Topics

سورج گرہن۔چاند گرہن


                اگلے ہفتہ سورج گرہن ہے، ہماری زمین پر دن کے وقت اندھیرا چھا جائے گا۔ نعمان نے رات کھانے کے دوران بتایا۔

                میں نے بھی آج اخبار میں پڑھا ہے، سندس نے کہا۔

                سورج گرہن کسے کہتے ہیں۔ امل نے اپنے والد سے پوچھا۔

                بیٹی! یہ سوال تو تم اپنی مما سے پوچھو وہ زیادہ بہتر طور پر بتا سکتی ہیں۔

                اسماءکے گریجویشن کے مضامین میں آسٹرونومی بھی شامل تھا۔ علم کی اس شاخ کا موضوع زمین، سورج، چاند، ستارے، سیارے، کہکشاں ہیں۔

                مما! ہمیں بتائیں کہ سورج گرہن کسے کہتے ہیں۔

                یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں مسلسل حرکت میں ہے۔ زمین کی یہ حرکت دو طرح کی ہے۔ ایک تو وہ خود اپنے مدار یا ایکسس پر گھوم رہی ہے۔

                ایکسس پر گھومنا ایک ہے۔ امل نے پوچھا۔

                اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے تم ایک گیند لو۔ اسے انگوٹھے اور انگلی سے اوپر اور نیچے سے پکڑ لو۔ اب اسے پیچ میں سے گھماؤ۔ انگوٹھے اور انگلی کے درمیان گیند دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں گھومے گی۔ دوسری مثال لٹو کی ہے۔ تم نے دیکھا ہے کہ لٹو کس طرح زمین پر گھومتا ہے۔ اسی طرح زمین بھی گھوم رہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ گیند یا لٹو کی طرح زمین پر کسی چیز پر ٹکی ہوئی نہیں ہے بلکہ کسی سہارے کے بغیر گردش میں ہے۔ زمین کے اپنے مدار یا ایکسس پر اس طرح گھومنے کو زمین کی محوری حرکت کہتے ہیں۔ زمین پر دن اور رات اسی حرکت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ زمین کی دوسری حرکت سورج کے گرد اس کا گھومنا ہے۔ اسے دوری حرکت کہتے ہیں۔ موسموں کا فرق اور سال کی تبدیلی دوری حرکت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ زمین لٹو کی طرح اپنے محور پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔ جبکہ سورج کے گرد 66600میل فی گھنٹہ یا 18.5میل فی سیکنڈ کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔

                اللہ تعالیٰ نے یہ وسیع و عریض کائنات بنائی ہے، کائنات کی عمر کیا ہے؟ یہ کتنی بڑی ہے؟ اس میں کتنی قسم کی مخلوقات ہیں؟ ان باتوں کا صحیح علم تو صرف اللہ کو ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت عطا کی ہے کہ وہ اللہ کی تخلیقات میں غور و فکر کر کے کائنات کے اسرار کو ایک حد تک سمجھ سکے۔ اس صلاحیت کی وجہ سے انسان قدیم زمانے سے کائنات کے رازوں کو سمجھنے میں مصروف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس جدوجہد میں بہت کامیابیاں بھی عطا کی ہیں۔ زمین، خلائ، سورج، چاند اور کئی ستاروں کے بارے میں معلومات حاصل کر کے انسان اب کہکشاؤں کی دریافت اور ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے میں مصروف ہے۔

                آسمان پر جو ستارے جھلملاتے نظر آتے ہیں۔ یہ کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ بنیادی طور پر ان کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ستارہ اور ایک سیارہ۔ ستارہ اسے کہتے ہیں جس کے گرد دوسرے اجسام حرکت کرتے ہیں۔ سورج ایک ستارہ یا اسٹار ہے۔ ستاروں کے گرد جو اجسام گردش کرتے ہیں انہیں سیارہ یا پلانیٹ کہا جاتا ہے۔ زمین سورج کے گرد حرکت کر رہی ہے۔ اس طرح ہماری زمین سورج کا ایک سیارہ ہے۔ وہ جسم یا آبجیکٹ جو سورج کے گرد حرکت کرنے کے ساتھ ساتھ کسی سیارہ کے گرد بھی حرکت کر رہا ہو اسے اس سیارہ کا چاند کہا جاتا ہے۔ ایک ستارہ یعنی سورج اور اس کے گرد سیاروں کے اس جھرمٹ کو نظام شمسی کہا جاتا ہے۔ نظام شمسی صرف ایک نہیں ہے انسان اب تک کروڑوں نظام شمسی دریافت کر چکا ہے۔ جس طرح ستارہ اور سیاروں کے ایک مجموعہ کو نظام شمسی کہا جاتا ہے۔ اس طرح کئی نظام شمسی کے مجموعہ کو کہکشاں کہا جاتا ہے۔

                ایک کہکشاں میں کروڑوں ستارے یعنی کروڑوں سورج ہیں۔ زمین اور دوسرے سیارے سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ سورج اپنے سیاروں کو ساتھ لے کر اپنے مقرر کردہ راستہ پر چل رہا ہے۔ اسی طرح کہکشاں کے کروڑوں ستارے اور اربوں سیارے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ راستہ پر چل رہے ہیں۔

                ہماری کہکشاں کتنی بڑی ہے۔ سندس نے دریافت کیا۔

                سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ سورج اور اس کے سیارے کہکشاں کے گرد ایک چکر تقریباً پچیس کروڑ سال میں پورا کرتے ہیں۔ اس سے کہکشاں کی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہکشاں بھی صرف ایک نہیں ہے۔ جدید ترین طاقتور دور بینوں سے اجرام فلکی کا مشاہدہ کرنے سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ آسمان میں ہماری کہکشاں جیسی کروڑوں کہکشاں موجود ہیں۔ کہکشاں کے مجموعہ کو سدیم یا صحابیہ کا نام دیا گیا ہے۔

                ہمارے نظام شمسی میں نو سیارے یا پلانیٹ اپنے اپنے مدار پر سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ ان میں سورج سے قریب ترین سیارہ کا نام عطارد ہے۔ عطارد یا مرکری سورج سے تقریباً دو کروڑ اسی لاکھ میل کے فاصلے پر اپنے مدار میں گردش کر رہا ہے۔ اس کے بعد سیارہ زہرا یا وینس ہے۔ زہرا کا سورج سے فاصلہ چھ کروڑ ستر لاکھ میل ہے۔ اس کے بعد زمین ہے۔ زمین سے سورج کا فاصلہ نو کروڑ تیس لاکھ میل ہے۔ سورج سے سب سے زیادہ فاصلہ پر سیاہ پلوٹو گردش کر رہا ہے۔ پلوٹو کا سورج سے فاصلہ چار ارب ستر کروڑ میل ہے۔

                کسی سیارہ کے گرد حرکت کرنے والے جسم کو اس سیارہ کا چاند کہا جاتا ہے۔ رات کو زمین سے آسمان پر نظر دوڑاؤ تو چاند اپنی ٹھنڈی و دلفریب روشنی زمین پر پھیلاتا نظر آتا ہے۔ جسے ہم چاندنی کہتے ہیں۔ لیکن چاند صرف زمین کے ساتھ ہی نہیں ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں زمین کے علاوہ مریخ یا مارس، مشتری یا جو پیٹر، زحل یا سیٹرن، یورینس اور نیپچون کے چاند پائے جاتے ہیں۔

                ہم زمین کے گرد ایک چاند کو دیکھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسرے سیاروں کے چاند کی تعداد ایک سے زیادہ ہے۔ زمین سے چاند کا فاصلہ دو لاکھ اڑتیس ہزار میل ہے۔ چاند، زمین کے گرد اپنا ایک چکر ستائیس دن سات گھنٹے اور سنتالیس منٹ میں پورا کرتا ہے۔ چاند پر ہمارے حساب سے چودہ روز رات اور چودہ روز دن رہتا ہے۔

                مریخ کے چاند دو ہیں۔ مشتری کے گرد بارہ چاند ہیں۔ زحل کے گرد نو چاند ہیں۔ یورینس کے گرد پانچ اور نیپچون کے گرد دوچاند حرکت میں ہیں۔ سورج، زمین دوسرے تمام سیارے اور چاند یہ سب اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان قدرت کے شاہکار ہیں اور اللہ کے حکم سے اپنے اپنے مقررہ راستوں پر چل رہے ہیں۔ بچے بہت حیرت سے اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی وسیع و عریض کائنات کے بارے میں انسانی دریافتوں کا احوال سن رہے تھے۔

                اسماءکی بات پوری ہوئی تو اویس نے کہا۔

                اللہ تعالیٰ نے زمین، آسمان، چاند، سورج اور ستاروں کو اپنی نشانی قرار دیا ہے۔ اس میں ایک عظیم نکتہ پوشیدہ ہے۔ زمین سورج کے گرد گردش کر رہی ہے اور چاند زمین کے گرد……نظام شمسی کے تمام سیارے اپنے اپنے مدار میں سورج کے اطراف گھوم رہے ہیں۔ نظام شمسی اپنے طے شدہ راستے پر اپنی گلیکسی میں سفر کر رہا ہے۔ ہمارے نظام شمسی کی طرح دوسرے بے شمار نظام شمسی بھی اس گلیکسی میں سفر کر رہے ہیں۔ ہماری گلیکسی کی طرح اور بہت سی گلیکسیز ہیں۔ یہ تمام گلیکسیز اپنے مرکز کے گرد گردش کر رہی ہیں۔ ہم کائنات کے اس وسیع و عریض عظیم الشان نظام پر غور کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی ہمارے دل و دماغ پر محیط ہو جاتی ہے۔

                اتنے بڑے سسٹم کو بنانے والی ہستی، اس سسٹم کو چلانے والی ذات واحد کس قدر جلیل القدر اور عظیم الشان ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت و کبریائی کے مظاہرہ کے لئے ہمیں ان نشانیوں پر غور کرنے کا حکم دیا ہے۔ نشان بذات خود منزل کا پتہ دیتے ہیں۔ سڑک یا ہائی وے پر تھوڑے تھوڑے فاصلہ سے ڈائریکشن سائن یا سنگ میل لگے نظر آتے ہیں۔ ان نشانات سے ہم اندازہ لگاتے ہیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو اپنی نشانی قرار دیا ہے ان پر تفکر کر کے خالق حقیقی اللہ تعالیٰ کے خالق و مالک قادر و قدیر ہونے کا احساس ہمارے یقین کا حصہ بنتا ہے۔ سورج گرہن اور چاند گرہن بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔

                سورج گرہن اور چاند گرہن کس طرح ہوتے ہیں؟ امل نے پوچھا۔

                زمین اپنے مقررہ راستے پر سورج کے گرد گردش کر رہی ہے۔ زمین کے گرد چاند گردش کر رہا ہے۔ ایک سال میں کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ سورج اور زمین کے درمیان تھوڑی دیر کے لئے چاند آ جاتا ہے۔ جس وقت یہ صورت پیش آتی ہے اس وقت سورج کی روشنی زمین تک نہیں پہنچ پاتی اور چاند کا سایہ زمین پر پڑتا ہے۔ اس عمل کو سورج گرہن کہا جاتا ہے۔

                چاند گرہن اس وقت ہوتا ہے۔ جب سورج اور چاند کے درمیان زمین آ جاتی ہے۔ اس وقت چاند اور سورج کے درمیان زمین آ جانے کی وجہ سے سورج کی روشنی چاند تک نہیں پہنچ پاتی اور زمین کا سایہ چاند پر پڑتا ہے۔

                حضرت محمد رسول اللہﷺ سورج گرہن کے وقت دو رکعت باجماعت نماز ادا فرماتے تھے۔

                رسول اللہﷺ کے ایک صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔ جس روز حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا اسی روز سورج گرہن بھی ہوا۔ اس موقع پر کچھ لوگ کہنے لگے کہ چونکہ اللہ کے محبوب رسولﷺ کے صاحبزادے کا انتقال ہوا ہے اسی لئے آج سورج گہنا گیا ہے۔ اس وقت رسول اللہﷺ خاموش رہے اور مسجد میں تشریف لے گئے۔ وہاں اور بھی بہت سے لوگ پہنچ گئے۔ آپﷺ نے اس موقع پر دو رکعت نماز باجماعت ادا فرمائی۔ اس نماز میں آپﷺ نے بہت لمبی قرأت کی۔ رکوع بھی بہت طویل کیا۔ پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر کافی دیر تک قومہ میں کھڑے رہے۔ اسی طرح سجدے بھی بہت طویل کئے۔ دوسری رکعت میں پہلی رکعت سے کم طویل قرأت فرمائی۔ اسی طرح رکوع، قومہ اور سجدے بھی طویل کئے۔ ابھی نماز پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ سورج صاف ہو گیا۔ رسول اللہﷺ نے نماز کے بعد حاضرین سے خطاب فرمایا۔ خطبہ میں اللہ کی حمد و ثناءبیان کرنے کے بعد فرمایا ۔ ’’سورج اور چاند اللہ کی نشانیاں ہیں جو کسی کی زندگی یا موت سے نہیں گہناتے۔ جب تم گہن دیکھو تو اللہ سے دعا کرو۔ تکبیر کہو، صلوٰۃ قائم کرو اور خیرات کرو۔‘‘

                رسول اللہﷺ کی تعلیمات سے ہمیں یہ روشنی ملتی ہے کہ سورج گرہن یا چاند گرہن کے وقت کثرت سے توبہ استغفار کیا جائے اور نماز ادا کی جائے۔ سورج گرہن کو عربی میں کسوف کہتے ہیں۔ اس لئے سورج گرہن کے موقع پر ادا کی جانے والی نماز کو نماز کسوف کہا جاتا ہے۔

                گرہن کے وقت توبہ استغفار کیوں کیا جائے؟ نعمان نے کہا۔

                اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں دکھا کر بار بار انسان کی توجہ اپنی شان کبریائی کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ تم نے غور کیا ہے جب بندہ خوش ہو مثلاً عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن تو اس موقع پر بھی صلوٰۃ قائم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جب بندہ کسی مشکل یا مصیبت میں گرفتا رہو۔ اس وقت بھی صلوٰۃ قائم کرنے کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اے ایمان والو صبر اور صلوٰۃ سے استعانت حاصل کرو۔‘‘

                غور طلب بات یہ ہے کہ خوشی اور غم ہر موقع پر صلوٰۃ قائم کرنے کی تعلیم کیوں دی گئی ہے۔ صلوٰۃ کا ایک مفہوم ربط ہے۔ یعنی نماز کے ذریعے بندے کا اللہ تعالیٰ سے ربط قائم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ انسان خوش ہو، غمگین ہو یا خوفزدہ ہو زندگی کے ہر موڑ پر اس کا ذہن اللہ کے ساتھ وابستہ رہے۔ گرہن کے موقع پر توبہ و استغفار کی تاکید میں بھی یہ حکمت ہے کہ اس وقت بھی بندہ اللہ کی ذات سے عاجزی انکساری اور خشوع و خضوع کے ساتھ رجوع کرے۔

                سورج گرہن کے وقت ادا کی جانے والی نماز نماز کسوف کی ادائیگی کا طریقہ کار

                نماز کسوف کی اذان یا اقامت نہیں ہوتی۔ یہ نماز اکیلے بھی ادا کر سکتے ہیں مگر باجماعت ادا کرنا زیادہ بہتر ہے۔ نماز کسوف کی نیت اس طرح کی جائے۔

                نیت کرتا ہوں میں دو رکعات نماز کسوف کی۔ رخ میرا کعبہ شریف کی طرف (اگر امام کے ساتھ ہے تو یہ کہے پیچھے امام کے) اللہ اکبر۔ تکبیر تحریمہ کے بعد ثناءو تعوذ، تسمیہ کے بعد اگر امام کے ساتھ ہیں تو خاموش ہو جائیں بصورت دیگر سورہ فاتحہ کے بعد کوئی طویل سورہ پڑھیں۔ کئی چھوٹی سورتیں پڑھ کر بھی قیام کیا جا سکتا ہے۔ رکوع، قومہ، سجدہ، جلسہ، قعدہ دوسری نمازوں کی طرح ہو گا لیکن یہ تمام ارکان بھی طویل ہوں گے۔ آخر میں سلام کہہ کر نماز مکمل کی جائے۔

                چاند گرہن کے موقع پر نمازخسوف ادا کی جاتی ہے۔خسوف عربی میں چاند گرہن کو کہتے ہیں۔ یہ نماز بھی دو رکعت ادا کی جاتی ہے مگر اسے باجماعت ادا نہیں کرتے۔ لوگ اپنے گھر میں ادا کرتے ہیں۔

نماز استسقاء

               

                رات 9بجے کے بعد اویس اور اسماءبچوں کے ساتھ ٹیلی ویژن پر خبر نامہ دیکھ رہے تھے۔

                نیوز کاسٹر نے کہا کہ ملک میں خشک سالی سے نجات اور باران رحمت کے نزول کے لئے صدر پاکستان نے قوم سے نماز استسقاءادا کرنے کے لئے کہا ہے۔ صدر پاکستان کل فیصل مسجد اسلام آباد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد نماز استسقاءادا کریں گے۔

                اس سال گرمی بھی بہت زیادہ پڑی ہے، ساری دنیا کے موسم میں تبدیلی آ رہی ہے۔ اسماءنے اویس سے کہا۔

                ابھی ٹی وی پر کس نماز کے بارے میں بتایا گیا۔ فیضان نے یہ نام پہلی بار سنا تھا۔

                نماز استسقائ۔ اویس نے کہا۔

                یہ کب پڑھی جاتی ہے۔ فیضان نے پوچھا۔

                اگر موسم میں معمول کے مطابق بارشیں نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا کے لئے رسول اللہﷺ نے نماز استسقاءکی ادائیگی کی تعلیم دی ہے۔

                بارش کیسے ہوتی ہے، اللہ میاں بادل کہاں سے بھیجتے ہیں؟ امل نے پوچھا۔

                یہ تو آپ بتایئے۔ اویس نے اسماءسے کہا۔

                اللہ تعالیٰ نے زمین پر خشکی اور پانی ایک خاص تناسب کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔ زمین ایک حصہ خشکی اور تین حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ خشکی کا حصہ سات براعظموں پر مشتمل ہے۔ براعظم یعنی کانٹی نینٹ زمین کے اس بہت بڑے حصہ کو کہتے ہیں جسے چاروں طرف سے سمندر نے گھیرا ہوا ہو۔ تین چوتھائی پانی سمندروں کی شکل میں ہے۔ اس کے علاوہ کچھ پانی دریاؤں، جھیلوں، تالابوں میں ہے۔ زمین پر زندگی کے لئے توانائی فراہم کرنے کے لئے سورج ایک انتہائی اہم ذریعہ ہے۔ سورج کی شعاعیں سمندر دریا جھیل یا تالاب پر پڑتی ہیں۔ ان شعاعوں کی گرمی کی وجہ سے سطح کا پانی بھاپ یا بخارات کی شکل اختیار کرتا ہے۔ یہ بخارات ہلکے ہونے کی وجہ سے فضا میں اوپر اٹھتے ہیں۔ انسان جانور اور درختوں سے بھی مسامات کے ذریعے پانی خارج ہوتا ہے۔ یہ پروسیس عمل تبخیر یا ویپارائزیشن کہلاتا ہے۔ یہ آبی بخارات زمین سے کچھ اوپر فضا میں جمع ہوتے رہتے ہیں۔ ہوا ان بخارات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی رہتی ہے۔ یہ بخارات زمین سے جیسے جیسے اوپر جاتے جائیں۔ درجہ حرارت میں کمی واقع ہونے لگتی ہے۔ ان آبی بخارات کو لئے ہوئے نمی زدہ ہوا فضا میں اوپر اٹھ کر ٹھنڈی ہونے لگتی ہے۔ اوپر اٹھنے کے ساتھ ہی نم ہوا سے آبی بخارات علیحدہ ہونے لگتے ہیں۔ مزید بلندی پر جانے کے بعد یہ بخارات دوبارہ پانی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس وقت پانی کے ان قطروں کا سائز بہت ہی کم ہوتا ہے۔ ننھے ننھے قطروں کی شکل میں جمع شدہ اس آبی ذخیرہ کو بادل کہا جاتا ہے۔ بادلوں کے اوپری حصوں پر موجود ننھے قطروں کا درجہ حرارت کم ہوتے ہوئے صفر ڈگری تک آ جاتا ہے۔ یہ پانی کا نقطہ انجماد ہے یعنی صفر ڈگری پر پانی جم کر برف کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ہوا ان بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جاتی ہے۔ ہوا کا ایک خاص دباؤ اور درجہ حرارت ان ذرات کو دوبارہ پانی کی شکل میں تبدیل کرنے کا سبب بنتا ہے اور یہ پانی بادلوں سے زمین کی طرف برسنے لگتا ہے۔ یہ عمل بارش کہلاتا ہے۔

                اسماءکی بات پوری ہوئی تو اویس نے کہا۔

                دریاؤں میں پانی پہاڑوں پر جمی برف پگھلنے اور بارشوں سے آتا ہے۔ سمندری پانی میں مختلف قسم کے نمکیات کی وجہ سے یہ پانی کئی انسانی ضروریات اور زراعت کے لئے استعمال نہیں ہو سکتا۔

                انسانوں، جانوروں، جنگلات اور زراعت کی ضروریات کے لئے پانی فراہم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بارش کا نظام قائم کیا ہے۔ یہ نظام اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نشانیوں میں سے ایک ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ اس نظام کا تذکرہ فرمایا ہے۔

                الم تر ان اللّٰہ یزجی سحابا ثم یؤلف بینہ ثم یجعلہ رکاما فتری الودق یخرج من خللہ و ینزل من السماءمن جبال فیھا من برد فیصیب بہ من یشاءو یصرفہ عن من یشاءیکاد سنا برقہ یذھب بالابصارo

                (سورہ النور۔ آیت 43)

                ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی بادلوں کو چلاتا ہے پھر ان کو آپس میں ملا دیتا ہے پھر ان کو تہہ بہ تہہ کر دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ بادل میں سے مینہ برس رہا ہے اور آسمان میں جو بادلوں کے پہاڑ ہیں۔ ان سے اولے نازل کرتا ہے۔ جس پر چاہتا ہے برسا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ہٹا رکھتا ہے اور بادل میں جو بجلی ہوتی ہے اس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کئے جاتی ہے۔

                ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

                واللّٰہ الذی ارسل الریح فتشیر سحابا فسقنہ الی بلدمیت فاحیینا بہ الارض بعد موتھا کذلک النشؤرo

                (سورہ فاطر۔ آیت9)

                ترجمہ: اور اللہ ہی تو ہے جو ہوائیں چلاتا ہے اور جو بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں۔ پھر ہم اس کو ایک بے جان شہر کی طرف چلاتے ہیں پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کر دیتے ہیں۔ اسی طرح مردوں کو بھی اٹھنا ہوگا۔

                بارش انسان، حیوانات اور اس زمین کے لئے ناگزیر ہے۔ موسم، ہوا، بارش، سب کا مالک و خالق اللہ ہے۔ اس زمین پر زندگی کا جو عظیم الشان نظام کام کر رہا ہے۔ اس کا منتظم حقیقی اللہ ہے۔ اگر بارش نہ ہو اور مخلوق کی ضروریات پوری نہ ہو رہی ہوں تو ہمیں اللہ سے اس کا فضل و کرم مانگنا چاہئے۔

                رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ میں ایک مرتبہ بارش نہ ہونے سے خشک سالی ہوئی تو آپ مسلمانوں کے ساتھ کھلے میدان میں تشریف لے گئے۔ دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ نماز کے بعد دونوں ہاتھ قدرے اونچے کر کے دعا فرمائی۔ نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ میں ایک اور واقعہ ملتا ہے۔ رسول اللہﷺ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ ایک دیہاتی شخص آیا اس نے کہا یا رسول اللہﷺ برسات رک گئی۔ درخت خشک ہو گئے اور جانور ہلاک ہو گئے۔ آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ بارش برسائے۔

                نبی رحمتﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی اور دو رکعت نماز ادا فرمائی ابھی صحابہ کرام اپنے گھروں کو واپس ہو رہے تھے کہ موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔

                نماز استسقاءکا طریقہ کیا ہے؟ نعمان نے پوچھا۔

                نماز استسقاءباجماعت ادا کی جاتی ہے۔ اس نماز میں اذان اور اقامت نہیں ہوتی۔

                امام کے پیچھے قبلہ رو کھڑے ہو کر نیت کی جائے۔

                نیت کرتا ہوں دو رکعات نماز استسقاءکی اللہ کے لئے منہ میرا کعبہ شریف کی طرف پیچھے اس امام کے۔

                اللہ اکبر

                نیت اور تکبیر کے بعد ثنائ، تعوذ اور تسمیہ پڑھ کر خاموش ہو جائیں۔ امام صاحب کی قرأت سنیں۔ امام سورہ فاتحہ کے بعد کوئی طویل سورہ تلاوت کریں گے۔ اس کے بعد رکوع، قومہ، سجدہ، جلسہ، قعدہ اور پھر سلام دیگر نمازوں کی طرح ادا کئے جائیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ قیام بہت طویل کیا جائے۔ پہلی رکعت میں قیام دوسری رکعت کے قیام سے طویل تر ہو گا۔ نماز کے بعد امام دو خطبے پڑھیں گے اس کے بعد دعا کی جائے گی۔

            دعا کرنے کا طریقہ

                نماز استسقاءکے لئے دعا کرنے کا طریقہ عام طریقے سے تھوڑا مختلف ہے۔ دعا کے دوران ہاتھ معمول سے قدرے اونچے رکھے جائیں اور ہتھیلیوں کے بجائے ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف ہو۔ ہمارے پیارے نبیﷺ نے اسی طرح ہاتھ الٹے اور اونچے کر کے دعا فرمائی تھی۔ تین روز تک یہ نماز ادا کی جاتی ہے۔ اس موقع پر روزہ رکھنا، صدقہ و خیرات اور استغفار کرنا چاہئے۔


MUALIM

ڈاکٹر وقاریوسف عظیمیؔ

وقار یوسف عظیمی، میرے بیٹے، میرے لخت جگر ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیائؒ کی گود میں کھیلے ہوئے ہیں۔ اپنا بچپن قلندر باباؒ کی انگلی پکڑ کر گزارا ہے۔ جوانی میں ان کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔                مجھے خوشی ہے کہ ان کے قلم کو قدرت نے یہ وصف بخشا ہے کہ ’’معلم‘‘ جیسی کتاب منظر عام پر آ گئی ہے……اظہار بیان، سادہ اور دلنشین ہے۔

                کسی کتاب کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قاری کو اکتاہٹ نہ ہو اور کتاب کا پس منظر کتاب پڑھتے وقت آپ کے سامنے فلم بن جائے۔ تحریر کے الفاظ اگر کردار بن جائیں اور ان کرداروں میں جان پڑ جائے تو اس بات کی علامت ہے کہ مولف یا مصنف دل گداز اور صاحب طرز قلمکار ہے۔                میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب میرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیائؒ کی تربیت کا کمال ہے کہ حکیم وقار یوسف عظیمیؔ نے اتنی اچھی کتاب تحریر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ آمین

                                                                                                                                                 خواجہ شمس الدین عظیمیؔ

                مرکزی مراقبہ ہال

                سرجانی ٹاؤن۔ کراچی