Topics

دوسرا باب ۔ رائج الوقت طریقہ ہائے علاج


                اپنی بقا کے بعد انسان صحت مند اور تندرست زندگی کا خواہاں ہوتا ہے۔ صحت اور تندرستی کے حصول کیلئے انسانی کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس بارے میں دو باتوں کی بہت اہمیت ہے۔ پہلی وہ اصول، قواعد و ضوابط اور طرز زندگی ہے جس پر کاربند رہنے سے انسان صحت مند اور تندرست رہتے ہوئے بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے اور دوسرے یہ کہ بیمار ہونے کے بعد شفا حاصل کرنا اور بیماریوں سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرنا۔

                پہلی بات کہ انسان صحت مند اور تندرست اور توانا رہے اور اپنی صحت کے سبب بیماریوں سے محفوظ اور مامون رہے تو اس کے لئے مفید اور توانائی بخش غذائیں، ورزشیں، صاف ستھرا ماحول، درست طرز فکر، مناسب جذباتی رویئے اور صحت مند رجحانات اختیار کئے جاتے ہیں۔ لیکن جب ان چیزوں کے حصول میں کمی واقع ہو جاتی ہے یا کوتاہی سرزد ہونے سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو انسان بیمار پڑ جاتا ہے۔

                کسی بھی بیماری یا مرض کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہوتی ہیں۔

۱۔            چھوٹے، تاریک اور اندھیرے گھروں میں رہائش، دفتروں میں غیر صحت مند ماحول، ناموافق آب و ہوا سے جسم

                بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔

۲۔           شک، بے یقینی اور وسوسوں کا شکار ہونا، جذباتی عدم توازن، پراگندہ ذہنی، دماغی کشمکش، اعصابی دبائو، مادیت پرستی، عدم

                تحفظ کا احساس، انتشار خیال اور روحانی علوم سے عدم دلچسپی اور ناواقفیت نت نئے امراض کو جنم دینے کا باعث بنتے ہیں۔

                بیماری کی وجہ جو بھی ہو یہ بات طے ہے کہ انسان اس سے گھبراتا ہے اور اس سے فوری نجات کا خواہاں ہوتا ہے۔ بیماری سے نجات کیلئے علاج کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ علاج انسان کی ایسی ضرورت ہے جو موت و حیات کے مابین گردش کرتی ہے۔ امراض سے شفا پانے کیلئے انسان نے اپنی تاریخ کے ہر دور میں تدبیریں کی ہیں۔ وہ نت نئے نظریات قائم کر کے بیماریوں کے علاج کی کوشش کرتا رہا ہے۔ ان کوششوں سے علم طب میں بہت پیش رفت ہوئی ہے۔ طب ایک فن اور آرٹ بن گیا ہے۔ اس کی بے شمار شاخیں اور شعبے متعین کر دیئے گئے ہیں۔ دیگر علوم کی مانند یہ علم بھی ترقی پذیر ہے۔ علم طب کی کوئی بھی صورت ہو تو یہ بات بہرحال سب ہی صورتوں میں مشترک ملتی ہے کہ بیمار انسان کو کسی نہ کسی طور شفا مل جائے اور انسان صحت مند اور تندرست ہو جائے۔ انسانی زندگی کی سلامتی اور بہتری کی کوشش علم طب اور ہر طریقہ علاج کا بنیادی مقصد اور مطمع نظر ہے۔

                آیورویدک، ایلوپیتھی، طب یونانی، ہومیوپیتھی، آکوپنکچر، مقناطیسی علاج، بائیوکیمک، علاج بالماء، میگنیٹیو تھراپی، فزیوتھراپی، ریڈیو تھراپی، آروماتھراپی، ریفلیکس و لوجی یا کروموپیتھی، علم طب کی جو بھی قسم یا جو بھی طریقہ علاج ہو ان سب میں یہ بات مشترک ہے کہ جسم انسانی کو کسی نہ کسی ارتعاش کے تحت لا کر اس پر ایسے اثرات مرتب کئے جائیں کہ جسم صحت اور تندرستی کا حامل ہو جائے۔

                اکثر طریقہ ہائے علاج میں جسم پر ارتعاش(Vibrations) کا اثر بالواسطہ ہوتا ہے لیکن چند ایک ایسے طریقہ علاج بھی ہیں جن میں ارتعاش جسم انسان پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ کروموپیتھی ایک ایسا ہی طریقہ علاج ہے جس میں جسم براہ راست ارتعاش کا اثر قبول کرتا ہے۔

                کروموپیتھی کیا ہے؟ رنگ، روشنی کی ماہیت اور خاصیت کیا ہے؟ رنگ کیا ہیں؟ ان کے کیا کیا خواص ہوتے ہیں اور وہ مختلف بیماریوں کو کیسے دور کرتے ہیں؟ انسان میں ہونے والی کیمیاوی تبدیلیوں کا ان رنگوں سے کیا تعلق ہے اور یہ رنگ انسانی حواس اور جذبات پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں اور ان مختلف رنگوں کے مناسب استعمال سے ہم خود کو کیونکر صحت مند اور تندرست رکھ سکتے ہیں۔ یہ سب باتیں بیان کرنے سے پیشتر مناسب ہو گا کہ ہم مختلف نظام ہائے طب اور طریقہ ہائے علاج کا ایک جائزہ لے کر دیکھیں کہ صحت اور تندرستی کیلئے ان نظاموں نے کیا نظریے پیش کئے اوربیماریوں سے نجات کو ان طریقہ ہائے علاج میں کیا کیا سہولتیں دستیاب ہیں۔

                یہاں پر اس بات کی وضاحت کرنا بے جا نہ ہو گا کہ علم طب کی کسی بھی شاخ، طریقہ علاج نظام الشفا کا بنیادی اور اولین مقصد بیماری کو دور کرنا، مرض سے نجات دینا اور مریض کو شفا عطا کرنا ہی ہوتا ہے۔ اس لئے ہر طریقہ علاج کی اپنی اپنی افادیت اور تاثیریں ہوتی ہیں۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر معالج کے پیش نظر صرف مریض کی تندرستی اور بیمار کی شفا یابی اس کا مقصد اور مطمع نظر ہوتا ہے۔ جس معالج کو جس بھی طریقہ علاج میں سہولت اور آسانی محسوس ہوتی ہے اور جس طریقہ علاج پر اس کا یقین قائم ہو جاتا ہے وہ اسی پر کاربند رہتا ہے۔ کسی بھی طریقہ علاج میں شفا یابی کی شرح کا براہ راست تعلق معالج کے علم، خلوص نیت اور تجربے کے علاوہ اس طریقہ علاج کی سادگی، براہ راست اثر پذیری اور فطرت سے ہم آہنگی سے ہوتا ہے۔

 

 

 

 

 

 

Topics


Chromopathy

ڈاکٹر مقصودالحسن عظیمی


روحانی فرزند مقصود الحسن عظیمی نے اس رنگین سمندر میں شناوری کر کے بحر بے کراں سے بہت سارے موتی چنے ہیں اور انہیں ایک مالا میں پرو کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کیا ہے تا کہ انتہائی درجہ مہنگے علاج کے اس دور میں اس مفت برابر علاج سے اللہ کی مخلوق فائدہ اٹھائے۔                میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نور چشمی مقصود الحسن عظیمی کی اس کاوش کو اپنی مخلوق کے درد کو درمان بنائے اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے۔

                (آمین)

                

                                                                                                                                                خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                                مرکزی مراقبہ ہال

                                                                کراچی