Topics

ظالم اور جاہل

          رات کھانے کی گھنٹی بجی تو مرید نے دریافت کیا۔ یہ گھنٹی کی آواز اتنی دور تک کیوں پھیلتی ہے؟ مرید نے اٹکل پچوعرض کیا،کہ گھنٹی کی چوٹ سے ارتعاش پیدا ہوتا ہے ۔ ارتعاش کی لہریں چاروں طرف پھیلتی ہیں اور دور تک جاتی ہیں۔

          فرمایا۔۔ یہی تو پوچھ رہا ہوں کہ دور تک کیوں جاتی ہیں؟ منہ سے نکلی آواز اتنی دور کیوں نہیں جاتی؟ مرید نے بہت سوچا مگر کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اُس نے سوالیہ


نگاہوں سے حضور کو دیکھا۔ انہوں نے کوئی جواب دینے کی بجائے ۔۔ ہوگا کچھ۔۔کے انداز میں کندھے اچکا دیئے اور کھانے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔

          اب کھانے کے لئے دستر خوان مراقبہ ہال کے جنوب مغربی کونے میں بنے کچن کے ساتھ صفہ کی جگہ ابھرتی عمارت کے پہلو میں بنے کمرے کے قریب اک چبوترہ نما جگہ پر لگنا شروع ہو چکا تھا۔ گیٹ کے پاس کا کمرہ مکمل طور پر استقبالیہ بنا دیا گیا تھا۔گیٹ کے اندر اُلٹے ہاتھ جوتے اتارنے کی جگہ بن چکی تھی اور وہاں دیوار کے ساتھ جوتے رکھنے کے لئے کبوتروں کے کابک جیسا خانوں والا شیلف رکھ دیا گیا تھا۔ کبوتروں کے کابک کی جگہ ایک کمرہ بن چکا تھا۔ جس پر باہر تالا ہونے کی وجہ سے وہ یہ نہیں دیکھ سکا اُس کمرے کو کس مصرف کے لئے مختص کیا گیا ہے۔

          مراقبہ ہال کے اندر اور باہر لگے درخت کارکنوں کی روز و شب محنت اور مراقبہ ہال کے صحت افزا ماحول کی بدولت کچھ زیادہ ہی جلد بڑے ہو چکے تھے۔مراقبہ ہال کی سجاوٹ کا حصہ بننے کی انہیں شاید اُس سے کچھ زیادہ ہی جلدی تھی جتنی مراقبہ ہال بنانے والے کو۔

          وہاں دالان نما برآمدے کے ساتھ ایک کنواں بن چکا تھا ۔ جس سے نکلنے والے پانی کی بابت ٹیسٹ رپورٹ کے مطابق اُس میں معدنی اجزاء کی فراوانی کے سبب اُس کا نام ” آبِ شفا“ تجویز ہوا اور گیٹ کے سامنے سڑک کے پار ایک سبیل بھی اسی نام سے تعمیر کر دی گئی تھی۔

          کھانے کے بعد ہلکی پھلکی باتوں کا دور چلا۔ چند ایک لطیفے سُنا کر سب کو ہنسنے کا موقع فراہم کیا۔ لطافت اور بشاشت باہم دگر گھل مل کر لطف و انبساط کی اُن لہروں کو جنم دے رہی تھیں جو آدمی کو جنت کے ماحول کا عادی بنانے کے لئے ضروری ہیں۔ مرید نے سوچا یہ سب ایک بندے کے طفیل ہے اور ان کا مراد انہیں کہہ


رہا تھا۔ بھئی میں تو آپ لوگوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں اور جہاں خوشی ہو وہاں تھکن اور بیماری کا کیا کام؟ اب آپ سعیدہ کو ہی دیکھ لیں کسی نانی دادی لگتی ہی نہیں۔

          پھر بڑے حضرت جی کا ایک واقعہ سنایا کہ اک بار کراچی میں گدھا گاڑی کی ریس دیکھنے گئے۔ وہاں دوڑ شروع ہونے سے پیشتر کسی سے کہا کہ وہ فلاں گاڑی اول آئے گی اور جب وہی گاڑی دوڑ میں آگے نکلنے لگی تو خوشی سے اچھل پڑے۔ تالیاں بجا بجا کر کہتے تھے۔ دیکھا میں نہ کہتا تھاکہ یہی گاڑی جیتے گی۔ فرمایا دراصل یہ لوگ بچوں ہی کی طرح ہوتے ہیں۔ اُن میں تصنع اور بناوٹ بالکل نہیں ہوتی۔ جب بناوٹ ہوگی تو بچپنا نہیں آ سکتا۔

          پھر ایک واقعہ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا سنایا۔ ایک بار وہ کچھ ساتھیوں کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ بس دیکھی تو دوڑ پڑے اور خالی نشستیں پکڑ کر ہاتھ ہلا ہلا کر بچوں کی طرح سب کو بلانے لگے کہ جلدی آجائیں۔

          مرید نے حضور ہی کا کہا ہوا ایک جملہ یاد کیا کہ روحانیت بچپن کی طرف واپسی کے سفر کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ان روحانی لوگوں کو یہ فکر بھی نہیں ہوتی کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ساتھ ہی اُس نے سُنا۔ آپ فرمارہے تھے۔۔۔ لوگ کیا کہتے ہیں۔۔ یعنی ہر وقت یہی دھڑکا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ بھئی اس کا مطلب تو یہ ہوا نا کہ لوگ آپ کے عامل ہوگئے اور آپ اُن کے معمول ۔ لوگوں کی پرواہ ایک حد تک ہی کرنا چاہئے۔

          فرمایا دنیا میں دو ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ عامل اور معمول ۔ ایک آدمی بیس ہزار افراد کا عامل ہوتا ہے۔ جب آپ کسی کو کہتے ہیں۔ السلام علیکم۔ اب اگر اُس نے ردِعمل کا اظہار کیا اور جواب میں کہہ دیا۔۔ وعلیکم السلام ۔۔۔ تو وہ آپ کا معمول بن گیا۔

          پھر بات کا عملی مظاہرہ یوں فرمایا کہ جب آپ نے کہا کہ چلیں آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے اور اُٹھ کھڑے ہوئے تو اُن کے ساتھ سبھی اُٹھ گئے۔ کھڑے ہو کر سب کے ہاتھ


غیر ارادی طور پر ناف کے اوپر پہنچ گئے اور ایک ایک قدم پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ ڈیوٹی پر متعین اصحاب میں سے دو ایک فاصلہ دے کر پیچھے پیچھے روانہ ہو گئے۔ اُس کے ذہن میں جملہ گونجا۔۔۔باادب، با ملاحظہ، ہوشیار۔۔۔۔قلندر دوراں۔۔۔ممثل قلندر بابا اولیا۔۔۔۔ خانوادہ سلسلہ عظیمیہ کی شاہی سواری آ رہی ہے۔۔۔ شاید فرشتے کچھ ایسا ہی پکار رہے ہوں۔۔۔اُس نے سوچا۔

          اگلے روز جب مراقبہ ہال کے معمولات سے فارغ ہو کر حضور دفتر جانے کو گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔ مرید نے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ اُسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے پوچھا۔ آپ چلیں گے؟ اُس نے دل ہی دل میں کہا۔ نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔۔لیکن منہ سے

کہا۔۔ زہے نصیب۔۔۔ کیوں نہیں۔ فرمایا۔ آئیں بیٹھیں لیکن پہلے جا کر جوتا پہن لیں۔ وہ کھلکھلاتا ہوا جوتا پہننے دوڑا۔ دروازے سے ٹکراتے ہوا بچا۔۔ ایک جوتا پہنا اور دوسرا پیر میں اٹکا کر باہر کو دوڑا۔ سب اُس کی کیفیت سے محفوظ ہو رہے تھے۔

          گاڑی میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر اُس نے حضور کی گود میں رکھا بیگ لے کر پیچھے سیٹ پر رکھنے کا کہتے ہوئے ہاتھ بڑھایا تو کندھے کی حرکت سے منع کرتے ہوئے فرمایا۔۔ جی نہیں۔۔۔ یہیں ٹھیک ہے۔۔۔بھئی مال عرب۔۔۔پیش عرب پھر قدرے گردن موڑ کر کہاا۔ ویسے اس میں مال کی بجائے۔۔۔۔کچھ حسینوں کے خطوط ہی ہیں۔

          مرید کو اُن کے انداز نے اتنی جرات دی کہ بے ساختہ اُس نے پوچھا۔۔ اور حضور و تصویر بتائیں؟

          ہنستے ہوئے فرمایا۔ وہ ہم نے آستانے میں لگائی تھی لوگوں کو اعتراض ہوا تو اتروا کر اپنے سرہانے لگا لی۔

          پھر حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کے سنائے ہوئے اشعار میں سے اک شعر سنایا۔


          ہائے اُس رنگین چہرے کا نظام                          بتکدے کی صبح اور میخانے کی شام

          فرمایا ۔ بھئی ہم ہیں تو حسن پرست ہمیں جو مولوی صاحب قرآن پڑھاتے تھے۔ وہ اس بات پہ ناراض ہوتے تھے کہ میں اتنی جلدی سبق کیوں یاد کر لیتا ہوں۔ ۔۔ وہ جتنا سبق دیتے۔۔ میں چار پانچ مرتبہ پڑھتا اور وہ مجھے یاد ہو جاتا۔ وہ ایک آدھ رکوع دے دیتے۔۔۔ میں پانچ چھ مرتبہ پڑھتا وہ مجھے یاد ہو جاتا۔ مولوی صاحب یہ دیکھ کر بہت ناراض ہوتے وہ مجھے یو ں بھی اچھے نہیں لگتے تھے۔۔ وہ تھے بھی تو ذرا پکے رنگ کے۔

          اسی طرح نوجوانی میں ایک ریڑھی والے نے۔۔۔ جو چھریاں قینچیاں وغیرہ بیچا کرتا تھا۔۔۔ اپنی ریڑھی میرے حوالے کی کہ ذرا اسے دیکھنا۔ اتنے میں دو خواتین آئیں۔ قینچیاں دیکھیں۔ اُن کی قیمت دریافت کی۔ میں اُن میں سے ایک کو دیکھنے میں ایسا مگن ہوا کہ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کب وہاں سے گئیں۔ جب ریڑھی والے نے آ کر دیکھا تو کئی قینچیاں غائب۔۔ وہ نہ جانے کب انہیں اڑا لے گئیں اور ہمیں خبر تک نہ ہوئی۔

          حامد صاحب۔۔جوگاڑی چلا رہے تھے۔۔سے کہا۔ راستے میں بینک آئے گا وہاں رُکنا ہے۔

          بینک کے قریب پہنچ کر گاڑی رُکی۔ آپ اُتر کر بینک کی طرف بڑھے تو وہ شش و پنج میں پڑ گیا۔۔۔ اُ س کو اُن کے ہمراہ بینک کے اندر جانا چاہئے یا نہیں؟ اُس نے حامد صاحب کی طرف دیکھا۔ انہوں نے اشارہ چشم و ابرو سے اُسے حضور کے ہمراہ اندر جانے کو کہا تو وہ اُن کے پیچھے پیچھے بینک میں داخل ہو گیا۔

          اُس کے اندر بینکوں کے حوالے سے ایک عجیب سی کیفیت تھی، یہ خوف یا رعب سے کچھ ہٹ کر تھا۔ بینک میں داخل ہوتے ہی وہ کچھ تیکھا سا ہو جاتا تھا۔ احتیاط کے باوجود عملے کے کسی نہ کسی رکن سے تکرار ہو جانا عام بات تھی۔ اُس نے کاغذ یوں



کیوں رکھا۔۔۔اتنی دیر کاہے کو ہوئی۔۔۔وہ صاحب وہاں پان کیوں کھا رہے ہیں۔۔۔وہ کونے میں بیٹھا کلرک فارغ کیوں بیٹھا ہے۔۔۔ کہیں وہ اس کے پیش کردہ چیک میں کوئی غلطی نہ پکڑ لے۔۔۔ وہ بلا وجہ کڑھتا۔۔۔وہ کچھ بہت ہی خاص توجہ کا طالب ہوتا تھا یا یہ اُس کے اندر کہیں کسی چھپے ہوئے خوف کا شاخسانہ تھا یا اُس کے اندر کا احساسِ کمتری یا کوئی اور پیچیدہ نفسیاتی مسئلہ وہ اس کو حل نہیں کر پا رہا تھا۔

          بینک میں داخل ہو کر آپ نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ وہاں کسی نے اُن کو توجہ نہ دی۔ اکیلا ہوتا تو وہ اسی بات پہ بھڑک چکا ہوتا۔ لیکن پہلے کے کسی بھی وقت میں اور وقت کے اُس لمحے میں یہ فرق تھا کہ پہلے کبھی اُس کا مُراد اُس کے ہمراہ نہ تھا۔آپ نے اِدھر اُدھر بیٹھے گپیں مارتے لوگوں کے بیچ راستہ بناتے ایک میز پر جا کر کسی صاحب کا پوچھا۔میز پر براجمان صاحب نے اک شان استغنا سے اُن کی طرف دیکھا۔ پان کی پیک سے بھرے منہ کو چلاتے ہوئے اشارے سے کہا۔۔ وہ کہیں گئے ہیں۔اب اُس کا پارہ چڑھنے لگا تھا۔ اُس کے مُراد سے وہ اس طرح بات کرنے کی جسارت کیسے کر رہا ہے۔ اُس کو بُرا لگنا شروع ہو گیا تھا۔ جس بندے کے ہاتھ چومنا لوگ اپنی سعادت اور فخر سمجھتے ہیں وہ اُن سے ایسا سلوک کرنے کی جسارت کیسے کر سکتا تھا کہ انہیں کوئی عام سا سائل سمجھے۔

          اُس نے دیکھا کہ اُس کے مُراد نے سہارا لینے کے لینے کے انداز میں میز پہ ہاتھ کی انگلیوں کو یکے بعد دیگرے اُٹھا کر تال دینے کی طرح میز کو بجایا۔ وہ صاحب میز پہ جھکے اور میز کے نیچے سے ڈسٹ بن نکال کر پیک کو وہاں منتقل کیا اور نہایت ششتہ اردو میں کہا۔ معاف کیجیئے۔۔۔منہ میں پان تھا۔۔ اور پھر بتایا کہ جن صاحب کو انہوں نے پوچھا ہے وہ کسی کام سے کہیں جا چکے ہیں۔ حضور نے انہیں بتایا کہ انہیں فلاں فارم درکار ہے۔ اُن صاحب نے پورے کاروباری اخلاق کو بروئےکار لا کر معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔ وہ تو انہی کے پاس ہوتے ہیں۔ آپ کل کسی کو بھیج کر منگوا لیجیئے۔۔۔کل وہ آپ کو مل جائیں گے۔



وہاں سے پلٹے تو ایک کمرے میں جھانکا پھر دوسرے کمرے میں اور پھر باہر نکل آئے ۔ گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہوئے تو فرمایا۔ سود کا کاروبار کرنے والے اداروں میں جاؤ تو عجیب سی کوفت اور گھٹن ہوتی ہے۔لیکن کیا کیا جائے جہاں سارا نظام ہی

سود پہ چل رہا ہو وہاں ان اداروں سے واسطہ تو پڑے گا ہی۔

          اُس کے بعد خاموشی رہی۔ اُن کی بات سُنتے ہی اُس کے انداز کا اتنا پرانا مسئلہ یک دم تحلیل ہوتا چلا گیا۔ وہ سمجھ گیا کہ ماضی میں اُس نے بینک سے کسی دوست کو قرضہ لے کر دیا تھا اور اُس کے نتیجے میں جو کوفت اور اذیت اُس کو ہوئی تھی، اُس کا یہ تیکھا پن اُس کا ایک غیر فطری ردِعمل تھا۔ بات فہم سے ہو کر ادراک کا حصہ بن جائے تو شعور میں پڑی اٹکیں صاف ہوتی چلی جاتی ہیں۔ شاید وہ اُسے اصلاح ہی کی خاطر اپنے ساتھ وہاں لائے تھے تاکہ جس گرہ جو کبھی وہ نادانستگی میں لگا کر کستا چلا جا رہا تھا وہ ڈھیلی کر دی جائے۔ اب وہ گرہ اتنی ڈھیلی ہو گئی تھی کہ اصولاً اُس کو کھل کے وہیں ختم ہو جانا چاہئے تھا۔

          وہاں سے وہ روحانی ڈائجسٹ کے دفتر پہنچ گئے۔ حامد صاحب انہیں چھوڑ کر چلے گئے۔ روحانی ڈائجسٹ کے دفتر میں آپ نے معمولات کے کچھ کام نپٹائے۔ وہ اِدھر اُدھر تانک جھانک کرتا رہا پھر ایک پرانا رسالہ اُٹھا کر اُس کی ورق گردانی کرنے لگا۔ اتنے میں مرشد کریم کے منجھلے صاحبزادے حکیم سلام عارف صاحب تشریف لے آئے ۔

          وہاں سے فارغ ہو کر اُن کے ہمراہ اُن کے دفتر پہنچے۔ دوپہر ہو چلی تھی۔ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر دفتر پہنچ کر سلام عارف ابا سے اجازت لے کر چلے گئے۔ آپ نے اپنے بیگ سے کاغذات نکالے اور کام میں جت گئے وہ سامنے والی کرسی پہ بیٹھا انہیں خطوط کے جواب لکھتا دیکھتا رہا۔ وہ خط اُٹھاتے اُن کی نظر دائیں سے بائیں کی




بجائے اوپر سے نیچے تیرتی چلی جاتی۔ وہ خط کو اُلٹتے اسی رفتار سے پڑھتے اور خط کو ٹرےمیں رکھ کر قلم پکڑتے اور لکھنا شروع کر دیتے۔ کبھی کبھار لکھتے لکھتے رُکتے اور خط کو اُٹھا کر ایک نظر دوبارہ دیکھتے اور لکھنے کا دوبارہ آغاز ہو جاتا۔

          بیچ میں ایک بار کرسی کھسکا کر پیچھے کی۔۔۔۔۔ اُٹھ کر الماری تک گئے کوئی چیز تلاش کی۔۔۔ دیکھ کر اُسے واپس رکھا اور کرسی پہ بیٹھ کے پھر کام میں منہمک ہو گئے۔ اس دوران انہوں نے لکھتے ہوئے نگاہ اوپر کر کے اُس کو ایک دو بار ہی دیکھا تھا۔ وہ کام میں اتنے کھوئے ہوئے اور اتنے منہمک تھے گویا اس کی موجودگی ناموجودگی کے برابر تھی۔

          اتنے میں سلام عارف واپس آئے تو انہیں کہا۔ ارے بھئی ان کی تواضح کو کچھ لائیں اور جیب سے پیسے نکال کر دیتے ہوئے کہا۔ آپ بھی ساتھ ہی چلے جائیں یہ علاقہ آپ نے نہیں دیکھا ہوا ذرا گھوم پھر کر دیکھیں۔ وہ سمجھ گیا کہ اُس کے وہاں بیٹھنے سے اُن کے کام میں ہرج ہو رہا تھا اس لئے انہوں نے اُس کو وہاں سے ہٹانے کا اہتمام کیا ہے۔

          جب وہ واپس آئے تو آپ کام سے فارغ ہونے کو تھے۔ جو چیزیں وہ لائے اُن کو دیکھا ۔کچھ پھل لیا اور کہا۔ بس آپ کھائیں۔ اب کچھ دیر لیٹوں گا۔ اُس نے عرض کی کہ اگر آپ نے سونا ہو تو وہ باہر چلا جائے۔ فرمایا۔۔ نہیں میں کچھ دیر لیٹ کر آرام کرنا چاہتا ہوں۔ آپ بیٹھیں۔ پھر سلام عارف سے کہا بھئی انہیں چائے پلوائیں۔ دفتر میں ایک طرف کوچ پہ دراز ہو گئے۔ سر اپنے بازو پہ رکھا اور پہلو کے بل لیٹ گئے۔ اُس نے کرسی قدرے موڑ کر اپنا رُخ اُن کی طرف کر لیا اور سر جھکائے چائے پیتا رہا۔ اُس کو احساس تھا کہ وہ اُن کی نگاہوں کے حصار میں ہے۔ وہ اُسے دیکھ رہے ہیں۔۔۔اُن کی توجہ کی لہریں وہ اپنے اندر دور کرتے محسوس کر رہا تھا اور اُس کے وجود کا ایک ایک ذرہ اُن لہروں کو اپنے اندر سمیٹ رہا تھا کہ اچانک فرمایا۔

          تکوین والے اچھائی یا برائی کے چکر میں نہیں پڑتے۔۔۔ پڑے تو گئے۔



اللہ نے یہ تو نہیں کہا کہ میرے ایسے نبی ہیں جن کے کہنے پر میں بارش برساتا ہوں بلکہ فرمایا کہ میرے ایسے بندے ہیں جن کے کہنے پہ میں بارش کرتا ہوں۔یہ بندے ہی تکوین والے ہیں۔ دراصل اچھائی یا بُرائی کا تصور نبیوں نے دیا ہے۔ اللہ اگر کسی چیز کو متعین فرماتا ہے تو وہ فطرت میں شامل ہو جاتی ہے۔ جیسے اللہ نے کھانا کھانا مخلوق کے لئے متعین فرمایا تو اُس کو مخلوق کی فطرت میں شامل کر دیا یعنی مخلوق کے لئے کھانا پینا لازم ہو گیا۔

          پھر ہنسی کے لہجے میں کہا۔۔ اللہ نے انسان کو کھانے کے ذریعے اپنا محتاج بنا رکھا ہے تاکہ مخلوق کو احساس رہے کہ کوئی اُس کو رزق فراہم کر رہا ہے۔

          مرید نے کہیں بہت دور اٹکا ہوا ایک سوال اپنے ذہن کی سطح پہ طلوع ہوتے دیکھا تو عرض کی حضور یہ شکر کیا ہے؟ شکر کیسے کیا جائے؟

          فرمایا ۔ اللہ ی دی ہوئی نعمت کو استعمال کرنا۔۔۔ شکر ہے۔۔ منہ سے شکر ہے کہنا یا شکر الحمد للہ کہتے رہنا اور عطا کی گئی نعمت۔۔۔ خواہ کو کوئی چیز ہو یا صلاحیت۔۔۔اُس کو استعمال نہ کرنا۔۔۔اُس کو ضائع کرنا۔۔۔شکر کرنے کا حق ادا نہ کرنا ہوا۔

          پھر خود کلامی کے سے انداز میں فرمایا۔۔ اللہ کی عظمت اور اُس کے کمالات کی کوئی حد ہی نہیں اور نہ ہی کوئی اُن کی معرفت کا حق ادا کر سکا ہے۔ یہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود۔۔۔سب انسانی ذہن کی رسائی کے انداز اور اندازے ہیں ورنہ درحقیقت میں تو ان باتوں کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔

          اُس نے اثبات میں سر ہلایا اور موقع سے فائدہ اُٹھانے کو پوچھا۔حضور یہ جو روحانی ڈائجسٹ میں حضور بابا قلندر اولیاؒ کے ہاتھ سے بنے ہوئے نقشے شائع ہوئے ہیں وہ کسی کے کام کیسے آ سکتے ہیں جب تک اُن کی وضاحت کے لئےکہی گئی بات بھی ساتھ نہ ہو۔ اور پھر اپنی بات کی وضاحت کو وہ رسالہ سامنے کرتے ہوئے عرض کی کہ



اب جیسے یہ کن فیکون کے نیچے کل اور جزو لکھا ہوا ہے۔ تو اسے دیکھ کر کوئی کیا سمجھے گا جب تک وہ الفاظ جو اُس وقت حضور نے اُس کی وضاحت کو ارشاد فرمائے تھے ساتھ میں نہ ہوں۔

          اُسے کی بات سنتے ہوئے حضور پہلو سے کمر کے بل ہوئے اور ایک ٹانگ کو کھڑا کر کے دوسرے پاؤں کو گھٹنے پہ رکھ کر اُسی طرح لیٹے لیٹے ہاتھ بڑھا کر اُس کے ہاتھ سے رسالہ لیا اور دائیں ہاتھ کی تیسری انگلی لکھے ہوئے الفاظ پہ رکھتے ہوئے اُسے دکھایا۔ وہ کرسی چھوڑ کر کوچ کے قریب ہو کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور کہنیاں کوچ پہ ٹکا اُن کے سینے کے اوپر پکڑے ہوئے رسالے کی اُس تحریر کو دیکھنے لگا جہاں انہوں نے انگشت شہادت کی بجائے تیسری انگلی رکھی ہوئی تھی۔ اُس کے کان اُن کے منہ سے محض تین چار انچ ہی دور تھے۔ وہ تحریر کی بجائے اُن کی انگلی اور ناخن کی ساخت دیکھ رہا تھا۔

          بھئی اللہ میاں کے ذہن میں جو کچھ تھا وہ سب کن سے وابستہ ہے۔۔۔ اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ فیکون ہے۔۔۔ اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ کُن کا جزوی مظاہرہ ہی تو ہے۔ وہ بات کو سماعت کے پیالے میں بھرتا اُن کی انگلی کو کن فیکون پہ جاتے اور فیکون سے کن پہ پھیرتے دیکھتے دیکھتے خیالوں میں جانے کہاں سے کہاں نکلتا چلا جا رہا تھا کہ انہوں وہ آیت دکھاتے ہوئے اس کی شرح فرمائی جس میں اللہ نے اپنی امانت کو پہاڑوں، سماوات اور ارض کو پیش کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔

          فرمایا۔ اول تو انسان کو اس امانت کو اُٹھانے کا کہا ہی نہیں گیا تو اُس نے یہ امانت بڑھ کر خود سے کیوں اُٹھائی۔۔۔یہ جہالت ہوئی۔دوسرے یہ کہ انسان خود زمین کے شعور یا ارضی شعور کا ایک حصہ تھا۔ جب زمین نے انکار کر دیا تو انسان یعنی زمینی مخلوق میں سے ایک فرد نے اقرار کیوں کیا۔۔۔ یہ ظلم ہوا۔




 

مرید پہ حیرت کا اک باب وا ہوا اور وہ دروازے سے گزر کر فہم و آگہی کے صحن میں اترتا چلا گیا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے وہ دو زانو ہو ا اور پکار اُٹھا۔ حیرت ہے یہ آیت میں نے اتنی بار پڑھی لیکن کبھی دھیان میں یہ بات آئی ہی نہیں کہ اسکا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے۔

          فرمایا۔ ہم قرآن کو پڑھتے ہی کب ہیں؟ ہم تو اس سے محض شادی نکاح کے مسائل ہی کا پتہ چلاتے ہیں۔

          پھر کہا کہ ہر مذہب شخصیت پرستی ہی کا آئینہ دار ہے۔لوگ شخصیت سے لگاؤ ہی کے سبب نظریات کو اپناتے اور لے کر اُٹھتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے قرۃ العین طاہرہ کے بارے میں بتایا کس طرح اُس نے بہا اللہ سے ایک ہی ملاقات کے بعد اپنے پیر و مرشد کے لئے اُن کے نام سے علیحدہ مذہب ' بہائی مذہب' کی بنیاد رکھی۔ وہ انتہائی حسین و جمیل اور قابل تھی۔ ایسی شعلہ بیان مقررہ، خطیب اور شاعرہ تھی کہ اُس نے ایران کے طول و عرض میں آگ لگا دی۔ اُس مذہب کے تمام اصول و ضوابط اسی کے مرتب کردہ ہیں۔

          فرمایا اُس مذہب میں عبادات زیادہ نہیں ہیں۔ وہ دعاؤں پہ ہی زور دیتے ہیں۔ ان کی عبادت گاہیں کھلی اور کشادہ ہوتی ہیں۔ عام طور پر سمندر کنارے یا کسی پہاڑی مقام پر بناتے ہیں۔ امریکی نیو ورلڈ آرڈر کے تحت پوری دنیا کے لئے جس مذہب کا انتخاب کیا ہے وہ بہائی مذہب ہی تو ہے۔

          اسی طرح چین میں ایک نبی گزرے ہیں لیو شاؤ چی۔ جب انہیں کوئی بندہ نہ ملا تو انہوں نے ہجرت کی ٹھانی اور گدھے پہ سامان لاد چل دیئے۔شہر سے باہر چونگی والے نے ان سے دریافت کیا تو بتایا کہ یہاں کوئی میری بات ہی نہیں سُنتا لہذا میں ہجرت کر رہا ہوں۔اُس چونگی والے نے کہا اگر میں آپ کی بات سنوں تو کیا آپ میرے پاس ٹھہرنا پسند فرمائیں گے۔

 

فرمایا لیو شاؤ چی کا مذہب اور اُس کی تعلیمات اُسی ایک چونگی والے کی بدولت باقی ہے۔

          اسی طرح ایک بار حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک چونگی والے کے یہاں قیام پذیر ہوئے تو یہودی علمانے انہیں وہاں سے چلے جانے کو کہا۔ حضرت عیسی ؑ نےپوچھا۔ وہ کیوں؟ تو انہوں نے کہا ہمارے آپ کے اختلافات اپنی جگہ مگر آپ اتنے عالم فاضل ہو کر ایک جاہل کے گھر قیام کریں یہ علم کی توہین ہے اور یہ بات ہمیں گوارا نہیں اور پھر یہ چونگی والا کوئی اچھا آدمی بھی نہیں۔ یہ تو ایک بہت ہی بُرا آدمی ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا جانتے ہو کہ محرر بُرا آدمی ہے اور یہی تو میرا مشن ہے کہ مجھے بُروں کو ٹھیک کرنا ہے اور ان کی اصلاح کرنا ہے۔

          اسی طرح جب حضرت عیسیٰ علیہ اسلام پناہ کی تلاش میں تھے وہ ایک گھر میں داخل ہوئے۔ وہ گھر ایک طوائف کا گھر تھا۔ جب اُس نے جانا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں تو اُس نے اُن کے پاؤں دھوئے۔ اُن کے بالوں میں کنگھی کی اور پھر رات گئے انہیں پچھلے دروازے سے نکال دیا۔ کہتے ہیں اس کا نام بھی مریم تھا۔

          اُس کے بعد حضور نے آنکھیں موند لیں۔ وہ پیچھے ہٹ کر کرسی پہ بیٹھ گیا۔ پانچ دس منٹ بعد پوچھا۔ کیا وقت ہوا ہے؟ مرید نے گھڑی دیکھ کر بتایا کہ ساڑھے چار ہو چکے ہیں۔ سُن کر اُٹھ بیٹھے۔ واش روم گئے۔ کہا ذرا گھر تک چلتے ہیں۔

          دفتر سے اتر کر پیدل چلتے ہوئے مسجد غوثیہ تک آئے وہاں ایک ریڑھی والے سے کچھ پھل خریدا۔ پھر ایک رکشے میں بیٹھ کراُسے کہا کہ گولڈن گیٹ (نارتھ ناظم آباد) چلیں۔ رکشے میں اپنے مُراد کے ساتھ بیٹھے مرید نے سوچا کہاں روح کے علوم، تکوین کی باتیں اور کہاں یہ زمین یہ کراچی میں چلتے اک رکشے میں بیٹھے مُراد اور مُرید۔اس نے چاہا وہ کچھ بات کرے۔ ذہن کو ٹٹولا تو اُسے شانت اور خالی پایا۔ پھر بھی پوچھا۔


حضور یہ روحانی سفر کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ انہوں نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی۔ وہ بھی اسی طرح ہوتے ہیں۔

          شاید اب تشریحات کا وقت ختم ہو چکا تھا اور تشریفات کا دور آغاز ہونے کو تھا۔

          ڈی-۳۲ کے سامنے رکشے سے اتر کر دروازے پہ لگی کال بیل کو دباہا۔ ایک بچے نے دروازہ کھولا اور انہیں دیکھ کر نہال ہو گیا۔ ابا کہہ کر اُن کا ہاتھ تھاما اور پہلو سے لگا۔ انہوں نے اُس کے سر پہ شفقت سے ہاتھ پھیرا اور پھل اُسے پکڑا دیئے۔ وہ دوڑتا ہوا گھر کے اندر چلا گیا۔ڈرائنگ روم کا دروازہ پکڑ کر دیکھا۔ وہ بند تھا۔ اُسے رُکنے کا کہہ کر گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ کچھ ساعت بعد ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول کر اُسے اندر مدعو کیا۔ آپ یہاں بیٹھیں۔۔۔کہہ کر اُسے وہاں چھوڑ کر چلے گئے۔

          یہ وہی ڈرائنگ روم تھا جہاں وہ پہلی بار پراچہ صاحب کے ساتھ آیا تھا۔ اُس وقت کی کیفیات کا تاثر اُس کے ذہن میں لہرایا۔ نرم و دبیز قالین اور اس کے ہم آہنگ رنگ پردے اُس وقت یہاں نہ تھے۔ اُس وقت مراقبہ ہال بھی تو نہ تھا اور مسجد تو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔ڈائننگ ٹیبل تک جانے میں جہاں وہ عید کے دن بیٹھا تھا۔ اُس وقت وہ جوتوں سمیت اندر آیا تھا اور آج جوتے اتار کر۔ طور پہ جب اللہ نے موسیٰ سے جوتے اتروائے تھے تو اُن کو پکار کر کہہ دیا تھا موسیٰ جوتے اتار کر آگے آؤ۔یہاں اُس نے قالین کے احترام میں جوتے اتارے تھے۔ اسی لئے تو تمہیں یہاں آگ بھی نظر نہیں آرہی۔ اُس کے شعور نے سرگوشی کی۔ یہ درست نہیں۔ تم نے اللہ کے ایک بندے کے احترام میں جوتے اتارے ہیں اور جتنی روشنی تمہیں یہاں نصیب ہوئی ہے دعا کرو کہ تم سمیٹ سکو۔ اُس کے ضمیر نے شعور کو آنکھیں دکھائیں۔

          بات کی سچائی کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ سائیڈ ریک پہ رکھے رسائل اور شیلف میں رکھی کتب کی طرف متوجہ ہو گیا۔ وہاں کوئی ایسی خاص کتاب اُس کونظر نہ آئی جس میں وہ دلچسپی لیتا اور تو اور وہ خود اُس بندے کی اپنی کوئی کتاب وہاں موجود نہ



تھی جس کی کتب کو کتب بین علوم کا اک خزانہ اور کتب فروش سکہ رائج الوقت کہتے تھے اور جو اُن کتب کا خالق تھا۔

          خالق اپنی مخلوق سے دیگر مخلوقات کی خدمت تو لیتا ہے لیکن خود لااحتیاج ہونے کے ناطے اُن سے بے نیاز ہے اُسے اُن سے خود اپنی تو کوئی خدمت نہیں کرانی ہوتی اور نہ ہی کبھی کوئی اپنے خالق کی کوئی خدمت کر سکا ہے۔ وہ اُسے سامنے رکھ کر کیا کرے گا۔ خیال کی لہر ہلکے ہلکے اُس کے شعور میں پھیلتی چلی جا رہی تھی۔ وہ نیم وا آنکھوں سے دیوار پہ لٹکے طغرے پہ نگاہ مرکوز ہونے باوجود اُسے دیکھنے کی بجائے من کے پانیوں کی گہری جھیل کی سطح پہ چلتی خیال کی لہروں سے بنتے دائروں کو دیکھنے لگا ہوا تھا۔ ایک دائرے سے توجہ ہٹ کر دوسرے دائرے پہ مرکوز ہوتی چلی گئی۔

          جب دنیا کا پورا نظام اوپر والوں کے ہاتھ میں ہے، اہلِ تکوین اتنے با اختیار اور طاقتور بھی ہیں تو پھر دنیا کا آج جو حال ہے کیا یہ بھی اُن کی پالیسی کاکوئی حصہ ہے؟ جب اُن کے پاس اتنا بڑا ڈنڈا ہے کہ اگر کوئی بندہ غلط کام کرتا ہے ، کسی کا دل دکھاتا ہے، کسی کی حق تلفی کرتا ہے تو وہ اُس کو اُس کے نتائج بھگتنے پر مجبور کر دیتے ہیں تو پھر یہاں یہ آوے کا آوا ہی کیوں بگڑا ہوا ہے۔ لوگ مشکلات ، کشاکش ، پریشانی، بے چینی اور بے سکونی کے اندھیروں میں بھٹکنے پر کیوں مجبور ہیں؟ خیال کی اس لہر نے اُسے ایسی اُدھیڑ بُن میں ڈال دیا تھا جس کا کوئی سرا اُس کو ہاتھ نہیں لگ رہا تھا۔

          وہاں کوئی آہٹ بھی نہیں ہوئی لیکن وہ چونک اُٹھا۔ اُس کو کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ سامنے دروازے سے اُس کا مراد اندر داخل ہو رہا تھا۔ فکر کی لہروں کے نقوش کو پڑھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔ ہمارے یہاں تو یہ کہا جاتا ہے زیادہ سوچنے سے دماغ خراب ہو جاتا ہے۔


آئیں چلیں۔ وہ اُٹھ کر کھڑا تو ہو ہی چکا تھا۔۔۔ یہ سُنتے ہی دروازے کی طرف چل دیا۔ دروازے سے نکل کر برامدے کی روش پہ پہنچ کر حضور نے کہا۔ وہ خود ہی بند کر لیں۔ اُس نے ایک طرف ہو کر انہیں بڑھنے کو راہ دی اور ساتھ ہو لیا۔

           گیٹ سے نکل کر سڑک پہ پہنچ کر انہوں نے کہا۔یہاں سب کچھ بگڑ چکا ہے کہ اسے پوری طرح ختم کرنے کے بعد دنیا کو از سر نو بناناپڑے گا۔ مگر کیا کیا جائے۔ وہ بھی تو رحمت اللعالمین ہیں۔ سب ان کی اولاد کی طرح ہیں۔ وہ یہ سب ختم کرنے کی اجازت کیوں دے دیں۔ حا لانکہ اوپر والے کئی بار یہ تجویز اُن کو دے چکے ہیں لیکن وہ منہ پھیر لیتے ہیں۔

          لیکن حضور یہ سرا سر تضاد نہ ہوا؟ یہ سب انتہائی متضاد باتیں لگتی ہیں۔ انہوں نے اُس کی بات سُن کر اُس سے کوئی سوال نہ کیا کہ وہ کس تضاد کی بات کر رہا ہے۔ انہوں نے دھیمے سے لہجے میں کہا۔

          جی ہاں۔ یہ تو ہے۔۔۔ اور پیشتر اس کے کہ وہ کچھ اور کہے۔ فرمایا۔ شعور میں تضاد ہوتا ہے۔

          اُس نے سوچا درست فرمایا۔ شعور میں ہی تو تضاد ہوتے ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں ایک بار اُس کے ایک دوست نے خود اُس کی بابت تبصرہ کرتے ہوئے اسے مجموعہ اضداد بتایا تھا۔ اُس وقت اُس کو یہ بات بہت ہی ناگوار گزری تھی اور آج تک وہ متعدد بار اس بات پہ الجھ چکا تھا۔ آج اُس کی اتنی دیرینہ پھانس کو اتنی صفائی سے نکال دیا گیا تھا کہ اُس کو محسوس تک نہ ہوا کہ کیا ہو گیا۔اُس کے مراد نے دورانِ طبابت جراحی کے تمام کمال ازبر کئے تھے تو ہر قسم کے مریض اُن کے تعاقب میں رہتے تھے۔ گلی کا موڑ مُڑتے اُس کے ذہن کا ایک اور اریب سیدھا ہو چکا تھا۔ وہاں سے باہر مین سڑک پہ آکر وہ ٹیکسی میں بیٹھے اور مراقبہ ہال کی طرف روانہ ہولیے۔ جہاں سرس کے درخت سُرخ اور زرد پھولوں کے گلدستے لئے اُس کے مراد کی راہ تک رہے تھے۔


راستے میں مرید نے سوچا جہاں اتنی پھانسیں نکل رہی ہیں اک خلش سی اور بھی صاف ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے۔اُس نے عرض کی ۔”حضور بعض اوقات والدہ سے ترشی سے بات کہہ بیٹھتا ہوں جبکہ حکم ہے کہ والدین سے اف بھی نہ کہو۔ فرمایا۔ اول تو نہیں کرنا چاہئے مگر ہو جائے تو کچھ دیر بعد ماں کے کندھے پکڑ کر۔۔۔اُس کے کندھے پکڑ کر ہلکا سا دبا کر دکھایا کہ یوں۔۔۔ اور کہہ دیں۔ میں معافی چاہتا ہوں۔۔۔ ماں نے کیا کہنا ہے۔ وہ تو معاف کر ہی دیتی ہے۔

          فرمایا۔ غلطی یا گناہ پر ندامت اللہ کو بہت پسند ہے بندہ اللہ کو اسی لئے تو عزیز ہے کہ وہ غلطی کرتا ہے اور اس پہ ندامت سے توبہ کرتا ہے۔ صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے عرض کی۔کتنا اچھا ہوتا کہ ہم سے غلطی ہوتی ہی نہ۔ حضور ﷺ نے بہت ناراضگی سے فرمایا کہ اگر تم غلطی نہیں کرو گے تو اللہ تمہیں مٹا کر ایسی قوم کو سامنے لے آئے گا جو غلطیاں کرنے والی ہو اور اُس پہ نادم ہوتی ہو۔ فرشتے اور انسانوں میں اسی بات ہی کا تو فرق ہے کہ انسان گناہ کرتا ہے اور نادم ہوتا ہے۔ غلطی ہو جائے تو توبہ تائب میں لگ جانا چاہئے۔ غلطی پر اصرار نہیں کرنا چاہئے یہ حضرت آدم کا ورثہ ہے۔

          مرا قبہ ہال پہنچے تو مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔نماز اور مراقبہ کے بعد کھانا کھایا۔۔۔حضور نے کھانا اپنے کمرے میں ہی منگوا لیا۔ اُس رات شاید اُس کا پیٹ کچھ زیادہ ہی بھر گیا تھا۔ اس لئے کچھ خمار محسوس کرتے وہ بھی جلد ہی سونے چلا گیا اور کچھ حضور بھی ملنے کے لئے آئے ہوئے لوگوں سے بات کرنے کے بعد آرام کرنا چاہ رہے تھے۔

          صبح مراقبے کے لئے آستانے میں جاتے ہوئے اُس نے مرشدِ کریم کو آتے دیکھا تو مودب ہو کر آستانے کا دروازہ کھول کر پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔ پاس آئے تو اُس نے سلام کیا۔ سر کی خفیف سی حرکت سے سلام کا جواب دیتے۔ اندر داخل ہوئے۔ وہاں موجود


سبھی سرو قامت اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اپنی مخصوص جگہ بیٹھ کر چادر کو گھماکر اپنے گرد لپیٹا اور مراقب ہو گئے۔

          مراقبے کے بعد سیر کے لئے جانے لگے تو حامد صاحب حضور کے ساتھ ہو لیے۔ اُس نے ساتھ جانے کی خواہش کے باوجود نہ جانے کیوں ارادہ ترک کر دیا اور وہ اکیلا ہی ٹہلتا رہا۔ ناشتے کی گھنٹی بجنے سے پہلے ہی وہ کچن کے پاس پہنچ گیا۔ کچن میں ڈیوٹی پر موجود ایک صاحب نے اُس سے چائے کا پوچھا۔ اندھا کیا چاہے۔۔۔ ایک پیالی چائے۔۔۔کہہ کر اُس نے چائے کی پیالی لی اور وہیں بیٹھ کر پینے لگا۔۔۔چائے پینے کے دوران اِدھر اُدھر باتوں میں اُس نے صبح سویرے دیکھے ہوئے چند نہایت خوبصورت پرندوں کی بابت انہیں بتایا۔ وہ اُن کو اُن کے رنگوں اور سریلے پن کی بابت بتا رہا تھا کہ انہوں نے اُس کو بتایا کہ مرشد کریم نے کچھ بھائیوں کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ وہاں سے کوؤں کو مار بھگانے کا کچھ انتظام کریں کیونکہ یہ ایک بد معاش پرندہ ہے اور دوسرے پرندوں کو مار بھگاتا ہے۔

          چند روز تو وہ چھرے والی بندوق لئے اُن کا تعاقب کرتے رہے پھر کسی نے مشورہ دیا کہ چوہے مار دوائی آٹے میں ملا کر ان کوؤں کو کھلائی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ اُس سے اور کچھ ہوا یا نہیں ایک عجیب بات مشاہدے میں آئی۔ جنہوں نے وہ آٹا کھایا ۔ جب یہ محسوس کیا کہ وہ کچھ غلط چیز کھا بیٹھے ہیں وہ جیسے تیسے ہوا نیم کے درخت تک گئے اور نیم کی نبولیاں اور پتے کھانا شروع کر دیئے۔ ایک دو کوے جن کی حالت زیادہ ابتر تھی۔۔۔اُن کو باقی کوے نبولیاں اپنی چونچ میں لا لا کر کھلاتے رہے۔ اتنے کوؤں میں سے صرف ایک ہی مرا باقی سب ٹھیک ہو گئے۔

          پھر؟ اُس نے دلچسپی سے پوچھا تو انہوں نے بتایااُس کے بعد تو گویا سب ہی کوّے مراقبہ ہال کے گرد ہو گئے۔ انہوں نے جو شور کیا وہ تو کیا۔ پھول توڑ توڑ کر لاتے۔۔۔پانی میں ڈالتے، جیسے انہوں نے باقاعدہ اعلانِ جنگ کر دیا ہو ہمارے خلاف۔۔ یہ



تالاب سرس کے ان پیلے پھولوں سے بھر دیتے۔ آنے جانے والوں پہ جھپٹنے لگے۔ انہوں نے اتنا اودھم مچایا کہ بس کیا بتائیں۔

          پھر کیا ہوا؟ پھر یہ ہوا کہ حضور ابا جی نے کہا کہ مرے ہوئے کوّے کھمبوں اور درختوں پہ لٹکا دیں۔ جب چند مرے ہوئے کوّے درختوں اور کھمبوں پہ لٹکائے تو یہاں امن ہوا۔ اُس کے بعد سے یہاں کوّے کم ہو گئے ہیں، اس لئے چھوٹے پرندوں کو ادھر آنے کا حوصلہ ہو جاتا ہے۔ ورنہ یہ بدمعاش تو کسی چھوٹے موٹے پرندے کواپنے علاقے میں آنے کہاں دیتے ہیں۔

          کچھ دیر بعد دیکھا کہ ابا حضور حامد اور رشید صاحب کے ہمراہ آرہے ہیں۔ وہ مہندی کی باڑھ اور وہاں لگے بوگن ویلیا کے پودوں کے پاس رُکے۔اُن کی کانٹ چھانٹ کے بارے میں اُن کو کچھ بتا رہے ہیں۔ چند قدم آگے آکر وہاں تعمیر کے لئے بنائے عارضی حوض پہ چھت ڈال کر اُسے آئندہ کے لئے ذخیرہ آب کے لئے مختص کرنے کا حکم دیا۔ چھت ڈالنے سے پہلے اُس کے گرد بنی چار دیواری کو مضبوط اور پختہ کرنے اور اُس کو موجودہ سطح سے تین چار فٹ اونچا کر کے پھر چھت ڈالنے کا کہا اور فرمایا ۔۔ اس سے آپ کو بیٹھنے کے لئے ایک چبوترہ بھی مل جائے گا۔

          کچن کے ساتھ بنے ڈائننگ روم میں آئے ۔ فرش پہ چٹائی بچھا کر اُس پہ پلاسٹک کی ایک لمبی سی شیٹ ڈالی گئی تھی۔ اُس پہ پلیٹیں وغیرہ رکھ جا چکی تھیں۔

          دستر خوان پہ بیٹھنے کے بعد حضور نے مکھیاں دیکھ کر تبصرہ کیا۔ شوہروں کو چاہئے کہ مکھیاں مارا کریں اور بیویوں کو مچھر مارنے چاہیئں۔ بھئی آپس میں لڑنے جھگڑنے سے تو یہی بہتر ہے کہ کوئی تعمیری کام ہی کر لیا جائے۔

          ناشتے کے دوران قدرے خاموشی رہی۔ پھر کہیں سے ایک بات کہی گئی۔ دوسرے نے کوئی سوال پوچھ لیا۔ ابا حضور نے لوگوں کو ایک آزاد، غیر جانبدار اور حقیقت




پسندانہ طرز فکر سے آراستہ کرنے کو خانقاہی نظام کے اندازِ تعلیم کے مطابق ذہن سازی کا جو بیڑا اُٹھایا ہوا ہے۔ اُس میں کسی کو زاہد خشک بنانے کی بجائے ایک شگفتہ اور خوش گوار مزاج کا حامل بندہ بنانا۔۔۔روحانی علوم سکھانے سے کہیں زیادہ اور کٹھن کام ہے۔ اس کے لئے اس سے زیادہ دشوار طریقہ اور کیا ہوگا کہ آپ جو کہیں وہ خود کر کے دکھائیں اور مسلسل دکھاتے چلے جائیں کہ کوئی کب تک آپ کی مثال سے اجتناب کرے گا۔ کبھی نہ کبھی تو اُس کو یہ خیال آہی جائے گا کہ جو کام میرے مرشد نے کیا۔۔۔ کیا وہی مجھے بھی کرنا چاہئے اور جو کام انہوں نہیں کیا۔۔تو وہ کام میں کیوں کروں۔ 
 

 
 

 


Batein mere Murad ki

مقصود الحسن عظیمیؔ


سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔