Topics

ساتواں باب ۔ علاج بالماء


                ماہرین کے مطابق کرہ ارض کا تین چوتھائی حصہ پانی پر مشتمل ہے اور جسم انسانی میں بھی پانی کا یہی تناسب موجود ہے۔ پانی ان بنیادی اجزاء میں سے ایک ہے جن کے بغیر مادی زندگی کا تصور بھی محال ہے۔ روشنی، ہوا، پانی اور مٹی وہ چار بنیادی اراکین ہیں جن پر عمارت حیات قائم ہے۔

                اپنی پیدائش سے لے کر موت تک انسان اس نعمت سے لگاتار مستفیض ہوتا ہے۔ آسمان سے پانی برستا ہے تو نباتات و حیوانات میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ انسان اس نعمت کو بطور غذا استعمال کرنے کا اتنا عادی ہو چکا ہے کہ اس کو بطور دوا استعمال کرنے کا اسے خیال کم ہی آتا ہے لیکن جب بھی کسی پر غشی یا بے ہوشی طاری ہوتی ہے تو اس وقت پہلا خیال یہی آتا ہے کہ مریض کو پانی پلایا جائے یا اس پر پانی چھڑکا جائے اور حیران کن امر یہ ہے کہ اس عمل سے مریض کی حالت اکثر و بیشتر سنبھل بھی جاتی ہے۔

                جرمنی کے ایک ڈاکٹر لوسیس کوہنی نے صحت کی خرابی اور کسی مرض میں مبتلا ہونے کی فقط ایک وجہ جسم کے اندر فاسد مادہ کا جمع ہونا قرار دیتے ہوئے بتایا کہ یہ مادہ فاسد ہر نوعیت اور صورت کے امراض کا ذمہ دار ہے۔ اگر زندگی غیر فطری طرزوں پر بسر کی جا رہی ہو تو یہ مادہ جسم سے بہت کم خارج ہوتا ہے اور جسم میں جمع ہوتا رہتا ہے اور کئی طرح کے امراض کا سبب بنتا ہے۔

                قدرت نے اس فاسد مادے کو جسم سے متواتر خارج کرنے کو تین راستے مقرر کئے ہیں یعنی مقعد، آلات بول اور مسامات جلد۔ جب تک انسان فطری غذا کھاتا ہے، صاف ہوا میں وقت گزارتا ہے اور مناسب جسمانی ورزش کرتا ہے تو فاسد مادے جسم سے باسہولت خارج ہوتے رہتے ہیں لیکن جب وہ غیر فطری غذا اور غلط طرز رہائش اختیار کر لیتا ہے تو یہ فاسد مادہ جسم میں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے اور مختلف النواع امراض کا باعث بن کر اپنا اظہار کرتا ہے۔

                اس طریقہ علاج کے مطابق پانی سے کام لے کر اس فاسد مادہ کو جسم سے خارج کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مریض کو دن بھر میں وقفوں سے پانی پلایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مخصوص انداز کے غسل تجویز کئے جاتے ہیں۔ اس نظام علاج کے تحت غسل کی چار بنیادی اقسام ہیں۔

                ۱۔            سرد پانی سے غسل

                اس کو ہپ باتھ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کیلئے مریض کو ٹھنڈے یا تازہ پانی کے ایک ٹب میں اس طرح سے بٹھا دیا جاتا ہے کہ اس کی ٹانگیں اور ناف سے اوپر کا حصہ پانی سے باہر رہتے ہیں۔ پیڑو کے مقام کو پانی کے اندر دائیں بائیں اور اوپر نیچے متواتر ملا جاتا ہے یہ باتھ پندرہ منٹ سے لے کر ایک گھنٹہ تک کے دورانیہ کیلئے ہوتا ہے۔ اس طریقہ سے غسل دینے سے پیڑو کے مقام پر جو کہ مادہ فاسد کے اجتماع اور سڑاند کا مرکز ہے ٹھنڈک پہنچائی جاتی ہے اور مادہ فاسد کا زور بجائے اوپر کے نیچے کی طرف ہو جاتا ہے۔ جسم کو اس انداز سے پانی میں ڈبونے سے جسم کے ٹمپریچر میں ایک تبدیلی واقعہ ہوتی ہے۔ نچلا دھڑ دیگر جسم کے مقابلے میں زیادہ سرد ہو جاتا ہے چنانچہ اعضائے بول و براز میں خون جمع ہو کر ان کو تحریک دیتا ہے اور جسم سے مادہ فاسد کی نکاسی کا عمل تیز ہو جاتا ہے اس طرح ایک بالکل سادہ اور فطری تدبیر سے جسم مادہ فاسد سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔

                ۲۔           ٹھنڈے پانی سے استنجا:

                اعصاب کو تحریک اور نظام تولید کو تقویت دینے کیلئے تجویز کیا جاتا ہے۔ اس میں بعد از رفع حاجت طہارت کے لئے ٹھنڈے پانی کا استعمال ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بات اسلام کے بنیادی اراکین میں شامل ہے کہ عبادات سے پہلے وضو یا غسل کی ابتدا استنجاء سے کی جائے۔

                ۳۔           گرم پانی سے غسل:

                اگر ہپ باتھ میں ٹھنڈے پانی سے فائدہ نہ ہو تو گرم پانی سے غسل کیا جاتا ہے۔ طریقہ اور فائدہ وہی ہے۔

                ۴۔           بھاپ سے غسل (Steam Bath):

                گٹھیا کے مریضوں میں یہ غسل خصوصیت کے ساتھ کارآمد ثابت ہوا ہے۔ ہفتے میں کم از کم ایک بار یہ غسل ہر مریض کو لینا چاہئے۔ یہ غسل پندرہ منٹ سے آدھ گھنٹے تک لیا جاتا ہے تا کہ مریض کو خوب کھل کر پسینہ آ جائے۔ زیرجلد جمع شدہ فاسد مادہ آسانی سے خارج ہو جائے جلد کا عمل تیز ہو جائے۔ مریض کو بان یا بید کی چارپائی پر لٹا کر اس کے اوپر پلاسٹک یا کمبل ڈال دیا جاتا ہے جو زمین تک لٹکٹتا رہے اور چارپائی کے نیچے دو یا تین ابلتے ہوئے پانی کی دیگچیاں رکھ دی جاتی ہیں۔ ان کے ڈھکنے بقدر ضرورت ہٹا کر بھاپ کھول دی جاتی ہے۔ یہ غسل صرف موٹے تازے مضبوط اور توانا جسم والے افراد کو ہی دیا جانا چاہئے۔ کمزور افراد میں یہ غسل فائدے کے بجائے نقصان کا موجب ہو سکتا ہے۔

                ۵۔           سن باتھ (Sun Bath):

                بعض اوقات مریض اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ پانی سے غسل لے سکے۔ ایسی صورت میں مریض کو دھوپ میں لیٹنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ مریض کو ہلکے کپڑے پہنا کر دھوپ میں کسی چٹائی وغیرہ پت لٹا دیا جاتا ہے۔ سر اور گردن کو گیلے کپڑے یا سبز پتوں سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ معیاری سن باتھ وہ سمجھا جاتا ہے جس میں مریض کو کھل کر پسینہ آ جائے۔

                علاج بالماء صحت اور تندرستی کو برقرار تو رکھ سکتا ہے لیکن بعض امراض خصوصاً سل اور دق وغیرہ میں اس کا برسوں تک علاج بھی کارگر ثابت نہیں ہو سکا۔

                صحت و تندرستی کی ایک انتہائی قدیم سائنس یوگا میں پانی سے جسم کی سیرابیکے علاوہ بیرونی اور اندرونی طہارت کی ہدایات ملتی ہیں۔ صبح اٹھ کر دو تین گلاس پانی نہار منہ پینے کے علاوہ پانی میں نمک ڈال کر اس سے ناک کی صفائی کرنے اور ناک ہی کے ذریعے پانی پینے کی مشق تجویز کی جاتی ہے۔ معدے کی صفائی کیلئے خوب سیر ہو کر پانی پی کر قے کرنا بھی یوگا کی ایک مشق ہے۔ اسی طرح مقعد کی صفائی کیلئے پانی سے حقنہ Anemaکرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

                حضور نبی کریمﷺ سے بڑھ کر بنی نوع انسان کی بھلائی اور بہتری کا خواہاں اور کون رہا ہو گا۔ آپﷺ نے پانی سے طہارت، استنجا، وضو اور غسل کا حکم شریعت کے احکامات میں شامل کر کے اپنی امت کی صحت اور تندرستی کا ایسا اہتمام فرما دیا جس کی نظیر دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں ملتی ہے۔

                طعام سے پہلے ہاتھ دھونے، پانی سے طہارت و استنجا کرنے، وضو اور غسل کرنے کے طبی فوائد کی ایک طویل فہرست مرتب کی جا سکتی ہے۔

                حضرت الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب روحانی نماز میں وضو اور غسل کی روحانی سائنس کی روشنی میں جو توضیح و تشریح کی ہے اس کے مطابق انسان کا وجود روشنیوں کے ایک مبسوط نظام پر قائم ہے۔ روشنیوں کا بہائو درست اور متوازن رہنے سے اس کی صحت برقرار رہتی ہے۔ جسم میں فالتو روشنیوں کا ہجوم ہو جائے تو انسان تھکن، بیزاری اور بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔ فالتو روشنیوں کے ہجوم کو ارتھ کرنے کیلئے وضو اور غسل سے بڑھ کر کوئی دوسرا عمل کارگر نہیں ہو سکتا ہے۔ وضو کرنے سے ہائی بلڈ پریشر جیسے مرض کو چند ہی منٹوں میں کنٹرول ہوتے دیکھا گیا ہے۔

                بخار کی حالت میں جب بخار 102ڈگری سے اوپر ہو جائے تو طب جدید تک میں یہی تجویز کیا جانے لگا ہے کہ مریض کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھی جائیں۔ اس کے جسم پر ٹھنڈے پانی کی پٹیوں سے مالش کی جائے۔

                تھکن ٹینشن ختم کرنے کیلئے اور دماغی ہیجان کو کم کرنے کیلئے نیم گرم پانی میں نمک ڈال کر پندرہ بیس منٹ تک پائوں ڈبوئے رکھنا ایک مفید اور موثر مشق تسلیم کی گئی ہے۔

                بچوں میں اسہال اور قے کی بیماری میں آجکل ORSکا استعمال بھی اسی طریقہ علاج کے زمرے میں آتا ہے۔ کیونکہ اس کا بنیادی مقصد ہر مریض میں پانی کی کمی Dehydrationکو روکنا ہوتا ہے۔ باقی کام تو جسم انسانی خود ہی کرتا ہے۔

                اسی طرح گرمیوں میں نکسیر پھوٹنے اور لو لگنے کی صورت میں سر اور گردن کو گیلا کرنا بھی پانی سے علاج ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ وضو کے دوران سر اور گردن کا مسح کرنے اور اس کے فوائد سے بھی ہر خاص و عام خوب اچھی طرح واقف ہے۔

                صبح اٹھ کر اگر ہاتھ منہ نہ دھویا جائے تو طبیعت میں عجیب سی کسلمندی اور سستی باقی رہتی ہے۔ اس اصول کے تحت اگر کبھی طبیعت اداس ہو، سستی اور کسلمندی غالب آ رہی ہو تو ٹھنڈے پانی سے ہاتھ منہ اور پائوں دھو کر دیکھئے کہ کتنا فرق پڑتا ہے۔

                پانی سے علاج کے ضمن میں آب زم زم اور بارش کے پانی کے استعمال کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہو گی۔ آب زم زم سے کینسر اور ذیابیطس جیسے موذی امراض کا علاج ہوتے دیکھا گیا ہے۔ آب زم زم کی معجزاتی شفا بخشی کو پیغمبروں سے جو نسبت ہے اس کی اہمیت اپنی جگہ آج کے دور میں تجربہ گاہوں میں ہونے والی تحقیق سے بھی یہ بات پویہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اس پانی میں بعض ایسے عناصر پائے جاتے ہیں جو انسان کے اندر مدافعت کا نظام بہتر بنانے کے ضامن ہے۔ بارش کا پانی اپنے اندر جو گوناگوں فوائد رکھتا ہے ان کے علاوہ اس کو شہد کے ساتھ ملا کر پینا گردوں کی سوزش کا شافی علاج تسلیم کیا گیا ہے۔

 

Topics


Chromopathy

ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی


روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔                میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔

                (آمین)

                

                                                                                                                                                خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                                مرکزی مراقبہ ہال

                                                                کراچی