Topics
مرکزی مراقبہ ہال کے ارد گرد کئی عظیمی بہن بھائیوں نے پلاٹ
لے لئے ہیں۔ اُن میں سے چند ایک نے اپنے لئے مکانات کی تعمیر مکمل کر لی ہے اور کچھ
کر رہے ہیں اور باقی ان شاء اللہ اپنے وقت پہ کر ہی لیں گے۔ عرفان صاحب اور احمد جان
کے علاوہ کم ہی لوگ ایسے تھے جن سے وہ صورت آشنائی اور سلام دُعا سے زیادہ مراسم بڑھا
سکا تھا۔
غفار بھائی
حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کی رباعیات پنجاب کی مخصوص لے میں ترنم کے ساتھ پڑھتے تو
اک سماں بندھ جاتا۔۔۔ وہ اتنا ڈوب کر اتنے شغف اور محبت سے پڑھتے کہ کوئی کن رس نہ
بھی ہو۔۔۔داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
مراقبہ ہال
میں قیام کے دوران جب حضور چاہتے اُس کو اُن سے بات کرنے ، اُن کے ہمراہ سیر پہ ساتھ
ہونے یا دسترخوان پہ ساتھ بیٹھنے کا موقع مل جاتا۔ اُس دوران وہ کوئی ایک آدھ بات دریافت
کر لیتا۔۔۔۔ ورنہ جو وہ کہہ دیتے وہ اُس کو اپنے حافظے میں سمیٹنے کی تگ ودو میں لگا
رہتا۔ باقی وقت وہ کبھی اِدھر بیٹھ جاتا تو کبھی اُدھر۔۔۔کبھی اُس کے ساتھ تو کبھی
اس کے ساتھ۔۔۔ سب ہی اُس کو مرشد کریم کی شفقتوں کے سبب محبت اور اخلاق سے ملتے۔ کچھ
اپنی سناتے کچھ اُس کی سنتے۔
کبھی کبھار
اراکین مراقبہ ہال اپنی فراغت کے لمحات میں اُسے بھی شامل کر لیتے۔ ہلکی پھلکی گپ شپ
کبھی کبھار جملے بازی سے ہوتی لطیفے بازی پر ختم ہوتی۔ ایک روز اُس نے چار پانچ دوستوں
کو ایک لطیفہ سنایا۔ سب نے لطف لیا۔
شام کو مغرب
سے کچھ پہلے حضور مراقبہ ہال تشریف لائے۔ سناٹا رونق میں تحلیل ہو گیا۔ آپ اپنے کمرے
میں گئے۔ باہر تشریف لائے اور لان میں چارپائی ڈلوا کر بیٹھ گئے۔ اُس نے موقع دیکھا
اور پاس جا کر بیٹھ گیا۔ اُس کی دیکھا دیکھی باقی اصحاب بھی آ کر وہیں گھاس پہ بیٹھ
گئے۔ حضور نے گرمی کی شکایت کی۔ ایک پیڈ سٹل فین لگا ہوا تھا۔
فرمایا۔ یہ
گرمی مجھی کو زیادہ محسوس ہو رہی ہے یا واقعی کچھ زیادہ ہے۔ پھر ایک پنکھا مزید لگانے
کو کہا۔ جب تک پنکھا آتا فرمایا۔ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کو بھی گرمی بہت ستاتی
تھی۔ بھئی ہم تو جنتی لوگ ہیں شاید اسی لئے گرمی برداشت نہیں ہوتی۔
فرمایا۔ کراچی
میں بھی برف باری ہونی چاہئے۔
مرید نے سوچا
کہ کراچی ایک ساحلی علاقہ ہے یہاں برف باری کیونکر ہو سکتی ہے۔ ادھر اُس کے خیالات
کو سننے والے نے جھٹ کہا۔ جب لندن میں برف باری ہو سکتی ہے تو یہاں کیوں نہیں۔۔۔۔ وہ
بھی تو ایک ساحلی علاقہ ہے۔
پھر بتایا کہ
مسجد اور مراقبہ ہال عمارت کی تعمیر کے چکر میں دھوپ میں رہنے سے میرا رنگ خراب ہو
گیا ہے۔
دوسرا پنکھا
آگیا تو کچھ قرار آیا ۔ مرید کو دیکھتے ہوئے۔۔۔دریافت کیا۔ آپ کا رنگ کبھی ہلکا بھی
ہوتا یا ایسا ہی رہتا ہے۔ اُس نے کہا کبھی کبھی انیس بیس بلکہ ساڑھے انیس بیس ہی فرق
پڑتا ہے۔
فرمایا۔ حسن
کے سارے شاہکار سا نولے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام سے لے کر حضور ﷺ اور ادھر رام کرشن
جی سے لے کر راسپوٹین تک۔۔۔اور ادھر بلقیس سے لے کر قلو پطرہ تک سبھی سانولے تھے۔
پھر وہی لطیفہ
جو اُس نے انتہائی بھونڈے اور بیہودہ الفاظ میں سنا کر لڑکوں سے داد لی تھی۔۔۔۔حضور
نے سنانا شروع کیا۔ سب نے اُس کو دیکھا۔ آپ نے وہی لطیفہ اتنے مہذب الفاظ میں سنایا
کہ وہ عش عش کر اُٹھا۔ انہوں نے اس کو نفاست، شائستگی اور تہذیب۔۔۔ بنا کچھ کہے تعلیم
کی۔ ایک کثیف بات کو شائستہ انداز میں بیان کرنے کے ہنر سے آگاہ کیا۔
پھر بتایا کہ
سردی آکسیجن کی کمی کا نام ہے اور آکسیجن کی کمی ثقل Gravity میں
بھی کمی کر دیتی ہے۔ دیکھیں نا سردی میں ہم کتنے وزنی کپڑے پہنے پھرتے ہیں لیکن گرمی
میں ایک چادر اُٹھانا بھی دو بھر ہو جاتا ہے۔ خزاں آتی ہے تو پت جھڑ سے آکسیجن کی مقدار
کم ہو جاتی ہے تو سردی آ جاتی ہے۔ پھر جب بہار آتی ہے اور ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہو جاتا
ہے تو آکسیجن کی زیادتی سے موسم گرم تر گرم ہوتا چلا جاتا ہے۔
پھر یہ بھی
فرمایا کہ انسان میں ہائیڈروجن اور امونیا۔۔۔دو گیسیں ہوتی ہیں جب انسان امونیا استعمال
کرتا ہے تو اُس کی برودت کے باعث اس پر جمود طاری ہو جاتا ہے اور وہ کاہل اور سست ہو
جاتا ہے اور جب وہ ہائیڈروجن استعمال کرتا ہے تو اُس میں حرارت توانائی پیدا ہو تی
ہے اور وہ حرکت کرتا ہے ۔ اب یہ انسان پہ ہے کہ وہ کون سی گیس استعمال کرتا ہے۔
مغرب کی اذان
ہوئی تو فرمایا۔ میں ذرا اپنی عادت پوری کر لوں۔ یہ کہہ کر چارپائی سے اتر کر وہیں
گھاس پہ قبلہ رو کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دی۔
وہ کچھ دیر
انہیں نماز پڑتھے دیکھتا رہا۔ پھر اُس نے وہیں اُن کے عقب میں نماز کی نیت کی اور نماز
ادا کر کے دیکھا تو انہوں نے ابھی سلام نہ پھیرا تھا۔ وہ انہیں دیکھتا رہا۔ نماز سے
فارغ ہو کر آپ وہیں بیٹھے بیٹھے آلتی پالتی مار کر مراقب ہو گئے۔ وہ آنکھیں بن کئے
اپنے مرشد کے تصور میں کہیں دور نکل گئے اور وہ آنکھیں کھول کر اُن کو دیکھتا رہا۔۔۔۔
مراقبہ ختم
کر کے مچھروں کی شکایت کرتے وہاں سے اُٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھے تو وہ بھی اُٹھ
کر اُن کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ کمرے میں داخل ہو کر اُسے باہر رکتا دیکھ کر فرمایا۔
آ جائیں۔۔آئیں بیٹھیں۔
وہ شکریہ کہہ
کر اندر داخل ہوا اور جب مرشد کریم فرش پہ۔۔۔ دیوار کے ساتھ بچھے۔۔۔سفید چادر والے
گدے پہ بیٹھ گئے تو وہ اُن کے روبرو دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔
ارشاد ہوا۔
یہ جو نیوٹن کی کشش ثقل والی تھیوری ہے کہ زمین پہ چیزیں کشش ثقل کے باعث گرتی ہے۔۔۔
ایسا نہیں ہے۔۔ اشیا ء زمین پہ اپنے وزن کی وجہ سے گرتی ہے نہ کہ کسی کشش ثقل کے باعث۔
اگر یہ تھیوری مان لی جائے تو درختوں کا اوپر کی طرف بڑھنا۔۔۔پرندوں کا فضا میں بلند
ہونا۔۔ قدم اُٹھانے کے لئے کوئی اضافی طاقت نہ لگانا۔۔۔ جیسی باتوں کو کیسے Justify کریں
گے؟
پھر پودوں میں
پانی کے عمل دخل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔ پانی یوں تو نشیب کی طرف بہتا ہے لیکن پودوں
میں جا کر اوپر کی طرف چڑھتا ہے۔ یہ سمجھنا کہ پودوں میں جا کر پانی کی فطرت تبدیل
ہو جاتی ہے ۔۔۔غلط ہے۔ پھر شرح وبسط کے ساتھ بتایا کہ کس طرح پہلے ایک قطرہ عمل رساؤ
سے اوپر چڑھتا ہے جب وہ قطرہ اوپر سے گرتا ہے تو اُس کے ردِ عمل میں دوسرا قطرہ اوپر
اُٹھتا اور چڑھتا ہے اور اس طرح پانی جڑ سے ہوتا درخت کی آخری پھنگ تک جا پہنچتا ہے
جو بعض درختوں میں سو سو فٹ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
اُس نے عرض۔
اس سے بھی تو کشش ثقل کی نفی ہی ہوتی ہے۔
فرمایا۔ جی
ہاں۔
پھر امریکہ
سے کسی کے فون کی اطلاع آئی۔ ابا حضور فون کی طرف متوجہ ہوئے تو وہ اجازت لے کر باہر
آگیا۔
صبح ناشتے کے
لئے کچن کی طرف جا رہا تھا کہ عرفان صاحب کو ابا کے کمرے سے نکل کر گیٹ کی جاتے دیکھا
تو علیک سلیک کو رک گیا ۔ وہ مسکرا تے ہوئے پاس آئے اور کہا۔ آپ ابا یاد فرما رہے ہیں۔
ابا کے کمرے میں پہنچا تو خالہ ناشتے کے برتن لگا رہی تھیں۔ نگہت باجی اور شمع باجی
بھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ اُن کو سمجھاتے ہوئے فرما رہے تھے۔آپ میری طرح لئے دیئے رہا کریں۔۔پیار
محبت سے ضرور پیش آئیں لیکن فاصلہ رکھ کر۔۔۔اخلاق کی فضول خرچی نہ کیا کریں۔وہ اخلاق
کی فضول خرچی کی اصطلاح پہ جھوم اُٹھا۔
پھر طاہرہ شمیم
سیالکوٹ خواتین مراقبہ ہال کی نگران کی مثال دیتے ہوئے فرمایا۔ وہ بہت سمجھدار ہیں۔۔۔
سوچ سمجھ کر بات کرتی ہیں۔۔رُک رُک کر۔۔۔۔لئے دیئے رہنے کی بات سمجھتی ہیں۔
اُس نے دیکھا
تھا کہ حضور ساس بہو کے تنازعات میں عموماً ساس کو ہی اپنے طرز عمل کی درستی اور اصلاح
کا کہتے اور بہوں کو نصیحت فرماتے کہ وہ ساس کو ماں سمجھا کریں۔
الفاظ کے استعمال
کا قرینہ بتاتے ہوئے فرمایا۔ میں نے ایک تصویر۔۔۔جس میں بھائی جان ( وقار یوسف) حضور
قلندر بابا اولیا ء ؒ کی گود میں۔۔۔ انہوں نے اُسے کاٹ کر لکھا۔۔ ایڈیٹر روحانی ڈائجسٹکی
حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کے ہمراہ ایک یاد گار تصویر۔
فرمایا ان دونوں
جملوں میں زمین آسمان کا فرق ہے،بعد میں وہ تصویر فروری ۱۹۹۳ء کے روحانی ڈائجسٹ میں
اسی Caption کے
ساتھ چھپی۔
پھر فرمایا۔
اللہ تعالی نے ایک دستر خوان بچھایا ہوا ہے۔۔۔ اب یہ آپ پہ ہے۔۔چاہے ہاتھ بڑھا کر مُرغی
کی پلیٹ اُٹھا لیں اور چاہے سامنے پڑی چٹنی پہ ہی گزارا کر لیں۔ اللہ نے نہ مُرغی کھانے
سے منع کیا ہے اور نہ ہی چٹنی کھانا لازم کیا ہے۔
پھر بتایا کہ
حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ چٹنی سے روٹی بڑے شوق سے کھاتے تھے۔ مرید نے تعجب سے سوچا
کہ بھلا چٹنی کھانے کے شوق کے پیچھے کیا حکمت ہو سکتی ہے۔۔۔ فرمایا۔ بھئی اُن کی نظر
ہمہ وقت لوح محفوظ پر رہتی تھی اور وہ اس بات پہ خوش ہوتے تھے کہ پانچ چھ ارب انسانوں
میں یہ استغنا انہی کو حاصل ہے کہ وہ چٹنی سے روٹی کھا رہے ہیں۔ بھئی استغنا کسی بھی
قسم کا ہو۔۔۔۔ ہوتا تو استغنا ہی ہے نا۔
مرید نے چاہا
کہ وہ اس کو کوئی ایسا گُر اور ایسا فارمولہ مرحمت فرما دیں کہ آئندہ زندگی میں سکون
اور خوشی کی راہ کھوٹی ہونے سے بچ سکے۔ فرمایا۔
ہر وہ خیال
جو پریشانی کا باعث بنے شک ہے۔
اور ہر وہ جس
میں ٹینشن ہو۔۔۔۔ پریشانی ہو اُسے چھوڑ دینا چاہئے۔
شک اور ٹینشن
سے نجات کا ایسا تیر بہدف نسخہ دینے والے نے
تو دے دیا تھا اور اب اُس کو استعمال کرنا اور باقاعدگی سے استعمال کرنا تو مریض ہی
پر تھا ورنہ ڈاکٹر کے دوا کھانے سے تو مریض صحت یاب ہونے رہا۔
اُس نے سوچا
بعض اوقات ایک کرنے کا کام نہ ہو نے پر جو پریشانی لاحق ہوتی اُس کا کیا حل ہو اب اس
فارمولے کے تحت تو کرنے کے کام ہی چھوڑنا پڑ جائیں گے۔۔۔ تو کام کیسے چلے گا۔ اُس نے
سوچا اپنا سر کیا دُکھانا۔۔۔ مسئلوں کو حل کرنے والا باپ سامنے نہ ہو تو ایک بات ہے
مگر جب وہ سامنے ہوں تو پھر بھلا کیا الجھاؤ۔۔۔اُس نےعرض کی حضور۔۔۔بعض اوقات شاہین
ستائیسویں کا ختم دینا بھول جاتی ہے؟
پیشتر اس کے
کہ وہ جملے کا اگلا حصہ منہ سے نکالتا ۔ کسی قدر تند لہجے میں فرمایا۔۔آپ کھانا مت
کھایا کریں۔۔۔پھر نرمی سے کہا۔۔اب جب بھی کبھی ایسا ہو کہ آپ کی بیوی ختم دینا بھول
جائیں۔۔آپ احتجاجاً کھانا مت کھائیں۔۔ گھر سے باہر جا کر کھالیں۔۔۔۔ ایک دو دفعہ ایسا
کرنے کے بعد وہ دوبارہ نہیں بھولیں گی۔
وہ اتنا سمجھ
گیا کہ کرنے کے کام کو کروانا اور پریشان ہونا دو مختلف باتیں ہیں۔ کام کروانا ایک
الگ ہی صلاحیت ہے اور اگر وہ صلاحیت ہے تو کام کروانے کا ڈھنگ آنا چاہئے۔ مرید نے دوسرا
مسئلہ بیان کیا کہ بعض اوقات لکھنے کے کام کے لئے بہت زور لگانا پڑتا ہے۔۔۔یعنی طبیعت
کچھ زیادہ مائل نہیں ہوتی۔
فرمایا ۔ آپ
روزانہ صرف ایک گھنٹہ لکھا کریں اور باقی تمام دن اس طرف کچھ زیادہ توجہ نہ دیں۔۔۔آپ
ایک گھنٹہ دینا طے کر لیں۔۔۔۔۔کچھ عرصے میں طبیعت عادی ہو جائے۔
مراد کو مائل
بہ کرم دیکھ کر مرید کے اندر ایک ایسے خیال نے سر ابھارا جس کو وہ اب تک نہیں سلجھا
سکا تھا۔ اُس نے عرض کی۔ جب لوح و قلم کا ترجمہ کرنا تھا۔۔۔اُس وقت نہ تو مجھے آپ کے
لیکچر میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہو سکی تھی اور نہ ہی تشریحات پڑھنی نصیب ہو سکی
تھی۔۔۔اب جب ترجمہ ہو چکا۔۔۔کتاب چھپ چکی۔۔۔دوسرا ایڈیشن آنے کو ہے۔۔ تو تشریحات کا
مطالعہ نصیب ہوا۔۔۔ اگر اُس وقت ایسا ہو جاتا تو کیا یہ بہتر نہ ہوتا؟
فرمایا۔ اگر
آپ اُس وقت پڑھ لیتے۔۔تو آپ کا اپنا ذہن کام کرنے لگتا اور آپ اس غیر جانبداری اور
احتیاط سے ترجمہ نہ کر سکتے جیسا کہ اب ہوگیا ہے۔
مرید نے بہت
محفوظ ہو کر پوچھا۔ تو کیا اب میرا ذہن کام کرنے لگا ہے؟
فرمایا۔ جی
ہاں۔ آپ اردو اور انگریزی میں مضامین لکھا کریں۔
اُس نے سمجھا
کہ ڈیوٹی لگا رہے ہیں۔۔۔ تو بات بدلنے کو کہا۔ پشاور میں ایک عمارت دیکھی تو جی میں
آئی کہ اس پہ مراقبہ ہال لکھا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا؟
مسکراتے ہوئے
ارشاد فرمایا۔ یہ کیا مشکل تھا۔ آپ کوئلہ لے کر اُس پہ مراقبہ ہال لکھ دیتے۔ اس معصوم
سے حل پہ سبھی ہنس دیئے۔
ہنسی مذاق سے
بات شروع ہو کر سکھوں کے لطیفوں تک پہنچی تو مرید نے سکھوں کی بابت سُنی ہوئی اس بات
کی تصدیق چاہی کہ کبھی کوئی سکھ بھکاری اور طوائف نہیں ہوتا۔
فرمایا۔ ہم
انڈیا میں بھی دیکھتے رہے ہیں اور پھر کئی اور ممالک میں بھی دیکھا ہے۔۔۔ اتنی عمر
ہو گئی ہے۔۔واقعی ہم نے کبھی کسی سکھ کو بھیک مانگتے نہیں دیکھا۔۔۔ اسی طرح یہ دوسری
بات بھی درست ہی ہوگی۔ پھر اس کی توجیہ یہ بتائی کہ گروبابا نائک ایک روحانی بندے تھے۔۔انہوں
بھی خانقاہی نظام ہی تو قائم کیا تھا۔ سکھ ازم بھی ایک روحانی سلسلہ ہی تو ہے۔
مرید نے سوچا
بلاشبہ یہ خانقاہی نظام ہی کی برکات اور فیوض ہیں کہ انسان اتنا خوددار اور غیرت مند
ہو جاتا ہے کہ وہ نہ عزت نفس کا سودا کرتا اور نہ ہی جسم و جان کا۔۔۔ کیونکہ اپنے مالک
اپنے خالق کی طرف متوجہ ہونے والا بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اگر اُس کا پالن ہار ہی اُس
کو زندہ نہیں رکھنا چاہتا تو وہ کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔۔۔اور پھر یہ کہ جب مالک ہی نہ
چاہے تو زندہ رہ کر کرنا کیا ہے؟۔۔۔اور جب کسی کو یہ بات سمجھ میں آجائے تو وہ دست
سوال دراز کر کے اپنا ریکارڈ کیوں خراب کرے۔
وہاں سے اُٹھ
کر حضور دفتر کے لئے تیار ہونے دوسرے کمرے میں چلے گئے اور وہ باہر آستانے کے پاس انتظار
میں کھڑا ہو گیا۔ حضور اپنا بیگ اُٹھائے باہر تشریف لائے ۔ اتنے میں حامد بھائی سوزوکی
وین لے کر مراقبہ ہال کے اندر آگئے اور آستانے کے سامنے رُک گئے۔ ابا حضور دروازہ کھول
کر بیٹھ چکے تو حامد بھائی نے گاڑی کو ریورس میں لینے سے پیشتر اُس سے مصافحہ کو ہاتھ
بڑھا دیا۔ اُس نے اُن کا ہاتھ تھاما اور دوسرے ہاتھ سے اُن کے ہاتھ کو سہلاتے ہوئے
کہا۔ آپ کے ہاتھ ٹھنڈے ہیں۔۔۔
حضور نے فرمایا۔
ایک بار میں نے ایک رکشے کے پیچھے یہ شعر لکھا دیکھا تھا۔
سونے کا قلم
، چاندی کی دوات گورے گورے ہاتھوں
سے لکھ سے جواب
فرمایا۔ کیاہوا
جو اس میں وزن نہیں۔۔۔۔ جذبات کا مکمل اظہار تو ہے۔
حامد بھائی
نے جھٹکے سے ہاتھ اُس کی گرفت سے چھڑایا اور گاڑی روانہ کر دی۔ وہ دیر تک وہاں کھڑا
اس بات کا لطف لیتا رہا۔
اگلے روز وہ
مرشد کریم کے ساتھ ایئر پورٹ جا رہا تھا تو راستے میں مرید سے کہا کہ وہ پی ایچ ڈی
کرے۔ فرمایا۔ آپ قلندر بابا اولیا ؒ پر پی ایچ ڈی کریں۔ آپ میاں صاحب سے مل کر اشفاق
صاحب اور تجمل صاحب سے ملیں۔۔۔ وہ آپ کی مدد کریں گے۔ تجمل صاحب ڈین یونی ورسٹی رہے
ہیں۔ انہوں نے ایک بار لوح و قلم پڑھ کر کہا کہ میرے اوپر سے گزر گئی ہے۔ میں نے اُن
سے کہا کہ آپ اسے باربار پڑھیں۔۔۔۔یہ آپ کو سمجھ آجائے گی۔
پھر اُسے کہا
کہ وہ لوح و قلم میں تشریحات اور نقشے وغیرہ شامل کر کے تھیسس کی صورت پیش کرے تو پی
ایچ ڈی کی ڈگری مل جائے گی۔ پھر فرمایا۔ آپ کے نام کے ساتھ ڈاکٹر جچے گا۔ پھر 'ڈاکٹر
مقصود عظیمی' تولنے کے انداز میں ادا کر کے فرمایا۔ اچھا لگے گا۔وہ جی۔۔۔اچھا۔۔۔کہ
کر سر جھکا کر سوچنے لگا کہ برسوں پہلے اُس نے پی ایچ ڈی کرنے کا خواب دیکھا تھا اور
جمالیات کے موضوع پر ڈاکٹر نصیر احمد ناصر کی زیر
نگرانی دو ڈھائی سال تک اس پر کام بھی کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے منسلک ہونے
کی تگ و دو بھی کرتا رہا۔۔۔لیکن جب اُس نے یونیورسٹی کو ایک مادر علمی کی بجائے ایک
ایسا قلعہ پایا جہاں چند لوگ اپنی لابی بنائے بیٹھے تھے۔۔۔تو علم کی دُنیا کو خیر باد
کہہ کر دولت کمانے کے چکر میں پڑ گیا تھا۔ آج اُس کا مراد اُس خواب گم گشتہ کو ایک
حقیقت بنانے کی بات کر رہا تھا۔ مرید نے دعا کی۔ بارِ الہٰ تو مجھے توفیق دے کہ میں
اپنے مرشد کا کہا پورا کر دکھاؤں۔
پھر فرمایا
باپ یہ چاہتا ہے کہ اولاد اُس کا ذہن فالو کرے۔۔۔بھئی اگر دیکھ لیں کہ اولاد باپ کا
ذہن فالو نہیں کر رہی تو باپ اولاد کا ذہن کیوں فالو نہ کرے۔۔۔۔اجی یہ سب حکمرانی کی
خواہش ہے۔۔۔ ہم خود کو اولاد پہ حاکم ہی تو سمجھتے ہیں۔
جب گاڑی سٹار
گیٹ سے مُڑ کر ایر پورٹ کی حدود میں داخل ہوئی اور سکیورٹی چیک کے نام پر گاڑی کی تلاشی
ہو رہی تھی تو ایف آئی آئے کے ایک ڈائریکٹر کے حوالے سے فرمایا کہ امریکی ٹیم سے مذاکرات
کے دوران انہوں نے اُن سے کہا کہ ہم پاکستانی تو پسماندہ لوگ ہیں۔ ۔۔۔اس لئے سمگلر
ہم سے بچ نکلتے ہیں لیکن آپ یہ فرمائیں کہ آپ کے ایر پورٹس پہ۔۔۔آپ کی تمام تر ترقی
یافتہ کوششوں کے باوجود وہ کیونکر بچ نکلتے ہیں۔ یعنی اگر آپ ہم پر سمگلروں سے ملنے
کا الزام لگاتے ہیں آپ بھی اسی الزام کی زد میں آتے ہیں۔ پھر بتایا کس طرح سمگلر ایک
کروڑ کا مال پکڑواتے ہیں اور بیس کروڑ کا مال پار کروا لیتے ہیں اور بھتے میں سے ایک
کروڑ منہا کر لیتے ہیں۔ وہ بھی خوش کہ مال نکل گیا اور یہ بھی خوش کہ کیس پکڑ لیا۔
پھر ایر پورٹ
پہ الوداع کہنے والوں کو شفقت بھری نگاہوں سے تکتے وہ بیرون ملک روانگی کے لاؤنج کی
طرف بڑھ گئے۔ مسافرت کے جھنجھٹ، سامان کو سنبھالنے کی مشقت، ٹکٹ اور سفری دستاویزات
کے تردد، درپیش سفر کی بابت وسوسوں ، منزل پہ پہنچ کر حاصل ہونے والی خوشی یا اندیشوں
میں گرفتار مسافروں کے ہجوم میں۔۔۔۔ان سب باتوں سے آزاد۔۔۔ایک مسکان بکھیرتے۔۔۔اپنا
ایک بیگ اور کارٹن ٹرالی پہ رکھے۔۔۔وہ اپنے مخصوص انداز میں قدم اُٹھاتے عرفان بھائی
اور اُن کی بیگم انیسہ کے ہمراہ بورڈنگ کارڈ کے کاؤنٹر تک پہنچ گئے۔ بورڈ نگ کارڈ لے
کر انہوں نے پلٹ کر باہر سے دیکھنے والوں کو ہاتھ ہلا کر الوداع کہا اور کسٹم اور امیگریشن
والوں کو اپنی چھب دکھاتے گزرتے چلے گئے۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔