Topics

ماورائی علوم میں والدہ کا نام اتنی اہمیت کیوں رکھتا ہے؟

ایک اور صاحب نے دریافت کیا ماورائی علوم میں والدہ کا نام اتنی اہمیت کیوں رکھتا ہے؟

          فرمایا ۔” عورت کا اصل محبوب تو اُس کی اولاد ہی ہوتی ہے۔ وہ اس کی تخلیق کا ذریعہ بنتی ہے۔ ماں ڈائی ہوتی ہے ۔جہاں پہ وہ بنتا ہے وہ اُس کی ماں ہی ہوتی ہے۔ اس لئے کسی بھی آدمی کو دیکھنا ہو تو ضروری ہوتا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ وہ کہاں بنا تھا۔

          پھر عورتوں کے حوالے سے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ عورت کا سب سے عظیم روپ ماں ہے۔ بیوی کے روپ میں تو وہ مرد کے کثیف جذبات کے نکاس کا ذریعہ ہے۔ وہ ایک گٹر کی طرح اُس کی غلاظت اُس سے دور کرتی ہے۔ لیکن مرد پھر بھی اُس پہ ظلم ہی کرتا ہے ۔ اور تو اور اُس کی منڈیاں لگا کر اُس کی خرید و فروخت تک باز نہیں آیا ۔ آج عورت ہی کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھلا ان چیزوں کا عورت کو دکھانے سے کیا تعلق؟ یہ سب عورت کا استحصال ہی تو ہے۔حالانکہ وہ مرد کی ماں بھی ہے۔ پھر


فرمایا کہ لگ بھگ دس ہزار سال پہلے دنیا پہ عورتوں کی حکمرانی تھی۔ انہوں نے مردوں پہ بہت ظلم کئے۔۔۔وقت بدلا۔۔۔ مردوں نے تختہ الٹ دیا۔

انہیں غلام بنا لیا۔۔۔ اُن کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر رکھنے کا رواج ہوا۔۔۔ اُن کی نکیل ڈالی جاتی۔۔۔ کانوں کو چھید کر اُن میں رسی پرودی جاتی۔ پھر بعد میں جب تہذیب وتمدن نے ترقی کی۔۔۔گھر بنے تو انہیں گھروں میں مقید کیا گیا۔۔۔ یہ چوڑیاں، کڑے، ہار، پازیب، نتھ اور جھمکے اور بُندے سب انہی چیزوں کی ترقی یافتہ صورتیں ہی تو ہیں۔یہ سب ملکیت کے جذبے کا چکر ہے۔ خواہش  اقتدار کا کھیل ہے۔ پہلے عورت کو طاقت کے زور پر قابو کیا جاتا تھا اب اسے رسموں اور دولت کی زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے۔ اب آئندہ دور خواتین کی حکمرانی کا ہوگا۔اس دور کے دس ہزار سال پورے ہونے کو ہیں۔ اب خواتین مردوں پہ ظلم کریں گی تو یہ سب غلط ہوجائے گا۔ انہیں بہت خیال رکھنا ہوگا ورنہ کیا فرق ہوگا۔ اس سے فساد اور ظلم کا دروازہ تو بند نہیں ہوگا۔

          ایک صاحب نے عورت کےمرد کی پسلی سے بننے کی بات کا تذکرہ کیا تو ناگواری سے ہاتھ جھٹک کر کہا۔ عورت کے بارے میں یہ سب کچھ اُس کی توہین کرنے کے لئے کہا جاتا رہا ہے کیونکہ پسلی ٹیڑھی ہوتی ہے۔ مردوں نے عورتوں پہ بہت ظلم کئے۔ انہیں زندہ گاڑا گیا۔ سرِ بازار خریدا اور بیچا گیا۔ حالانکہ عورت نے ہی پیغمبروں کو جنم دیا۔

          فرمایا ۔ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں اور یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم اپنے ہی لباس کو نوچتے کھسوٹتے رہتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کو خوش رہنا ہی نہیں آتا۔ اب آپ دیکھیں کہ عید کے دن کوئی فالتو تنخواہ نہیں لیتا پھر بھی ہر گھر میں نئے کپڑے بنتے ہیں ، اچھے اچھے کھانے پکتے ہیں۔ ہر بچے کی جیب میں بھی کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے۔ دراصل انسان نے خوش ہونے کا ایک دن مقرر کر لیا ہے۔ اُس دن


وہ خوش ہو جاتا ہے۔ اگر وہ سبھی خوش رہنا چاہے تو اللہ اُس کو سب دن خوش رکھ سکتا ہے ۔ یہ سب یقین کرنے سے ہوتا ہے۔

          پرندوں کا یقین دانہ بن جاتا ہے۔ ایک بار میں نے رن وے پہ ایک پرندے کو چگتے دیکھا ہے۔ اب سوچیں وہ وہاں کیا چگ رہا ہوگا۔ دراصل پرندوں کو یقین ہوتا ہے کہ اُن کے زمین پر اترنے سے پہلے ہی اُن کے لئے دانہ مہیا ہو جائے گا۔انسان کھیتی باڑی کرتا ہے۔ پرندے کیا کرتے ہیں؟ کسان تو کرم خوردہ دانے تک جھاڑو سے سمیٹ کر اپنے مویشیوں کو ڈال دیتا ہے۔ پھر پرندے کیا کرتے ہیں؟ تاج الدین بابا ناگپوری ﷭ کا ایک شعر پڑھا۔

                   اجگر کریں نہ چاکری پنچھی کریں نہ کام                      داس ملوکا کہہ گئے سب کے داتا رام

          اور پھر یہ کہہ کر محفل برخواست کر دی کہ رات بہت ہو گئی ہے اب سونا چاہئے۔

اُن کے کہنے سے انہیں معلوم ہوا کہ اتنا وقت گزرنے کا انہیں احساس تک نہ ہوا تھا۔ وہ اُٹھ کر جائے تو کہاں؟ سونے کی جگہ کہاں ہے؟ اُس نے کندھے اچکائے اور باتھ روم کی طرف چل دیا۔ وہاں سے آ کر دیکھا وہاں ایک سناٹا چھایا ہوا ہے۔ سب ہی لوگ کہیں جا چکے تھے ۔ وہ ٹہلتا ہوا برآمدے کی طرف چل پڑا۔ کچھ لوگ دریاں بچھائے لیٹ چکے تھے۔ وہ کیا کرے؟ کس سے پوچھے؟ وہ یہی کچھ سوچتا بڑھتا ہوا ”حرا“ کے پاس جا رکا۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ اُس نے سوچا یہاں بیٹھ کر مراقبہ کرنا چاہئے اور چار سیڑھیاں اتر کر اہرامی ڈھانچے کی نوک کے عین نیچے مراقب ہو گیا۔ اُس کو پہلا احساس یہ ہوا کہ آنکھیں بند کرنے کے بعد اُس کے اندر ایک اجالا سا ابھرا اور وہ اک روشن سی مخروطی تکون میں بند ہوگیا ہے۔ دوسرا احساس اُس کو مچھروں کے کاٹنے کا ہوا۔ اُس نے ان دونوں ہی احساسات کو جھٹک کر مراقبے میں دھیان لگانے کی کوشش کی۔ وہ


مراقبہ میں منہمک ہونا چاہ رہا تھا لیکن اُس کے اندر اپنے مراد کی کہی ہوئی باتیں گونج رہی تھیں۔ کبھی ایک جملہ اور کبھی دوسرا جملہ اُس کی یادداشت کی سطح پہ ابھرتا اور ڈوب جاتا۔ کافی دیر یہی ہوتا رہا پھر وہ وہاں سے اُٹھ کر ٹہلنے لگا۔ رات کے ڈیڑھ دو بجے اُس نے کسی کو اپنی جانب آتے دیکھا۔ قریب آکر اُن صاحب نے اُسے کہا۔ اگر وہ سونا چاہتا ہو تو وہاں دالان میں سو سکتا ہے۔ آواز سُن کر وہ سُن ہو کر رہ گیا۔ اپنے مراد کی مدھ بھری آواز رات کے اُس پہر غیر متوقع سن کر اُسے ایک جھٹکا لگا۔ جی اچھا کہہ کر وہ دالان میں دری پہ بچھے گدیلے پہ جا کر لیٹ گیا۔ اُس کے اردگرد لیٹے لوگوں میں سے کچھ خراٹے لے رہے تھے اور کچھ تیز آواز میں سانس ۔۔ نیند میں سانس کی آواز بلند ہو جاتی ہے یا سناٹے کی وجہ سے۔۔۔ لیکن اگر سناٹے کی وجہ سے ایسا ہے تو خود اُس کو اپنے سانس کی آواز کیوں نہیں آرہی؟ اُس نے سوچا اور پھر اس گتھی کو صبح اپنے مراد کے حضور پیش کرنے کا سوچتے ہوئے وہ نیند کی وادی میں اترتا چلا گیا۔ 
 


Batein mere Murad ki

مقصود الحسن عظیمیؔ


سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔