے ہنگامے میں اکثر چھوٹا بیٹا فیضان جس کی عمر کوئی چار سال ہو گی شامل نہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ کوئی خاموش طبیعت بچہ تھا یا اپنے بہن بھائیوں کی خوشی کے اس طرز اظہار سے متفق نہ تھا بلکہ وہ چاہتا تھا کہ سارا دن گھر سے باہر رہنے کے بعد واپسی پر اس کے ابو خود اسے ڈھونڈیں، منائیں اور پیار کریں۔ وہ کبھی کسی دروازے کی اوٹ میں، کبھی کسی پردے کے پیچھے چھپ جاتا۔

                کیا فیضان گھر پر نہیں ہے؟ فیضان کہاں چلا گیا؟ اپنے لہجے میں حیرت لئے وہ بچوں سے پوچھتے۔

                ابھی تو یہیں تھا شاید برابر والوں کے ہاں چلا گیا ہو۔ بیٹی بتاتی لیکن وہ اپنی امی کی اجازت کے بغیر تو کہیں نہیں جاتا۔ وہ اسماءسے پوچھتے کہ فیضان تمہیں بتا کر کہیں گیا ہے؟

                نہیں۔

                پھر وہ کہاں ہے؟ فیضان……فیضان۔

                فیضان کے بارے میں پوچھے گئے پہلے سوال کے ساتھ ہی کبھی کسی پردے کے پیچھے سرسراہٹ شروع ہو جاتی۔ کبھی کسی دروازے کا پٹ ہلنا شروع ہو جاتا۔ ساتھ ہی دبی دبی سی ہنسی کی آواز آنے لگتی۔ کبھی اسے کسی پردے کے پیچھے دو خوبصورت ننھے ننھے پاؤں حرکت کرتے نظر آ جاتے۔ اویس وہاں جا کر اور اس طرف پشت کر کے آواز دیتے۔

                فیضان کہاں ہے؟……پیارا بیٹا کہاں ہے……؟

                فیضان کے لئے اب اپنے آپ پر مزید قابو پانا مشکل ہو جاتا اور وہ اپنی معصوم سی آواز میں زور سے ہاؤ کہتا ہوا ان کے پیروں سے لپٹ جاتا۔ اویس یہ ظاہر کرتے کہ وہ اس زور دار آواز سے اور اس کے اچانک لیٹ جانے سے سہم گئے ہیں۔ اس پر فیضان کہتا ارے یہ تو میں ہوں آپ کا بیٹا……اویس اسے گود میں اٹھا کر اپنے سے لپٹا لیتے۔ اب فیضان انہیں سلام کرتا۔ سلام کا جواب دیتے ہوئے وہ اسے پیار کرتے۔ اسماءکبھی تو ایک طرف کھڑی ہوئی یہ سارا منظر  مسکراتے ہوئے دیکھتی رہتیں، کبھی وہ اویس کو بچوں کے درمیان چھوڑ کر کچن میں چلی جاتیں اور کھانا لگانے کی تیاریاں شروع کر دیتیں۔

                اویس احمد کمپیوٹر اور دیگر بزنس مشینوں کا کاروبار کرنے والی ایک فرم کے مالک ہیں۔ اویس احمد نے تعلیم سے فراغت کے چند سالوں بعد ابتداءمیں تھوڑے سرمائے سے کراچی میں ذاتی کاروبار کا آغاز کیا۔ آٹھ دس سال کے اندر اندر ان کا کاروبار اتنا بڑھا کہ انہیں نہ صرف کراچی میں پہلے کی نسبت ایک بڑی جگہ پر اپنا آفس اور شوروم قائم کرنے کی ضرورت پیش آئی بلکہ ان کی کمپنی کے ذیلی دفاتر لاہور اور اسلام آباد میں بھی قائم ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد اویس نے سوفٹ وئیر ڈویلوپمنٹ کا شعبہ بھی قائم کر لیا۔ اس شعبہ میں اویس کے کاروباری تعلقات پاکستان کے علاوہ امریکہ، یورپی ممالک، متحدہ عرب امارات، مصر، سنگا پور، ملائیشیا وغیرہ تک پھیل گئے۔ اویس نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا تھا۔ ایم بی اے کرنے کے بعد تین سال تک انہوں نے ایک بڑی کمپنی میں بحیثیت اسسٹنٹ منیجر مارکیٹنگ ملازمت کی پھر اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا۔ اویس کی عملی زندگی کا آغاز ہی ہوا تھا کہ ان کے والدین نے شادی پر اصرار شروع کر دیا اور ان کے لئے خاندان کی ایک لڑکی اسماءکو پسند کیا۔ پھر ایک روز اویس بڑی دھوم دھام سے اسماءکو اپنی رفیقہ حیات بنا کر گھر لے آئے۔ گو کہ یہ شادی خالصتاً والدین کی طے کردہ تھی مگر ایک دوسرے کو پا کر دونوں کو ایسا لگا جیسے انہوں نے گوہر مقصود پا لیا ہو۔ اسماءایک نیک دل اور خدا ترس خاتون تھیں۔ بزرگوں کا احترام کرنے والی، چھوٹوں سے شفقت کے ساتھ پیش آنے والی، سگھڑ اور سلیقہ مند۔ شادی کے ابتدائی مہینوں میں جبکہ اویس ملازمت کرتے تھے، اس وقت بھی مالی لحاظ سے کوئی تنگی نہ تھی۔ پھر جب اویس نے کاروبار شروع کیا تو چند سالوں میں پیسے کی فراوانی ہو گئی۔ اس کے باوجود اسماءبے جا نمود و نمائش اور فضول خرچی سے گریز کرتیں۔

                اویس اور اسماءکو اللہ تعالیٰ نے خوبصورت، ذہین اور سعادت مند اولاد کی نعمت سے بھی خوب نوازا۔ ان کے چار بچے ہیں۔ دو بیٹے، دو بیٹیاں۔ چاروں زیر تعلیم ہیں۔ اس وقت بڑا بیٹا نعمان نویں کلاس میں تھا۔ چھوٹی بیٹی سندس ساتویں کلاس میں، اس کے بعد بیٹی امل چوتھی کلاس میں اور سب سے چھوٹا بیٹا فیضان کے جی ٹو میں۔

                نعمان پڑھائی کے لحاظ سے ایک اوسط درجہ کا طالب علم تھا۔ وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ اسکول میں ہونے والی مختلف غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتا۔ گذشتہ سال اسکول میں منائے جانے والے اسٹوڈنٹ ویک میں اس نے تقریر اور بیت بازی کے مقابلوں میں اپنی کلاس کی نمائندگی کی۔ تقریر میں اس نے اسکول میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ البتہ بیت بازی میں کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکا۔

                بڑی بیٹی سندس پڑھائی میں تیز تھی لیکن اسے غیر نصابی سرگرمیوں سے زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ گھر میں وہ زیادہ وقت پڑھائی میں مصروف رہتی۔ کبھی کبھار اپنی امی کے ساتھ کچن میں جا کر ان کا ہاتھ بھی بٹا دیتی۔

                چھوٹی بیٹی امل شرارتی اور کھیل کود کی شوقین تھی۔ اسے مِس بننے کا شوق تھا۔ اس نے ایک رجسٹر میں بہت سے بچوں کے نام لکھے ہوئے تھے۔ وہ روز اسکول سے آ کر یہ رجسٹر کھولتی اور ایک ایک نام پکار کا اٹینڈینس لیا کرتی تھی۔ امل گڑیوں کے ساتھ کھیل کر بھی بہت خوش ہوتی تھی۔ اس کے پاس چھ یا سات مختلف گڑیاں تھیں، امل نے ہر گڑیا کے الگ الگ نام رکھے ہوئے تھے۔

                فیضان سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے ماں باپ اور بھائی بہنوں کا بہت لاڈلا تھا۔ وہ بڑا پھرتیلا اور حاضر جواب تھا۔ اس کی پیاری پیاری باتوں سے سب ہی محظوظ ہوتے تھے۔ فیضان بعض اوقات اویس یا اسماءسے بڑے دلچسپ سوالات کیا کرتا۔

                اویس رات  کے کھانے کے بعد اکثر اپنے گھر والوں کے ساتھ ایک محفل جماتے۔ موقع کی مناسبت سے یہ محفل کبھی مختصر ہوتی اور کبھی دیر تک جاری رہتی۔ اس دوران بیوی کی دن بھر کی روداد، بچوں کے اسکول کی باتوں سے لے کر تازہ ترین خبروں اور حالات و واقعات پر تبصرہ بھی ہوتا۔

                اویس اپنے بچوں سے ان کی تعلیمی سرگرمیوں اور کھیل کود کے بارے میں گفتگو کے ساتھ دیگر موضوعات پر بھی باتیں کرتے۔ لڑکوں کے شوق کمپیوٹر، موٹر سائیکل، کرکٹ، پتنگ بازی، جانوروں کا پالنا وغیرہ جبکہ لڑکیوں کے شوق میں کمپیوٹر، انٹیریئرڈیکوریشن، گڑیا، کچن اور مِس بننا وغیرہ پر باتیں ہوتیں۔ اویس اپنے بچوں کو اپنے ساتھ پیش آنے والے بعض دلچسپ واقعات بھی سناتے۔ اس کے علاوہ بچوں کی تعلیمی اور تربیتی ضرورت سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ مختلف سماجی و معاشرتی موضوعات، دینی معاملات اور ملکی صورتحال پر بھی گفتگو کیا کرتے۔ چھٹی کا پورا دن اویس عموماً گھر پر ہی گزارتے اور بیوی بچوں کے ساتھ کھیل کود اور گپ شپ کیا کرتے۔ اویس اور اسماءکی اپنے بچوں کے ساتھ گفتگو بھی بڑی دلچسپ ہوا کرتی تھی۔

                اویس بزرگوں سے بھی بہت عقیدت رکھتے تھے۔ اسماءبھی ان کی ہم خیال تھیں۔ اویس ڈاکٹر غلام جیلانی برق، خواجہ شمس الدین عظیمی، ڈاکٹر حمید اللہ، ممتاز مفتی، اشفاق احمد اور دیگر دانشوروں کی تحریریں بہت ذوق و شوق سے پڑھتے۔ انہیں شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ، بابا غلام فریدؒ اور علامہ اقبالؒ کا کلام بہت پسند تھا۔ اویس نے مثنوی مولانا روم کا مطالعہ بھی کیا ہوا تھا۔

                اویس اکثر عظیمی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ کبھی اکیلے ہی ان کے پاس چلے جاتے اور کبھی اسماءاور بچوں کو ساتھ لے جاتے۔ عظیمی صاحب ان سب سے بہت شفقت سے پیش آتے۔

                خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی عمر اس وقت ستر سال سے زائد ہے۔ قرآنی علوم میں روحانی نقطہ نگاہ سے تفکر اور روحانیت ان کے خصوصی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ انہوں نے روحانی علوم کے فروغ کے لئے بہت لگن اور بڑی محنت سے کام کیا۔ ملکی و غیر ملکی اخبارات و رسائل میں ان کی تحریریں شائع ہوئیں۔ روحانیت و تصوف کے موضوعات پر کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔ ان کے قارئین اور عقیدت مندوں کا ایک وسیع حلقہ ہے جو پاکستان کے علاوہ دنیا  کے کئی ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ عظیمی صاحب کے مریدین اور قریبی عقیدت مند احتراماً انہیں بابا جی یا ابا جی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ اویس کے بچے بھی ان سے بہت مانوس تھے اور انہیں بہت پیار اور اپنائیت سے بابا جی کہتے۔ عظیمی صاحب ایک عمر رسیدہ شخص ہیں لیکن اویس نے انہیں ہمہ وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف ہی دیکھا۔ وہ جوانوں کی طرح چاق و چوبند اور فعال نظر آتے۔ اویس نے نہ صرف روحانی لحاظ سے ان سے فیض حاصل کیا بلکہ عملی زندگی بہتر طور پر گزارنے کے لئے ان سے بہت کچھ سیکھا۔

 

 

 

 

 


 


MUALIM

ڈاکٹر وقاریوسف عظیمیؔ

وقار یوسف عظیمی، میرے بیٹے، میرے لخت جگر ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیائؒ کی گود میں کھیلے ہوئے ہیں۔ اپنا بچپن قلندر باباؒ کی انگلی پکڑ کر گزارا ہے۔ جوانی میں ان کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔                مجھے خوشی ہے کہ ان کے قلم کو قدرت نے یہ وصف بخشا ہے کہ ’’معلم‘‘ جیسی کتاب منظر عام پر آ گئی ہے……اظہار بیان، سادہ اور دلنشین ہے۔

                کسی کتاب کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قاری کو اکتاہٹ نہ ہو اور کتاب کا پس منظر کتاب پڑھتے وقت آپ کے سامنے فلم بن جائے۔ تحریر کے الفاظ اگر کردار بن جائیں اور ان کرداروں میں جان پڑ جائے تو اس بات کی علامت ہے کہ مولف یا مصنف دل گداز اور صاحب طرز قلمکار ہے۔                میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب میرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیائؒ کی تربیت کا کمال ہے کہ حکیم وقار یوسف عظیمیؔ نے اتنی اچھی کتاب تحریر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ آمین

                                                                                                                                                 خواجہ شمس الدین عظیمیؔ

                مرکزی مراقبہ ہال

                سرجانی ٹاؤن۔ کراچی