Topics

اللہ کو دیکھنا


                عصر کے بعد عظیمی صاحب مسجد سے باہر آئے۔ اویس، نعمان اور فیضان کو اپنے پاس بلایااور انہیں اپنے ساتھ کمرے میں لے آئے۔ چند اور لوگ بھی ان کے ساتھ اندر آ گئے۔ عظیمی صاحب دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ فیضان کو اپنی گود میں بٹھا لیا۔ دوسرے لوگ ان کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ اس موقع پر اویس نے عظیمی صاحب سے پوچھا۔

                بابا جی! نماز میں یہ کیفیت کہ ہم اللہ کو دیکھ رہے ہیں یا یہ محسوس کرنا کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے، کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟ ہم اس سے تو واقف ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھتے اور سنتے ہیں۔ ہماری کوئی بھی معمولی سے معمولی حرکت یا دل میں چھپی ہوئی بات اللہ تعالیٰ سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود ہم عام طور پر اس کیفیت کو کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے، محسوس نہیں کرتے۔

                نعمان بڑے غور سے اپنے والد کا سوال سن رہا تھا۔ اویس کی بات سن کر عظیمی صاحب دھیرے سے مسکرائے اور شفقت بھری میٹھی میٹھی نظروں سے اویس کی جانب دیکھا۔ جیسے کوئی محبت کرنے والا شفیق باپ اپنے ہونہار بیٹے کے کسی سوال سے بہت خوش ہوا ہو۔ پھر بولے تو ان کے لہجے میں بڑی مٹھاس محسوس ہوتی تھی۔

                کسی بھی کام کو ٹھیک طرح انجام دینے کے لئے اس کی طرف پوری توجہ اور یکسوئی ضروری ہے۔ آپ کمپیوٹر کے ماہر ہیں۔ کوئی کام کرنے کے لئے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھتے ہیں تو آپ کی پوری توجہ اس کام پر ہوتی ہے، کی بورڈ پر آپ کی انگلیاں بظاہر تو غیر ارادی طور پر حرکت کر رہی ہوتی ہیں لیکن درحقیقت آپ کا ذہن آپ کی انگلیوں کی حرکت کو کنٹرول کر رہا ہوتا ہے۔ آپ کی نظریں سامنے مانیٹر پر ہوتی ہیں۔ آپ کی نظریں مانیٹر پر، انگلیاں کی بورڈ پر اور ذہن میں وہ پروگرام یا جاب ہے جس پر آپ اس وقت کام کر رہے ہیں۔ اس وقت آپ پورے انہماک کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہوتے ہیں۔

                جی بابا جی! آپ نے بالکل درست فرمایا۔ اویس  نے ادب سے کہا۔

                کمپیوٹر پر کوئی جاب کرتے وقت بعض اوقات گھنٹوں گزر جاتے ہیں۔ نہ وقت گزرنے کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی تھکن محسوس ہوتی ہے۔

                بالکل درست!

                سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اویس اور کمرہ میں موجود دوسرے لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

                کمپیوٹر میں ہماری دلچسپی ہمیں وقت گزرنے کا احساس نہیں ہونے دیتی۔ اویس نے جواب دیا۔

                ٹیلیویژن پر کوئی پسندیدہ پروگرام آ رہا ہو، کرکٹ، ہاکی، فٹ بال کا کوئی بہت اہم میچ ہو رہا ہو تب بھی وقت گزرنے کا احساس نہیں رہتا۔ ہم ایک طرح سے ارد گرد سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔ اپنے کسی پسندیدہ موضوع پر کوئی اچھی کتاب پڑھتے ہوئے بھی ہماری یہی کیفیت ہوتی ہے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی کتاب کے مطالعے کے دوران وقت گزرنے کا احساس تو ایک طرف بھوک پیاس کا خیال بھی نہیں آتا۔

                اس کتاب میں آخر ایسی کیا بات ہوتی ہے جو جسم انسانی کی اہم ضروریات سے بھی غافل کر دیتی ہے؟ عظیمی صاحب نے ایک بار پھر حاضرین سے سوال کیا۔

                اس کتاب میں دلچسپی۔ کمرہ میں موجود ایک صاحب نے جن کا نام حسام تھا، بتایا۔

                کتاب کے موضوع اور اس کے مندرجات کے ساتھ ذہنی تعلق۔ نعمان بھی بولا۔

                شاباش! اور سوچو اور بتاؤ۔

                تسکین اور فرحت کا احساس، کچھ پانے کا احساس کیونکہ جب ہم کوئی کتاب پڑھتے ہیں خواہ وہ کسی بھی موضوع پر ہو، ہماری معلومات میں تو بہرحال اضافہ ہوتا ہے۔ محفل میں موجود ایک نوجوان شاعر ندیم نے اظہار خیال کیا۔

                علم کا اپنا ایک کیف و سرور ہوتا ہے۔ اپنی پسندیدہ کتاب کا مطالعہ بھی کسی نہ کسی معنوں میں کیف و سرور عطا کرتا ہے۔ بدرنامی ایک نوجوان نے کہا۔

                گویا مطالعہ ایک طرح سے نشہ بھی ہے۔ ندیم نے پھر کہا۔

                کتاب کا پڑھنا، ٹیلیویژن دیکھنا، کمپیوٹر پر کام کرنا تین مثالیں یہاں بیان ہوئی ہیں لیکن یہ تینوں مثالیں ایک جیسی نہیں ہیں۔ کمپیوٹر کی مثال کتاب اور ٹیلی ویژن سے مختلف ہے۔ عظیمی صاحب نے حاضرین کو دعوت فکر دی۔

                یہ مثالیں کس طرح مختلف ہیں؟ دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ گفتگو میں نعمان کے شوق اور توجہ میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔

                ذرا غور کیجئے۔ کتاب آپ پڑھتے ہیں۔ ٹیلی ویژن آپ دیکھتے ہیں لیکن کمپیوٹر پر آپ کام کرتے ہیں۔ اگر آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ کمپیوٹر کس طرح کام کرتا ہے تو آپ کی دلچسپی اور انہماک کمپیوٹر میں قائم نہ ہو گا بلکہ آپ کو اکتاہٹ محسوس ہونے لگے گی۔ مزید یہ کہ صرف یہ جاننا کہ کمپیوٹر کس طرح کام کرتا ہے، کافی نہیں ہے۔ کمپیوٹر پر کام کرنے کے لئے آپ کو کمپیوٹر سے کام لینے کا طریقہ بھی سیکھنا پڑے گا۔ جب تک آپ کمپیوٹر کا استعمال سیکھیں گے نہیں اس وقت تک آپ اس پر توجہ اور یکسوئی سے کام نہیں کر سکتے۔ اس مثال کو سامنے رکھ کر آپ مختلف کاموں میں دلچسپی یا دل لگنے کا اندازہ کرسکتے ہیں۔

                نماز سے صحیح معنوں میں فیض اور برکت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نماز میں آپ کی پوری توجہ اور یکسوئی قائم ہو۔ یہ توجہ اور یکسوئی اس وقت قائم ہو گی جب آپ اس بات سے واقف ہوں گے کہ یہ عبادت یعنی صلوٰۃ کیا ہے۔ کس ہستی کے لئے ہے۔ اس ہستی سے ہمارا کیا تعلق ہے۔ ہمارے ذہن میں یہ بات ہونی چاہئے کہ ہمارا یہ عمل یعنی صلوٰۃ کا قیام کس طرح ٹھیک طور پر ہوگا۔ ہمارے ذہن میں یہ بھی ہونا چاہئے کہ اس عمل کے ٹھیک طور پر ادا ہونے سے کیا نتائج مرتب ہونگے۔

                کمرہ میں موجود سب لوگ توجہ سے عظیمی صاحب کی بات سن رہے تھے۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔

                کمپیوٹر پر کام کرتے وقت انگلیاں، نظریں اور ذہن اپنا اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یعنی اس دوران جسم اور ذہن کو باہم اشتراک و تعاون کرنا ہوتا ہے۔ نماز ایک جسمانی عمل کے ساتھ ساتھ ایک روحانی عمل بھی ہے۔ صلوٰۃ کی ادائیگی کے دوران جسم ذہن اور روح کو اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ اس دوران ایک شخص ان تینوں کے درمیان باہمی رابطہ قائم نہیں کرتا یا اس رابطہ سے بے خبر رہتا ہے تو اسے نماز میں یکسوئی حاصل نہ ہو سکے گی۔

                نماز پڑھنے میں ہم جسم، ذہن اور روح میں رابطہ کیسے قائم کر سکتے ہیں یا اس رابطہ سے کس طرح باخبر ہو سکتے ہیں؟ بدر نے دریافت کرنا چاہا۔

                سب سے پہلے تو اس بات کو اچھی طرح ذہن میں بٹھاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جہاں جہاں بھی صلوٰۃ کا ذکر کیا ہے وہاں پڑھنے کا نہیں بلکہ قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ صلوٰۃ ایک ایسی عبادت نہیں ہے جو محض چند الفاظ یا جملے پڑھنے سے پوری ہو جائے۔ بے شک دوران صلوٰۃ چند قرآنی آیات اور چند مخصوص جملے ایک خصوصی طریقے سے پڑھنا ضروری ہیں۔ لیکن ان قرآنی آیات اور الفاظ کی ادائیگی کے باوجود صلوٰۃ کا مکمل حق محض پڑھنے سے پورا نہیں ہو جاتا۔ کیونکہ صلوٰۃ کے لئے پڑھنے کا نہیں قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ صلوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ یعنی ارکان نماز کیا ہیں اور اس دوران کیا کیا پڑھنا ہے، یہ سیکھنے کے ساتھ ساتھ صلوٰۃ کے قیام کا طریقہ سیکھنے کی طرف بھی بھرپور توجہ دے کیونکہ اس کے بغیر صلوٰۃ کا حق مکمل طور پر ادا نہیں ہوتا۔

                اور جیسا کہ میں نے تھوڑی دیر پہلے عرض کیا تھا کہ آپ کے ذہن میں یہ بات ہونی چاہئے کہ ہمارا یہ عمل یعنی صلوٰۃ کا قیام کس طرح ٹھیک طور پر ہو گا۔ ہمارے ذہن میں یہ بھی ہونا چاہئے کہ اس عمل کے ٹھیک طور پر ادا ہونے کے نتائج کیا ہونگے۔ ہم سے عموماً یہ غلطی سرزد ہوتی ہے کہ ہم نماز پڑھنے پر تو زور دیتے ہیں لیکن اس عبادت کے اپنی زندگی اور اپنے وجود پر اثرات و نتائج کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ اس طرح ہم اس بات سے غافل رہتے ہیں کہ ہم اس عبادت کا حق بھی ادا کر رہے ہیں یا محض رسمی خانہ پُری کر رہے ہیں۔

                کیا نماز کسی خاص مقصد کے حصول کے لئے پڑھی جاتی ہے؟ ہم تو سمجھتے ہیں کہ نماز پڑھنا ضروری ہے۔ کیا نماز ادا کرنے سے ہماری زندگی پر خاص اثرات یا نتائج مرتب ہوتے ہیں؟ نعمان نے پوچھا۔

                کسی عمل کے ٹھیک طرح انجام پانے یا اس میں کسی خامی کے رہ جانے کا اندازہ ہمیں اس عمل کے اثرات و نتائج کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ عملی زندگی کا کون سا کام ہے جسے آپ اس کے نتیجہ سے منسلک نہیں کرتے۔

                بیٹے! کیا آپ صبح یا شام کے وقت ورزش کرتے ہیں۔

                جی میں پابندی سے ورزش کرتا ہوں۔

                آپ کے والدین آپ کی غذا کا پورا خیال رکھتے ہیں!

                جی وہ تو ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں۔

                اگر کسی بچے کی غذا کا پورا خیال رکھا جائے اور وہ پابندی سے ورزش بھی کرتا ہو لیکن اس کے باوجود کا اس کا جسم توانا نظر نہ آئے اور چہرہ پر کمزوری کے آثار ہوں تو کیا والدین فکر مند نہیں ہونگے۔

                جی بالکل۔ میری والدہ تو مسلسل اس بات کا خیال رکھتی ہیں کہ میری صحت ٹھیک رہے جبکہ میرے والدہ دیکھتے رہتے ہیں کہ میں ورزش ٹھیک طریقہ سے کر رہا ہوں یا نہیں۔ وہ اکثر مجھ سے کہتے ہیں کہ بھئی تمہیں خوب فٹ نظر آنا چاہئے۔

                اس کا مطلب ہے کہ تمہارے والدین کے ذہن میں یہ بات ہے کہ جب ان کا بیٹا ٹھیک طرح ورزش کرے گا تو اس کا جسم تندرست و توانا نظر آئے گا۔

                جی بالکل درست۔

                اس کا مطلب بھی یہ ہوا کہ انہوں نے متوازن غذا اور ورزش کے نتیجہ کا تعین اپنے ذہن میں کیا ہوا ہے اور وہ اس کے مطابق تمہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔

                جی آپ نے بالکل درست فرمایا۔

                اگر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہونگے تو وہ فوراً آپ کی طرف متوجہ ہوں گے اور دیکھیں گے کہ آپ ورزش ٹھیک طرح کر رہے ہیں یا نہیں۔

                جی بالکل درست۔

                یعنی مطلوبہ نتائج نہ ملنے سے ان کا ذہن اس طرف گیا کہ ورزش کا عمل ٹھیک طرح ادا نہیں ہو رہا۔ اسی طرح کوئی طالب علم اگر پابندی سے اسکول جائے لیکن اس کے علم اور ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ نہ ہو رہا ہو تو والدین فوراً اس کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ کوئی شخص اگر پابندی سے اپنے کاروبار پر جائے لیکن اسے وہاں سے منافع نہ ملے تو وہ اس طرف توجہ دیتا ہے اور اپنے معاملات و معمولات میں ضروری تبدیلیاں کرتا ہے۔ کیوں؟ عظیمی صاحب نے سوال کیا پھر خود ہی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔

                اس لئے کہ کاروبار میں اپنی محنت اور توجہ کے لئے ایک مخصوص نتیجہ کا اس نے اپنے ذہن میں تعین کیا ہوا ہے اگر کسی وجہ سے کاروبار سے مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں ہوتا تو وہ شخص فوراً اپنی کارکردگی کا جائزہ لیتا ہے اور زیادہ دلجمعی کے ساتھ اپنے کاروبار پر توجہ دیتا ہے۔

                جی آپ نے بالکل درست فرمایا۔

                جب دنیا کے یہ کام جن میں کھیل کود، ورزش، حصول تعلیم، کاروبار یا ملازمت اور دیگر کام شامل ہیں کسی خاص مقصد یا نتیجہ کے تعین کے بغیر نہیں ہوتے تو وہ عبادت جسے ارکان اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے، بغیر مقصد اور نتیجہ کے کس طرح ہو سکتی ہے۔

                پیارے بابا جی! آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں۔ آپ نے بہت خوبصورت اور دلنشین انداز میں ہمیں مقصد کی اہمیت سے آگاہ فرمایا ہے۔ بدر نے نہایت عقیدت کے ساتھ کہا۔

                بابا جی! اب آپ ہمیں بتایئے کہ صلوٰۃ کا مقصد کیا ہے۔ نعمان آج ہی زیادہ سے زیادہ باتیں معلوم کر لینا چاہتا تھا۔

                صلوٰۃ ایک مقصد نہیں بلکہ صلوٰۃ کئی مقاصد یا نتائج حاصل کرنے کا عمل ہے۔ اس کا اعلیٰ اور ارفع نتیجہ یہ ہے کہ یہ بندہ کو خالق و مالک اللہ سے قریب کر دیتا ہے۔

                اس بات پر خاص طور پر غور کرو۔ قرآن اللہ کا کلام ہے۔ نماز اللہ کا حکم ہے۔ انسانی وجود اللہ تعالیٰ کی مرضی یا ارادہ کا مظہر ہے۔ اللہ کا ارادہ، حکم اور کلام جب ایک جگہ مجتمع ہو جائیں تو ایسے میں اس ’’مرکز‘‘ پر یعنی صلوٰۃ قائم کرنے والے بندہ پر اللہ کے انوار و تجلیات کا نزول ہوتا ہے۔ نمازی اللہ کی قربت یا اللہ کے دیکھنے کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ جب یہ احساس گہرا ہو جاتا ہے تو انسان یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ اسی احساس یا نظر کا حصول مومن کے لئے معراج ہے۔

                عظیمی صاحب کی یہ بات سن کر اویس جیسے وجد میں آ گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے وجود میں روشنیاں بھر گئی ہیں۔ عظیمی صاحب اپنی بات مکمل کر کے خاموش ہو گئے تھے۔ کمرہ میں مکمل خاموشی تھی۔ کسی نے کوئی سوال نہ کیا، کوئی بات نہ کی۔ شاید سب لوگ صلوٰۃ کے مقاصد، اللہ کے کلام اور اللہ کی قربت کے بارے میں سوچنے میں محو تھے۔

                صلوٰۃ مومن کی معراج ہے۔ معراج اللہ سے قربت ہے۔ اویس سوچ رہا تھاکہ یہ سوچتے سوچتے اس کی توجہ نبی کریمﷺ کے فرمان کی طرف مبذول ہوئی۔

                صلوٰۃ اس طرح قائم کرو جس طرح مجھے قائم کرتے دیکھا ہے۔

                اویس نے سوچا اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب محمدﷺ کو نوع انسانی کی رہنمائی کے لئے بھیج کر انسانوں پر کتنا بڑا کرم فرمایا ہے۔ نبی کریمﷺ نے بندوں کو اللہ سے قریب کرنے کے راستے پوری وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیئے ہیں اور ان راستوں پر چلنے کے آسان طریقوں سے انسان کو آگاہ کر دیا ہے۔

                اویس کی زبان بے اختیار درود شریف کا ورد کرنے لگی۔

                صلی اللّٰہ تعالیٰ علیٰ حبیبہ محمد و سلم

                کمرہ میں کچھ دیر خاموشی رہی پھر ایک صاحب نے جن کا نام عدیل تھا، عظیمی صاحب سے کہا۔

                اللہ تعالیٰ سے قربت کا احساس صلوٰۃ کا روحانی پہلو ہے۔ صلوٰۃ کے مادی مقاصد کے بارے میں کچھ ارشاد فرمایئے۔

                اللہ تعالیٰ سے قربت کا احساس عطا کرنے کے ساتھ ساتھ صلوٰۃ ایک مسلمان کی شخصیت کی تعمیر کرتی ہے۔ اس کا کردار بناتی ہے۔ یعنی صلوٰۃ مسلم پر سینالٹی ڈویلوپمنٹ اور کردار سازی کا کام کرتی ہے۔

                اویس نے سوچا کہ پرسینالٹی ڈویلوپمنٹ ایک بڑا اور بہت اہم موضوع ہے۔ موجودہ ترقی یافتہ دور میں انسان نے علم و آگہی کی نئی جہتوں کو چھو لیا ہے۔ آج سماجی علوم اور نفسیات کے ماہرین اور دیگر دانشور اس موضوع پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ماہرین عمرانیات اور ماہرین نفسیات ایک منظم معاشرہ کے قیام اور قوم کے مقاصد کے حصول کے لئے فرد کی کردار سازی اور شخصیت کی تعمیر کو بہت اہم قرار دیتے ہیں۔ اویس نے عظیمی صاحب کو کہتے ہوئے سنا۔

                وحی کی روشنی سے محروم آج کا دانشور صدیوں کی جستجو اور تحقیق کے بعد جس نتیجے پر پہنچا ہے، دنیا کے سب سے بڑے انسان حضرت محمدﷺ نے آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل ہی اس بارے میں مکمل رہنمائی فرما دی تھی۔ صلوٰۃ کا جامع اور ہمہ گیر پروگرام اس کی ایک واضح اور روشن مثال ہے۔

                مغرب کا وقت ہونے والا تھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی اور کمرہ میں موجود لوگ مسجد جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ننھے فیضان نے عظیمی صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ باقی سب لوگ بھی آپ کے ساتھ چلتے ہوئے مسجد تک آئے۔ ابھی یہ لوگ مسجد کے صحن میں ہی تھے کہ موذن کی عقیدت بھری اور دلنشین آواز بھری اور توحید و رسالت کی شہادت دیتی ہوئی ہوا کی لہروں کے دوش پر دور تک پھیلتی چلی گئی۔

                مغرب کے بعد علم کی روشنی کے متلاشیوں کا یہ گروہ ایک بار پھر اکٹھا ہو گیا۔ گفتگو دوبارہ ہونے لگی۔

                بابا جی! آپ بتا رہے تھے کہ صلوٰۃ اللہ تعالیٰ کی قربت کا احساس عطا کرتی ہے۔ صلوٰۃ مسلمان کی شخصیت کی تعمیر کرتی ہے یعنی صلوٰۃ مسلم پرسینالٹی ڈویلوپمنٹ اور کردار سازی کا کام کرتی ہے۔ عدیل نے گفتگو کی کڑیاں جوڑتے ہوئے کہا۔

                صلوٰۃ مسلمان کو اللہ سے قریب کرنے اور اس کی پرسینالٹی ڈویلوپمنٹ کے ساتھ ساتھ معاشرہ کو تنظیم اور استحکام بھی عطا کرتی ہے۔ صلوٰۃ ایک فرد کے لئے انفرادی پروگرام کے ساتھ ساتھ ایک اجتماعی پروگرام بھی ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف رسوم و رواج اور ثقافتی خصوصیات رکھنے والے معاشرے قائم ہیں۔ تا ہم دنیا کے ہر معاشرہ کی ایک صفت ہر جگہ اور ہر ایک سماجی عالم نے تسلیم کی ہے وہ یہ کہ معاشرہ کی بنیادی اکائی فرد ہے۔ یعنی معاشرہ خواہ کسی بھی قسم کی ثقافتی خصوصیات کا حامل ہو افراد سے مل کر بنتا ہے۔ کسی معاشرے کے افراد کی اکثریت جس قسم کی خصوصیات کی حامل ہو گی وہ معاشرہ اسی حوالے سے پہچانا جائے گا۔

                دنیا کے انسانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین اسلام ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ اسلام وہ دین ہے جو دنیا کے ہر علاقے میں بسنے والے انسانوں کو ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں پیش آنے والے معاملات و مسائل کے بارے میں مکمل ہدایت و رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ’’نظام صلوٰۃ‘‘ کو انتہائی اہم مقام حاصل ہے۔

                صلوٰۃ اللہ اور بندے کے درمیان روحانی تعلق کے قیام کے ساتھ ایک بندہ کے دوسرے بندہ کے ساتھ اخلاص، ایثار اور اعلیٰ اخلاق پر مبنی تعلق کے قیام میں مددگار بنتی ہے۔ عوام اور حکومت کے درمیان اللہ کی مرضی و منشاءکے تحت نظم و ضبط، اطاعت، خیر خواہی اور قربانی کے جذبات کے فروغ کا سبب بنتی ہے۔ صلوٰۃ کی مقصدیت اور معنویت کو سمجھ کر اسے قائم کرنے والا بندہ سچ بولنے والا، خدا ترس، دوسروں کے حقوق ادا کرنے والا، برائیوں سے دور رہنے والا اور اچھائیوں کو اپنانے والا ہوتا ہے۔ اس کی زندگی ایثار اور ڈسپلن کا عمدہ نمونہ ہوتی ہے۔

                یہ ہیں صلوٰۃ کے چند مقاصد یا نتائج۔ انہیں سامنے رکھتے ہوئے ہمیں خود غور کرنا چاہئے کہ اس عبادت کو عملی طور پر ادا کرتے وقت ہم اس کے نتائج اپنی زندگیوں میں کس حد تک سموئے ہوئے ہیں۔

                ہم میں سے ہر شخص اپنے حال سے واقف ہے۔ انسان دوسروں سے اپنا آپ چھپا سکتا ہے، اپنے آپ سے خود کو نہیں چھپا سکتا۔ اپنے اندر جھانک کر دیکھ لو۔ تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تم نے اپنی شخصیت پر صلوٰۃ کے قیام کا اثر کس حد تک قبول کیا ہے۔ اس طرح تم جان لو گے کہ تم محض رسمی خانہ پُری کر رہے ہو یا اس عظیم عبادت کا حق ادا کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہو۔

 


MUALIM

ڈاکٹر وقاریوسف عظیمیؔ

وقار یوسف عظیمی، میرے بیٹے، میرے لخت جگر ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیائؒ کی گود میں کھیلے ہوئے ہیں۔ اپنا بچپن قلندر باباؒ کی انگلی پکڑ کر گزارا ہے۔ جوانی میں ان کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔                مجھے خوشی ہے کہ ان کے قلم کو قدرت نے یہ وصف بخشا ہے کہ ’’معلم‘‘ جیسی کتاب منظر عام پر آ گئی ہے……اظہار بیان، سادہ اور دلنشین ہے۔

                کسی کتاب کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قاری کو اکتاہٹ نہ ہو اور کتاب کا پس منظر کتاب پڑھتے وقت آپ کے سامنے فلم بن جائے۔ تحریر کے الفاظ اگر کردار بن جائیں اور ان کرداروں میں جان پڑ جائے تو اس بات کی علامت ہے کہ مولف یا مصنف دل گداز اور صاحب طرز قلمکار ہے۔                میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب میرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیائؒ کی تربیت کا کمال ہے کہ حکیم وقار یوسف عظیمیؔ نے اتنی اچھی کتاب تحریر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ آمین

                                                                                                                                                 خواجہ شمس الدین عظیمیؔ

                مرکزی مراقبہ ہال

                سرجانی ٹاؤن۔ کراچی