Topics

روحانی خواتین

اللہ اور اس کے رسول کی باتیں سننے کا ذوق اور اس کی تحصیل میں انتظار کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی کے اندر اللہ کے رسولﷺ سے قربت کی طلب ہے۔ کسی چیز کی طلب کا اندازہ اس کے انتظار سے ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انتظار زحمت ہے لیکن اگر انتظار کا صحیح مفہوم تلاش کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ساری زندگی بھی انتظار ہے، انتظار کو اگر زندگی میں سے نکال دیا جائے تو زندگی ختم ہو جائے گی۔

مثلاً بچہ پیدا ہوتا ہے والدین اس کی جوانی کا انتظار کرنا شروع کر دیتے ہیں، جب یہ بچہ جوان ہوتا ہے تو والدین اس کی شادی کا انتظار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ذرا عمر بڑھتی ہے تو جوانی بڑھاپے کا انتظار شروع کر دیتی ہے اور جب آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے تو موت کا انتظار شروع کر دیتی ہے کہ جلدی سے یہ بندہ جو میرے اندر سے پیدا ہوا تھا واپس میرے اندر سما جائے۔ دنیاوی زندگی کو دنیا کے معاملات کو جس طرح بھی الٹ پلٹ کیا جائے تو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ ساری زندگی انتظار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب یہ کائنات بنائی تو کہا ’’کُن‘‘ سب جانتے ہیں جیسے ہی اللہ نے کن کہا ساری کائنات وجود میں آ گئی۔ اب کائنات اس انتظار میں ہے کہ واپس اللہ کی طرف لوٹ جائے۔ ’’قالو ان اللّٰہ و ان الیہ راجعون‘‘ ہر چیز جو دنیا میں ہے اسے واپس اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ کن کا دوسرا مرحلہ بھی انتظار ہے یعنی جس طرح ہماری زندگی لمحہ لمحہ انتظار ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی ہمارے انتظار میں ہے کہ کب میرے بندے میرے پاس آئیں۔

بات یہ ہے کہ وہ بندے کس حالت میں اللہ تک جاتے ہیں جانا تو ہے۔ لاکھوں، کروڑوں سال سے یہ دنیا قائم ہے، اس میں کوئی بھی نہیں رہا۔ بڑے بڑے بادشاہ چلے گئے، فقیر چلے گئے اور حد تو یہ ہے کہ جس کے لئے اللہ نے یہ ساری کائنات تخلیق کی وہ بھی دنیا سے تشریف لے گئے۔ انتظار اس بات کی علامت ہے کہ آپ کے اندر ایک جذبہ کارفرما ہے، ذوق ہے، شوق ہے اور ایک بے قراری ہے۔ لاشعوری اور روحانی کیفیت یہ ہے کہ آدمی کے اندر ایک اضطراب ہے، اضطراب یہ ہے کہ کس طرح ہم اپنے خالق اللہ کو پہچان لیں، ہمیں وہ راستہ مل جائے جس راستے پر چل کر زندگی کا اصل مقصد حاصل ہوتا ہے۔ اس دنیا میں آنے کے بعد ہم دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ دو حصوں میں تقسیم ہونے پر ہم مجبور ہیں اس لئے یہ تخلیقی قانون ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے اس دنیا کو مذکر اور مونث سے رونق بخشی ہے یعنی دنیا کی رونق مرد اور عورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’ہم نے ہر شئے کو جوڑا جوڑا بنایا ہے اور ہم نے ہر مرد کو ہر عورت کو دو رخوں سے تخلیق کیا ہے۔‘‘ ہم نے ہر شئے کو تخلیق کیا جوڑے جوڑے یعنی عورت بھی دو رخوں سے تخلیق ہوئی اور مرد بھی دو رخوں سے تخلیق ہوا اب ان دو رخوں کی صورت یہ ہوئی کہ خواتین مغلوب ہو گئیں اور مرد غالب آ گئے۔ تاریخ میں زیادہ تر ادوار ایسے آئے ہیں کہ خواتین کی کثرت رہی اس کے باوجود خواتین مغلوب رہیں اور مرد غالب رہے۔ عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوتی رہی۔ کبھی عورت کو کنیز بنایا گیا کبھی اس کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں، کبھی اس کی ناک میں نکیل ڈال دی گئی، کبھی اس کو بازار میں منڈی لگا کر بھیڑ اور بکریوں کی طرح بیچا جانے لگا۔ ایسا بھی ہوا کہ مخصوص دنوں میں اس کو کمروں میں بند کر دیا گیا کہ یہ ناپاک ہے، غلیظ ہے، ہاتھ کا پکا ہوا کھانا چھوڑ دیا گیا اور مرد نے عورت کو اپنے لئے کھلونا بنا لیا۔ یہ ایک بڑی گھناؤنی تاریخ ہے۔ مرد اس لئے اس کو بیان نہیں کرتے کہ اس آئینے میں انہیں اپنے ظلم کا چہرہ نظر آتا ہے۔ عرصہ گزر گیا عورت کی بے حرمتی بے حرمتی نہیں رہی، عورت کے لئے بے عزتی کبھی بے عزتی نہیں سمجھی گئی۔ جب اس ظلم کو طویل عرصہ گزر گیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی بیگم حضرت ہاجرہؑ کو پیدا کیا، حضرت ہاجرہؑ سے حضرت اسماعیلؑ کو وجود بخشا، حضرت سارہؑ سے حضرت اسحاقؑ کو پیدا کیا، مقصد یہ تھا کہ مردوں کا غلبہ ختم ہو، عورت اپنی حیثیت کو اپنی صلاحیت کو اور اللہ تعالیٰ سے عورت کو جو قربت حاصل ہے اسے سمجھ کر عورت اقتدار میں توازن پیدا کرے لیکن یہ صورت عارضی طور پر پیدا ہوئی اور پھر مردوں کا غلبہ ہو گیا اور عورت مغلوب ہو گئی۔

مرد نے عورت کو ماں بھی کہا، بہن بھی کہا اور اس ہی عورت کو اس نے کنیز بھی بنا لیا۔ جب پانی سر سے اونچا ہو گیا اور کائناتی تخلیق کا دوسرا رخ معطل ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس عورت پہ رحم کیا اور اپنے محبوب بندے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دنیا میں بھیجا۔

 رسول اللہﷺ نے عورت کو عزت دی، عورت کا وقار بلند کیا، مردوں نے عورتوں کے جو حقوق پامال کر دیئے تھے انہیں بحال کیا اور عورت کو وہ درجہ دے دیا جو تقریباً مرد کے برابر تھا۔ اللہ تعالیٰ کے ذہن کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا:

’’مسلمان مرد مسلمان عورتیں، مومن مرد، مومن عورتیں، قناعت پسند مرد، قناعت پسند عورتیں اور عصمت کی حفاظت کرنے والے مرد اور عصمت کی حفاظت کرنے والی عورتیں اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور کثر ت سے اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں، ان کے اعمال کا اجر اللہ کے پاس ہے۔ تقویٰ میں عورت اور مرد دونوں اللہ کے نزدیک برابر ہیں۔‘‘

نبی مکرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عورت کے اوپر احسان عظیم ہے کہ رسول اللہﷺ عورت کو اسفل سافلین سے نکال کر اسی مقام پر لے آئے ہیں جہاں تقویٰ میں اسے مردوں کے برابر مقام مل گیا ہے لیکن عجیب صورت حال ہے باوجود اس کے کہ عورت کے ساتھ اللہ ہے اور اس کو اللہ کے رسولﷺ کا پورا پورا تعاون حاصل ہے عورت نے کبھی بھی اپنی صلاحیتوں کے بارے میں فکر نہیں کی، عورت نے کبھی یہ نہیں چاہا کہ وہ مرد کے بے جا غلبہ سے خود کو آزاد کرا کے اپنا روحانی تشخص تلاش کرے۔ میں اس آزادی کے حق میں نہیں ہوں جو مغرب نے عورت کو آزادی دی ہے، میں اس آزادی اور مقام کی بات کر رہا ہوں کہ جو اللہ کے رسولﷺ نے عورت کو دی ہے۔ عورت کو اللہ نے ماں بنا دیا، کوئی بھی بندہ غور کرے کہ آج کا پیدا ہونے والا بچہ کیا ہے۔ سائنسی ترقی کے دور میں یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے کہ بچہ کا ایک ایک عضو ایک ایک بال ماں کے خون سے بنا ہے۔ پیٹ میں جب ابتداء ہوتی ہے۔ تو بچہ مٹر کے دانے کے برابر ہوتا ہے۔ اسی مٹر کے دانے میں ماں نو مہینے تک اپنا خون انڈیلتی رہتی ہے۔ یعنی اس مٹر کے دانے کے اندر جو جان ہے اس کو ماں نے اپنا خون پلا پلا کر نشوونما دی ہے اور نو مہینے تک بچہ جو مٹر کے دانے کے برابر تھا اپنی ماں کا خون پیتا رہتا ہے۔ ماں کے خون سے اس کی ہڈیاں بنتی ہیں۔ ماں کے خون سے اس کا گوشت بنتا ہے، ماں کے خون سے اس کا دل بنتا ہے، پھیپھڑے بنتے ہیں، گردے بنتے ہیں انتہا یہ کہ دماغ بنتا ہے۔ اگر ماں کی صحت کمزور ہوتی ہے تو بچے بھی کمزور ہوتے ہیں، ماں کی صحت اچھی ہے تو بچے بھی صحت مند پیدا ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ماں کا ذہن پاکیزہ ہے تو بچے بھی پاکیزہ پیدا ہوتے ہیں۔ آپ غور کریں نو مہینوں تک جو خون بچے کو فیڈ کر رہا تھا وہی خون دودھ بن کے بچے کو فیڈ کرتا ہے۔

بچہ چلنے پھرنے بھی لگتا ہے اس کے دانت بھی نکل آتے ہیں اور اس کے اندر عقل و شعور بھی پیدا ہو جاتا ہے وہ جاننے بھی لگتا ہے، سمجھنے بھی لگتا ہے، پہچاننے بھی لگتا ہے، کھانے بھی لگتا ہے۔

یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ بچہ ماں کے علاوہ کچھ نہیں، جب وہ ہی بچہ جو ماں کے علاوہ کچھ نہیں ہے عقل و شعور کو پہنچتا ہے بالغ ہوتا ہے، باشعور ہوتا ہے تو عورت کو کنیز کے نام سے یاد کرتا ہے، کس قدر ناشکری ہے، کس قدر احسان فراموشی ہے لیکن اس احسان فراموشی میں ماں کا بھی دخل ہے اس لئے کہ ماں کو اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیت ودیعت کر دی ہے وہ اسے تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔ کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ عورت اور مرد کی روح الگ الگ ہے؟ جس طرح ایک مرد کو بھوک لگتی ہے عورت کو بھی بھوک لگتی ہے جس طرح ایک مرد مر کر لاش بن جاتا ہے اس طرح عورت بھی مر کر ایک لاش بن جاتی ہے۔ دونوں میں روح ایک ہے۔ روح کا نام عورت مرد نہیں ہے۔ روح کو تخلیقیPROCESSسے گزارنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دو رخ متعین کئے ہیں۔ اللہ وہ ہے جو ہر چیز کو جوڑے دوہرے پیدا کرتا ہے۔

جب یہ طے ہو گیا کہ اللہ کی طرف سے عورت کے اوپر کوئی ایسی پابندی نہیں ہے کہ عورت مغلوب بن کر رہے اگر اللہ تعالیٰ نے شوہر کے حقوق رکھے ہیں تو بیویوں کے بھی حقوق ہیں۔ مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا:

’’عورت کو اللہ تعالیٰ نے بڑے حقوق دیئے ہیں، عورت نے کبھی اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔‘‘

انہوں نے فرمایا کہ اگر ایک عورت بچے کی پیدائش کے بعد اس بات سے انکار کرے کہ میں بچے کو دودھ نہیں پلاؤں گی تو یہ باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کے دودھ کا انتظام کرے۔ اگر عورت چاہے تو اپنے بچے کو دودھ پلانے کا معاوضہ بھی لے سکتی ہے۔ مرد کے اوپر یہ فرض ہے کہ اگر عورت الگ گھر میں رہنا چاہے تو شوہر بیوی کو الگ گھر دے کر رکھے اور اس کی تمام ضروریات کی کفالت کرے لیکن یہاں بڑی عجیب صورت حال یہ ہے کہ جب عورت اور مرد کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا اور یہ سوچا گیا کہ مرد کو تو زیادہ حقوق حاصل ہیں ، عورت کو کم حقوق حاصل ہیں تو غیر مسلم دنیا سے آواز اٹھی کہ عورت کو بھی مردوں کے برابر درجہ ملنا چاہئے۔

عورت کو بھی مردوں کے برابر حقوق ملنا چاہئیں۔ کون سے حقوق عورت کو ملے؟ عورت صبح کو اٹھتی ہے جلدی جلدی ناشتہ کرتی ہے، شوہر کو بچوں کو ناشتہ کراتی ہے، بچوں کو اسکول میں بھیجتی ہے اور دفتر میں جا کر بیٹھ جاتی ہے ، بینک میں ملازمت کرتی ہے۔ پانچ چھ بجے تک وہاں محنت مزدوری کرتی ہے۔ دراصل یہ ذمہ داری باپ کی تھی اور ہے۔ شام کو پھر ہانڈی میں مصروف ہو جاتی ہے۔

حقوق کہاں ملے؟ حقوق تو یہ ہیں کہ آپ اپنے گھر میں رہیں اپنی چاردیواری میں رہیں اور شوہر آپ کے کھانے پینے کے خورد و نوش آپ کے لباس اور دوسری ضروریات کا انتظام کرے۔ آپ کے بچوں کی پرورش کرے جو اسلام نے اس کے اوپر ذمہ داری عائد کی ہے اسے پوری کرے لیکن اسلام کے خلاف عورت کے حقوق کی بحالی کا دعویٰ کر کے غیر مسلموں نے اپنی چالاکی اور ہوشیاری سے عورت کو مزدور بنا دیا ہے کہ وہ گھر کی روٹی بھی پکائے اور گھر سے باہر جا کے ملازمت بھی کرے۔ عورت کا فرض ہے کہ بچوں کی صحیح تربیت کرے اپنے گھر کو اچھارکھے اور اپنے شوہر کے حقوق پورے کرے۔ شوہر کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کے حقوق پورے کرے اور گھر کی تمام معاشی ضروریات کا کفیل ہو۔ یہ کیسا نظام ہے کہ عورت بچوں کے لئے پیسے بھی کما کے لائے، کھانا بھی پکائے؟

روحانی نقطہ نظر سے عورت اور مرد دونوں ایک ہیں کسی روح کا نام عورت نہیں رکھا جاتا اور کسی روح کا نام مرد نہیں رکھا جاتا۔ لہٰذا روح ایک ہے، روح کا جو روپ بہروپ ہے، روح کا جو مظاہرہ ہے وہ الگ الگ ہے اور وہ مظاہرہ ایک تخلیقی ضرورت ہے۔ ہم جب تخلیقی ضرورت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو وہاں بھی یہ نظر آتا ہے کہ عورت وہ کام کر رہی ہے جو اللہ کر رہا ہے ۔ اللہ بھی خالق ہے، عورت بھی ذیلی خالق ہے، اللہ بھی بغیر صلہ و ستائش اور بغیر معاوضے کے اپنی مخلوق کو وسائل فراہم کر رہا ہے، ہر چیز مفت فراہم کی جا رہی ہے، اسی طرح جب ہم ماں کو دیکھتے ہیں تو ماں بھی اپنے بچے کو سائل فراہم کر رہی ہے۔ نو مہینے پیٹ میں رکھ کر وسائل فراہم کرتی ہے۔ سوا دو سال تک دودھ پلا کر اولاد کو مفت وسائل فراہم کرتی ہے اور انتہا یہ ہے کہ جب تج بچہ جوان ہوتا ہے اس کے ساتھ لگی رہتی ہے۔ ایک بچہ کا کام چار پانچ آدمیوں کے برابر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب اپنی محبت کا تذکرہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ میں اپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہوں۔ یہاں بھی عورت کا درجہ افضل قرار پایا۔

روحانی صلاحیت اور علم کے بارے میں غور و فکر کیا جائے تو سب سے زیادہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال حضرت عائشہؓ سے منقول ہیں۔

غار حرا میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مراقبہ کرنے تشریف لائے اور فرمایا:

اقرا باسم ربک الذی خلق۔ خلق الانسان من علق

حضور پاکﷺ حضرت جبرائیلؑ فرشتہ کو دیکھ کر گھبرا گئے اور اس گھبراہٹ میں حضرت بی بی خدیجہؓ کے پاس تشریف لے گئے۔

حضرت بی بی خدیجہؓ نے تسلی دی، تشفی دی اور کہا کہ آپ تو غریبوں کی مدد کرتے ہیں، مسافروں کا خیال رکھتے ہیں، آپ کو کچھ نہیں ہو گا۔ آپ کے اوپر اللہ کی مہربانی اور عنایت ہے کہ آپ کو منتخب کر لیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ اگر حضور پاکﷺ کو حضرت بی بی خدیجہؓ ڈھاس نہ دیتیں تو کیا نتیجہ ہوتا۔ پھر صحابیات کی زندگی پر تفکر کیا جائے تو لڑائیوں میں انہوں نے حصہ لیا۔ علم میں وہ ایک بلند مقام پر نظر آتی ہیں۔ اولیاء اللہ کی طرف آ جایئے۔

اولیاء اللہ میں حضرت رابعہ بصریؒ پیدا ہوئیں اور بے شمار خواتین پیدا ہوئیں بے شمار قلندر ہوئیں۔ میں نے کتاب ’’جنت کی سیر‘‘

میں لکھا ہے کہ یہ آدھا قلندر کیا ہوتا ہے۔ ایک عورت نے اگر ایم۔اے کیا ہے تو وہ آدمی ایم۔اے ہے؟ ایک عورت اگر پی۔ایچ۔ڈی ہے تو وہ آدھی پی۔ایچ۔ڈی ہے؟ مرد نے پی۔ایچ۔ڈی کی تو وہ پورا پی۔ایچ۔ڈی ہے یہ کیا بات ہوئی؟ عورت ہو یا مرد ہے پی۔ایچ۔ڈی۔ اس طرح قلندر، قلندر ہے چاہے وہ عورت ہو یا مرد ہو اور تاریخ پر چونکہ مردوں کا تصرف رہا، اقتدار بھی مردوں کے ہاتھ میں رہا، بادشاہتیں مردوں کے ہاتھ میں رہیں نتیجہ یہ نکلا کہ اولیاء اللہ خواتین کے نام بھی گنے چنے رہ گئے۔

ہمارے ایک عزیز دوست سولنگی روزنامہ عبرت میں سندھی میں روحانی کالم لکھتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا یہ تلاش کرو کہ لاکھوں سال میں دو تین ہی عورتیں ولی اللہ کیوں ہوئیں جبکہ دونوں میں روح ایک ہے۔ دیکھنے میں اور تجربے میں یہ بات آئی ہے کہ ہر مذہب میں عورتیں زیادہ مذہبی ہوتی ہیں۔ عورت کا دل اللہ سے زیادہ قریب نظر آتا ہے۔ دو ڈھائی سال کی کوشش سے ایک سو سترہ(۱۱۷) اولیاء اللہ خواتین کے نام دریافت ہوئے ہیں۔ انشاء اللہ جب وہ کتاب منظر عام پر آئے گی تب پتہ چلے گا کہ مرد ہی ولی اللہ نہیں ہوتے عورتیں بھی اولیاء اللہ ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عورت کمزور اور ناقص ہے، کوئی عورت پیغمبر نہیں ہوئی لیکن ساتھ ساتھ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت مریم کا درجہ پیغمبروں جتنا ہے۔ اب حضرت مریمؑ کو ان کے خالو حضرت زکریاؑ نے ایک حجرہ میں بند کر دیا اور بھول گئے۔ دو تین دن بعد یاد آیا کہ میں نے مریمؑ کو کھانے پینے کو کچھ نہیں دیا اس کا حشر کیا ہوا ہو گا، جا کے دروازہ کھولا تو وہ ہشاش بشاش بہت خوش، صحت مند نظر آئیں۔ حضرت زکریاؑ نے پوچھا تین چار دن تمہیں غذا کہاں سے ملی۔ کہنے لگیں میرے اللہ نے مجھے کھلایا پلایا۔ میرے لئے دو وقت تھال آ جاتا ہے میں خوب کھاتی ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے قادر مطلق ہونے کے ثبوت کے لئے حضرت مریمؑ کا انتخاب کیا۔ جس طرح آدمؑ کو اللہ نے بغیر ماں کے پیدا کیا اور حوا کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا۔ اس طرح حضرت مریمؑ کے بطن سے بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ ؑ کو پیدا کیا۔ جس طرح حضرت آدمؑ کی پیدائش میں قادر مطلق ہستی کی قدرت نظر آتی ہے اسی طرح یہ عظمت حضرت مریمؑ کو بھی حاصل ہے کہ حضرت مریمؑ سے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کر دیا۔ کیا عورت اب بھی یہ کہے گی کہ اس کے اندر اللہ کی صفات نہیں ہیں۔ کیا عورت اب بھی یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ اللہ کی رحمت سے دور ہے۔ اللہ نے کسی بھی مرحلے میں کسی بھی قدم پر عورت کو محروم نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کی عظمت کو اجاگر کیا ہے، جہاں مردوں کی عظمت کو اجاگر کیا وہاں عورت کی بھی عظمت کو اجاگر کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت طیبہ کو آپ پڑھیں جب کبھی دائی حلیمہ تشریف لاتی تھیں تو رسول پاکﷺ اپنی چادر بچھا دیا کرتے تھے۔ کھڑے ہو کے ادب و احترام سے ان کی خدمت کرتے تھے۔ حالانکہ حضرت حلیمہ نے انہیں صرف دودھ ہی پلایا ہے۔

اللہ کا عورت کے ساتھ ایک خصوصی ربط اور تعلق ہے اور تخلیق میں عورت کو اللہ نے اپنا نائب بنایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہوں۔ اب تخلیق کرنے والوں میں دوسرا خلق تو ماں کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا یعنی اللہ کے بعد اگر کوئی ہستی تخلیق کرنے والی ہے تو وہ ماں ہے اتنی قربت کے بعد بھی اللہ سے دوری ہو۔۔۔۔۔۔دوری تو نہیں ہے۔ یعنی اللہ سے اتنی قربت بھی نہ ہو کہ آپ اللہ کو دیکھ سکیں تو یہ میرے خیال میں کفران نعمت اور ناشکری کی بات ہے۔ سلسلہ عالیہ عظیمیہ نے اس بات کو بہت محسوس کیا ہے کہ پانچ ہزار سال کی تاریخ میں ہر طرف مرد کا ہی اقتدار ہے۔ مردوں نے دنیا کو عذاب بنا دیا ہے۔ کوئی مرد ایٹم بم بنا رہا ہے۔ کوئی میزائل بنا رہا ہے۔ کوئی مہلک ہتھیاروں کی بھٹیاں سلگا رہے ہیں۔ ظالم انسان اس بات میں لگا ہوا ہے کہ کسی طرح دنیا کو تباہ و برباد کر دیا جائے اور ماں اس الجھن میں پریشان ہے کہ کسی طرح دنیا کو محافظ مل جائے اور دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن جائے تو سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے بڑوں نے ایک پروگرام بنایا ہے کہ عورت کو اس کی اپنی ذاتی صلاحیتوں سے آگاہ کیا جائے جب اس کو آگاہ ہی نہیں کیا جائے گا اور وہ اپنی صلاحیتوں سے آشنا ہی نہیں ہو گی تو اقدام کیسے کرے گی۔ قدم آگے کیسے بڑھائے گی۔

اللہ کا نام لے کے ہم نے یہ کام شروع کر دیا ہے۔ خواتین میں بھی کام شروع کیا، مردوں میں بھی کام شروع کیا۔ مردوں کو بتایا کہ تمہارے اندر بھی وہی روح کام کر رہی ہے جو تمہاری ماں کے اندر کام کر رہی ہے۔ تم اپنی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرو اور خواتین کو بتایا کہ وہ اپنی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کریں۔ اللہ کا کرم ہے مردوں نے بھی ہماری بات سنی اور عورتوں نے بھی ہماری بات سنی، مخالفتیں بھی ہوئیں کہ بڑے عجیب لوگ ہیں کہ جو عورت کو بھی روحانی بنانا چاہتے ہیں۔ میں کیا کہتا ہوں اللہ کہتا ہے اللہ کا رسول کہتا ہے۔ یہ ہم نے کوشش کی، جدوجہد کی، پہلے ہم دو آدمی تھے پھر چار بنے پھر مخالفتیں بھی پیش آئیں۔ ہر اچھے کام میں مخالفتیں بھی ہوتی ہیں اور نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ خواتین سلسلہ عظیمیہ میں تشریف لائیں اور انہوں نے سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات پر عمل کیا، سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات یہ ہی ہیں کہ روح مرد یا عورت نہیں ہوتی، روح میں سب برابر ہیں۔ اگر کوئی عورت اپنی روح کو بیدار کر لے وہ خدا رسیدہ ہو جائے گی، اگر کوئی مرد اپنی روح کو بیدار کر لے تو وہ خدا رسیدہ ہو جائے گا۔


Mehboob Baghal Mein

خواجہ شمس الدین عظیمی



’’ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو نہایت احسن طریقہ پر پیدا فرمایا اور پھر اس کو بد سے بھی بدترین مقام پر پھینک دیا۔

زمین کو اللہ تعالیٰ نے بد سے بھی بدترین مقام کہا ہے۔ اس لئے آدم کو سخت اضطرب لاحق ہو اور وہاں آپ کو ایسی چیزوں سے واسطہ پڑا جن کو کہ اس سے قبل آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ یعنی بھوک پیاس وغیرہ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو آپ کے پاس بھیجا۔ جنہوں نے اس منزل اور ضرورت گاہ کے تمام عقیدے آپ پر کھول دیئے۔ یوں استاد شاگرد کا رشتہ ازل تا ابد قائم ہو گیا۔ غرض ہر صاحب علم کا کوئی نہ کوئی استاد اور کوئی نہ کوئی شاگرد ہو گا جس سے بندہ تربیت حاصل کر کے اللہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ علم کی بنیاد دراصل کسی چیز کی خبر یا کسی چیز کی شکل و صورت کو یا کسی چیز کے وصف کو جاننا ہے۔ علم کے معنی بھی یہی ہیں کہ آدمی کے اندر جاننے اور کسی چیز سے واقف ہو جانے کا عمل پیدا ہو جائے۔