Topics

اٹھارواں باب - کروموپیتھی (Chromopathy)


                کروموپیتھی یونانی زبان کے دو الفاظ ‘کروما’ (Khroma) جس کے معنی رنگ کے ہیں اور ‘پیتھیا’ (Patheia) جس کا مطلب بیماری، بیماری کا علاج اور محسوس کرنا وغیرہ ہیں، سے مرکب ہے یعنی کروموپیتھی اس نظام علاج کا نام ہے جس کے تحت مرض یا مریض کا علاج رنگوں سے کیا جاتا ہے۔

                اس نظریہ کے مطابق وجود انسانی اور رنگوں پر قائم ہے۔ جسم انسانی رنگوں سے وجود میں آتا ہے۔ یہ رنگ ہی اس کو تحریک دیتے ہیں اور اس کے مادی جسم میں کام کرنے والے مختلف نظاموں کی درست کارکردگی کے ضامن ہوتے ہیں۔

                موجودہ سائنسی اور طبی ترقی کے پس منظر میں اب اس بات کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں رہا کہ انسان کے اس مادی وجود کے اوپر روشنیوں کا بنا ہوا ایک ایسا جسم موجود ہے جو مختلف رنگوں سے مزین ہے۔ طبیعی علوم کے ماہرین اس بات کو واشگاف کر چکے ہیں کہ مادہ اپنی آخری حالت میں محض ایک توانائی ہے اور توانائی لہروں کے ذریعے منتقل ہوتی ہے۔ مادہ کی سب سے چھوٹی اکائی ایٹم کو جب توڑا جاتا ہے تو ذیلی ذرات الیکٹرون، پروٹون، نیوٹرون وغیرہ سامنے آتے ہیں اور یہ تمام ذیلی ذرات ایک یا دوسری قسم کی توانائی سے وجود پاتے اور فنا ہونے پر واپس اسی توانائی میں تبدیل ہو جاتے ہیں جس سے وہ وجود پاتے ہیں۔ یہ توانائی کائنات میں کرنوں، شعاعوں اور لہروں کی صورت میں برسر عمل رہتی ہے۔

                ان لہروں کی لاشمار اقسام ہیں۔ اقسام کی یہ گروہ بندی لہروں کے طول موج، فریکونسی یا رفتار ارتعاش اور ان کی توانائی کی مقداروں کے حوالے سے کی جاتی ہے اور ان گروپوں کے مختلف نام رکھ کر ان کی پہچان کروائی جاتی ہے۔ دیئے گئے جدول میں کائناتی شعاعوں سے لے کر ریڈیو کی نشریاتی لہروں بشمول عام روشنی تک سبھی قسم کے گروہ کی لہروں کے طول امواج اور تموج عنی رفتار ارتعاش کا تخمینہ دیا گیا ہے۔

                مرئی روشنی (Visible Light) کی لہریں جیسا کہ (جدول نمبر۱) میں دکھایا گیا ہے مختلف طول امواج اور ارتعاشات و تموج کا مجموعہ ہیں۔ روشنی کی ایک خاص طول موج اور تموج کی حامل لہر کا آنکھ کے پردے اور دماغ میں محسوس ہونا ہی رنگ کہلاتا ہے۔

                سر آئزک نیوٹن نے 1666ء میں مختلف تجربات سے یہ بات ثابت کی کہ سفید روشنی بنیادی طور پر سات رنگوں سے مرکب ہے۔ انہوں نے ایک تجربے سے ثابت کیا کہ ان رنگوں کو ملا کر دیکھا جائے تو وہ سفید نظر آتے ہیں جبکہ ایک دوسرے تجربے میں انہوں نے سفید روشنی کو منشور (Prism) سے گزار کر سات رنگوں میں تقسیم کر کے دکھایا۔

                ان کے تجربات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہے کہ سورج کی شعاعیں یا مرئی روشنی جب منشور سے گزرتی ہے تو جن لہروں کے مجموعہ سے وہ تشکیل پاتی ہے وہ اپنے اپنے تموج اور طول امواج کے لحاظ سے الگ الگ منقسم ہو جاتی ہیں اور اس تقسیم کو ہم سات رنگوں کے طیف یا سپکٹرم (Spectrum) کی صورت میں دیکھتے ہیں۔

                سورج کی روشنی جب پانی سے گزرتی ہے تب بھی وہ اسی طرح طیف کے سات رنگوں میں منقسم ہو جاتی ہے۔ قوس قزح یا دھنک اسی وقت بنتی ہے جب سورج کی شعاعیں بارش کے قطروں سے گزرتی ہیں اور وہ سات رنگوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں۔

                یہ دھنک رنگ ہمیں اس وقت بھی نظر آتے ہیں جب ہم پانی کے کسی فوارے کو اس وقت دیکھیں جب سورج ہمارے پیچھے ہو۔ یہ منظر قبل از دوپہر یا شام کے وقت زیادہ واضح نظر آتا ہے۔

                سورج کی روشنی پانی سے گزرنے کے بعد کس طرح خوبصورت دھنک رنگوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس بارے میں ایک تجربہ کر کے اس کو باآسانی دیکھا اور دکھایا جا سکتا ہے۔

                کسی کمرے میں جہاں کھڑکی سے دھوپ اندر فرش تک آ رہی ہو ایک لگن یا کسی گہرے برتن میں پانی بھر کر رکھ دیا جائے اور پانی میں ایک آئینہ اس طرح سے رکھا جائے کہ دھوپ کی کرنیں پانی میں رکھے آئینے سے منعکس ہو کر کھڑکی کے قریب دیوار یا چھت پر پڑ سکیں۔ اس طرح سے آپ کو دھنک کے تمام رنگ دیوار پر واضح اور روشن نظر آئیں گے۔ اس تجربے سے بھی یہی بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ روشنی پانی سے گزرنے پر طیف کے سات رنگوں میں منقسم ہو جاتی ہے۔

                ان رنگین شعاعوں کے طول موج، تموج اور ان کی توانائیوں کی مقداریں معین ہیں یعنی کسی لہر کی مخصوص اور متعین فریکوئنسی، طول موج اور معینہ توانائی کو ہم ایک مخصوص رنگ کا نام دیتے ہیں۔

                جدول نمبر 2میں مختلف رنگوں کی لہروں کے طول امواج، تموج اور ان کی توانائی کی مقداروں کا تخمینہ دیا گیا ہے۔

                اس جدول کو دیکھنے سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سرخ رنگ کی لہروں کا طول موج دیگر سب رنگوں سے زیادہ اور اس کی فریکوئنسی یا تموج سب سے کم ہوتا ہے جبکہ بنفشی رنگ کی لہروں کا طول موج محض 4200Aاینگسٹرام یا 4.20x10 -8 cmدیگر لہروں سے کم اور اس کی فریکوئنسی 7.14x10 14Hzدیگر سب رنگوں سے زیادہ ہے۔

                روشنی توانائی کی وہ قسم ہے جس کو الیکٹرومیگنیٹک یعنی برقناطیسی توانائی کا نام دیا گیا ہے۔ روشنی ہر قسم کی شفاف اشیاء اور خلا میں سے گزر سکتی ہے۔ سفر کرنے کیلئے یہ کسی وسیلے کی محتاج نہیں۔ روشنی کی لہریں بیک وقت ذرے اور لہر کی خاصیت کی حامل گردانی جاتی ہیں۔ سائنسی نکتہ نظر کے مطابق روشنی کا بنیادی ذرہ فوٹان کہلاتا ہے۔ فوٹان اپنے قد و قامت اور حجم میں الیکٹران سے بڑا ہوتا ہے اس لئے سائنسدانوں نے یہ بات طے کر دی ہے کہ الیکٹران کو دیکھا جانا ممکن نہیں ہے کیونکہ ہم کسی چیز کو اسی وقت دیکھ سکتے ہیں جب روشنی اس چیز سے ٹکرا کر واپس پلٹ آئے اور اس کا عکس ہماری آنکھ کے پردے پر بن جائے۔ یعنی فوٹان الیکٹران سے ٹکرا کر پلٹنے کی بجائے اس کو ہٹا کر خود اس کی جگہ لے لیتا ہے۔

                بالائے بنفشی لہریں جلد میں داخل ہو جاتی ہیں جبکہ زیریں سرخ شعاعوں کے لئے شفاف شیشہ بھی رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔ گرین ہائوس ایفیکٹ (Green House Effect) جس کا آجکل بہت تذکرہ سننے میں آتا ہے، ماحول کی آلودگی کے سبب فضا میں درجہ حرارت کے اضافے کو کہا جاتا ہے۔ ایسا ماحولیاتی آلودگی کے باعث زیریں سرخ شعاعوں کا فضا میں مقید ہو جانے کے سبب ہوتا ہے۔

 

 

 

 

 

 


 

Topics


Chromopathy

ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی


روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔                میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔

                (آمین)

                

                                                                                                                                                خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                                مرکزی مراقبہ ہال

                                                                کراچی