Topics
مرید نے عرض کی حضور یہ بات کچھ عجیب سی محسوس ہوتی ہے کہ جب
تک لوح و قلم کا ترجمہ ہوتا رہا دنیاوی مصروفیات اتنی بڑھ گئی تھیں کہ اٹھارہ اٹھارہ
گھنٹے کام کرنا پڑ رہا تھا ۔ لیکن جب سے یہ ترجمے کا کام مکمل ہوا ہے تمام مصروفیات
بھی ختم ہو گئی ہیں۔
جی ہاں۔۔۔ یہ سب آپ کے شعور کو بیلنس رکھنے کا انتظام تھا۔ ۔۔۔اُن کے مرید کو ایک خوشگوار سی حیرت بھی ہوئی اور فخر بھی محسوس ہوا کہ وہ بھی اس قابل ہے کہ اُس کے لئے کچھ خصوصی انتظام ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اُس کو کچھ ہی دیر پہلے اقبال صاحب کا اسے قطار سے ہٹ کر اندر بھیجنے نے خود کو کسی قدر اہم محسوس کرنے پر ابھارا لیکن اپنے مراد کے حضور ہونے کی اہمیت نے اُس خیال کو
دھندلا دیا۔ اس وقت وہ اُن کے ساتھ بیٹھا چائے چسک رہا ہے اور
اُن سے جو جی چاہ رہا ہے۔۔۔ کہہ رہا ہے۔اُس نے چاہا کہ دریافت کرے کہ لوح و قلم کے
ترجمے کے مسودے کا کیا ہوا؟ لیکن پھر یہ سوچ کر چپکا بیٹھا رہا کہ کہیں یہ اُس کی ذاتی
نمائش کی خواہش نہ ہو۔ انہوں نے خود ہی پوچھا۔ بھئی اب اس ترجمے کا مزید کیا کرنا ہے؟
اُس نے جو بات
کہی وہ خود اُس کے اپنے وہم و گمان میں نہ تھی۔ اُس نے خود کو کہتے سُنا۔ ” میرا خیال
ہے کہ اس کی اشاعت سے پہلے کوئی ایسا بندہ مل جائے جو اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی سے
بھی کچھ مس رکھتا ہو اور لوح و قلم کو بھی کچھ نہ کچھ سمجھتا ہو۔ پھر میں اس ترجمے
کو لفظ بہ لفظ خود اُن کے سامنے پڑھوں۔ اس سے یہ ہوگا کہ اگر کوئی غلطی ہوگی تو وہ
سامنے آجائے گی اور اس طرح اس کی پرکھ بھی ہو جائے گی کہ سننے میں یہ کیسا لگتا ہے۔“
آپ کو ”بندہ“
مل جائے گا۔ مسکراتے ہوئے لفظ بندہ پہ زور دے کر کہا گیا۔
اُس نے کچھ
نہ سمجھنے کے انداز میں اُن کو دیکھا تو طرح دیتے ہوئے فرمایا۔ ”میں سمجھ گیا۔ اس سےیہ
ہوگا کہ اس طرح پرھنے سے الفاظ کی سیٹنگ کا بھی اندازہ ہو جائے گا ۔ میں خالد نیاز
سے کہہ دوں گا وہ آپ سے مل لیں گے۔“
آپ کو اس ترجمے کا بہت فائدہ ہوگا۔ لوح و قلم تو الہامی کتاب ہے۔ قرآن حکیم اور فتوحاتِ مکیہ کے بعد یہ پہلی تصنیف ہے۔ باقی سب کتب تالیف کے زمرے میں آتی ہیں۔ بھئی حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے یہ سہرا آپ کے سر باندھ دیا ہے۔ میرے مرشدِ کریم کی خواہش تھی کہ یہ کتاب میرے نام سے چھپے۔ جب میں نے اس کا ٹئٹل بنوا لیا تو شام کو اندھیرے میں دکھایا اور اُن کے نام پر انگوٹھا رکھ کر اُن سے منظوری لے لی۔ قلندر بابا اولیا نے جو کچھ لکھوایا تھا۔۔۔ جب کتابت کا مرحلہ آیا تو بہت سے حصے قلم زد شروع کر دیئے۔ اس کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ یہ ضروری نہیں۔۔۔ یہ غیر ضروری ہے۔۔ میں ڈرا کہ کہیں سب ہی نہ کاٹ دیں۔ میں نے کتاب دکھانا ہی بند کر دی۔ وہ سب کچھ
انہوں نے مجھے لکھوایا تھا۔۔۔ وہ سب میرے لئے تھا۔۔ یہ تو میری
تعلیمات کا حصہ تھا۔۔۔ لوگوں کے لئے تھوڑے ہی تھا۔ لیکن ہمیں اتنا جوش تھا کہ لوگوں
کو معلوم تو ہو۔۔۔ اب دیکھیں کسی کو سمجھ بھی تو آئے ۔۔۔ مراد اُس کو بتا رہا تھا۔
وہ اُن کو بولتے
سُن بھی رہا تھا اور اُن کی طرف ممنونیت سے دیکھ بھی رہا تھا۔ اُس نے اُن کی باتوں
میں دکھ محسوس کیا تو بولا۔۔ یہ آپ کا ہم پہ احسان ہے کہ آپ نے اس علم کو عام کرنے
کو اس کی اشاعت کا فیصلہ فرمایا۔ اوروں کی بابت تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا لیکن میری
آرزو ہے کہ یہ کتاب مجھے سمجھ آجائے اور اس کے لئے میں ہر ممکن کوشش کرتا رہوں گا۔
آپ نے علم کو سینوں سے باہر نکلنے کا راستہ فراہم کیا ہے۔ اب یہ ان شاء اللہ اپنا راستہ
خود ہی بنائے گا۔
اللہ آپ کو
خوش رکھے۔ کہتے ہوئے وہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔
کمرے سے باہر
نکلے تو سامنے سے کالا چشمہ پہنے ایک صاحب ہاتھ میں کچھ کاغذات تھامے، پان چباتے چلے
آرہے تھے۔ شام کے گہرے ہوتے اندھیرے میں بھی سیاہ چشمہ۔۔۔اُس کو کچھ عجیب سا لگا۔ انہوں
نے قریب آکر چشمہ اتارا ۔ سلام کیا اور اخبار میں دینے کے لئے کالم کی بابت کچھ بات
کہی۔ ابّا نے۔۔۔ بھئی یہ ہیں خالد صاحب۔۔۔ کہہ کر اُن سے متعارف کروا کر انہیں اُس
کی ترجمہ سننے کی خواہش کا بتا کر کہا آپ آپس میں طے کر لیں کہ کیا کرنا ہے اور کیسے
کرنا ہے۔ پھر خالد نیاز سے کہا۔ آپ کوئی جگہ اور دن مقرر کر کے مل بیٹھا کریں۔۔۔ ایک
دو گھنتے کام کیا۔۔۔ اس طرح کچھ نشستوں میں کام ہو جائے گا۔ دونوں نے اس پہ صاد کیا
اور پھر یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل دیئے کہ مجھے کسی کے یہاں پہنچنا ہے۔
خالد نیاز کے ساتھ نشستیں شروع ہوئیں۔ انہوں نے اُس کو سلسلے کے حوالے سے کئی باتوں سے روشناس کرا دیا۔ وہ لوح وقلم کی کلاس کے طالب علم رہے تھے۔ اُن کو ماورائی دنیا سے کچھ زیادہ ہی شغف تھا۔ وہ اوپر والوں کے تکوینی امور کے حوالے
سے اُسے بتاتے، قلندر بابا اولیا کے تکوینی رتبے کی باتیں
کرتے، اُن کی رسائی اور دسترس کی باتیں بتاتے۔ اپنے مرشد کریم سے والہانہ لگاؤ کے پس
پردہ اُن سے اکتسابِ فیض کی مچلتی خواہش کو وہ چھپانے کی کوشش بھی نہ کرتے۔ مختلف اخبارات
میں اُن کے لکھے کالم لے کر جاتے ، وہاں سے ڈاک سمیٹ کر لاتے اور اسی طرح کے کئی چھوٹے
بڑے کام انہوں نے اپنے ذمے لے رکھے تھے۔ وہ اُن کے گھر بھی آتے جاتے تھے اور روحانی
ڈائجسٹ اور مطب بھی پہنچ جایا کرتے۔ اُن سے اپنے مرادکے سامنے نشست و برخاست اور سلسلے
کے آداب کو سمجھنے میں اُسے بہت مدد ملی۔
وہ اُس کو نوآموز
اور سادہ لوح جان کر اُس کو اپنے مرشد سے ایسے ایسے سوال پوچھنے پر ابھارتے جن کو دریافت
کرنے کا خود اُن کو حوصلہ نہ ہوتا تھا۔ پیر بھائیوں کی بابت یا تو اُن کے تجربات کچھ
زیادہ خوشگوار نہ تھے اور یا پھر اُن کے مقابلے میں خود کو مرشد کے زیادہ قریب ماننے
کے سبب خود کو لئے دیئے رکھتے تھے۔کبھی کبھار تو اُس کو اُن کی باتوں سے کچھ یوں محسوس
ہوتا گویا وہ سب اسی تاک میں ہیں کہ مرشد کریم کے علوم کو کہیں کوئی دوسرا نہ لے اڑے۔
اُس کو یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی کہ سورج کی روشنی تو سب کے لئے یکساں دستیاب ہے تو
پھر اُس پہ کسی قسم کی کوئی کھینچا تانی کی گنجائش کہاں۔ اگر کسی نے کچھ زیادہ اکتسابِ
فیض کیا تو یہ اُس کے نصیب اور ہمت۔۔۔ کبھی کبھی اُسے محسوس ہوتا کہ وہ اُس کی باتوں
کو نظریاتی حد تک ہی تسلیم کرتے۔۔۔۔اُن کو عملی حدوں کے لئے ناقابلِ عمل کہتے تو نہ
تھے لیکن مانتے کچھ ایسا ہی تھے۔
اُن دنوں وہ ہفتے میں ایک دو بار مراقبہ ہال جاتا۔ ایک روز وہ مراقبہ ہال پہنچا تو وہ گلاب کی کیاری کے پاس کھڑے دکھائی دیئے۔ وہ بھی پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ وہ ایک ایک پودے کے ایک ایک پتے کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے ڈاکٹر مریض کی تشخیص کرتے وقت پوری توجہ اور دھیان سے معائنہ کرتا اور ذہن میں اسباب و علل کی فہرست بنا رہا ہوتا ہے۔
اُس نے دیکھا کہ گلاب کے پتے پھولوں کی پتیاں چرمرائی ہوئی ہیں۔
دیکھ کر اُسے افسوس سا ہوا کہ اُس کے مراد کے گلستان کے پھولوں پہ یہ افتاد کیوں؟ انہی
دنوں اُس نے کہیں یہ پڑھا تھا کہ گلاب کو رات کے وقت پانی دینے سے اُس کے پتے اور پنکھڑیاں
چر مرا جاتے ہیں۔ اُس نے یہی بات کہہ دی۔ انہوں سُنا لیکن کچھ نہ کہا۔ کچھ آگے جا کر
اُس نے اپنی بات پھر دہرائی۔ سُن کر چپ ہو رہے۔ آگے جا کر مزید پودوں کی یہی حالت دیکھی
تو تیسری بار کہا۔ یہ سب پودے اس لئے خراب ہو رہے ہیں کہ انہیں رات کو پانی دیا جاتا
ہے۔ اب حضور رُکے اور اُس سے کہا۔ آپ کا کیا خیال ہے۔۔۔ مجھے یہ بات معلوم نہیں۔۔۔
بھئی میری مجبوری یہ ہے کہ یہاں پانی آتا ہی رات کو ہے۔
مرید کا یہ
حال کہ کاٹو تو لہو نہیں۔اپنے مراد کے سامنے اپنے علم کا اظہار کرنے کی حماقت کا مرتکب
ہو کر وہ شرمندہ تھا۔ اُس نے چاہا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اُس میں سما جائے۔ وہ سر
جھکائے وہاں کھڑا تھا کہ انہوں نے ۔۔۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔۔ اُس کو مخاطب کرتے ہوئے
جھڑے ہوئے پھولوں کی سوکھی ڈوڈیاں توڑ کر دکھاتے ہوئے کہا ۔ ان کو توڑ دیں تو نئی کونپلیں
زیادہ نکلتی ہیں۔ اُس کو ایک نئی بات سیکھنے کی جو خوشی ہوئی وہ معافی ملنے کی خوشی
کے ساتھ مل کر دو چند ہو گئی۔ وہ کیاری میں لگے پودوں کی سوکھی شاخیں اور ڈوڈیاں توڑنے
لگ گیا۔
ایک بار وہ مراقبہ ہال پہنچا تو اُس نے کفیل صاحب کو اپنی بیگم کے ہمراہ حضور کے کمرے کے باہر کھڑے دیکھا۔ وہ اُن کے قریب چلا گیا۔ اُس کو کفیل صاحب بہت ہی نفیس اور بھلے لگے۔ اُن کی بیگم بھی بردبار اور باوقار سی خاتون تھیں۔ اُن کو معلوم ہوا کہ حضور نہانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اُن کے ساتھ کہیں جانے کا پروگرام طے ہے اور وہ انہیں لینے آئے ہیں۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ حضور اپنے کمرے سے نکل کر اپنے لئے مختص باتھ روم کی طرف چلے۔ دھوتی لپیٹے، بنیان پہنے وہ اُن کے قریب آئے تو انہوں نے انہیں سلام کیا۔ اُس نے محسوس کیا کہ انہوں نے نہانے سے پہلے جسم
پہ تیل لگایا ہوا ہے۔ انہیں لنگی بنیان میں دیکھ کر اُسے بالکل
بھی عجیب نہ لگا۔ اُس حالت میں بھی وہ اتنے اچھے لگے جیسے فارمل لباس میں نظر آتے تھے۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔