Topics
مرید کراچی پہنچا۔ مراقبہ ہال میں اپنے مراد کو نہ پا کر وہ
ڈی۔۳۲ پہنچ گیا۔ آپ مریض دیکھ رہے تھے۔ مریضوں سے توجہ ہٹا کر ملے اور انہیں ڈرائنگ
روم میں بیٹھنے کا کہا۔ وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو بھائی جان وقار یوسف اور مسعود
طارق بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اُن دنوں مسعود طارق حکومت سندھ کے مشیر کے عہدے پر تھے۔
حیدرآباد میں روحانی کانفرنس کے انتظامات میں وہ بھائی جان کے ساتھ کوشاں تھے۔ اُس
وقت کارڈوں پہ مدعوین کے نام لکھے جا رہے تھے۔
جب حضور تشریف
فرما ہوئے تو ایک کارڈ لے کر دیکھا۔ پھر وہ کارڈ اُسے تھماتے ہوئے پوچھا۔ کیسا ہے؟
مرید نے گریس فل کہا تو بتایا کہ اس پہ تاریخ درج ہونے سے رہ گئی تھی پھر بعد میں پرنٹ
کروائی ہے۔۔۔ اس طرح یہ کارڈ پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو گیا ہے۔
شاہین نے حضور
سے ان کی علالت کی بابت دریافت کیا تو فرمایا۔ کبھی کسی کو اُس کی بیماری یاد نہ کروائیں۔
یہ بُری بات ہے۔ بلکہ اگر کوئی بیمار نظر بھی آئے تو اُسے کہیں۔ ماشاء اللہ اب تو آپ
پہلے سے بہتر ہیں۔
مرید نے پشاور
یونیورسٹی جانے اور وہاں پیش آمدہ صورتِ حال سے آگاہ کیا تو فرمایا یہ تو جہالت سے
بھی آگے کی کوئی چیز ہوئی۔ بھئی اگر آپ کو معلوم نہیں تو خاموش رہو۔ باہر سپریچول سائنسز
پہ کتنا کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے ان علوم کی الگ درسگا ہیں اور یونیورسٹیاں بنا لی
ہیں اور آپ ہیں کہ اپنی یونیورسٹیوں میں اس کا نام سُننا گوارا نہیں کر رہے۔
مرید نے عرض
کی کہ وہ چاہتا کہ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ پہ پی ایچ ڈی کے معیار کی ایک کتاب تیار
کرے۔۔۔ اُس پہ ڈگری ملے نہ ملے۔۔کم از کم کتاب تو تیار ہو جائے گی نا۔
بہت جوش سے
فرمایا۔ ملے گی۔ ملے گی کیوں نہیں۔۔۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔۔جب شاہ ولی اللہؒ
پہ پی ایچ ڈی ہو سکتی ہے تو حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ پہ کیوں نہیں ہو سکتی؟۔۔پھر
فرمایا۔۔یہ قوم ہے ہی نالائق۔۔اب اقبال پہ اتنا کام ہوا تو کیا ہوا؟
صبح سویرے۔۔وقت
سحر۔۔۔لطیف بھائی اپنی سوزوکی وین میں مرشد کریم کو مراقبہ لے جانے ڈیوٹی پہ حاضر ہوئے۔۔
وہ وین میں پیچھے بیٹھنے لگا تو مرشد کریم نے اُسے اپنے ہمراہ اگلی نشست پہ بیٹھنے
کو کہا۔ باہر کی سردی میں ٹھٹھرنے سے بچاؤ کا احساس اور مرید کا اپنے مراد سے چپک کر
بیٹھنے کی سعادت کا اعزاز اُس نے کچھ دیر تو اس احساس کا لطف لیا پھر میاں مشتاق احمد
صاحب کی بیگم کی خواہش کے حوالے سے اُن کی بیٹی کے رشتے کے لئے غلام عباس گل کی بات
کرنے کی اجازت طلب کی تو پہلے عباس گل کی بابت دریافت کیا کہ وہ کون ہیں کیا کرتے ہیں
اور پھر فرمایا۔ آپ عباس سے کہیں کہ وہ اپنے گھر والوں کو میاں صاحب کے یہاں بھیجے۔
جب میاں صاحب مجھ سے بات کریں گے تو پھر دیکھیں گے۔
فرمایا۔ لڑکیوں
کی شادی کا مسئلہ دن بدن سنگین ہو رہا ہے۔ اللہ رحم کرے۔لڑکیاں لکھ پڑھ کر لڑکوں سے
آگے نکل رہی ہیں اور اُن کے پائے کے لڑکے ملتے نہیں۔ روایات اور خاندانوں کا شیرازہ
بکھرنے سے یہ مسئلہ بہت ہی گھمبیر صورت حال
اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ بھئی اس میں خود عورتوں کا اپنا بھی قصور ہے۔ ایک پڑھا
لکھا ۔۔ایم اے۔۔بی اے لڑکا ان پڑھ۔۔مڈل یا میٹرک لڑکی سے نبھاہ کر لیتا ہے لیکن لڑکیاں
چاہتی ہیں کہ اُن کا شوہر اُن سے زیادہ قابل اور زیادہ پڑھا لکھا ہو۔
پھر ازراہ تبصرہ
ارشاد فرمایا۔ ساس عورت کا سب سے بُرا روپ ہے۔ ایک عورت آئی اور اپنی بہو کے بارے میں
کچھ کہنے لگی۔ میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں آپ کی بات نہیں مانتا۔ وہ کہنے لگی۔۔آپ
میری بات تو سنیں۔ میں نے اُسے کہا کہ میں نے جو نظریہ قائم کیا ہے وہ میں نے اپنی
دادی، اپنی والدہ اور اپنی بیوی کو دیکھ کر قائم کیا ہے۔ میں اُس نظریئے کو محض آپ
کی بات سُن کر کیسے بدل ڈالوں۔
کانفرنس کے
حوالے سے فرمایا۔ ہم ایک دن کے لئے کتنے روز ہلکان ہو رہے ہیں۔ اللہ نے بھی کائنات
بنانے سے پہلے کروڑوں سال سوچا ہوگا۔ کتنی ہی بے شمار ڈائیاں بنانا پڑی ہیں۔ دل کی
ایک ڈائی، جگر کی دوسری ڈائی، آنکھ کی تیسری ڈائی۔۔۔مرید نے دریافت کیا۔ کیا یہ کہنا
درست نہ ہوگا کہ ہر قسم کے سیل کے لئے الگ ڈائی ہے۔۔۔ فرمایا۔ جی ہاں کچھ ایسا ہی ہے۔
بتایا کہ اقبال
کو بٹوارے سے بہت فائدہ ہوا۔ وہ کیسے؟ جب ہندوستان نے غالب کو اپنا قومی شاعر بنایا
تو پاکستان کو اقبال کو اپنانا پڑا۔ اقبال اس طرح غالب کی وجہ سے بڑے بن گئے ورنہ اقبال
کو کوئی جانتا بھی نہ۔۔ اب بھی کتنے لوگ ہیں جو اقبال کو پڑھتے ہیں حالانکہ اقبالیات
کے نام سے الگ شعبے تک بنائے گئے ہیں یونیورسٹیوں میں۔
مراقبہ کے بعد
سیر کے دوران مرید سے گورنر سندھ کے دفتر سے موصول ہونے والے پیغام کی بابت پوچھا کہ
اُس نے سلسلے کے حوالے سے کچھ کہا کہ نہیں۔ مرید نے عرض کی۔ اُس نے سلسلے کے حوالے
سے تو خیر کچھ نہیں کہا البتہ خواجہ شمسالدین عظیمی کی بابت بہت سی اچھی باتیں کی ہیں۔
پھر لوگوں کی
اپنے لئے محبت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس کانفرنس کے اخراجات کے لئے لاکھ ڈیڑھ لاکھ
خرچ فاروق صاحب نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ میں نے اُن سے کہا بھی کہ ابھی آپ کا کاروبار
نیا نیا ہے مگر وہ مانے نہیں۔ فرمایا کہ لوگوں کی محبت کو دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے
کہ مرنا تو ہے۔ اس کے بغیر چارہ بھی نہیں۔ لیکن لوگوں کا کیا ہوگا؟ لگتا ہے لوگوں کو
تیار کر کے تصرف کر کے جانا ہو گا۔
پھر مرید کو
ڈھارس دیتے ہوئے فرمایا۔ بھئی تیار رہنے سے بھلا میں کونسا مر ہی جاؤں گا۔ مگر تیار
تو رہنا ہی چاہئے۔
پھر فرمایا
کہ مرشد کے وصال کے بعد کوئی بھی فیصلہ جلدی نہیں کرنا چاہئے۔ پھر حضور قلندر بابا
اولیا ء ؒ کے وصال کے بعد کے واقعات سُناتے ہوئے فرمایا۔ بدر صاحب ہیں تو بیورو کریٹ۔۔۔
انہوں نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے لے کر محسن صاحب کو بٹھا دیا۔۔۔ حالانکہ لوگوں
نے مجھے کہا بھی کہ یہ تو طے کرو کہ کجاور ہیں یا سجادہ نشین۔۔۔ لیکن ہم اپنے غم میں
تھے۔۔ میں اپنے حواسوں میں تھا ہی کب۔۔۔۔ وہ اپنی کر گزرے۔۔۔ اُس کا نتیجہ اچھا نہیں
ہوا۔
فرمایا۔ پیر
و مرشد کے پردہ فرمانے کے بعد کوئی بھی فیصلہ جلدی نہیں کرنا چاہئے۔ دو تین ماہ لگتے
ہیں آدمی کو اپنی جگہ پر آنے میں۔ بہت ضروری فیصلے بھی چہلم کے بعد کرنے چاہیئں۔ اُس
وقت جذباتی حالت ہوتی ہے۔ ہوشیار لوگ اُس وقت فیصلہ کروالیتے ہیں۔ مجھ سے بھی یہی غلطی
ہوئی تھی۔ محسن صاحب کو خانقاہ بٹھانے کے فیصلے پہ میں نے ہاتھ نہ اُٹھایا تو بعد میں
یہ تو کہہ ہی سکتا تھا کہ آپ کے انتخاب میں میری کوئی رائے شامل نہ تھی۔
حضور قلندر
بابا اولیا ء ؒ نے کل ۲۹ مرید بنائے اُن میں بھی پڑھے لکھے لوگ نہ ہونے ہی کے برابر
تھے۔ کوئی ترکھان تو کوئی لوہار۔
پھر بدر صاحب
کا واقعہ سُنایا کہ میں اُن سے ملنے چلا گیا۔ تو انہوں نے گھنٹہ بھر انتظار کروایا۔
میں نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ بھئی میں تو اپنے پیر بھائی سے ملنے آیا تھا۔ ڈپٹی
سیکریٹری سے نہیں۔ مجھے آپ سے نہ کوئی کام تھا اور نہ کوئی غرض یا لالچ۔ اس پر انہوں
نے معذرت کی۔ مجھے جانے کیا سوجھی میں اُن سے تذکرہ قلندر بابا اولیاؒ کی اشاعت کے
بارے میں مشورہ مانگ بیٹھا۔ انہوں نے اگلے دن جواب دینے کا کہا۔ میں گھر آ کر انتہائی
پریشان اور بے چین کہ میں نے مشورہ مانگا ہی کیوں۔ پھر رات کے تین بجے کے قریب ایک
روشنی سی چمکی۔ ذہن میں خیال آیا کہ تمہیں حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے یہ کب کہا
تھا کہ تم اُن سے مشورہ کر لیا کرو۔
ایک بار بدر
صاحب نے بُلایا۔ میں چلا گیا۔ کہنے لگے میں نے آپ کو حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا
ایک پیغام دینا ہے۔ میں نے کہا۔ مجھ میں اتنی سکت نہیں کہ میں حضور ؒ سے رابطہ کر سکوں
تو اُن میں تو اتنی طاقت ہے کہ وہ مجھے براہ راست اپنا پیغام دے سکیں۔میں آپ سے نہیں
سنوں گا۔ اس لئے آپ کسی اور موضوع پر بات کریں۔ انہوں نے بہت کہا مگر میں نے نہیں سنا۔
شاید وہ کہنا چاہتے تھے کہ میں مزار پہ نہ آیا کروں۔
بدر صاحب نے
ایک بار مجھے ایک رقعہ دیا کہ ٹی وی کے پروگرام کے لئے اسلم اظہر سے مل لوں۔ میں رقعہ
لے کر چلا گیا۔ پہلے تو انہوں نے کہا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے۔ میں نے کہا۔ آپ کے پاس
میں نہیں آیا ۔۔ یہ رقعہ آیا ہے اور اسی لئے آپ نے مجھے اندر بلایا ہے۔ آپ نے مجھے
نہیں اس رقعے کو بلایا ہے۔ میں نے نہ تو آپ سے ملنے کی درخواست کی ہے اور نہ ہی آپ
نے مجھے اندر بلایا ہے۔ بہرحال کہنے لگے میں آپ کو پانچ منٹ دیتا ہوں۔ روحانیت پہ پروگرام
کے حوالے سے بات شروع ہوئی تو میری تعلیمی قابلیت پوچھی اور کہا آپ کے پاس کوئی ڈگری
نہیں ہم آپ کو وقت کیسے دیں؟ میں نے کہا۔ آپ مجھے بتائیں فیثا غورث، تھربل، میکس پلانک،
ایڈیسن اور آئن سٹائن وغیرہ کس یونی ورسٹی کے پڑھے ہوئے تھے؟ اور یہ کہ کچھ لوگ ایسے
ہوتے ہیں جو کسی یونی ورسٹی سے نہیں پڑھتے لیکن یونیورسٹیاں اُن کے بارے میں لوگوں
کو پڑھاتی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ میں اُن میں سے ایک ہوں جن کے بارے میں یونیورسٹیاں
پڑھایا کریں گی۔ آپ فی الحال ماہرین کا ایک بورڈ بٹھا لیں اگر میں اُن کو مطمئن کر
دوں تو آپ میرا پروگرام چلا دیں ورنہ نہیں۔انہوں نے اگلے روز بلایا۔ مجھے بخار تھا
مگر میں جا پہنچا۔ انہوں نے کہا آپ ہمارے لئے ڈرامے لکھیں۔ میں نے کہا یہ میری لائن
ہی نہیں اور آگیا۔
پھر جمیل الدین
عالی سے ملاقات کی بات سُنائی کہ ایک بار جب میں بی بی سی ٹی وی کے ایک پروگرام کی
ریکارڈنگ کروانے گیا تو وہاں عالی صاحب بھی آگئے۔ پروڈیوسر نے مجھ سے کہا۔۔۔ آپ انہیں
پہلے موقع دے دیں۔ میں نے کہہ دیا ٹھیک ہے۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔آپ پہلے انہیں فارغ کر
دیں۔۔عالی صاحب اڑ گئے۔ میں کیمرے کے سامنے بغیر میک اپ نہیں جاؤں گا۔ اس وقت وہاں
میک اپ والا بھی نہیں تھا۔ چناچہ کسی خاتون کے پرس سے میک اپ کا کچھ سامان برآمد کیا
گیا اور انہوں نے اپنا میک اپ خود ہی کیا۔
بعد میں ملاقات
ہوئی تو اُن کے شعر۔۔۔
سات سُر سات
رنگ ہیں آٹھویں کی تلاش ہے
کے بارے میں
میں نے اُن سے کہا۔۔ واہ۔۔ کیا عارفانہ کلام ہے۔۔۔ کہنے لگے کیا واقعی؟
میں نے کہا
جی ہاں۔۔۔ یہ سات سر سات آسمانوں کی طرف اشارہ ہے اور آٹھویں کی تلاش کا مطلب اس کے
سوا کیا ہے کہ مجھے اللہ کی تلاش ہے۔ بہت خوش ہوئے اور کہا۔۔ کبھی ملنے ضرور آئیں۔
سیر کے بعد
ناشتہ پہ انگلینڈ سے آئے ہوئے نعیم قادری صاحب ، سعیدہ خاتون ، حفیظ بٹ صاحب اور نثار
صاحب سے ملاقات ہوئی۔ نعیم بھائی اپنے زور دار قہقوں کو اپنے مرشد کے سامنے بھی اچھالنے
سے نہیں رُکتے۔ انہیں شوق ہے کہ وہ اپنے مرشد کو کوئی اچھا سا لطیفہ سُنا کر اُن سے
داد لیں۔ لیکن لطیفہ مکمل کرنے سے پیشتر وہ پہلے خود ہنسنا شروع کر دیتے اور لطیفہ
سننے والا اُن کو ہنستے دیکھ کر اُن کا ساتھ دینے کو لطیفہ سُنے بغیر ہی ہنسنے لگتا۔
ناشتے کے بعد
بسوں اور کوچز میں بیٹھ کر حیدرآباد روانگی ہوئی۔ مرشد کریم فاروق صاحب اور مسعود طارق
کے ہمراہ گاڑی میں روانہ ہوگئے۔ راستے میں بحرین مراقبہ ہال کے نگران عماد ملک سے بات
لطیفوں اور چٹکلوں سے شروع ہو کر جملے بازی پہ منتج ہوئی۔ وہ اس سے پیشتر بھی ایک بار
اپنے مراد کے ہمراہ حیدرآباد مراقبہ ہال جا چکا تھا۔ وہاں کے انچارج ممتاز علی صاحب
سے اُس کی اچھی خاصی بے تکلفی ہو گئی تھی۔ انہوں نے وہاں مراقبہ ہال میں مہمانوں سے
ایک ایک پودا بھی لگوایا تھا۔
جب وہ سب کے
ہمراہ بس سے اترا تو ممتاز علی نے کہا دیکھیں آپ کے لگائے ہوئے پودے آپ کا انتظار کر
رہے ہیں۔ اُس نے پودوں کو دیکھا اور اُس سے پہلے وہاں ہونے والی تعمیر کو سراہا۔ کانفرنس
کے لئے شامیانوں قناتوں سے وسیع و عریض آڈیٹوریم بنایا گیا تھا۔ دوپہر کھانے کا وقفہ
ہونے تک کے پہلے سیشن میں مقررین کے مقالات پیش ہو رہے تھے۔ اردو سندھی اور انگریزی
میں مقالات پیش کرنے والوں نے روحانی علوم اور حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کے حوالے
سے کافی معلومات بہم پہنچائیں۔ انگلینڈ سے آنے والے ایک مقرر نے کہا اگر آج ہم نے یہ
علوم یہاں نہ سیکھے تو کل انہی علوم کو سیکھنے ہمیں یورپ اور امریکہ جانا پڑے گا۔
اُس سیشن میں
نہ تو مرشدِ کریم سٹیج پر تشریف فرما تھے اور نہہی مہمانِ خصوصی وزیر اعلیٰ سندھ عبد
اللہ شاہ۔ کانفرنس کی کاروائی بھائی جان حکیم وقار یوسف چلا رہے تھے۔ احتشام الحق نظامت
کےجوہر دکھانے میں مصروف تھے۔ جب اُس کا نام پکارا گیا تو اُس نے سوچا کتنا اچھا ہوتا
کہ مرشدِ کریم بھی اُس کا مقالہ سنتے۔ وہ اپنا مقالہ پڑھ کر سٹیج سے نیچے اتر کر آڈیٹوریم
میں بیٹھنے کی بجائے باہر لگے مختلف شہروں میں قائم مراقبہ ہالوں کے سٹالز دیکھنے چلا
گیا۔ دوسرے سے تیسرے سٹال کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ مسعود بھائی اپنی بھاری بھر کم
وجود سمیت آ کر اُس سے لپٹ گئے اور کہا مرشد کریم نے آپ کا مقالہ بہت پسند فرمایا۔
اُس نے بے یقنی سے انہیں دیکھتے ہوئے کچھ کہنے کو منہ کھولا ہی تھا کہ انہوں نے بتایا
کہ مرشد کریم اپنے کمرے میں اجلاس کی کاروائی کلوز سرکٹ پر دیکھ بھی رہے تھے اور سُن
بھی۔ جب آپ مقالہ پڑھ رہے تھے تو بہت پسندگی سے فرمایا۔ انگریز بھی ایسی انگریزی کہاں
بولتے ہوں گے جیسی میرے عظیمی بچے بول رہے ہیں۔
تعریف کس کو
اچھی نہیں لگتی اور پھر یہ تو اُس کے مراد کی طرف سے اُس کی توصیف تھی۔جن کی خوشنودی
کے لئے لوگ کیاکیا اور کیا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔۔۔ اُس نے انگریزی میں سوچا۔ اگر میں
مغرور ہو جاؤں تو یہ کچھ اتنا غلط نہ ہوگا۔ مسعود بھائی کو شکریہ کہتے ہوئے وہ اُن
سے لپٹ گیا۔ اتنے میں شہزاد صاحب مائک پکڑے اُس کے تاثرات ریکارڈ کرنے آگئے۔ انہوں
نے چند ایک باتوں کے بعد جب یہ کہا کہ آپ روحانی کانفرنس کے موقع پر کوئی پیغام کی
قدر نہ کی اس کو مجھ جیسا بندہ بے نوا کیا پیغام دے ۔ میرا پیغام یہی ہے کہ پہلے اُس
پیغام کو سمجھو پھر کوئی دوسرا پیغام لینا۔
کھانے اور نماز
کے بعد جب مہمان خصوصی تشریف لے آئے تو کانفرنس کے دوسرے حصے کی کاروائی کا آغاز ہوا۔
اب حضور مرشدِ کریم بھی اسٹیج پر متمکن تھے۔ لگ بھگ بارہ سو افراد مرشدِ کریم جناب
خواجہ شمس الدین عظیمی خانوادہ سلسلہ عظیمیہ کو سننے تیار و منتظر تھے۔ وقار یوسف نے
مرشد کریم کو دعوتِ خطاب و اظہار خیال دی تو آپ نے بات کا آغاز کرنے سے پہلے نہایت
شگفتہ پیرائے میں فرمایا۔ بھائی جان نے سب سے فرمائش کی کہ بات مختصر اً کہی جائے۔
اب پتہ نہیں وہ بھول گئے یا انہوں نے جان کر مجھے کھلی چھٹی دے دی ہے ۔ وہاں موجود
سبھی حاضرین قہقہ لگا کر اس لطیف پکڑ کی داد دی۔
آپ نے وزیر اعلیٰ سندھ کا خیر مقدم کیا اور کہا۔ میں اولیا
کرام کی سر زمین پہ منعقد ہونے والی اس روحانی کانفرنس میں ان کی حکومت اور دور اقتدار
میں امن و سکون کی دُعا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک خاص صلاحیت عطا کی ہے اس
لئے اس بات کا اظہار کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ ہمیں اولیا اللہ کی ارواح کی سر پرستی
حاصل ہے بلکہ میں اولیا اللہ کی ارواح کو دیکھ سکتا ہوں جو یہاں تشریف لائی ہیں۔
ہم دُعا کرتے
ہیں کہ عبداللہ شاہ صاحب کا دور طویل ہو۔ آج یہاں ہر زبان بولنے والے مختلف ملکوں کے
رہنے والے بیٹھے ہوئے ہیں۔ہمیں یہاں سے اُٹھنے سے پہلے یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم سب اس
صوبے میں آپس میں بھائی بہنوں کی طرح رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ ساری
دنیا کے لوگ آپس میں بھائی بہنوں کی طرح اتحاد ، اتفاق اور پیار محبت سے رہیں۔ ہم کوئی
نئی بات نہیں کہہ رہے۔ یہ حضور ﷺ کا مشن ہے۔
آپ دیکھیں جب
حضور ﷺ مکہ میں بطور فاتح داخل ہوئے تو انہوں نے معافی کے دروازے کھول دیئے۔لاکھوں
کروڑوں سال کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کوئی آدمی کسی ملک میں فاتح کی
حیثیت سے داخل ہوا ہو اور وہاں پر خونریزی نہ ہوئی ہو۔ ہم تو حضورﷺ کی امت ہیں۔۔۔ ہمیں
حضور ﷺ کی طرزِ فکر اختیار کرتے ہوئے، معاف کرنا، خوش اخلاق ہونا اور دوسری برائیوں
سے اجتناب کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔۔۔اور یہ سب ہم اسی وقت کر سکتے ہیں جب ہم مادیت
کو اپنی زندگی کا مقصد نہ بنائیں۔ مادیت ہمارے استعمال کی چیز ہے۔ یہ دنیا آپ کے لئے
بنائی گئی ہے نہ کہ آپ کو اس دنیا کے لئے بنایا گیا ہے۔
پوری کائنات
ہی گروہی اوراور طبقاتی تقسیم ہے۔ ہر آدمی کسی نہ کسی گروہ سے وابستہ ہے۔ اچھے لوگوں
کے اپنے گروہ ہوتے ہیں۔ اگر بندہ اپنی صلاحیتوں پہ قائم ہو جائے تو وہ گروہ کو نہ بھی
ڈھونڈے تو گروہ اُسے ڈھونڈ لیتا ہے۔
اُس کے بعد
آپ نے اپنے موضوع پہ بات کا آغاز فرماتے ہوئے کہا۔ روحانیت کا اصل منشا یہ ہے کہ انسان
خدا کے قریب ہوجائے۔ خدا کی موجودگی کے احساس سے سرشار رہے۔ پھر آپ نے بتایا کہ انبیا
علیہ السلام کے درجات اُن کے اللہ سے قرب کی علامت ہیں۔ جیسے آدم علیہ السلام کا مقام
پہلا آسمان، موسیٰ علیہ السلام کا چوتھا اور ابراہیم علیہ السلام کا چھٹا یعنی وہ عرش
سے کچھ ہی نیچے ہیں۔
فرمایا کہ انسان
چاہے اللہ کی کسی ایک ہی صفت کا عرفان حاصل کر لے ہم اُس کو عارف کے علاوہ کچھ نہیں
کہہ سکتے۔ اللہ کی کسی ایک صفت کا عارف بھی عارف ہوتا ہے اور گیارہ لاکھ صفات کا عارف
بھی عارف ہی کہلائے گا۔
روحانیت اس
کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ مادیت کو استعمال کرو مگر اُس کو اپنی زندگی کا مقصد نہ بناؤ۔
اگر ہم روحانی اقدار کو اپنا لیں۔۔۔ اپنی روح کو تلاش کر لیں تو ہم شاندار گھروں میں
رہتے ہوئے۔۔قیمتی گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے۔۔۔یہ بات یاد رکھیں کہ یہ سب ہمیں اللہ نے
عطا کی ہیں تو ہم روحانی اقدار کو تلاش کر لیں گے اور ہمیں دنیا کی ہر نعمت حاصل ہو
جائے گی۔
عبد اللہ شاہ
صاحب نے پہلے تو لکھی ہوئی تقریر پڑھی پھر کہا کہ میں نے یہاں آنے سے پیشتر اپنے سیکریٹری
سے بھی پوچھا اور اپنے مشیر جناب مسعود طارق سے بھی دریافت کیا کہ رسم دنیا ہے کہ جب
کسی محفل، کانفرنس یا سیمینار میں جاتے ہیں تو لوگ کچھ
نہ کچھ توقع بھی کرتے ہیں کہ ہم اُن کے لئےکچھ کر سکتے ہوں تو
بتائیں۔ لیکن مجھے دونوں حضرات نے یہی کہا کہجناب خواجہ صاحب آپ سے کچھ نہیں لیں گے
اور نہ ہی وہ کبھی کسی سے کچھ مانگتے ہیں۔ اُن کی اس بات سے میں بہت متاثر ہوا ہوں
اور اب میں اُن سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اپنی دعاؤں سے نوازیں۔
اُس کے بعد
انہوں نے مرشدِ کریم سے دست بستہ دُعا کی درخواست کی۔ آپ نے دُعا کی بھی اور کروائی
بھی۔
رات چنا صاحب
کے یہاں دعوت تھی۔ کھانے کے بعد چہل قدمی کے لئے باہر نکلے تو فرمایا۔ جب اللہ نے آپ
کو کسی کام کا اہل بنایا ہوا اور آپ یہ کہیں کہ بھئی ہم بھلا کس قابل ہیں۔۔۔ تو کیا
خدا نخواستہ اللہ غلط کہتا ہے۔ جب آپ کسی کام کرنے کے قابل بنادیئے جاتے ہیں تبھی تو
وہ کام آپ کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اب اگر ہم کسی کام کو کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں
اور پھر بھی اُسے نہ کریں تو اسے سوائے کفران کے کیا کہا جائے گا۔ یہی تو ظلم ہے۔
فرمایا ۔ بعض
لوگوں میں ضد ہوتی ہے اور وہ ڈٹ جاتے ہیں کہ یہ کام ہے۔۔۔ یہ ہوگا کیوں نہیں۔۔۔ پھر
یہ بھی ہے اور وہ کہ جب آپ کوئی کام اللہ کے لئے کر رہے ہوں تو یہ ضد اور بھی بڑھ جاتی
ہے کہ میں کوئی اپنے لئے تھوڑے ہی کر رہا ہوں۔ یہ سب تو اللہ کا کام ہے۔۔۔یہ ہوگا کیوں
نہیں۔۔۔ نتیجہ یہ کہ کام ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اُس وقت نیاز صاحب فاروق صاحب اور دو
اصحاب اور بھی ساتھ تھے مرید نے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ اس وقت روئے سخن کس کی
طرف ہے۔۔۔لیکن کچھ طے نہ کر سکا۔
پھر آپ نے اولاد
کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بات کی اور ان کی تعلیم و تربیت پہ خرچ کرنے پہ بہت زور
دے کر فرمایا۔ اولاد کی تربیت پہ خرچ کرنے سے کبھی نہیں گھبرانا چاہئے۔ پیسے بنک میں
جمع رکھنے کے طرز عمل پہ کڑی تنقید کی اور کہا بھلا اس کا کیا فائدہ کہ پیسے بنک میں
رکھے ہیں۔ نہ جانے لوگ پیسے جمع کرتے ہی کیوں ہیں۔ پھر دھمیے سے لہجے میں تبصرہ کرتے
ہوئے کہا کہ انسان کا شعور ان سہاروں کے بغیر چلتا بھی تو نہیں۔
پھر قلندر بابا
اولیاؒ کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ انہوں نے بتایا تھا کہ جو پیسہ خود کھا لیا ، جو
اولاد پہ صرف کر لیا، دوستوں کو کھلا دیا اور اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا وہ استعمال
ہو گیا باقی سب ضائع گیا۔
فرمایا ۔ پیسہ
کمانے کے لئے دماغ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دماغ استعمال نہ کیا جائے تو پیسہ نہیں
کمایا جا سکتا۔۔پھر کئی مثالیں دیں کہ کس طرح لوگوں نے ایک جگہ سے مال خرید کر دوسرے
کے حواے کر کے پیسہ کمایا اور بنکوں سے سرمایا لے کر پیسہ بنایا۔
عرس کی صبح
مراقبہ کے بعد تمہید کے طور پر ارشاد فرمایا۔
میں تیس سال
سے روحانیت کے موضوع پہ لکھ اور بول رہا ہوں۔ میری پوری زندگی روحانیت کے گرد گھوم
رہی ہے۔ تقریباً ہر موضوع پہ اتنا کچھ لکھا ہے اور کہا ہے کہ اب کوئی بات کرتا ہوں
تو سوچتا ہوں کہ یہ تو میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ۔ لیکن پھر یہ سوچ کے کہ لوگوں کو
کون سا یاد رہا ہوگا ایک بار پھر بتانے بیٹھ جاتا ہوں۔
پھر اصل موضوع
کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا۔ دیکھا جائے تو زندگی کا ہر رُخ دو رخوں سے مل کر بنتا
ہے۔ جہاں خوشی ہوگی وہاں ناخوشی بھی ہوگی۔ اس لئے ضروری ہے کہ خوشی کا وہ مفہوم سمجھیں
جس کے ساتھ ناخوشی کا پہلو نہیں ہے۔ ایسی خوشی جس کے ساتھ ناخوشی نہ ہو وہ سر ور کی
کیفیت ہے۔ انسان میں کام کرنے والی مقداروں میں توازن ہو تو جو کیفیت بنتی ہے وہ سرور
کے علاوہ کچھ نہیں۔ سرور کی کیفیت کے لئے ضروری ہے کہ انسان کسی سے توقعات نہ رکھے۔۔۔توقعات
کو توڑ ڈالیں۔
ہر ذی روح مقداروں
پہ قائم ہے۔ ان مقداروں میں کمی بیشی سے خوشی اور غم کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ مقداروں
کے حوالے سے دیکھیں تو مرد میں ایک طرح کی مقداریں کام کرتی ہیں اور عورت میں دوسری
طرح کی۔ اب وہ دور آنے ہی والا ہے جب عورتوں کی حکومت قائم ہو جائے گی کیونکہ مردوں
میں حکومت کرنے اور اقتدار میں رہنے والی مقداریں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ عورتوں کو یہ
اقتدار اس لئے مل رہا ہے کہ مردوں نے اُس پہ بہت زیادتیاں کی ہیں۔ اُن کی منڈیاں لگایا
کرتے تھے۔ اُن منڈیوں میں عورتوں کی خرید و فروخت کے معیار اُن کی رنگت، جسمانی خدوخال
، صحت اور نوجوانی ہوا کرتے تھے۔ آج بھی فینائل کے ڈبے پر عورت کی تصویر لگا کر اُسے
باتھ روم میں رکھا جا رہا ہے۔ ہر دس ہزار سال بعد کایا کلپ ہوتی ہے۔ پہلے اقتدار عورتوں
کے پاس تھا۔ جب انہوں نے مردوں پہ زیادتیاں کیں تو مردوں کے پاس اور اب پھر عورتوں
کے پاس ہوگا۔ اگر عورتوں نے زیادتیاں نہ کیں اور عدل سے کام لیا تو یہ اقتدار اُن کے
پاس رہے گا ورنہ نہیں۔
ہمیں چاہئے
کہ ہم آنے والے دور کی تیاری کر یں۔ اپنی بیٹیوں کو تیار کریں۔ اگر ہم اس میں ناکام
رہے تو آنے والے دور میں۔۔۔۔عورتوں کے اقتدار میں۔۔۔۔ہمارا کوئی حصہ نہ ہوگا۔ بیٹیوں
کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ آنے والی ذمہ داریوں سے بخوبی عہدہ بر آ ہو سکیں۔ اُن کو
ہر کام کرنے کا حوصلہ دیں۔ انہیں بتایا جائے کہ بدتمیزی کا جواب کیسے دیا جاتا ہے۔
ضرورت پڑنے پہ انہیں چانٹا مارنا آنا چاہئے۔
درس کے بعد
خواتین کے چہرے جوش سے تمتمائے ہوئے تھے۔ اُس نے ایک خاتون کو دوسری کو کہتے سُنا۔۔۔
اب ان مردوں کو پتہ چلے گا۔۔۔جب عورتیں ان کی منڈیاں لگائیں گی۔ دوسری نے بجائے اُس
کی تشنہ خواہش کی تائید کرنے کے بجائے اُسے ٹوکا اور کہا اگر ہم نے بھی وہی کچھ کیا
جو مردوں نے کیا تو پھر ہم میں اور اُن میں کیا فرق رہ جائے گا۔ اُس نے چاہا کہ وہ
اُس بہن کو سلام کرے جس نے مرشد کے پیغام کو اتنے احسن انداز میں سمجھا تھا۔ لیکن وہ
ہجوم کے سبب دیکھ نہ پایا کہ وہ کون تھیں۔
عرس کا دن حضور
قلندر بابا اولیا ء ؒ کے مزار پہ حاضری دینے ، پھول اور چادریں چڑھانے میں گزار کر
زائرین نماز مغرب تک مراقبہ ہال واپس آ چکے تھے۔ عرس کے موقع پہ لنگر میں حلیم پیش
کی جاتی ہے۔ کوئی بتا رہا تھا کہ اگر تین بار لنگر کا کھانا کھا کر دُعا کی جائے تو
وہ قبول ہو جاتی ہے۔ اُس نے اس بات کو سُن کر اسے خوش عقیدتی کا شاخسانہ قرار دیا لیکن
بعد میں ایک دفعہ مرشد کریم نے اس بات کی تصدیق فرمائی کہ لنگر کھانے سے فقیر کے اندر
کام کرنے والی روشنیاں یقین کو تقویت دیتی ہے۔ ۔۔۔اور تو اور بے روز گاروں کو روز گار
مل جاتا ہے۔ بیماریوں سے نجات اور صحت ملتی ہے۔ پریشانیوں سے چھٹکارا اور وسائل میں
اضافہ ہوتا ہے۔
لنگر کے بعد
آپ نے اپنے روحانی بچوں ، مریدوں ، زائرین اور عقیدت مندوں سے خطاب فرمایا۔ اپنے خطاب
میں طرز فکر میں تبدیلی پیدا کرنے اور لوگوں کو وہ زاویہ نظر حاصل کرنے پہ ابھارا جس
سے بندہ اللہ کے قریب ہو سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا۔
روشن نظروگداز
دل دوستوں ، میرے روحانی سفر میں شریک قافلے کے لوگو، سلسلہ کی ترقی اور ترویج کے لئے
اللہ نے ہمیں ایک سال مزید عطا کیا۔ ہم نے جس راستے پر بھی قدم بڑھایا۔۔ اُس میں ہر
قدم پہ ہمیں حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا تعاون رہا۔ ہم سب شاہد ہیں کہ جب بھی کسی
نے سلسلہ کی ترویج کے لئے کوئی قدم اُٹھایا اُسے وسائل کی کمی نہیں رہی۔۔۔سلسلے کے
افراد پورے یقین سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ہم وسائل کے محتاج نہیں۔۔۔۔بلکہ وسائل ہمارے
محتاج ہیں۔۔۔ اگر ہم نے اپنے ظرف کے مطابق چھوٹا کام پسند کیا تو ہمیں چھوٹے کام کے
لئے وسائل فراہم ہو جاتے ہیں۔۔۔اور اگر ہم نے حوصلہ کر کے بڑے کام میں ڈالا تو ہمیں
اُس کے لئے وسائل فراہم ہو جاتے ہیں۔ جن لوگوں ابھی ارادہ نہیں کیا جب وہ ارادہ کریں
گے تو اللہ اُن کے لئے بھئ وسائل فراہم کر دے گا۔
زمین و آسمان
کے اندر جو کچھ بھی ہے۔۔۔ وہ سب اللہ کے فرمان کے مطابق۔۔۔ انسان کے لئے مسخر کر دیا
گیا ہے۔ وسائل بھی اسی ضمن میں آتے ہیں ۔ سلسلہ کے افراد تو خصوصاً اس سعادت سے نوازے
گئے ہیں۔۔۔کیونکہ وہ ایسے باپ کی اولاد ہیں جس کے اشارے پر کائنات چلتی ہے۔۔۔جس کے
اشارے پر اللہ بھی نظریں جمائے ہوتا ہے۔۔۔کہ میرا بندہ کہتا کیا ہے؟
لوگ وسائل کی
کمی کا شکار ہوتے ہیں مگر سلسلہ کے افراد اپنے باپ کی وجہ سے کبھی کوئی کمی محسوس نہیں
کرتے۔ وسائل میں سب کچھ شامل ہے۔ ملائکہ عنصری ہوں، ملائکہ سماوی ہوں، حاملانِ عرش
یا ملائے اعلیٰ ۔۔۔ جب کوئی بندہ اللہ کے لئے قدم اُٹھاتا ہے تو ان سب کی دیوٹی ہے
کہ وہ اُس کے لئے کام کریں۔
سوال یہ ہے
کہ ایک بندہ گھر نہیں بنا سکتا۔۔۔وہ مسجد بنا لیتا ہے۔۔۔مراقبہ ہال تعمیر کرتا ہے۔
جو کتاب نہیں لکھ سکتا ۔۔۔وہ کتابیں لکھ ڈالتا ہے۔ ہمارے ہاں وسائل زیرِ بحث آتے ہی
نہیں۔ نہیں بھئی۔۔۔اللہ کے لئے کام بھی کریں اور وسائل کے محتاج بھی رہیں۔ اللہ کی
اس بے پایاں رحمت کی وجہ کیا ہے؟ وسائل عام آدمی کو بھی دستیاب ہیں۔۔۔ ہوا کی مثال
لیں۔۔۔ یہ ایک خود کار نظام ہے۔ سب کو میسر ہے۔ انسان کو چلانے کے لئے آکسیجن درکار
ہے۔۔۔۔وہ اُسے ملتی رہتی ہے۔۔غذائی ضروریات کےلئے زمین موجود ہے۔ اگر زمین سخت ہو جائے
تو ایک دانہ بھی دستیاب نہ ہو۔ آپ کو نظر آ ئے گا کہ یہ سب وسائل انسان کے تابع ہیں
اور سب کو بلا امتیاز فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
بنیادی ضرورتیں
ہیں مثلاً چھت، کھانا ، کپڑا۔۔۔اللہ ان کے لئے ایسے وسائل پوری طرح فراہم کرتا ہے جن
سے یہ ضرورتیں پوری ہوتی رہتی ہیں۔۔۔ پھر بھی کچھ لوگ وسائل کی کمی کا شکوہ کرتے ہیں۔
ایک گروہ وہ ہے جو وسائل استعمال کرتا ہے مگر غور نہیں کرتا۔ دوسرے گروہ کے لوگ ان
پر غور کرتے ہیں۔
اللہ نے انسان
کو اپنی مرضی سے پیدا کیا۔ اپنی مرضی سے زندہ رکھتا ہے اور جب تک چاہتا ہے زندہ رکھتا
ہے۔۔۔تو اس کا مطلب ہوا کہ انسان کو زندہ رکھنا قدرت کی مجبوری ہے۔ استغنا کا مطلب
ہے کہ وسائل کی محتاجی کا تصور ختم ہو جائے۔ انسان جب تک وسائل کے گورکھ دھندے میں
پھنسا رہتا ہے ۔ وہ اللہ کے قریب نہیں ہو سکتا ہے۔ روحانیت میں اس بات کی پریکٹس کرائی
جاتی ہے کہ یہاں سب کچھ۔۔۔درو بست۔۔۔اللہ ہی اللہ ہے۔
سلسلہ میں وسائل
کی محتاجی نہ ہونا، پابندی نہ ہونا ، اللہ کے کرنے میں وسائل کی کمی نہ ہونا۔۔۔یہ سب
مسلسل تجربہ ہے تاکہ کارکنوں میں یقین کا پیٹرن بن جائے۔
پھر کراچی،
لاہور، اٹک، حیدرآباد اور چنیوٹ کے مراقبہ ہالوں کے بننے کی مثالیں دے کر فرمایا۔ اگر
کہیں کامیابی نہیں ہوئی تو وہاں کے کارکنوں کے یقین کا پیٹرن درست نہیں۔ ۔۔اُن کی کاوشوں
میں نقص ہے۔ سونے اور مٹی میں کیا فرق ہے؟ دونوں مٹی
ہیں۔ سونے کو اہمیت اللہ نے نہیں انسانوں نے دی ہے۔ سلسلے کے
ہر بندے کو یہ تجربہ کروا دیا جاتا ہے کہ وہ وسائل کا نہیں اللہ کا محتاج ہے۔ جب وہ
وسائل کا محتاج نہیں رہے گا تو وہ اللہ کے قریب ہو جائے گا۔
پھر سورہ اخلاص
کی شرح فرما کر کہا۔ اللہ کے برعکس مخلوق احتیاج رکھتی ہے۔ مخلوق محتاج ہوتی ہے ۔ کیا
یہ وسائل کی محتاجی نہیں کہ باپ کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔ مخلوق کا ایک نہ رہ سکنا
بھی محتاجی ہے۔ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے فرمایا تھا کہ اللہ کی ان پانچ صفات
میں سے چار صفات ایسی ہیں جن کے لئے انسان بے بس ہے ۔ لیکن ایک صفت یعنی وسائل کی محتاجی
نہ ہونا کو انسان اپنا سکتا ہے۔۔۔یعنی ایک ایجنسی ایسی ہے جس کے ذریعے وہ خود کو اللہ
کے ساتھ وابستہ کر سکتا ہے۔
انسان غور کرے
کہ اگر وہ اللہ کے ساتھ وابستگی رکھنا چاہتا ہے تو وہ اللہ کے ساتھ کیسے وابستہ ہو
سکتا ہے۔ اللہ کے وابستگی کے لئے ضروری ہے کہ وہ وسائل کی محتاجی سے آزاد ہو جائے۔
اس کے لئے تجربہ ہونا اور بار بار ہونا ضروری ہے ۔ لامحالہ اس تجربے کے بعد یہ ذہن
بن جائے گا کہ جب اللہ چاہے گا کام ہو جائے گا۔۔۔ اس طرح انسان میں استغنا پیدا ہو
جاتا ہے اور اُس کی شعوری زندگی پہ لاشعوری زندگی غالب آجاتی ہے۔
ہر آدمی کبھی
ایک چھوٹا سا بچہ ہوتا ہے۔ بچے میں نہ کوئی انا ہوتی ہے اور نہ ہی اپنی کوئی سوچ۔۔
یعنی ہر بچہ وسائل کی فراہمی سے آزاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ والدین کے دل میں بچوں کی
محبت نہ ڈالے تو اُن کی پرورش میں کتنی دشواری ہو۔۔۔ میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ ہم اپنے
بچے کو تو ایک گھنٹے تک ٹہلا سکتے ہیں لیکن کسی دوسرے کے بچے کے لئے ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔۔کیوں؟
کیونکہ اللہ
نے اس بچے کو والدین کے لئے مخصوص کر دیا ہے۔۔کیونکہ اللہ اُن کے دل میں اس بچے کے
لئے۔۔۔۔جو اُن کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔۔۔محبت ڈال دیتا ہے۔
پھر ایک بھنگن
کا قصہ سنایا کہ کس طرح وہ ایک انتہائی کالا کلوٹا بچہ سب سے زیادہ حسین و جمیل بچے
کے طور پر اُٹھا لاتی ہے کیونکہ وہ اُس کا اپنا بیٹا ہوتا ہے۔
پھر فرمایا۔
بچہ وسائل کے نام سے واقف ہی نہیں ہوتا۔ انسان بنیادی طور پر وسائل کا پابند نہیں ہے۔
بچہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے۔ اُس کے اندر لاشعوری حرکات کم اور شعوری حرکات بڑھتی چلی
جاتی ہیں۔ وہ ذہن جو وسائل کا پابند ہے ہو۔۔۔ وہ وسائل بنانے والے کی طرف نہیں جا سکتا۔۔۔
یاد رکھیں تعویز نہیں۔۔۔تعویز لکھنے والے کا ذہن کام کرتا ہے۔ تعویذبھی ذہن کی ایک
حرکت ہی تو ہے۔ آپ کام کے ارادے سے ایک لکیر کھینچ دیں اگر ذہن کی حرکت میں یکسوئی
اور توانائی ہے تو کام ضرور ہوگا۔ انسان یقین کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
حضورؒ نے مجھ
سے فرمایا۔ کوئی آدمی جب تک دل سے نہ چاہے وہ مر نہیں سکتا۔ انسان اشرف المخلوقات ہے۔
ملک الموت بھی انسان کے شرف کے باعث اس کا غلام ہے ۔ اگر اُس کے مارنے کا حق مان لیا
جائے تو انسان کا شرف ختم ہو جائے۔
پھر بہاؤالدین
زکریاؒ کا واقعہ سنایا کہ ایک صاحب نے ملاقات کے لئے وقت مانگا ۔ جب معلوم ہواکہ وہ
مصروف ہیں تو ایک رقعہ لکھ کر اُن کے پاس بھجوایا۔ رقعہ پڑھ کر آپ نے اُس کو کہلوایا
کہ آدھ گھنٹے بعد آئیں۔ آدھ گھنٹے بعد وہ وصال فرما گئے۔ تجہیز و تکفین کے بعد کسی
کو خیال آیا کہ وہ رقعہ کھول کر دیکھا جائے۔ رقعہ دیکھا۔۔ اس میں لکھا تھا۔
بڑی سرکار نے
یاد فرمایا ہے۔ میرے لئے کیا حکم ہے۔ فقط ملک الموت
پھر غوث علی
شاہ صاحبؒ کاکافر شاہ کا بیان کردہ واقعہ سُنا کر فرمایا۔ یعنی موت بھی مجبور ہے کہ
پوچھ کر روح قبض کرے۔ انسان نے اپنے شرف کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ اُسے کبھی شرف محسوس
نہیں کیا۔۔۔جب آپ اپنے شرف کو اہمیت نہیں دیتے۔۔۔تو آپ خود کو اشرف المخلوقات کے دائرے
سے نکال لیتے ہیں لیکن تاریخِ انسانی گواہ ہے کہ انسان کو وسائل پھر بھی میسر رہتے
ہیں۔ انسان خود ہی اپنے لاشعور کو رد کر کے شعور کو غالب کر لیتا ہے۔
حضور قلندر
بابا اولیا ء ؒ صدر الصدور ہیں۔۔۔ وہ چاہتے ہیں کہ سلسلے کے ہر فرد کو اس بات کا مشاہدہ
ہو۔۔۔ ہر عظیمی علم میں راسخ ہو۔۔۔ کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ ہی کی طرف
لوٹ رہی ہے۔ روحانی علم میں یقین بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور علم ہی یقین ہے۔ علم یوں
تو تمام سلسلوں میں ہے لیکن عظیمیہ سلسلے میں اس لئے زیادہ ہے کہ امام سلسلہ علیم کی
صفت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ گھر میں اگر علم ہو تو گھر کے سارے بچے علیم ہو جائیں گے۔
آپ مشاہداتی
علم سیکھیں۔ جب آپ کہیں کہ اللہ ہے تو آپ کو اللہ نظر آنا چاہئے۔ شہادت تبھی معتبر
ہوتی ہے۔۔۔۔ جب عینی ہو۔۔تو ہم کیوں اپنے اندر وہ صفت پیدا نہیں کرتے۔۔۔علم الیقین
سے آگے بڑھ کر مشاہداتی نظر ہے۔ ایمان کا مطلب ہی مشاہداتی نظر رکھنا ہے۔ کوئی انسان
انکار نہیں کر سکتا کہ اُس نے اللہ کو نہیں دیکھا۔ آپ ماضی کی طرف پلٹیں ۔۔عالم ارواح
میں ۔۔۔ابھی حواس بھی پیدا نہیں ہوئے۔۔۔ اللہ نے ارواح کو مخاطب کر کے کہا۔۔۔ الست
بربکم۔۔حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے ترجمہ کیا۔ کیا میں۔۔ تمہارا رب نہیں ہوں۔۔۔
اللہ کی یہ آواز مخلوق میں سماعت پیدا کرنے کا باعث ہوئی۔ تجسس میں اُس نے دیکھا کہ
اللہ میاں سامنے ہیں اور قوت گویائی کے زیر اثر اُس نے اقرار کیا۔۔ جی ہاں۔۔۔ آپ ہمارے
رب ہیں۔
بچہ پیدا ہوتا
ہے تو کچھ نہیں دیکھتا۔ شعوری نظر بالکل فکشن ہے۔ ربوبیت کا مطلب ہے۔۔وسائل پیدا کرنے
والی ذات۔۔ اگر انسان نے دیکھا تو سب سے پہلے اپنے رب کو دیکھا۔۔ سُنا تو سب سے پہلے
اپنے رب کو سُنا۔۔۔ بولا تو اُس کی ربوبیت کے اقرار میں۔
روح کی بنیاد
پا کر ہی انسان۔۔۔انسان بنتا ہے۔ وہ چیز جو مسلسل گھٹ رہی ہے وہ مادی زندگی ہے اور
جس پستی کی بنیاد پر ہی جسم کھاتا پیتا لکھتا پڑھتا ہے۔۔۔جب ہم ادھرمتوجہ ہی نہیں تو
ہم روح کی تحریکات سے بھی واقف ہو ہی نہیں سکتے۔یقین کے پیٹرن کے لئے ضروری ہے کہ وسائل
کی پابندی نہ رہے۔ یاد رکھیں۔۔وسائل ہمارے پیدا ہونے سے پہلے موجود تھے اور مرنے کے
بعد بھی موجود رہتے ہیں انسان کو اس تھوڑی سی زندگی میں کوئی اختیار حاصل نہیں۔۔اگر
کوئی اختیار حاصل ہے تو وہ بھی اللہ ہی کا دیا ہوا ہے۔
جس طرح یہاں
اس دنیا میں وسائل ہیں ویسے ہی اُس دنیا میں بھی وسائل ہیں۔۔۔ انسان اس دنیا میں آتا
ہی اُس وقت ہے جب اُس نے اس دنیا کے مادی وسائل کی محتاجی کو قبول کیا۔۔۔انسان نے جب
جنت میں حکم عدولی کی۔۔۔ جنت میں یقین کا جو پیٹرن تھا اُس کے اندر شک اور وسوسہ غالب
ہوا۔۔۔ ایک ایسی کیفیت غالب آگئی جس میں نہ ٹھہراؤ ہے نہ قرار ہے نہ قیام ہے۔ یقین
کے کمزور ہونے کا نام شعور ہے۔ اس کا علاج وہی ہے جو حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے
متعین فرما دیا ہے۔
اللہ ہمیں توفیق
عطا فرمائے کہ ہم حضور ﷺ کی طرزِ فکر کے مطابق یقین کا پیٹرن بن جائیں۔ ہم اسی زندگی
میں رہتے ہوئے جنت کی زندگی میں لوٹ جائیں۔۔۔ جس طرح آدم اور حوا اللہ کو دیکھتے تھے
ہم بھی اللہ کو دیکھ سکیں۔۔۔ ہم اللہ کو دیکھ چکے ہیں تو ہم اللہ کے دوست بن جائیں۔ہمارے
بڑے۔۔۔حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ اللہ کے ایسے دوست ہیں ہیں جہاں مشیت بھی اُن سے پوچھ
کر مقرر ہوتی تھی۔ اللہ کے دیئے ہوئے اختیار کے تحت کائنات بنتی ہے بگڑتی ہے۔ کائنات
میں زندگی کی لہریں دوڑتی ہیں۔
آپ سب تشریف
لائے۔ میری خوشی پوری ہوئی۔ ۔۔۔۔میرا دل چاہتا ہے کہ ہم سب حضور ﷺ کے مشن کو پھیلانے
میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
یہ اللہ کی
نشانیاں ہیں جن پر غورو فکر کے نتیجے میں بندہ اللہ کے قریب ہو جاتا ہے اور بندے میں
ایک سرور کی کیفیت ہو جاتی ہے۔ ہمیں حضور ﷺ کے لخت جگر کے طفیل شعوری غلبے سے نکل کر
لا شعوری کیفیت میں داخل ہونے کی سعادت نصیب ہو اور ہم اللہ سے قرب کا ایسا تصور عام
کر دیں جس کے مطابق بندہ اللہ سے سرگوشی کرتا ہے۔
کوئی نبی کسی
ایک گروہ کا نبی نہیں ہوتا۔۔۔ نبی پوری کائنات کے لئے نبی ہوتا ہے۔۔ حضور قلندر بابا
اولیا ء ؒ حضور ﷺ کا تمثل ہیں۔۔۔ اُن کا عکس ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا ورثہ
ہمارا ہے۔ ہم سعید ہیں۔۔۔۔ ہم پر انعام ہوا ہے۔ کتابوں میں پڑھا ہے کہ بعض بزرگوں کو
زندگی میں ایک بار ابدال کی زیارت کر لینے سے بزرگی ملی اور ایک بار مصافحہ کر لینا
درجات میں بلندی کا باعث سمجھا جاتا تھا۔
اگر ہمارے اندر
وسوسے ہیں۔۔۔۔شکوک ہیں۔۔۔تو ہم ناخلف ہیں۔
اللہ آپ کو۔۔۔اللہ
کو پانے کی جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔آمین۔۔
پھر شکریہ کہہ
کر تقریر ختم فرما دی۔
رات آدھی سے
زیادہ بیت چکی تھی۔ سماعت اور بصارت کے علاوہ ورائے حسیاتی فیڈنگ (Feeding) کے
اثرات سب شرکائے مجلس کے چہروں پہ واضح طور پر نظر آرہے تھے۔ اب یہ فیڈنگ کس کس طرح
اور کب کب اپنے اثرات دکھائے گی یہ تو وقت بتائے گا لیکن وہاں سب ہی پُ امید و پُر
یقین تھے کہ جلد اور بہت موثر انداز میں۔
صبح مراقبے
اور درس کے بعد سیر کے دوران ہمراہیوں سے فرمایا۔ ماشاء اللہ بہت اچھی کانفرنس ہوئی۔
اس کے دور رس اثرات ہوں گے۔ اب وہاں کے لوگ سلسلے کے نام سے اجنبیت محسوس نہیں کریں
گے۔ کسی نے ممتاز علی کی تعریف کی کہ انہوں نے بہت اچھا انتظام کیا۔ ہنستے ہوئے فرمایا۔۔۔
آپ اُس کایقین دیکھیں۔۔۔چڑی جتنا دماغ ہے۔۔۔لیکن روحانی کانفرنس کروا دی۔۔۔ میں ڈانٹتا
رہا۔۔۔ مگر اُس کی ایک ہی بات رہی۔۔۔۔ہو جائے گا۔۔۔۔اور وہ بالآخر ہو ہی گیا۔
مرید نے عرس
پہ آئے ہوئے لوگوں کے ہمراہ فرشتوں کی تعداد کو ذہن میں رکھتے ہوئے تبصرہ کیا۔۔۔ کس
قدر فرشتے آئے ہوں گے۔
فرمایا۔۔ جی
ہاں۔۔۔ یہاں تو تل دھرنے کو جگہ نہ رہی ہوگی۔۔ تہہ در تہہ ہوں گے۔
مرید نے ایک
سوال پوچھا۔کیا ہیجڑوں میں بھی عارف باللہ لوگ ہوئے ہیں۔
فرمایا۔ بہت
بڑے بڑے عارف گزرے ہیں اُن میں۔۔ پھر تبصرہ کیا۔ آج کل یہ لوگ کچھ کم ہی نظر آتے ہیں۔
اس بار انگلینڈ
سے آئے ہوئے ڈاکٹر ممتاز کو روحانی تربیتی ورکشاپ کے انعقاد کا فریضہ سونپا گیا تھا۔
وہ اپنی تیاریاں مکمل کر چکے تھے۔ دو ڈھائی سو افراد اس ورکشاپ میں شرکت کے لئے اپنے
نام رجسٹر کروا چکے تھے۔ اس ورکشاپ میں دس دس افراد کے گروپس قلندر شعور کتاب کے منتخب
عنوانات پہ مل بیٹھ کر غور کریں گے۔۔۔ آپس میں بات چیت اور غور و فکر میں معاونت کے
لئے ہر گروپ میں ایک ایک کوارڈینیٹر بھی مقرر کیا گیا تھا۔ زیادہ تر افراد کو ورکشاپ
کے آئیڈیا کی ندرت کے سبب تجسس ہو رہا تھا۔
منتظمین نے
ورکشاپ کے طریقہ کار کی وضاحت کے بعد خانوادہ سلسلہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
صاحب کو شرکا کی فکر و نظر کی راہنمائی کے لئے دعوت خطاب دی۔
خیر مقدمی کلمات
کے بعد اپنے خطاب میں آپ نے فرمایا۔
اللہ نے لقمان
کو حکمت دی تا کہ وہ اُس کو استعمال کرے۔ وہ لوگ جو اللہ کی دی ہوئی بصیرت اور صلاحیت
کو استعمال کرتے ہیں اُس کا فائدہ انہی کو ہوتا ہے اور جو اُس پر غورو فکر نہیں کرتے
وہ محروم رہ جاتے ہیں۔ جو قومیں اپنے اندر تبدیلی چاہتی ہیں وہ غور و فکر کرتی ہیں۔
آج کی ورکشاپ اس بات کی ضمانت ہے کہ لوگ اللہ کی دی ہوئی بصیرت و صلاحیت استعمال کرنے
ککی سمت قدم بڑھا چکے ہیں۔ یہ سلسلہ ایک علمی ، مشاہداتی اور تجرباتی سلسلہ ہے۔ علم
ہی کی وجہ سے انسان دوسری مخلوقات سے ممتاز ہے۔ یہ سب ایجادات بھی علم ہی کے باعث سامنے
آئی ہیں۔
لوگوں نے ذہنی
یکسوئی کے ساتھ جستجو اور تلاش کے ساتھ جب بھی کوشش کی کامیاب ہوئے اور جو لوگ وقت
کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور وقت ضائع کرتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ اس ورکشاپ
کے انعقاد کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم اپنے اندر کھوج لگا کر اپنی صلاحیتوں کو متحرک
کریں پیغمبروں کی طرزِ فکر پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہیں خصوصی علم
عطا ہوا ہے۔ اس خصوصی علم کی ایک قسم یہ ہے کہ آدم زاد کو کس طرح ممتاز کیا جائے۔
شریعت انسانوں
کو حیوانوں سے ممتاز کرنے کا ذریعہ ہے۔ شریعت نے انسانوں کو سماجی اور معاشرتی قوانین
دیئے۔ ایک زمانہ تھا کہ آدم زاد اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔ انسان بھی جانوروں
کی طرح عریاں رہتا، درندگی کا مظاہرہ کرتا اور غاروں اور بلوں میں رہتا تھا۔ پھر اللہ
نے انسانوں کو برتر کرنے کے لئے اپنے نبی بھیجے جنہوں نے انسانوں کو یہ علم دیا کہ
انسان ایسی صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے جو اُس کو حیوانوں سے ممتاز کرنے کا سبب ہیں۔
جنہوں نے اُن کی بات سُنی وہ حیوانی سطح سے بلند ہوگئے۔ آج بھی ایسی قومیں موجود ہیں۔۔۔جیسے
ریڈ انڈین اور افریقہ کے مردم خور وحشی قبائل۔ آج اس ترقی یافتہ دور میں بھی ایسے انسان
موجود ہیں جو حیوانی سطح سے بلند نہیں ہیں۔
ہم انشاء اللہ
ایسا انقلاب برپا کر دیں گے جس میں نوع انسانی مجبور ہو جائے گی کہ وہ اپنے مقصد حیات
کو تلاش کرے۔ اللہ نے سلسلے کے افراد کو جو صلاحیتیں بخشی ہیں۔ قلندر بابا اولیا
کی تعلیمات نے اُن کو جو نکھار بخشا ہے کہ وہ اقوام عالم میں سرفراز ہوں گے۔ اس کے
لئے وقت کی پابندی لازم ہے۔ مذاہب عالم میں وقت کی اہمیت کو نہ سمجھنے والی اقوام تباہ
ہو گئیں۔ جن اقوام نے وقت ضائع نہیں کیا۔۔۔ وہ ممتاز اور سرفراز ہوئیں۔ علم حاصل کرنے
کے لئے ضروری ہے کہ وقت ضائع نہ کریں۔ وقت کے درست استعمال کی اہمیت سے آگاہ ہوں۔ اس
کی افادیت کو سمجھیں۔ اُس کا سلیقہ سیکھیں اور اُس کے ساتھ ساتھ اخلاق، مروت اور ایثار
سے کام لیں۔۔۔ خود غرضی اور حسد کے شر سے پناہ لیں۔ خود غرضی نہ ہوگی تو ایثار پیدا
ہوگا۔۔۔ تنظیم ہوگی جو اجتماعیت کے لئے ضروری ہے۔ شعور کی بالیدگی کے مطابق اپنے بھائی
کے لئے محبت اور ایثار ہو۔۔۔ کبر ونخوت نہ ہو۔۔۔ خود سپردگی ہو۔
ہمیں چاہئے
کہ قرآن کے علم کے مطابق اُن صلاحیتوں کو جاری و ساری کریں جو کائنات کی تکوین کے فارمولوں
کی بنیاد ہیں۔ یاد رکھیں جو خود سپردگی یا Dependence ہونے
سے آگاہ نہیں وہ تکوین میں آ ہی نہیں سکتا۔ حضرت موسیٰ ؑ کے قصے میں وہ بندہ جس کے
پاس موسیٰؑ چل کر گئے تھے۔۔خود سپردگی سے ہی ہم تکوینی علوم کو حاصل کرنے کے قابل ہو
سکتے ہیں۔
پھر فرمایا۔
میں ایک نثری شاعر ہوں اور خوش ہوں کہ میری کتابوں کو بھر پور داد اور پزیرائی ملی۔
مصنف کی یہ بڑی خوش قسمتی ہوتی ہے کہ اُس کی تصانیف کو اُس کی زندگی میں ہی سمجھ لیا
جائے۔
ورکشاپ دو روز
جاری رہی۔ شریک ہونے والوں نے متفرق تاثرات کا اظہار کیا۔ کم لوگوں نے اس کی افادیت
سے انکار کیا۔ البتہ بعض افراد کو غور و فکر کا یہ انداز اپنے نئے پن کے سبب کچھ غیر
مانوس سا لگا اور انہیں یہ سہل محسوس نہیں ہوا تھا۔ بیشتر نے اس کو پُر لطف تجربہ بتایا۔
دو ایک دن بعد
مراقبہ ہال کی رونقیں سمٹ گئیں۔۔۔ یادوں کی سطح بلند ہوگئی۔ مہمانوں کے آرام کے لئے
دریوں کے نیچے
بچھایا گیا بھوسہ اٹھوا کر جلایا جا رہا تھا۔ کارکنان بستر،
دریاں سمیٹ رہے تھے۔ وہ مراقبہ ہال سے باہر خاشاک کے ڈھیر سے بلند ہوتے شعلوں کو دیکھ
رہا تھا کہ کسی نے کہا۔ مرشد کریم آپ کو بلا رہے ہیں۔ وہ گیٹ سے اندر داخل ہوا تو مرشد
کریم ، فضل الرحمان قریشی صاحب،قادری صاحب ، لطیف بھائی اور چند دیگر افراد کھرے تھے۔
معلوم ہوا کہ جن افراد نے سلسلے کے لئے کوئی کارنامہ سر انجام دیا ہے۔۔۔ کوئی قابل
تقلید خدمت کی ہے یا بے لوث خلوص اور ایثار سے مہمانوں کی دیکھ بھال کی ہے۔۔۔مرشد کریم
اُن کو اپنی خوشنودی کے اظہار کو توصیفی سند سے نوازیں گے۔
ایک توسیفی
سر ٹیفیکیٹ غلام رسول قادری صاحب کے ہاتھوں میں پکڑ کر مراد نے اُس کو آگے بڑھنے کا
اشارہ کیا کہ وہ سرٹیفیکیٹ وصول کرے۔۔۔ حیرت سے کھلے منہ اور پھٹی انکھوں سے مرید نے
انہیں دیکھا۔ انہوں نے قادری صاحب کو بتایا ۔ انہوں نے لوح و قلم کو انگریزی میں ترجمہ
کیا ہے۔
اُس نے حواس
باختگی میں سرٹیفیکیٹ پکڑنے کے لئے ہاتھ پھیلایا تو مرشد کریم نے اُس کا بازو پکڑ کر
اُسے قادری صاحب کے دائیں طرف دھکیلتے ہوئے۔۔۔۔اُسے اُن سے مصافحہ کر کے سرٹیفیکیٹ
وصول کرنے کے آداب بتاتے ہوئے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ وہاں موجود سب ہی افراد تالیاں
بجا رہے تھے۔ قادری صاحب اپنی ضعیف العمری کے سبب عام طور پر کسی کے سہارے کھڑے ہوتے
تھے۔ اُس وقت بھی کسی نے انہیں تھاما ہوا تھا۔ اُن کی عمر نوے سال سے زائد تھی۔ مصافحہ
کرتے ہوئے انہوں نے اُس کو شاباش دی اور کہا۔ بھئی آپ تو حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ
کی فوج کے جرنیل ہیں۔
پھر لطیف بھائی
کو اتنے مہمانوں کو لنگر اور کھانا کھلانے اور اس کام کو ایک عرصے سے لگاتار کرتے رہنے
پر سند توصیف سے نوازا گیا۔ تیسرے سرٹیفیکیٹ کے لئے سعید بھائی کا نام پکارا گیا۔ وہ
اُس وقت بھی جھاڑو پکڑے گیٹ کے پاس درختوں سے گرے پتے سمیٹ رہے تھے۔ مراقبہ ہال اور
مسجد کی دیکھ بھال کا انتظام کرنے پہ مرشد کریم نے سند پسندیدگی سے نوازا تھا۔
خانوادہ سلسلہ
عظیمیہ نے سلسلے کی خدمت میں خلوص اور ایثار کی فرمائش کی تھی اور جن لوگوں نے انہوں
نے مناسب سمجھا سراہ دیا۔ لیکن اولیت اور استغنا کا لطف اُس کے رگ و پے میں خون کے
ساتھ گردش کرتا محسوس ہوا۔ اُس نے مرشد کریم کو تشکر و اطمینان سے بھیگی آنکھوں سے
دیکھا۔
پشاور سے آئے
ہوئے دوست خوشی کا اظہار کر رہے تھے کہ یہ اعزاز پشاور کے حصے آیا ہے تو فرمایا۔ مقصود
صاحب تو
کراچی کے آدمی تھے مگر اعزاز پشاور کے حصے میں آگیا۔
وہ اُسے لوگوں
سے مبارک باد وصول کرتے چھوڑ کر وہاں سے چل دیئے۔ اُن کے وہاں سے ہٹتے ہی پورا مراقبہ
ہال خالی ہوگیا۔ اُس نے ایسا کب سوچا تھا۔۔۔۔ایسا کب چاہا تھا۔۔بن چاہے۔۔۔بن مانگے
انہوں نے اُس کو اتنا نوازا کہ اُس کی تنگی دامان کا احساس ہونے لگا تھا۔ شام ہونے
تک وہ خوشیوں کے گٹھر اُٹھائے۔۔۔مسرتوں کے راگ پہ۔۔۔رگ و پے میں ہونے والی جھنجھناہٹ
کی تال پر۔۔۔من ہی من میں رقص کناں رہا۔
اُس نے خود
سے مخاطب ہو کر با آواز بلند کہا۔ میاں تمہیں تمہارے مرشد کی دُعا لگ گئی ہے۔ انہوں
نے اُسے خوش رہنے کی دُعا دی تھی اور تب سے خوشیوں نے اُس کے گھر کی راہ دیکھ لی تھی۔
ایک دن کسی نے اُس سے فون پہ بڑے مرے ہوئے لہجے میں پوچھا کہ آپ کا کیا حال ہے؟ اُس
نے خوشی اور مسرت کے اظہار کو کہہدیا۔ الحمد اللہ میرے یہاں تو خوشیاں رقص کر رہی ہیں۔
چند روز بعد انہی صاحب نے فون کر کے پوچھا۔ آپ کے ہاں جو مجرا ہو رہا تھا ختم ہو گیا
ہے یا ابھی جاری ہے؟
اُس نے سوچا
وہ خوشی کو ترسا ہوا تھا۔۔۔مرشد کریم نے کیف و سرور کو اُس کے اندر اس طرح بھر دیا
ہے کہ جنم جنم کی ترساہٹ ختم ہو گئی ہے۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔