Topics

تیسرا باب ۔ آیوروید…زندگی کی سائنس


                آیوروید سنسکرت کا لفظ ہے جو آیور اور وید…………دو الفاظ کا مرکب ہے۔ آیور کا مطلب زندگی اور وید کا مفہوم علم کا جاننا ہے۔ اس طرح آیوروید کے لغوی معنی ‘‘زندگی کا علم’’ قرار پاتے ہیں۔ یہ علم حیاتیات کی وہ قدیم ترین صورت ہے جو آج سے چھ ہزار سال پہلے وجود میں آئی۔

                دیو مالائی کہانیوں کے مطابق یہ دیوی دیوتائوں کا بخشا ہوا طریقہ علاج ہے۔ تقریباً 800قبل مسیح میں اس طریقہ علاج کو پہلی بار تحریری صورت میں مدون کیا گیا۔ اس کام کے کرنے والے کا نام پُنر واسوعطرے بتایا جاتا ہے۔ جس نے آیورویدک طریقہ علاج کی باقاعدہ اور باضابطہ درجہ بندی کی۔ اس کتاب کا نام ‘‘عطرے سمہتا’’ ہے اور اس کو آیوروید کا منبع گردانا جاتا ہے۔

                800قبل مسیح میں ہی ایک اور معالج چرک نے اس کتاب میں ترمیم اور اضافے کر کے اس کو ایک نئی صورت بخشی۔ اس کے بعد 600قبل مسیح میں سروتاؔ نامی طبیب نے جراحت یعنی سرجری کو آیوروید میں شامل کر کے چند ضروری آپریشن کے طریقے بھی بتائے جو پتھری، پیدائش، آنکھوں، ناک اور آنتوں کے مسائل سے متعلق ہیں۔

                سولہویں اور سترہویں صدی میں آیوروید پر گراں قدر تحقیقی کام ہوئے اور اس علم کی باضابطہ درجہ بندی اور تدریس و تعلیم کا آغاز ہوا۔ پوسٹ مارٹم کے تجربے بھی اسی علم کے تحت کئے گئے۔ اس علم کے مطابق اجسام پانچ عناصر مٹی، پانی، آگ، ہوا اور روح کا مجموعہ ہیں۔ اس طریقہ علاج کے مطابق ہماری غذا بنیادی طور پر تین خواص کا مجموعہ ہوتی ہے۔ مٹھاس، تُرشی اور نمکینی۔ مٹھاس سے خون، چربی، ہڈیاں اور مادہ حیات بنتا ہے اور جسم میں تیزی اور طاقت پیدا ہوتی ہے۔ نمکین غذائیں جسم میں لعاب پیدا کرتی ہیں اور ساتھ میں باد کو بھی ختم کرنے میں معاون ہوتی ہیں۔

                آیوروید کے مطابق غذا حلق سے نیچے اترنے کے بعد کف(بلغم) بنتا ہے۔ اس کا توازن بگڑ جائے تو کھانسی ہو جاتی ہے۔ بلغم معدہ میں بنتا ہے۔ یہ جسم کی نمی کو کنٹرول کرتا ہے۔ ہاضمہ، خون کی گردش، یادداشت، بھوک، جسم سے خراب مادوں کا اخراج، دل کی دھڑکن، ہاتھوں، پیروں، پٹھوں اور جسمانی جوڑوں کی حساسیت وغیرہ کا تعلق بلغم سے ہوتا ہے۔ اس کی پانچ اقسام بتائی گئی ہیں۔

                اس سے اگلے مرحلے پر بہت سے مائعات کے ساتھ مل کر پت (صفرا) بنتا ہے۔ یہ معدہ اور بڑی آنت کے درمیان بنتا ہے۔ جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے، نظر، جلد کی رنگت، نبض، جگر اور گردے کی فعلیت کا ضامن گردانا جاتا ہے۔

                وات(ہوا یا باد) اس وقت بنتی ہے جب جسم غذا سے ضروری مادے جذب کر لیتا ہے۔ وات جسمانی کارکردگی میں مدد کرتی ہے۔ جسم اور سائنس کے زہریلے مادوں کو خارج کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کی بھی پانچ اقسام بتائی جاتی ہیں۔

                اس طریقہ علاج میں مستعمل ادویات سے نظام انہضام کو درست کرنے اور معدہ کے افعال کو بحال کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔ دوائوں کے علاوہ غذائوں میں رد و بدل اور سانس کی مشقیں بھی تجویز کی جاتی ہیں۔

                اس طب کے مطابق زندگی کا قیام تین عوامل پر ہوتا ہے۔ اس نظریے کو تری دوش(Tridosha) کا اصول کہا جاتا ہے۔ ان تینوں عوامل، کف دوش، پت دوش اور وات دوش کا تعلق پران یعنی روح سے بتایا جاتا ہے۔ اسی کو انہوں نے انرجی یا قوت بھی کہا ہے۔ دوش کا لغوی مطلب خرابی یا قصور ہوتا ہے۔ یعنی ان عوامل میں خرابی ہی بیماری کہلاتی ہے۔

                احساسات، جذبات اور کیفیات میں رد و بدل کے ذمہ دار یہی تین عوامل گردانے جاتے ہیں اور انہی سے آدمی کے مشاغل اور طرز فکر بنتی ہے۔

                آیوروید کے مطابق وات دوش انسان کو وجدانی قوتوں کا مالک بنا کر اس کو اپنے خالق کے قریب کرنے کا ضامن ہے۔ اسی کی زیادتی سے قبض کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔

                پت دوش طبیعت میں گرمی پیدا کرتا ہے۔ یہ سرد مہری پر گرم جوشی غالب کرنے کے علاوہ طبیعت میں جلال اور غصہ پیدا کرتا ہے۔ جسم میں گیس کا سسٹم بھی یہی دوش کنٹرول کرتا ہے۔ انفیکشن (ورم) ، مہا سے اور السر بھی اسی دوش کی کارستانی ہوتی ہے۔ جلد کی رنگ کا گلابی ہونا اور بالوں کا سرخی مائل ہونا بھی اسی کے سبب ہوتا ہے۔

                کف دوش جسم کے صفراوی اثرات کو کنٹرول میں رکھنے اور ٹھنڈک مہیا کرنے کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے۔ اس کی زیادتی سے رنگت زرد ہو جاتی ہے۔ دوران خون کم ہو کر لو بلڈ پریشر ہو جاتا ہے۔

                آیوروید کے مطابق بیماری کی علامات اور اسباب انہیں تین عوامل میں توازن کی خرابی کی نشاندہی کرتے ہیں اور معالج دوائوں یا غذائوں کے ساتھ ساتھ سانس لینے کے مختلف طریقوں سے آگاہ کر کے بیماری ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

                اس طریقہ علاج میں جڑی بوٹیوں اور معدنیات کی مختلف مقداریں بطور دوا استعمال کروائی جاتی ہیں۔

 

 

Topics


Chromopathy

ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی


روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔                میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔

                (آمین)

                

                                                                                                                                                خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                                مرکزی مراقبہ ہال

                                                                کراچی