Topics

چھٹا باب - ہومیوپیتھی…علاج بالمثل…جرمنی طریقہ علاج


                انیسویں صدی کے آغاز میں ہانمن (Hahnemann) نامی ایک جرمن طبیب نے اس نظریے کا پرچار کیا کہ جسم انسانی کائنات کا ایک حصہ ہے اور اس کائنات میں ایک روح سرگرم عمل ہے جو اس مادی اور فانی جسم کو بھی متحرک رکھتی ہے۔اس غیر مادی اور غیر فانی طاقت کو قوت حیات Vital Forceکہا گیا۔ اس قوت حیات کا فطری چلن ہی صحت اور تندرستی ہے جب تک قوت حیات ان فطری راستوں پر عمل پیرا ہوتی ہے جو خالق کائنات نے اس کیلئے مقرر کئے ہیں تو جسم کی مادی حالت پورے اعتدال پر قائم رہتی ہے لیکن جب قوت حیات کو غیر فطری تحریکات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اعتدال اور توازن بگڑ جاتا ہے اور اعضائے جسمانی فطرت وظائف سے بھٹک جاتے ہیں یعنی جسم سے گندگی، غلاظت اور کثافت کو دور کرنا اور درکار اجزاء کی مناسب مقداروں کو جسم کے اندر باقی رکھنے کے عمل میں رکاوٹ پڑ جاتی ہے۔

                ہومیوپیتھی کے مطابق تندرست جسم میں تندرستی کی علامات اور اعضاء و جوارح میں ایک صحتمندانہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ کسی بھی مرض کا آغاز احساسات میں تبدیلی سے ہوتا ہے یعنی مرض ذہنی سطح پر آغاز ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کے اثرات جسم میں نمودار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہومیوپیتھی میں کسی بیماری کا نام لے کر علاج کرنے کی بجائے مریض کے احساسات اور جسمانی علامات سے مطابقت رکھنے والی دوائی تجویز کی جاتی ہے۔ ہومیوپیتھی کے مطابق جسم انسانی ایک مکمل وحدت کا حامل ہوتا ہے اس کیلئے معالج ایک بیماری اور ایک دوا کو اپنا رہنما اصول مانتے ہیں یعنی مختلف اور متفرق علامات سے کسی ایک ہی مفرد دوا تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

                علاج بالمثل کا نظریہ دوا کے انتخاب کا یہ طریقہ بتاتا ہے کہ چونکہ بیماری کا مطلب ہے قوت حیات کا دب جانا اس لئے کسی بھی بیماری کا علاج کسی ایسی دوا سے ہی ممکن ہے جو قوت حیات کو واپس ابھار دے۔ قوت حیات کو ابھارنے اور اسے بھرپور طور پر روبہ عمل لانے کیلئے مریض کو ایسی دوا دی جاتی ہے جو عام حالت میں ایک صحت مند جسم میں وہی علامات پیدا کر سکتی ہو جو کہ زیر علاج مریض میں نظر آ رہی ہوں۔ اس کے لئے وہ ایک مخصوص طاقت Potencyکی پہلے سے تیار کردہ دوا مریض کو کھلاتے ہیں۔ اس دوا کے استعمال کے زیر اثر علامات مرض میں اضافہ ہو جائے تو سمجھا جاتا ہے کہ دوا ٹھیک طرح سے نشانے پر جا بیٹھی ہے۔ یعنی باالفاظ دیگر، ادویات کی علامات کو معلوم کر کے نوٹ کر لیا جاتا ہے اور پھر جب انہی علامات کا حامل مریض معالج کے سامنے آتا ہے تو وہ اس کو اس کی علامات سے مشابہ دوا کھلا کر انتظار کرتے ہیں تا کہ قوت حیات اس مصنوعی اضافے کے تحت ابھرنے والے مرض سے پیچھا چھڑانے کیلئے بھڑک کر اس مرض کو دبا دے۔

                علاج بالمثل میں ادویہ کی تیاری میں کسی دوا کے مادی اجزاء کم ہی حصہ لے پاتے ہیں کیونکہ پوٹینسیاں بنانے کیلئے کسی دوا کا ایک حصہ سو حصے الکحل میں شامل کر کے اس کو جھٹکے دے کر حل کیا جاتا ہے پھر اس سے ایک حصہ لے کر مزید سو حصے الکحل میں حل کیا جاتا ہے۔ اس طرح جب کسی دوا کی طاقت 30، 200یا ہزار اور لاکھ تک پہنچ جاتی ہے تو اس میں مادی اجزاء کا وجود کس طرح باقی رہ جاتا ہو گا یہ تصور باآسانی کیا جا سکتا۔

                ہومیوپیتھ معالجین اپنے طریقہ علاج کو ایک روحانی طریقہ علاج مانتے ہیں۔ اس طریقہ علاج میں معالج کی مہارت، یادداشت اور علاج میں دلچسپی کی بہت اہمیت ہے یعنی مریض کی علامات کو دیکھ کر انہی علامات والی دوا کو تلاش کرنے کی صلاحیت رکھنے والے معالج ہی کامیاب ہومیوپیتھ ہوتے ہیں۔

                اس طریقہ علاج میں اگر معالج کا اندازہ غلط ہو جائے تو مریض میں وہ علامات پیدا ہو سکتی ہیں جو اس میں پہلے سے موجود نہ ہوں اور دوسرے یہ کہ مریض کی مکمل تندرستی اور اصلاح احوال کیلئے ہومیو معالجین دو سے پانچ سال کی مدت تک علاج کروانے کی سفارش کرتے ہیں۔

                ہومیوپیتھی کے مطابق جسم انسانی میں برے خیالات سے جنم لینے والے زہر کا نام سورا تجویز کیا گیا ہے۔ اس کی علامات نظام اعصاب میں پیدا ہو کر فعلی خرابیاں پیدا کرتی ہیں۔ سفلس (آتشک) کا زہر دماغی جھلیوں، حنجرہ، گلا، آنکھوں اور ہڈیوں میں زخم ڈالتا ہے۔ سائیکوسس اسی زہر کی ترقی یافتہ صورت بن کر اعضائے تناسل میں سوزش، رسولیاں اور نزلاتی تکالیف برپا کرنے کا موجب بنتا ہے۔ ہومیوپیتھی کے مطابق انسان کی تمام تکالیف اور امراض انہی تین میں سے کسی ایک زہر سے منسوب ہوتی ہیں اور ابتدائی طور پر ان کے اثرات کا خاتمہ کرنے کیلئے بالترتیب سلفر، مرکیورس سال اور تھوجا کی مختلف پوٹینسیوں کا استعمال تجویز کیا جاتا ہے۔

               

                 

 

 

Topics


Chromopathy

ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی


روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔                میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔

                (آمین)

                

                                                                                                                                                خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                                مرکزی مراقبہ ہال

                                                                کراچی