Topics

عید کی نماز


                                تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف معاشروں میں خوشی اور مسرت کے اظہار کے لئے کسی کامیابی کی یاد منانے کے لئے، قوم میں صحت مند روایات کو فروغ دینے کے لئے تہوار منانا قدیم ترین دور سے چلا آ رہا ہے۔ مختلف قوموں اور معاشروں کے تہوار الگ الگ انداز لئے ہوئے ہوتے ہیں جن سے اس قوم کے مزاج، رہن سہن اور رسوم و رواج کا اندازہ ہوتا ہے۔ قدیم دور سے چلے آ رہے بعض تہوار مذہبی روایات سے منسلک ہیں جبکہ بعض تہوار کسی خاص واقعہ کی یاد میں منائے جاتے ہیں۔

                قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ گذشتہ کئی قومیں تہوار منایا کرتی تھیں۔ ابوالانبیاءحضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں ان کی قوم سال میں ایک مرتبہ تہوار منایا کرتی تھی۔ اس تہوار کے موقع پر شہر سے باہر تین دن تک میلہ لگا کرتا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر خوشیاں مناتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بھی سال میں ایک مرتبہ تہوار منایا کرتی تھی جس کا ذکر قرآن میں یوم الزینہ کے نام سے کیا گیا ہے۔

            امت مسلمہ کا تہوار

                حضرت محمد مصطفیٰﷺ ہجرت کے بعد یثرب تشریف لائے تو آپﷺ کی آمد کی وجہ سے اس شہر کا نام مدینۃ النبی ہو گیا۔ اس وقت مسلم قوم اور مسلم تہذیب کی بنیادیں پڑ رہی تھیں۔ ہجرت سے کچھ عرصہ قبل تک اس شہر کی آبادی مشرکین، یہود اور کچھ ان لوگوں پر مشتمل تھی جو اللہ کی وحدانیت پر ایمان رکھتے تھے۔

                رسول اللہﷺ کے اعلان نبوت سے پہلے کا دور زمانہ جاہلیت کہلاتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں اہل یثرب سال میں دو مرتبہ تہوار منایا کرتے تھے اس موقع پر کھیل تماشے ہوتے اور خوشیاں منائی جاتیں۔ نبی کریمﷺ نے مدینہ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے دریافت فرمایا کہ یہ دو دن کیسے ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم ان دو دنوں میں زمانہ جاہلیت میں خوشیاں منایا کرتے تھے۔ اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو ان سے بہتر دن عطا فرمائے ہیں۔ عید الفطر اور عیدالاضحیٰ۔

                امت مسلمہ نے رسول اللہﷺ کے ساتھ سن دو ہجری میں تاریک کی سب سے پہلی عیدالفطر کی نماز ادا کی۔ یہ وہی سال ہے جس میں رمضان کے روزے امت مسلمہ پر فرض ہوئے۔ اسی مہینہ میں جبکہ مٹھی بھر مسلمان تاریخ اسلام میں پہلی بار رمضان کے روزے رکھ رہے تھے مکہ کے کفار نے مدینہ منورہ پر مسلح حملہ کر دیا۔ مسلمانوں کو اپنے دفاع کے لئے باہر نکلنا پڑا۔ مسلمانوں اور کفار کے درمیان مدینہ سے اسی میل دور بدر کے مقام پر مسلح مقابلہ ہوا جس میں کفار کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی۔ مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی۔ اس معرکہ میں رسول اللہﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی۔ اس معرکہ کو غزوہ بدر کہا جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے پہلی عید الفطر کی نماز غزوہ بدر سے واپسی کے آٹھ دن بعد یکم شوال سن دو ہجری کو ادا فرمائی۔ یہ امت مسلمہ کا پہلا تہوار یا پہلی عید تھی۔ اس سے پہلے مسلمان اجتماعی خوشی کے اظہار کے لئے کوئی تہوار نہ مناتے تھے۔

                عیدالفطر کی نماز رمضان المبارک کے اختتام پر یکم شوال کو اور عیدالاضحیٰ کی نماز دس ذی الحج کو صبح سورج نکلنے کے بعد کھلے میدان یا بڑی مساجد میں ادا کی جاتی ہے۔ عیدالاضحیٰ کی نماز عیدالفطر کی نماز سے پہلے ادا کی جاتی ہے۔ مثلاً کسی عید گاہ میں عیدالفطر کی نماز ساڑھے آٹھ بجے ہوتی ہو تو وہاں عیدالاضحیٰ کی نماز صبح آٹھ بجے ہو گی۔

                نماز عید سے پہلے اذان اور اقامت نہیں ہوتی۔ صبح وقت مقررہ پر مسلمان نماز کی جگہ جمع ہو جاتے ہیں اور باجماعت دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں۔ عید کی نماز کی پہلی اور دوسری رکعت میں تین تین تکبیریں زائد کہی جاتی ہیں۔ عید کی نماز با جماعت ادا کرنا ضروری ہے۔ یہ نماز تنہا ادا نہیں کی جاتی۔

                رسول اللہﷺ عیدالفطر کی نماز کے لئے گھر سے روانہ ہونے سے قبل کچھ تناول فرماتے تھے۔ اسی لئے عید کی نماز کے لئے گھر سے نکلنے سے پہلے کچھ میٹھا کھانا سنت ہے۔ عام طور پر اس موقع پر ایک تین یا پانچ چھوارے کھائے جاتے ہیں۔

                رسول اللہﷺ عیدالاضحیٰ کی نماز کے لئے گھر سے روانہ ہوتے وقت کچھ کھاتے پیتے نہیں تھے۔ نماز کے بعد گھر تشریف لا کر کچھ تناول فرماتے۔

                گھر سے عیدالفطر کے لئے جاتے وقت راستے میں یہ تکبیر

                اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر اللّٰہ الحمدo

                ترجمہ: اللہ بہت بڑا ہے۔ اللہ بہت بڑا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے اور سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔

                پڑھتے رہنا چاہئے۔

                عید کی نماز کے لئے مقررہ مقام پر پہنچ کر نماز سے پہلے تک تکبیر کہتے رہیں۔

                نماز کے بعد گھر واپس جاتے ہوئے بھی تکبیر کہنا چاہئے۔

                عیدالفطر میں عید گاہ جاتے اور گھر واپس آتے ہوئے آہستہ آواز سے اور عیدالاضحیٰ میں کچھ بلند آواز سے تکبیر کہنا چاہئے۔

             صدقہ الفطر یا فطرہ

                اللہ اور اللہ کے رسولﷺ چاہتے ہیں کہ امت کے تمام لوگ چاہے وہ امیر ہوں یا غریب مل کر خوشیاں منائیں۔ خصوصاً تہوار کے موقع پر امت کے امیر اور خوشحال لوگوں کا فرض ہے کہ غریب مسلمانوں کا خاص طور پر خیال رکھیں۔ رسول اللہﷺ نے اس مقصد کے لئے ایک اہتمام صدقۃ الفطر کی شکل میں کیا ہے۔

                صدقۃ الفطر خوشحال گھرانوں کے لئے تمام افراد پر فرض ہے۔ اس میں بڑے بچے سب شامل ہیں۔ مثال کے طور پر ایک گھر میں ماں باپ اور تین بچے ہیں۔ اس گھر کے پانچ افراد کی طرف سے صدقۃ الفطر یا فطرہ ادا کیا جائے گا۔ حتیٰ کہ یکم شوال کی رات پیدا ہونے والے بچہ کی طرف سے بھی اس کے والدین فطرہ ادا کریں گے۔

                فطرہ کی مقدار ایک شخص کے لئے ۲ سیر ۳ چھٹانک گیہوں یا آٹا یا اس کی قیمت ہے۔ صدقہ فطر اپنے شہر یا گاؤں کے غریب محتاجوں، مساکین وغیرہ کو دینا چاہئے۔ دینی مدارس یا دیگر فلاحی کاموں میں بھی صدقہ فطر دیا جا سکتا ہے۔ بہتر ہے کہ صدقہ فطر عید سے پہلے ادا کر دیا جائے۔ اگر کسی وجہ سے ایسا نہ ہو سکے تو نماز عید سے پہلے ضرور ادا کر دینا چاہئے۔

            نماز اور خطبہ

                نبی کریمﷺ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن عید گاہ تشریف لا کر دو رکعت نماز کی امامت فرماتے۔ نماز کے بعد آپﷺ لوگوں کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو جاتے۔ لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے۔ رسول اللہﷺ لوگوں کو وعظ و تلقین فرماتے، وصیت کرتے اور ضروری احکام صادر فرماتے۔ جمعہ کی نماز میں خطبہ باجماعت نماز سے پہلے دیا جاتا ہے جبکہ نماز عید میں خطبہ دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد ہوتا ہے۔

                نماز سے پہلے نیت کی جائے۔ نیت اس طرح کی جا سکتی ہے۔

                نیت کرتا ہوں میں دو رکعت نماز واجب عیدالفطر کی چھ زائد تکبیر کے ساتھ۔ اللہ کے لئے منہ میرا کعبہ شریف کی طرف پیچھے اس امام کے۔

                جب امام اللہ اکبر کہیں تو نماز میں شامل تمام افراد اللہ اکبر کہہ کر حسب معمول ہاتھ باندھ لیں اور ثناءتعوذ اور تسمیہ پڑھیں۔

                ثناءکے بعد امام صاحب اللہ اکبر کہیں گے۔ تمام مقتدی امام کی پیروی کرتے ہوئے ہاتھ کانوں تک لائیں اور

                اللہ اکبر

                کہہ کر ہاتھ نیچے لا کر کھلے چھوڑ دیں۔ دوسری مرتبہ پھر ہاتھ اٹھا کر کانوں تک لا کر

                اللہ اکبر

                کہیں اور ہاتھ کھلے چھوڑ دیں۔ تیسری مرتبہ ہاتھ اٹھا کر کانوں تک لائیں اور

                اللہ اکبر

                کہہ کر ہاتھ ناف کے اوپر باندھ لیں جیسے کہ دوسری نمازوں میں باندھتے ہیں۔ اب امام صاحب سورہ فاتحہ اور اس کے بعد کوئی قرآنی آیات بلند آواز میں قرأت کریں گے۔ اس کے بعد امام صاحب

                اللہ اکبر

                کہہ کر رکوع میں جائیں گے مقتدی بھی امام کی پیروی میں اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع میں جائیں ، رکوع کے بعد حسب معمول دو سجدے ادا کریں۔

                دوسری رکعت میں کھڑے ہونے کے بعد امام صاحب سورۃ فاتحہ اور کسی دوسری سورۃ کی بلند آواز میں قرأت کریں گے۔ قرأت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے

                اللہ اکبر

                کہیں گے۔ مقتدی امام صاحب کی پیروی میں اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کانوں تک لا کر نیچے کر کے کھلے چھوڑ دیں۔ اسی طرح مزید دو مرتبہ

                اللہ اکبر

                کہہ کر ہاتھ کھلے چھوڑ دیں۔ چوتھی مرتبہ امام صاحب

                اللہ اکبر

                کہہ کر رکوع میں جائیں گے۔ مقتدی بھی امام کی پیروی میں اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں چلے جائیں اور باقی نماز حسب معمول ادا کریں گے۔

                سلام کے بعد امام صاحب حاضرین کی طرف رخ کر کے کھڑے ہونگے اور خطبہ پڑھیں گے۔ یہ خطبہ نماز عید کا حصہ ہے۔ صرف دو رکعت نماز ادا کرکے عید گاہ سے جانے کے لئے اٹھ کھڑے نہ ہوں بلکہ پوری توجہ، خاموشی اور ادب و احترام کے ساتھ خطبہ سنئے۔ امام صاحب جمعہ کی طرح خطبہ کے درمیان تھوڑی دیر کے لئے بیٹھیں گے اور پھر اٹھ کر خطبہ دیں گے۔ اس خطبہ کے اختتام پر نماز عید پوری ہو جاتی ہے۔ نماز اور خطبہ کے بعد اٹھ کر باہم سلام و دعا اور میل ملاقات کی جائے اور ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دی جائے۔

                عیدالفطر کا تہوار اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر کے جذبات کا اظہار ہے۔ رمضان کے مقدس اور مبارک مہینہ میں روزے رکھنے کی توفیق ہوئی۔ تراویح میں قرآن پاک سننے، قرآن پڑھنے کی سعادت ملی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا ہوئی۔ جس سے معاشرہ کے مالی طور پر کمزور افراد اور دینی و فلاحی اداروں کی مالی مدد ممکن ہو سکی۔ یہ سب کام اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس مبارک مہینہ کے اختتام پر مسلمان اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور اجتماعی طور پر خوشیاں  منانے کے لئے عیدالفطر کا تہوار مناتے ہیں۔ یہ تہوار منانے کے لئے بچے بڑے مرد عورت غرض تمام مسلمان خوب تیاریاں اور اہتمام کرتے ہیں۔ نئے کپڑے بنواتے ہیں، عبادت کے ساتھ ساتھ عید منانے کی تیاریاں بھی زور و شعور سے جاری رہتی ہیں۔ رمضان میں بازاروں میں بھی خوب رونق اور چہل پہل رہتی ہے۔ عرب ممالک میں تو رمضان کے مہینہ میں بازار رات کو سحری کے وقت تک کھلے رہتے ہیں۔ لوگ تراویح کے بعد خریداری کے لئے نکلتے ہیں۔ پاکستان میں بازار صبح سے لے کر رات گئے تک کھلتے ہیں۔ عیدالفطر کے موقع پر کپڑوں، جوتوں، پرفیومز، گھر کے ڈرائنگ روم کے سامان اور گھریلو سجاوٹ کی دیگر اشیاءکی بہت بڑے پیمانے پر خریداری ہوتی ہے۔ عیدالفطر کی وجہ سے ملک کی صنعتی پیداوار اور تجارتی سرگرمیوں میں بہت اضافہ ہوتا ہے۔ اس تہوار کا ملکی معیشت پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔ لاکھوں لوگوں کو روزگار کے مواقع ملتے ہیں۔ عوام کی خوشحالی میں اضافہ ہوتا ہے۔

            عیدالاضحیٰ

                مسلمانوں کا دوسرا اہم تہوار عیدالاضحیٰ ہے۔ یہ دن سنت ابراہیمی کی تجدید کا دن ہے۔ یہ دن امت مسلمہ کو اس واقعہ کی یاد دلاتا ہے جب اللہ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کر دینے پر تیار ہو گئے تھے۔

                عیدالاضحیٰ کے موقع پر ہر صاحب نصاب مسلمان پر قربانی کرنا واجب ہے۔

                صاحب نصاب مسلمان کا مطلب کیا ہے؟

                صاحب نصاب مسلمان کا مطلب ہے ایسا فرد جس کی ذاتی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر کا مال موجود ہو۔ یہ مال چاہے خالص سونا یا چاندی کی شکل میں ہو، نقد ہو، زیورات ہوں، تجارتی سامان ہو یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان ہو۔

                عیدالاضحیٰ میں قربانی سنت ابراہیمی کی یاد میں کی جاتی ہے۔ اللہ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک روز خواب دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کر رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اس خواب کا ذکر اپنے فرزند سے کیا۔ اللہ کی محبت میں سرشار عظیم باپ کے عظیم بیٹے اسماعیل نے اپنے والد سے کہا کہ آپ اس خواب پر عمل کیجئے مجھے آپ ثابت قدم پائیں گے۔

                یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر کی اطاعت ربی کی لازوال مثال ہے۔

                ایک مشرک پرست معاشرہ میں صدائے توحید بلند کرنے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی آغاز جوانی سے ہی شدید مشکلات و مصائب میں گھری رہی۔ کلمہ توحید بلند کرنے کی پاداش میں انہوں نے اپنے عزیز و اقارب اور گھر بار چھوڑ کر مہاجرت کی صعوبتیں برداشت کیں۔ کلمہ حق کہنے کے ’’جرم‘‘ میں دہکتی ہوئی آگ میں ڈالے گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ساری جوانی بے اولاد رہے۔ بڑھاپے میں انہیں اللہ تعالیٰ نے ایک فرزند اسماعیل عطا کیا۔ اب انہیں دشمنوں کی ایذا رسانیوں سے کچھ آرام مل گیا تھا۔ ایسے میں ان کے ایمان و اخلاق کی مزید آزمائش ہوئی اور بوڑھے باپ کو جوان بیٹے کی قربانی کا اشارہ ملا۔ یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام اس میں بھی کامیاب رہے۔

                اللہ کی راہ میں قربانی پیش کرنے کے لئے دونوں باپ بیٹے گھر سے روانہ ہوئے۔ راستہ میں شیطان نے انہیں ورغلانے کی کوشش کی لیکن یہ دونوں عظیم باپ بیٹے استقامت کے ساتھ اپنی راہ پر گامزن رہے۔ ایک جگہ پہنچ کر انہوں نے قربانی کا قصد کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل کو ماتھے کے بل لٹا دیا اور اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی تا کہ اس قربانی کے دوران کسی مرحلہ پر ان کا ذہن محبت کے فطری جذبات سے مغلوب نہ ہو جائے۔

                ابھی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بڑھاپے کی عمر میں اپنے نو عمر بیٹے اسماعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے ہاتھ بلند ہی کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ اسماعیل کی جگہ ایک مینڈھا لٹا دیا جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چھری پھیر کر آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو دیکھا کہ ان کا لخت جگر ان کا پیارا بیٹا اسماعیل صحیح سلامت مسکرا رہا ہے اور اس عظیم فرزند کی جگہ ایک مینڈھا ذبح ہوا پڑا ہے۔

                اس واقعہ کا ذکر قرآن پاک میں سورہ صفٰت میں ہے۔

                فبشرنہ بغلم حلیمoفلما بلغ معہ السعی قال ینبی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ما ذاتری قال یابت افعل ماتومرستجدنی ان شاءاللّٰہ من الصبرینoفلما اسلما وتلہ للجبینoونادینہ ان یابرھیمoقد صدقت الرءیا اناکذلک نجزی المحسنینoان ھذا لھوالبلؤالمبینoوقدینہ بذبح عظیمoوترکنا علیہ فی الاخرینoسلم علی ابراہیمoکذلک نجزی المحسنینoانہ من عبادناالمومنینoوبشرنہ باسحٰق نبیا من الصلحینo

                (سورہ صٰفٰت۔ آیت۔101۔112)

                ترجمہ: ہم نے ان کو (ابراہیم کو) ایک نرم دل لڑکے کی بشارت دی۔ جب وہ ان کے ساتھ دوڑنے کی عمر کو پہنچا تو ابراہیم نے کہا کہ بیٹا میں خواب دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کر رہا ہوں۔ تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے۔ انہوں نے کہا۔ ابا! آپ کو جو حکم ہوا آپ وہ کیجئے انشاءاللہ مجھے آپ صابروں میں پائیں گے۔ جب دونوں نے حکم مان لیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا تو ہم نے ان کو پکارا کہ اے ابراہیم! تم نے خواب سچا کر دکھایا۔ ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ بنا دیا۔ اور پیچھے آنے والوں میں ابراہیم کا ذکر باقی چھوڑ دیا۔ ابراہیم پر سلام ہو۔ نیکاکاروں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔

                اللہ تعالیٰ کو اپنے ان پیارے بندوں کی تسلیم و رضا کی ادا اس قدر اچھی لگی کہ اس نے دنیا تک اس واقعہ کی یادگار قائم کر دی۔ امت مسلمہ ہر سال اسی سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرتی ہے۔ اس میں ہر مسلمان زبان سے بھی یہ اقرار کرتا ہے کہ اس کی زندگی موت اولاد مال و اسباب سب کچھ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے۔

                حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل کی اس قربانی نے انسانی تہذیب و معاشرت پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ مشرک معاشروں میں یہ رواج تھا کہ دیوی دیوتاؤں کے نام پر انسانی قربانی دی جاتی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ خالصتاً اللہ کے لئے قربانی پیش کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قربانی کے جذبہ کو سراہتے ہوئے انسانی خون بہے بغیر اس قربانی کو قبول فرما لیا۔ بدلہ میں ایک جانور کی قربانی دی گئی۔

                حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل کے اس عمل سے ایک تو یہ پیغام ملا کہ ہر قسم کی قربانی اللہ وحدہ لاشریک کے لئے ہے۔ اس قربانی نے قربانی کی اہمیت برقرار رکھتے ہوئے انسانی معاشروں کو انسانی جان کی حرمت و تقدس کا سبق دیا۔

                اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبران کرام انسانی تہذیب کے اولین معمار ہیں۔ پیغمبروں کی طرز فکر اور طرز عمل سے انسانی معاشروں نے ارتقاءحاصل کیا ہے۔

                حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل کی اس عظیم قربانی سے پہلے مشرک معاشروں کے مذہبی پیشوا اور صاحبان اقتدار ذاتی اغراض و مقاصد کے لئے اپنے بتائے گئے ضابطوں کی تکمیل، اپنی انا کی تسکین، عوام الناس کو اپنا مجبور و منحصر رکھنے کے لئے مذہب کے نام پر کمزوروں کا استحصال کیا کرتے تھے۔ ان کے ایسے ہی حربوں میں سے ایک انسانوں کی تذلیل اور انہیں حقیر سمجھنے والا عمل دیوی دیوتاؤں کے نام پر کسی مجبور اور کمزور انسان کی قربانی بھی تھا۔

                حضرت اسماعیل کی جگہ مینڈھے کی قربانی سے انسانی جانوں کی قربانی کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ عرب اور دنیا کے مختلف خطوں میں جانوروں کی قربانی کا رواج ہو گیا۔

                نبی کریمﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہر سال قربانی کی۔ حجتہ الوداع کے موقع پر آپ نے مناسک حج کی ادائیگی کے دوران قربانی کی۔

            قربانی کی دعا

                اللہ کے پسندیدہ دین اسلام نے قربانی کا جو فلسفہ بیان کیا ہے وہ ان الفاظ سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے جو قربانی کے وقت ادا کئے جاتے ہیں۔

                انی وجھت وجھی للذی فطر السموت والارض حنیفا وما انا من المشرکین

                (سورہ الانعام۔ آیت 80)

                ترجمہ: میں نے یکسو ہو کر اپنا رخ اس کی طرف پھیر دیا جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے۔ میں ان کے ساتھ شریک ٹھہرانے والوں میں سے نہیں ہوں۔

                ان صلانی ونسکی و محیای و مماتی للّٰہ رب العلمینoلاشریک لہ و بذلک امرت و انا اول المسلمینo

                (سورہ الانعام۔ آیت 163-164)

                ترجمہ: میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اللہ پروردگار عالم کے لئے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کا حکم مجھے قبول ہے اور میں اللہ کے فرمانبردار بندوں میں سے ہوں۔ الٰہی یہ تیرا ہی دیا ہوا مال ہے اور تیرے لئے حاضر ہے۔

                بسم اللّٰہ اللّٰہ اکبر

                اللہ کی راہ میں قربانی کا اصل تصور یہی ہے کہ ہر بندہ اپنے رب کے نام پر اپنی سب سے قیمتی شئے کو بھی قربان کر دینے کے لئے ہر وقت تیار ہے۔

                قربانی کے بعد یہ دعا پڑھی جائے۔

                اللّٰھم تقبلہ منی کما تقبلت من حبیبک محمد و خلیلک ابراہیم علیھما الصلوٰۃ والسلام

 

 

 

 


MUALIM

ڈاکٹر وقاریوسف عظیمیؔ

وقار یوسف عظیمی، میرے بیٹے، میرے لخت جگر ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیائؒ کی گود میں کھیلے ہوئے ہیں۔ اپنا بچپن قلندر باباؒ کی انگلی پکڑ کر گزارا ہے۔ جوانی میں ان کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔                مجھے خوشی ہے کہ ان کے قلم کو قدرت نے یہ وصف بخشا ہے کہ ’’معلم‘‘ جیسی کتاب منظر عام پر آ گئی ہے……اظہار بیان، سادہ اور دلنشین ہے۔

                کسی کتاب کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قاری کو اکتاہٹ نہ ہو اور کتاب کا پس منظر کتاب پڑھتے وقت آپ کے سامنے فلم بن جائے۔ تحریر کے الفاظ اگر کردار بن جائیں اور ان کرداروں میں جان پڑ جائے تو اس بات کی علامت ہے کہ مولف یا مصنف دل گداز اور صاحب طرز قلمکار ہے۔                میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب میرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیائؒ کی تربیت کا کمال ہے کہ حکیم وقار یوسف عظیمیؔ نے اتنی اچھی کتاب تحریر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ آمین

                                                                                                                                                 خواجہ شمس الدین عظیمیؔ

                مرکزی مراقبہ ہال

                سرجانی ٹاؤن۔ کراچی