Topics

عامل معمول


السلام علیکم!

وعلیکم السلام۔

آپ کا نام؟

محمود احمد۔

یہ نام کب رکھا گیا؟

اس وقت جب میں چند گھنٹوں یا ایک دن کا تھا۔

معاف کیجئے گا، کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں۔ آپ کی عمر کتنی ہے؟

جی ہاں! میری عمر تقریباً ساٹھ سال ہے۔

کیا آپ وہی ہیں جو پیدائش کے وقت تھے؟

جی ہاں! میں وہی ہوں۔

اگر آپ کی پیدائش کے وقت کی یا چند سال کی عمر کی تصویر آپ کو دکھائی جائے تو کیا آپ اس تصویر کو پہچان لیں گے؟

یہ کیسی بے وقوفی کی بات ہے کوئی آدمی بھی پیدائش کے وقت کی یا چند سال عمر کی تصویر کو کیسے پہچان سکتا ہے۔

محمود احمد صاحب! آپ کی ہر چیز تبدیل ہو گئی ہے تو یہ کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ آپ وہی محمود احمد ہیں جو ساٹھ سال پہلے تھے۔۔۔۔۔۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کی شناخت آپ کے نام سے اس لئے ہے کہ آپ کا نام آپ کے دادا نے رکھا تھا یعنی آپ نے اپنے باپ کا معمول بن کر ساٹھ سال زندگی گزاری ہے۔

کمال مقصود صاحب! آپ کی باتیں میری سمجھ میں نہیں آئیں؟

اچھا! آپ کی سمجھ میں نہیں آئیں؟ اگر میں آپ کو یہ بات سمجھا دوں تو آپ کو میرا معمول بننا پڑے گا۔

میں تیار ہوں۔

محمود صاحب۔ میں کون؟

عامل۔
تم کون؟

معمول۔
جو بولوں گا وہ آپ سنیں گے۔

جی ہاں سنوں گا۔

جو کہوں گا وہ آپ کریں گے۔

جی ہاں کروں گا۔

عامل: ادھر آیئے۔

معمول: آ گیا۔

عامل: ادھر جایئے۔

معمول: چلا گیا۔

عامل: اوپر دیکھئے۔

معمول: جی ہاں، اوپر آسمان ہے۔

عامل: نیچے دیکھئے۔

معمول: جی ہاں، نیچے زمین ہے۔

عامل: آپ کون ہیں؟

معمول: میں، میں ہوں۔

عامل: میں کون ہوں؟

معمول: آپ، آپ ہیں۔

عامل: میں کہاں تھا؟

معمول: کب کہاں تھا؟

عامل: جب یہاں نہیں تھا۔

معمول: اچھا اب میں سمجھا۔ آپ اس دنیا سے اس پار دوسری دنیا کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ آپ دوسری دنیا میں تھے۔

عامل: محمود صاحب! آپ کہاں تھے؟

معمول: میں بھی اس دوسرے عالم میں تھا۔

عامل: وہ عالم کیا ہے؟ کیا وہاں کوئی رہتا ہے؟ وہ عالم تو ہے لیکن اس عالم میں مادی جسم نہیں ہے۔

معمول: حیرت کا مقام ہے کہ جسم نہیں ہے۔ جسم نہیں تھا تو وجود کیسے بنا۔

عامل: وجود کی تعریف کیا ہے؟

معمول: ہر ٹھوس چیز وجود ہے۔

عامل: ٹھوس پن کسے کہتے ہیں؟

معمول: ٹھوس چیز ٹھوس ہے۔

عامل: ٹھوس چیز خلاء ہے۔

معمول: خلاء کیا ہے؟

عامل: خلاء بساط ہے۔

معمول: جناب بساط کی کیا تعریف ہے؟

عامل: بساط ایک عالم ہے۔

معمول: عالم کی بساط کیا ہے؟

عامل: عالم کی بساط روشنی ہے۔

معمول: روشنی کیا ہے؟

عامل: روشنی نور ہے۔

معمول: کمال مقصود صاحب! گتھیاں نہ سلجھایئے۔ بات سیدھی اور صاف کیجئے۔ یہ بتایئے میں جب ’’میں‘‘ نہیں ہوں تو میری ذات کس طرح قائم ہے؟

عامل: میرے عزیز، میرے معمول، میرے دوست! اس کے عالوہ آپ اور میں کچھ نہیں ہیں۔ سب ایک دوسرے کے معمول ہیں۔ ایک فرد بیس ہزار نادیدہ مخلوق کا معمول ہے اور ہر فرد بیس ہزار آدمیوں پر عامل ہے یعنی انہیں کنٹرول کرتا ہے۔ اس بات پر اگر غور کیا جائے تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ہر آدمی یہاں دوسرے آدمی کو Re-Actکر رہاہے۔ Re-Actکرنا ہی دراصل معمول بن جاتا ہے۔ میں نے جب کہا السلام علیکم۔ آپ نے میرا سلام سنا۔ سن کر کہا، وعلیکم السلام۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سلام کا جواب دینے والا معمول بن گیا۔

یہ ساری کائنات ایک ہستی جس نے ’’کن‘‘ کہا ، کی معمول ہے۔ اور اس ہستی کے بنائے ہوئے قوانین جیسے جیسے کسی نے سیکھ لئے وہ علم کی بنیاد پر عامل ہے اور دوسرے سب معمول ہیں۔

کمال مقصود صاحب! آپ نے جو راز میرے اوپر منکشف کیا ہے میں نے سن تو لیا ہے مگر اس کی گہرائی میں جانے کے لئے مجھے مزید غور و فکر کی ضرورت ہے۔ کچھ وقت کے لئے مجھے اجازت دیجئے۔ میں اور زیادہ علم سیکھنے کے لئے آپ کی خدمت میں پھر حاضر ہوں گا۔

 


Mehboob Baghal Mein

خواجہ شمس الدین عظیمی



’’ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو نہایت احسن طریقہ پر پیدا فرمایا اور پھر اس کو بد سے بھی بدترین مقام پر پھینک دیا۔

زمین کو اللہ تعالیٰ نے بد سے بھی بدترین مقام کہا ہے۔ اس لئے آدم کو سخت اضطرب لاحق ہو اور وہاں آپ کو ایسی چیزوں سے واسطہ پڑا جن کو کہ اس سے قبل آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ یعنی بھوک پیاس وغیرہ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو آپ کے پاس بھیجا۔ جنہوں نے اس منزل اور ضرورت گاہ کے تمام عقیدے آپ پر کھول دیئے۔ یوں استاد شاگرد کا رشتہ ازل تا ابد قائم ہو گیا۔ غرض ہر صاحب علم کا کوئی نہ کوئی استاد اور کوئی نہ کوئی شاگرد ہو گا جس سے بندہ تربیت حاصل کر کے اللہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ علم کی بنیاد دراصل کسی چیز کی خبر یا کسی چیز کی شکل و صورت کو یا کسی چیز کے وصف کو جاننا ہے۔ علم کے معنی بھی یہی ہیں کہ آدمی کے اندر جاننے اور کسی چیز سے واقف ہو جانے کا عمل پیدا ہو جائے۔