Topics
اس روز جو سناٹا طاری ہوا وہ دیرپا ثابت ہوا۔ اس کی طوالت اگلے
برس کے اُس لمحے تک پھیل گئی جب راولپنڈی مراقبہ ہال میں۔۔۔مراقبہ کے لئے تیار بیٹھے
اپنے مراد سے اُس کی آنکھیں چار ہوئیں۔ وہ مرشد کریم کے پنڈی آنے کا سُن کر مراقبہ
ہال اس وقت پہنچا جب مراقبہ شروع ہونے ہی والا تھا۔ اُس پہ نظر پڑتے ہی اک دلآویز مسکراہٹ
اُن کے چہرے پہ ابھری اور پھیلتے ہوئے اُس کو اپنی لپیٹ میں لیتی چلی گئی۔ اُس کو لگا
اُس کی پذیرائی کو انہوں نے اپنی خوشنودی کی اطلاع دی ہے۔
سب نے مراقبہ
کے لئے آنکھیں بند کر لیں اور وہ اپنے مراد پہ نگاہیں جمائے انہیں دیکھتا رہا۔ کتنی
دیر تکتے رہنے کے بعد جب اُس نےآنکھیں موندیں تو مراقبہ ختم کرنے کا اعلان کرتی درود
شریف کی مدھر بھری صدا بلند ہوئی۔ مراقبہ کے بعد ایک صاحب نے انسان کے دیکھنے کی صلاحیت
کے حوالے سے دریافت کیا کہ دل کے دیکھنے سے کیا مراد ہے؟
اس پر آپ نے
ختم اللہ علی قلو بہم۔۔۔والی آیت کی تلاوت کر کے فرمایا۔ اللہ نے مہر کر دی دلوں پر
اور سماعتوں پر اور دبیز پردے ڈال دیئے بصارتوں پر۔۔یعنی اس پہ غور کرنے سے معلوم ہوتا
ہے کہ دیکھنے کا تعلق مادی آنکھ سے نہیں بلکہ روحانی آنکھ سے ہے۔ خواب میں دیکھنا ہو
یا معراج کے موقع پر اللہ سے راز و نیاز ہونا۔۔۔ اللہ کا اُس کو فوراً کہنا۔۔۔ یہ بتانا
کہ دل نے جو دیکھا غلط نہ تھا یعنی اصل دیکھنا دل کا دیکھنا ہے۔
پھر روح حیوانی
، روح انسانی اور روح اعظم کا تذکرہ فرما کر لطائف ستہ یعنی لطیفہ نفسی ، قلبی ، روحی
، سری ، خفی اور اخفیٰ کے بارے میں بتا کر واضح کیا کہ دیکھنے کا تعلق دراصل لطیفہ
قلبی سے ہے ۔ مادی انکھ ایک طرف تو ایک باریک سے کاغذ کے پار بھی نہیں دیکھ سکتی اور
دوسری طرف نوکر روڑ دور سورج کو دیکھتی ہے یعنی اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ انسان نے خود
کو محدود کیا ہوا ہے اُس کو وہ نظر استعمال کرنا ہی نہیں آتی جو اُس کو نوکروڑ میل
دور سورج اور اُس کے بیچ آنے والی اشیا کو دکھا سکتی ہے۔ اب جیسے ہوا ہے۔۔ گیسیں ہیں۔۔
وائرس ہیں۔۔ فرشتے ہیں۔۔ وہ اُن کو کیوں نہیں دیکھتا ۔۔یہ سب شعور میں محدود ہونے کے
سبب ہے۔
فرمایا۔ انسان
بہت عجیب ہے۔ کہتا ہے کہ میں آزاد رہنا چاہتا ہوں۔۔ اور آزادی کا مفہوم یہ لیتا ہے
کہ زمین پہ چار دیواریں بنا کر اُن میں ایک دروازہ لگا کر ۔۔۔خود کو ایک کمرے میں بند
کر کے سمجھتا ہے کہ اب میں آزاد ہوں۔
اب اگر اُس
کو اسی کمرے میں بند کر کے باہر کنڈی لگا دیں تو وہ کہتا ہے کہ مجھے قید کر دیا گیا
ہے۔ یہ سب اپنی صلاحیتوں سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔ جب انسان اپنے دل کی آنکھ سے دیکھنا
سیکھ جاتا ہے تواُس کے دیکھنے کی صلاحیت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اربوں کھربوں میل دور
دیکھ سکتا ہے۔
اُس کے شعور
میں یہ صلاحیت ہے کہ چاہے تو سکڑ کر ایک وقت میں ایک ہی جگہ محدود ہو کر دیکھے یا دور
تک پھیل جائے۔
انسان کے جسم
میں بارہ کھرب سیل ہیں۔ اُن میں سے دو کھرب انسان کا دماغ اور ذہن بناتے ہیں اور یہ
سب ایک نظام کے تحت کام کرتے ہیں۔۔۔۔ جیسا کہ اب ریڈیو میں ہے۔ اس کے اندر کل پرزے
ہوتے ہیں۔۔۔ ورنہ اس سے کوئی آواز کہاں آ سکتی ہے۔ یہ سب کسی نہ کسی بنیاد پہ قائم
ہیں۔۔۔جاندار ہوں درخت ہوں۔۔حیوان ہوں۔۔مکان ہو۔۔۔ کسی نہ کسی بنیاد پر قائم ہیں۔ یہ
سیل چارج بھی ہوتے ہیں اور ڈیڈ بھی ہوتے ہیں۔۔ یعنی بنتے اور مرتے ہیں۔ ان سیلز میں
منفی اور مثبت چارج ہونے سے نشونما کا عمل جاری رہتا ہے۔ اسی سے بچہ جوان ہوتا ہے ۔۔۔
یہ سب نظام روشنیوں پر قائم ہے۔۔۔ جو سر سے داخل ہوتی ہیں۔۔ سر کے بال انٹینا کا کام
کرتے ہیں۔ جانوروں میں اُن کے جسم کے بال خصوصاً ریڑھ کے بال انٹینا کا کام کرتے ہیں۔
فرمایا۔ ارشاد
باری تعالیٰ ہے کہ میں مومن کے دل میں رہتا ہوں۔ گوشت کا لوتھڑا دل نہیں ہے۔۔۔بلکہ
اُس کا باطنی رخ روشن نقطہ ہے اور اسی سے بندہ عالم شہود میں داخل ہوتا ہے۔
انسانی شعور
روح حیوانی ہے، لاشعور روح انسانی ہے اور تحت لاشعور روح اعظم ہے ۔ روح کے ان تینوں
دائروں کو سیراب کرنے والا کرنٹ ایک ہے ۔ قلب ایک ایسا روشن نقطہ ہے جو دو طرح سے کام
کرتا ہے۔ ایک طرف وہ مظاہرات کو دکھاتا ہے خواہ وہ مادی ہوں یا غیر مادی اور دوسری
طرف ان مظاہرات کے غیب کو دکھاتا ہے یعنی یہ دکھاتا کہ مظاہرات کی اساس کیا ہے۔
قلب سے غیر
مادی چیزوں کو دیکھا جاتا ہے۔ یہ آسمان حدِ نظر ہے۔۔۔ جہاں ہماری نظر ٹکرا کر پلٹتی
ہے اور اُس کو نیلا دکھاتی ہے۔۔۔ ہم اس حد نظر کو فوکس کرنے کی طاقت کو کم یا زیادہ
کر سکتے ہیں اور یہ قلب کا کام ہے ۔ ہمارا قلب ہمارے ارادے کے تحت دکھاتا ہے۔۔۔ اگر
ہم کسی چیز کو دیکھنے کا ارادہ نہیں کرتے تو اُسے دیکھ بھی نہیں سکتے۔
شعور خود کو
محدود کر کے خوش ہوتا ہے۔
ایک صاحب نے
قلندر کی بابت دریافت کیا تو فرمایا۔ قلندر کوئی عہد نہیں۔۔یہ ایک طرح سے ایک ڈگری
ہے۔ نیوٹرل طرزِ فکر رکھنے والے ذہن کو قلندر کہتے ہیں۔ ذہن جب انا کے خول سے آزاد
ہو جاتا ہے تو وہ نیوٹرل کہلاتا ہے۔۔ انسان کو عطا کی گئی صلاحیتیں بھیک ہیں۔۔ بخشش
ہیں۔۔ انسان کی ملکیت نہیں ۔ شریعت میں ملکیت ہے ۔ قلندریت اور شریعت میں یہی فرق ہے۔
پھر اقبال کے
اس شعر کا حوالہ دیا۔۔۔
فقیہ شہر قاروں
ہے لغت ہائے حجازی کا
قلندر جزدو
حرف لا اِلہ کچھ نہیں رکھتا
اور فرمایا۔
حضرت خواجہ غریب نواز ؒ نے کہا ہے۔
یاردم بدم آیدوباربار
می آید
یعنی اللہ میرا
یار ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ہر سانس کے ساتھ میرے اندر آرہا ہے۔ قلندر آزاد
ذہن۔۔ملکیت ست آزاد ذہن۔۔۔ نیوٹرل طرزِ فکر رکھنے والے بندے کو کہتے ہیں۔
اس نشست کے
بعد ناشتہ کروایا گیا۔ شام کو بری امام کے مزار پہ گئے۔ وہاں کچھ دیر مراقبہ کیا۔
مراقبے کے بعد ٹہلتے ہوئے باہر آئے اور مزار کے ارد گرد قائم بازار کی سیر کرتے رہے۔
اس دوران فرمایا۔ دیکھ لیں اللہ والے بندے جہاں کہیں بیٹھ جائیں وہیں شہر باس جاتا
ہے۔
اگلے روز صبح
مراقبہ اور ناشتے کے بعد پکنک کا پروگرام تھا۔ راول جھیل گئے ۔ مری اور ایوبیہ سے ہو
کر رات ڈھلے واپس آئے ۔ مرید اس تمام سیر میں اُن کے ساتھ کی بجائے تعاقب میں رہا۔
جس جگہ رکتے وہ قریب جانے کا موقع ڈھونڈنا کبھی کامیاب و کامران ہو جاتا اور کبھی موقع
آتے آتے روانگی شروع ہو جاتی۔
چند ماہ بعد
عرس پہ کراچی پہنچا۔ کمرے میں داخل ہوا تو بڑی شفقت سے گلے لگایا اور کتنی ہی دیر لگائے
رکھا۔ اتنی دیر میں اُس کی کیمسٹری میں عجیب سی تبدیلیاں در آئیں۔
مسافرت کی تھکن
کی جگہ بشاشت۔۔۔کچھ ہونے کے احساس کی جگہ عاجزی اور فروتنی غالب آگئی ۔ ذہن کی اچھل
کود تھم گئی۔۔۔اک مسرت آگیں سکون اور ٹھہراؤ اُس کے اندر بہنے لگا۔
عرس کی تیاریوں
کے ہنگام کے باوجود کمرے کے اندر سکون کا کچھ ایسا راج کہ یوں لگتا ہی نہ تھا کہ اس
کمرے سے باہر اتنی گہما گہمی ہے۔ ایک لحظے کو بھی انہوں نے عرس پہ ہونے والے انتظامات
کے حوالے سے کسی طرح کا کوئی منفی تاثر نہیں دیا۔ یوں لگتا تھا کہ ہونے والے انتظامات
اور گہماگہمی کسی اور دنیا سے متعلق ہیں۔ وہاں ملکی حالات پہ بات ہونا شروع ہوگئی۔
روزنامہ جنگ کی حکومت سے لڑائی پہ بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے سیف الرحمان کو
بلیک میل کیا تو اُس نے انہیں جتا دیا کہ تمہارے اپنے گھر کے جھگڑے کیا کم ہیں کہ تم
حکومت سے بھی لڑائی مول لینے چلے ہو۔ فرمایا۔ سیاست کے لئے بہت ہی بڑا ذہن درکار ہوتا
ہے۔
پھر فوج کی
بابت حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا فرمان دہرایا کہ جو فوج اپنے عوام پہ گولی چلائے۔۔اوپر
والے لکھ دیتے ہیں کہ وہ کبھی فاتح نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ فوج کو تنخواہ عوام سے ٹیکس
لے کر ہی تو دی جاتی ہے۔ اب اگر کوئی ملازم اپنے مالک پر ہی فائر کردے تو وہ کسی دوسرے
کے خلاف لڑنے کا کہاں رہا؟
پھر مشرقی پاکستان
میں نوے ہزار فوجیوں کے قیدی ہونے کا تذکرہ ہوا تو فرمایا۔ ہم نے تو یہ دیکھا کہے کہ
جو وہاں قید ہوئے وہ نہ صرف یہاں ملازمت میں واپس آئے بلکہ انہوں نے ترقی بھی کی۔
مرید نے عرض
کی کہ بھٹو کا دعویٰ تھا کہ اُس نے نوے ہزار فوجی بھارت کی قید سے چھڑائے۔
فرمایا۔ اُس
نے کہاں چھڑائے۔۔انہوں نے خود چھوڑے۔۔ اتنی فوج کو رکھنا۔۔کھلانا پلانا۔۔اُن کی حفاظت
کرنا۔۔یہ کوئی آسان بات تھی کیا۔۔۔ اجی یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔۔کہہ کر بات لپیٹ دی۔
عرس سے پہلے
محمد الرسول اللہ ﷺ کے عنوان سے ہونے والی روحانی تربیتی ورکشاپ کے اختتامی سیشن سے
خطاب کے دوران فرمایا۔
میں نے حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اُن کے معجزات کی سائنسی توجہیہ کرنے کی اجازت مانگی اور آپ
ﷺ کی طرف سے عطا کی گئی توفیق سے یہ کتاب لکھی۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی رویت ہلال کمیٹی کے چیرمین مولانا اطہر نعیمی
صاحب تھے۔
عرس کی صبح مقالات کا سیشن تھا۔ احتشام الحق صاحب
پنڈال میں لوگوں کو مدعو کرتے ہوئے بار بار اعلان کر رہے تھے کہ حضور مرشد کریم پنڈال
میں آچکے ہیں سب لوگ پنڈال میں آجائیں۔
آپ نے بار بار
اعلان سُنا تو فرمایا۔۔یہ لوگ باؤلے ہو گئے ہیں۔۔ آپ جا کر انہیں منع کریں کہ یہ بار
بار میرے پنڈال میں آنے کا علان نہ کریں۔۔۔ بس ایک بار کہہ دیا ۔۔۔یہ کافی ہے۔
مرید نے جا
کر رانا تجمل صاحب جو سیکورٹی ڈیوٹی پہ مامور تھے اُن سے کہہ دیا تو فرمایا۔۔ یہ آپ
سے کس نے کہہ دیا۔ آپ جا کر خود احتشام صاحب سے کہہ کر آئیں۔
مرید نے احتشام
صاحب کو بتایا کہ ابا حضور بار بار اپنے پنڈال میں ہونے والے اعلان کرنے سے منع فرمارہے
ہیں اور آکر واپس حضور کے پہلو میں بیٹھنے لگا تو فرمایا آپ سٹیج پر جا کر آدابِ مریدین
پہ تقریر کریں۔ مرید نے سٹیج پہ جا کر اپنے بکھرتے حواس کو مجتمع کرتے ہوئے اپنے مراد
سے دوئی کو ختم کرنے کی بابت بات کہنی شروع کی۔ ابھی بات جاری تھی کہ احتشام صاحب نے
اشارہ کیا کہ اب پروگرام کا باقاعدہ آغاز کرنا ہے۔۔مرید اپنی بات کہہ کر سٹیج سے اتر
کر حضور کے پاس آکر بیٹھا تو فرمایا۔ آپ نے کم وقت میں اچھی بات کہی۔
عرس کی رات
خطاب کا بنیادی نکتہ یہ رہا کہ علم الاسما کے بغیر آدمی جانور ہے۔ خطاب کے بعد یا اللہ
یا رحمٰن یا رحیم کا ذکر جہری کروایا۔ جب تین
ساڑھے تین ہزار افراد حرف ندا 'یا' پکارتے تو یوں محسوس ہوتا گویا اللہ تعالیٰ سامنے
موجود ہیں اور ہم انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کو انہیں پکار رہے ہیں۔
صبح کے مراقبہ
کے بعد لیکچر میں فرمایا۔ سلسلہ ایک زنجیر کی مانند ہوتا ہے ۔ اس کی ہر کڑی دوسری کڑی
سے ملنے کے سبب اتنی مضبوط ہو جاتی ہے کہ اگر ہاتھی کو باندھ دیں تو وہ ہل نہیں سکتا۔
اس کی دوسری مثال یہ فرمائی کہ سلسلہ ایک کارواں کی مانند ہوتا ہے۔ اس میں نائی ، موچی
، لوہار ، ترکھان ہر طرح کے افراد کا ہونا ضروری ہے۔ آپ موچی کو نکال دیں تو سار ا
قافلہ ہی ننگے پاؤں ہو جائے گا ۔ ہر آدمی کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔
پھر اپنے دادا
پیر حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردی ؒ کے حوالے سے فرمایا۔ کہ انہوں نے کہا تھا کہ
سلسلے میں جو آگے نکل جائے اُس کو چاہئے کہ اپنے پیچھے آنے والوں کو اپنی طرف کھینچے
اور پیچھے رہ جانے والوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اگلے والوں کو آگے دھکیلیں نہ کہ اُس
کی ٹانگ کھینچیں۔ ٹانگ کھنچنے کا سُن کر اکثر نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
ناشتے کے بعد
حضور سے ملنے والوں کی بھیڑ لگی کہ وہ دور دور ہی ٹہلتا رہا۔ شام کو جب حضور کمرے سے
باہر تخت پوش پر آکر بیٹھے تو کئی افراد جو اُس وقت تک واپس نہیں گئے تھے اُن کے قریب
ہو کر بیٹھ گئے۔
مرید نے سوچا
اللہ کے اس بندے میں آخر وہ ایسی کیا بات ہے کہ لوگ بے محابہ اُن کی طرف کھنچے چلے
آتے ہیں۔ اس کشش اور جذب کر لینے کی اس خوبی کا راز کیا ہے؟
اِدھر اُس کا
مراد بتا رہا تھا کہ جب بندہ اللہ کے کام سے لگ جاتا ہے تو اللہ اُس بندے کو اپنا محبوب
بنا لیتا ہے اور اس امر کی اطلاع فرشتوں کو دے دیتا ہے کہ وہ فلاں بندہ مجھے محبوب
ہے ۔ فرشتے اس بات کی اطلاع لوگوں کو دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں لوگوں کے دلوں میں
ا س بندے کے لئے پیار پیدا ہو جاتا ہے۔
پھر اپنے والد
محترم کے حوالے سے بتایا کہ ایک بار اُن سے روحانی طور پر ملاقات ہوئی تو انہوں نے
فرمایا کبھی قبر پر سلام کرنے بھی آجایا کرو۔ میں اپنے بھائی سے کہا کہ وہ مجھے اُن
کی قبر دکھا ئیںکیونکہ مجھے یاد نہیں کہ کون سی قبر اُن کی ہے۔
فرمایا۔ یہ
دنیا ہے ہی ایسی جگہ۔ یہاں کوئی تعلق نہیں۔۔یہ سب ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہونے کے
سبب ہے۔ ایک آدمی کو دس آدمی نوچ رہے ہیں۔۔۔ اس نوچنے کو آپ تعلق کہہ لیں۔۔۔ رشتہ کہہ
لیں۔۔کبھی کوئی آدمی اپنے بیٹے یا باپ کی قبر پہ رات نہیں رہا۔۔ ہاں اگر قبر پہ چادریں
چڑھنا شروع ہو جائیں تو اور بات ہے۔ اب حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کی اولاد بھی تو
آکر بیٹھ ہی گئی نا۔۔۔اور انہیں بیٹھنا بھی چاہئے۔
فرمایا ۔ یونہی چلتے ہوئے۔۔گزرتے ہوئے آ کر سلام
کرنے اور خاص طور پر پروگرام بنا کر ملنے کے لئے آنے میں فرق ہوتا ہے۔۔خاص طور پر ملنے
کے لئے آنے والے کا ذہن یکسو ہوتا ہے۔وہ آکر ملتا ہے تو جو کچھ سنتا ہے اُس پہ دھیان
بھی دیتا ہے۔
دل آزاری کے
حوالے سے بتایا کہ اگر کسی نے مذاق میں ہی کہہ دیا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں تمہیں
گولی مار دوں تو اس سے دل آزاری ہوگئی ۔ اسی طرح اگر کسی نے آپ کو کوئی چیز دکھائی
اور آپ نے یہ کہہ دیا کہ یہ تو بہت مہنگی ہے تو اُس کے ذہن میں آپ کی صورت بگڑ جائے
گی۔پھر اپنی والدہ محترمہ کا ایک واقعہ سنایا کہ ایک بھائی نے انہیں کوئی کپڑا دکھایا۔۔انہوں
نے بتایا کہ اتنے کا لیا۔ ہمارے والد صاحب نے والدہ سے کہا کہ تم نے بیٹے سے یہ کیوں
نہیں کہا کہ اُس نے یہ کپڑا مہنگا لیا ہے۔اس پر میری والدہ نے بہت سمجھداری کی بات
کی اور کہا کہ اگر میں یہ کہہ دیتی تو آئندہ وہ کبھی مجھے کوئی چیز نہ دکھاتا۔۔۔اب
جب بھی وہ کوئی چیز لائے گا مجھے دکھا دیا کرے۔ مرید نے سوچا کتنے لوگ ہوں گے جنہیں
اس بات کا ادراک نصیب ہوتا ہے کہ کسی کے ذہن میں اپنی صورت کو بگڑنے سے بچانے کا سوچ
سکیں۔
اپنی والدہ
کی سمجھداری کے حوالے سے ایک اور بات یہ بھی بتائی کہ انہوں نے اپنی بہوؤں کو کہہ دیا
کہ یہ رہیں چابیاں۔۔۔ اب مجھ سے اور نہیں ہوتا۔۔۔ جب بہوئیں اُن سے پوچھتیں کہ آج کیا
پکایا جائے تو وہ کہتیں جو جی چاہے پکا لو۔۔۔۔ویسے میرا دل چاہ رہا تھا کہ آج مسور
کھائیں۔
فرمایا۔ اُس
روز مسور ہی پکتے۔
کوئٹہ سے آئی
ہوئی ایک خاتون نادرہ نے کوئی مسئلہ دریافت کیا تو فرمایا۔ آپ میری کوئی بات مانتے
تو ہیں نہیں لیکن پیارکا دعویٰ کرتے ہیں۔۔۔ میں نے آپ سے کہا تھا کہ غصہ کرنا چھوڑ
دیں۔۔تو کیا آپ نے غصہ کرنا چھوڑ دیا۔اگر آپ کو مجھ سے محبت ہوتی تو آپ میری بات ضرور
مان لیتیں۔
اقبال قریشی
صاحب کے بیٹے مقصود کے مسوڑوں میں تکلیف تھی انہوں نے اپنی تکلیف کا مداوا چاہا تو
فرمایا۔ انار کے پتوں کو جوش دے کر اس پانی سے کلیاں کریں۔ اس پہ کسی نے کہا کہ آج
کل انار کے درختوں پہ پتے دستیاب نہیں ہیں تو فرمایا۔ یوکلپٹس کے پتوں کا بھپارا لیں۔
اس کے پتوں کے پانی سے کلیاں کرنے سے بہت فرق محسوس ہوتا ہے۔
پھر مراقبہ
ہال میں لگے درختوں کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ اللہ نے آپ کے گھر میں ہی ہر چیز مہیا
کر دی ہے ۔ Vicks اسی سے ہی تو بنتی ہے۔
پھر میر تقی
میر کے بارے میں بتایا۔ وہ بہت حساس آدمی تھے۔ ایک صاحب اُن سے ملنے گئے اور پوچھا
۔آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ تو یوں سکڑ کے بیٹھ گئے۔ انہوں نے دوبارہ پوچھا تو وہ کچھ اور
بھی سمٹ گئے۔ پھر کہا ۔
نہ چھیڑ نکہتِ بادِ بہاری راہ لے اپنی
تجھے
اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں۔
اور کہا کہ
طبیعت کی بابت بیمار سے پوچھا جاتا ہے اور صحت مند آدمی کا مزاج دریافت کرتے ہیں۔۔وہ
بے چارے اپنی حساسیت کے ہاتھوں آخر میں باؤلے ہی ہو گئے تھے۔
پھر غالب کی
بابت فرمایا۔ ایک بار ایک نواب اُن سے ملنے آئے ۔ نوابی کا دور ختم ہو چکا تھا۔ غربت
کے سبب بُرا حال تھا۔ انہوں نے جو انگرکھا پہن رکھا تھا وہ میلا اور بوسیدہ ہو رہا
تھا۔ غالب نے اُن سے فرمائش کی کہ وہ انگر کھا انہیں مرحمت فرما دیں۔ اس طرح انہوں
نے وہ انگر کھا اُن سے اتروا لیا اور جب جانے لگے تو اندر سے نیا انگر کھا منگوا کر
انہیں پہنا دیا۔ یہ نہیں کہ نواب صاحب سمجھے نہیں ہوں گے لیکن وضع داری کے ہاتھوں خاموش
ہی رہے۔
فرمایا۔ غالب
کے مزاج میں عجیب تضاد تھا۔ ایک طرف شاہ کا مصاحب بننے کی کوشش کرتے تھے اور دوسری
طرف نوکری کرنے گئے تو یکے سے اترے ہی نہیں کہ پرنسپل مجھے لینے آئے اور جب وہ نہیں
آئے تو پلٹ آئے ۔
ایک بار انہیں
پینشن ملی تو جا کر تمام پیسوں کی شراب خرید لائے۔ بیگم نے احتجاج کیا تو کہا جس چیز
کا اللہ نے وعدہ نہیں کیا وہ لے آیا ہوں رزق کا اُس نے وعدہ کیا ہے۔۔۔ وہ ضرور دے گا۔
فرمایا۔ شاعری
کا تعلق لاشعور سے بہت گہرا ہے۔
فرمایا۔ اب
یہ پورا قرآن ہی فعلن فعلن کے وزن پر ہے۔ اللہ نے چیلنج کر دیا تھا کہ سورہ کوثر کی
تین آیا جیسی ایک آیت ہی بنا کر دکھاؤ۔ اس پر ایک شاعر نے لکھا۔۔ماہذا قول بشر یعنی
یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے۔۔۔ اب تئیس سال تک ایک ہی وزن میں بات کہنا۔۔یہ انسانی
کاوش سے تو ممکن ہی نہیں۔
اتنے میں داؤد
صاحب نے آکر بتایا کہ ہالینڈ فون پہ خطاب کا وقت ہو گیا ہے۔ آپ اُٹھ کر کمرے میں تشریف
لے گئے۔ ٹیلی فونک خطاب میں۔۔ الا اِن اولیاء اللہ لا خوف
علیھم ولا ھم یحزنون۔۔۔آیت کی شرح میں
فرمایا۔ یہاں غم سے مراد کسی چیز کے چھن جانے کا غم اور خوف سے مراد کسی چیز کے چھن
جانے کا اندیشہ لاحق ہونا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا اصل مفہوم یہ ہے کہ جو
لاوگ اللہ تعالیٰ کی قربت سے سرفراز ہوتے ہیں اُن کو کسی چیز کے چھن جانے کا اندیشہ
لاحق نہیں رہتا اور نہ ہی کسی چیز کے چھن جانے پر انہیں کوئی ملال ہی ہوتا ہے۔ خود
کو اس طرزِ فکر سے آراستہ کرنے والا بندہ ہی اللہ کا دوست بن سکتا ہے۔
فرمایا۔ آپ
جب بھی پریشان ہوں تو آپ حضور قلندر بابا کا ذکر کیا کریں۔۔ اُن کا ذکر کرنے سے پریشانی
ختم ہو جائے گی۔
اس خطاب کے
بعد فرمایا۔ حالات اچھے اور بُرے رہتے ہیں لیکن سر کے لئے چھت ، جسم کے لئے لباس اور
پیٹ کے لئے روٹی میسر ہی رہتی ہے۔۔حالات سے ان کاکوئی تعلق نہیں ہوتا۔
مغربی کھانوں
کی بات ہو رہی تھی ۔ فرمایا۔ یہ کھانے کھا کر نیت تو بھر جاتی ہے لیکن پیٹ نہیں بھرتا
جبکہ یہاں کے کھانے کھا کر پیٹ تو بھر جاتا ہے لیکن نیت نہیں بھرتی۔
مشرقی اور مغربی
کھانوں پہ اتنا بھر پور ، جامع اور مبسوط تبصرہ سن کر سبھی بہت محظوظ ہوئے۔
پھر رفیع صاحب
کا تذکرہ ہوا۔ فرمایا ۔ ایک روز بہت رازداری سے مجھے کہا۔ مجھے آپ سے ایک بات کہنی
ہے۔۔میں نے کہا ضرور۔۔۔ تو میرے کان میں کہا۔۔ آپ کبوتر ہیں۔۔ میں نے کہا آپ نے ٹھیک
کہا۔ تو وہ ناچ اُٹھے۔ اب انہوں نے جو بھی دیکھا اپنے اندر دیکھا۔۔ہو سکتا ہے کسی کو
میں کچھ اور ہی دکھتا ہوں۔۔ تو کیا میں اُن کے کہنے سے کبوتر بن گیا یا کچھ اور بن
گیا۔
فرمایا ہر آدمی
اپنے اندر دیکھتا اور ہر آدمی دوسرے کا آئینہ ہے۔
پھر بتایا کہ
جس روز وہ فوت ہوئے اُس روز وہ یہاں مراقبہ ہال میں اندر کمرے میں لیٹے ہوئے تھے ۔
اُٹھے اور باہر آکر کہا۔۔ میں چلتا ہوں۔۔۔ اچھا خدا حافظ اور وہیں لیٹ گئے۔ ہم سمجھے
گھر جانے کا کہہ رہے ہیں لیکن وہ تو اوپر چلے گئے۔ ایسی موت تو اللہ سب کو دے۔
طاہرہ اور نثار
صاحب نے آکر ایک مسودہ پیش کیا۔ دیکھا تو تشریحات لوح و قلم کے عنوان سے دیئے گئے لیکچروں
کا مجموعہ تھا، مرید نے تجویز کیا کہ اس کا نام تشریحات کی بجائے شرح لوح وقلم زیادہ
مناسب رہے گا۔ بات سُن کر پہلے تو مرید کو نظر بھر کر دیکھا اور پھر سیدھے ہو کر بیٹھ
گئے اور پیڈ پہ قلم سے شرح لوح و قلم لکھ کر چند ساعت اُسے دیکھتے رہے پھر فرمایا۔
جی ہاں یہ زیادہ مناسب رہے گا۔
مرید نے پشاور
میں بابا جی پبلشر ز کی طبع کی گئی اسلم ناز کی کتاب 'مرشد مرشد' دکھائی کتاب دیکھ
کر مسکرائے اور کتاب دیکھ کر اس نظم کی بابت جس کے ہر شعر کے پہلے مصرعے کے حرفِ اول
کو جوڑنے سے خواجہ شمس الدین عظیمی بنتا تھا۔۔فرمایا ۔ اس کے ساتھ فٹ نوٹ ہونا ضروری
تھا کہ اس نظم کے ہر مصرعے کا پہلا حرف ملا کر دیکھیں کہ کیا بنتا ہے؟
پھر دیباچے
میں لکھے ایکجملے کی ساخت پہ تبصرہ فرمایا۔ یہ کر رہی ہوتی ہے۔۔کیا ہوا؟ مرید جھینپ
کر بولا یہاں اردو کچھ گلابی ہو گئی ہے۔۔فرمایا ۔گلابی کہاں ہوئی یہ تو نیلی ہوگئی۔
مراقبہ ہال
کی بابت فرمایا۔ اب یہ واقعی ایک ہال بن گیا ہے۔ اب اس میں وہ فقیر کی جھونپڑی والی
بات نہیں رہی۔ پہلے جو کیفیات ہوا کرتی تھیں اب وہ نہیں رہیں۔ پہلے یہاں لالٹینیں جلتی
تھیں۔۔۔۔یہ عمارت بھی نہیں تھی۔۔اب اگر یہاں ٹی وی لا کر رکھ دیں تو یہ سب ٹی وی ہی
دیکھتے رہیں گے۔
فرمایا۔ میں
نے کئی بار سوچا کہ زمین خریدنے اور تعمیر کے جھنجٹ میں نہیں پڑوں گا اور مزید تعمیر
نہیں کروں گا لیکن اب پھر یہ مہم درپیش ہے کہ یہاں جگہ کم پڑ گئی ہے اور نئی جگہ لے
کر مزید تعمیر کا سلسہ کرنا پڑ رہا ہے۔ بھئی بندہ اپنے طور پہ کیا کر سکتا ہے اللہ
جو چاہتا ہے اُسے وہی کرنا پڑتا ہے۔
پھر گروہی تقسیم
کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فرمایا۔ ایک آدمی کو خیال آتا ہے کہ وہ لوہار بنے یا ویلڈنگ
کرے۔۔۔اب ہوتا یہ ہے کہ دوسرا آدمی اس لئے لوہار نہیں بنتا کہ یہ بہت محنت طلب کام
ہے اور وہ اتنا سخت کام کرنے پر امادہ نہیں لیکن اللہ نے جس کو لوہار بنانا ہوتا ہے
اُس کو لوہا کوٹنا قطعاً سخت یا دشوار نہیں لگتا۔
پھر مغرب میں
ہونے والی تحقیق اور ریسرچ کے حوالے سے بتایا۔ ایک بار میں وہاں ایک ریسرچ سنٹر گیا۔
وہاں پہ دبیز قالین بچھے تھے۔۔۔دیواریں ساؤنڈ پروف تھیں۔ میں نے ایک کاغذ اُٹھایا تو
آواز پیدا ہوئی۔۔۔ ایک شور سا اُٹھا۔ ایک عورت تیزی سے آئی اور اپنے ہونٹوں پہ انگلی
رکھ کر اشارے سے شور کرنے سے منع کرنے کو کہا کہ مت کریں۔ وہاں ایک صاحب کو دیکھا۔
نگاہیں دور کہیں خلا میں جمی ہوئی۔۔۔ہاتھ میں قلم۔۔جونہی کوئی خیال آتا وہ کاغذ پہ
کچھ لکھتے۔۔ سیکریٹری آتی۔۔۔وہ کاغذ اُٹھا کے لے جاتی اور خاموش مشینوں پہ ٹائپ ہوتا۔۔اُن
کو نہ یہ ہوش کہ ہم نے کپڑے پہنے ہوئے ہیں یا نہیں۔۔ اُن کو انہوں نے معاش سے آزاد
کیا ہوا ہے۔ رہنے کو عالی شان گھر۔۔گھومنے پھرنے کو گاڑی۔۔بنک میں وافر بینک بیلنس۔۔یہ
سب سہولتیں وہ اس لئے دیتے ہیں کہ ذہن کہیں رُکے یا اٹکے نہیں۔ اب اگر معاش کے مسئلے
ہو تو ذہن کہاں کھلے گا۔۔ ہمارے یہاں ذہن کہیں سیکس میں اٹکتا ہے تو کہیں بچوں کی فیسوں
میں الجھتا ہے۔۔آپ اُن سے اپنا موازنہ تک نہیں کر سکتے۔۔بھئی ہمارا اُن کا کیا مقابلہ؟
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔