Topics
روز وشب اپنی رفتار سے گزرتے رہے۔ معمولات زندگی اپنے بہاؤ میں
بہتے رہے۔ معلوم ہوا کہ مرشد راولپنڈی سے آزاد کشمیر چلے گئے ہیں۔ پھر اطلاع آئی کہ
کراچی میں ہیں، پھر اطلاع آئی کہ انگلینڈ تشریف لے گئے ہیں۔ لیکن نہ جانے کیوں کسی
بھی اطلاع سے یہ تاثر پیدا نہیں ہو سکا کہ وہ کہیں دور گئے ہیں۔ پھر اطلاع آئی کہ آپ
یورپ اور امریکہ کا دورہ کر کے واپس آگئے ہیں۔ اس کا دل چاہا کہ وہ کراچی ہو آئے لیکن
پروگرام بن بن کر ٹوٹ جاتا۔ پھر ایک روز اُسے معلوم ہوا کہ آپ لاہور تشریف لا رہے ہیں۔
اُ س کا من مچل اُٹھا۔ وہ اگلے روز صبح سویرے لاہور۔۔۔مراقبہ ہال (جامعہ عظیمیہ) پہنچ
گیا۔
جب وہ وہاں
پہنچا تو حضور میاں مشتاق صاحب کے ہمراہ مراقبہ ہال کے گیٹ سے باہر آ رہے تھے ۔ اُس
کو دیکھتے ہی دونوں بازو پھیلا کر یہ کہتے ہوئے گلے لگایا۔ بھئی آپ کو تو واقعی ٹیلی
پیتھی آتی ہے۔ میں نے رات ہی آپ کو یاد کیا اور آپ صبح سویرے یہاں پہنچ گئے۔ وہ شفقت
اور محبت کے احساس سے شرابور انہیں دیکھتا رہا۔ خیر و عافیت کا پوچھ کر فرمایا۔ آپ
نہا دھو لیں سیر سے واپسی پہ ملتے ہیں۔ وہ مودب پیچھے ہٹا۔ آپ نے قدم بڑھایا اور سیر
کرنے چل دیئے۔ نہا دھو کر ۔۔۔تازہ دم ہو کر۔۔۔ ناشتہ کر کے۔۔۔ وہاں موجود سلسلے کے
بھائیوں سے مل کر ۔۔۔۔ادھر اُدھر کی گپ شپ کرتا رہا۔
حضور سیر سے
واپس آکر ناشتہ کر کے ، نہا دھو کر ، تیار ہو کر، کمرے سے باہر آئے ۔ قطار در قطار
منتظر بیٹھے لوگوں ملتے ملاتے۔۔مسئلے مسائل سنتے اور حل تضویز کرتے دوپہر ہو گئی۔ میاں
صاحب نے اعلان کیا۔ بس بہت ہو گیا۔ اب آپ حضور کو کچھ آرام کرنے دیں۔ آپ کھانا کھائیں۔
سہ پہر کو دوبارہ نشست ہوگی۔ یہ کہہ کر وہ ابا حضور کو اُٹھا کر لے گئے۔ وہ دوپہر کا
کھانا کھا کر قیلولہ کرنے وہاں بچھی چٹائیوں میں سے ایک پر لیٹ گیا۔
سہ پہر کو نمازِ
عصر کے بعد آپ وہاں لان میں بچھائی گئی ایک چارپائی پہ آکر بیٹھ گئے۔ نماز کے لئے بچھائی
گئی چٹائیاں فرشِ محفل ہو گئیں۔ سب اُن کی چاربائی کے گرد نیم دائرہ بنا کر بیٹھ گئے۔
جو اس دائرے میں خود سے نہیں بیٹھنا چارہے تھے اُن کو منتظمین نے اس دائرے کا حصہ بنا
دیا۔ لوگ باری باری کھسک کر آگے بڑھتے چارپائی کے قریب ہو کر مدعا بیان کرتے ۔۔۔۔جواب
میں حضور نے کچھ کہنا ہوتا تو کہہ دیتے ورنی لکھ کر دے دیتے۔۔وہ صاحب یا خاتون پیچھے
ہٹتیں اور دوسرے صاحب آگے بڑھ کر اپنی کہنے لگتے۔۔ پچیس تیس افراد کے بعد۔۔ انتظامی
فرائض پہ معمور صاحب نے۔۔۔جو حضور کے پیچھے کھڑے تھے۔۔۔ اسے اشارہ کیا کہ وہ آگے بڑھے۔گھسٹتے
ہوئے اُن کی طرف بڑھتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ بھلا اُس کے پاس اُن سے کہنے کو کیا
ہے؟ وہ کہے ؟ پوچھے تو۔۔۔ کیا پو چھے؟ چارپائی کے قریب پہنچ کر وہ سلام کر کے ڈوبتے
سورج اور شفق رنگ آسمان کے پسِ منظر میں مراد کے چہرے پہ پھیلتی اک سنہری سی مسکراہٹ
کو دیکھنے میں کچھ ایسا مگن ہو گیا کہ اُسے خبر ہی نہ ہوئی کہ سلام کا جواب دے کر انہوں
نے جواباً اس سے کچھ پوچھا ہے۔ قریب بیٹھے میاں صاحب نے اُس کی محویت کو توڑنے کو ابا
حضور کا کہا ہو اجملہ دہراتے ہوئے کہا۔۔ بابا جی فرما رہے ہیں کہ پشاور میں سب کیسے
ہیں؟ تو وہ چونک کر بولا۔ سب ٹھیک ہیں، آپ کیسے ہیں؟ اس حواس باختگی پہ ممتا بھری مسکان
کچھ اور گہری ہو گئی۔کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد مرید نے دریافت کیا۔ حضور کسی شے کو
دیکھنے سے کیلوریز خرچ ہوتی ہیں۔۔ تو رنگوں کو دیکھنے پہ بھی تو کیلوریز خرچ ہوتی ہیں
تو پھر یہ رنگ صحت اور تندرستی دینے میں کس طرح مدد کرتے ہیں؟
فرمایا۔ رنگوں
کو دیکھنے سے بیمار کیلوریز خرچ ہوتی ہیں۔
اختصار بیان، اعجاز بلاغت اور حسِ کلام نے ایک نئی اور
نادر ترکیب۔۔بیمار کیلوریز کے خرچ ہونے۔۔۔سے صحت و تندرستی حاصل ہونے تک سبھی مراحل
کی وضاحت کو درکار ایک طویل تقریر کو حذف کر کے وہاں موجود سبھی لوگوں پہ کرم کیا۔
وہ جو اس بات میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے وہ اس سائنس پہ کی جانے والی بات کو اپنے لئے
غیر متعلق جانتے اور مغرب کی اذان کے انتظار میں بیٹھے لوگوں کا۔۔ اس گفتگو سے کچھ
سیکھنے کی بجائے الجھنے کا احتمال بھی نہ رہا۔
اُس نے کرومو
پیتھی کتاب ی بابت بات کرنا چاہی تو فرمایا۔ آپ میاں صاحب سے اس پہ بات کرنے کے لئے
باقاعدہ وقت لیں۔ اب یہاں محفل میں کتاب کا مسودہ کیا دیکھوں؟
اتنے میں ایک
صاحب نے کہا ۔ میں آپ کے سلسلے میں آنا چاہتا ہوں۔۔۔ میرے مرشد مجھے آپ کی کتابیں پڑھنے
سے منع کرتے ہیں۔
اس پر آپ نے
فرمایا۔ انگریز وٹ از دس، وٹ از دیٹ۔۔ کرتے کرتے زبان سیکھ جاتے ہیں۔ آپ اپنے مرشد
سے سوال پوچھیں۔ مثلاً آپ دریافت کریں کہ آپ کو ڈر لگتا ہے؟ اگر وہ کہیں ہاں تو پھر
پوچھیں الاانا اولیا لا خوف۔۔کا کیا مطلب ہوا۔۔۔پھر فرمایا۔۔اللہ رحم کرے لوگ نہ خود
کچھ سیکھنا چاہتے ہیں اور نہ کسی کو سیکھنے دیتے ہیں۔
میاں صاحب سے
بات کی تو اگلے روز رات نو بجے کا وقت مقرر ہوا۔ رات ساڑھے دس بجے تک مرید اپنے مراد
کے قرب سے مسودہ دکھانے کے بہانے سرفراز ہوتا رہا۔ اس دوران مسودہ کتاب دیکھا۔۔ اپنی
پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ اور ساتھ میں یہ مشورہ بھی دیا کہ آپ نے جن جن کتب سے استفادہ
کیا ہے ان کا حوالہ ضرور دیں ورنہ یہ سرقہ کہلائے گا اور حوالہ دینے سے یہ ریسرچ بن
جائے گی۔
پھر اپنی ایک
تقریر کا مسودہ دے کر فرمایا۔ اس کو کتابچے کی صورت دینا ہے۔ جی بہتر ہے۔۔کہتے ہوئے
اس نے کاغذ سمیٹے اور شب بخیر کہتا کمرے سے باہر آگیا۔
صبح بعد از
نماز فجر مراقبہ سے قبل ارشاد فرمایا ۔ انداز
نشست میں کمر سیدھی رہے تو نیند نہیں آتی۔ پھر یا حی یا قیوم کے ورد کا طریقہ
تعلیم کرتے ہوئے بتایا کہ ناک سے 'م' کی آواز نکلنے پہ جھنجھناہٹ ہوتی ہے یہ نہیں ہونی
چاہئے۔
تربیتی پروگرام
کے شرکا سے یہ مراقبہ کروایا کہ وہ یہ تصور کریں کہ وہ ایک روح ہیں اور روح نور ہے۔
مراقبے کے بعد دعا فرمائی اور کہا جس طرح میں نے آپ کی تربیت کی آپ بھی اسی طرح اپنے
شاگردوں کی تربیت کریں۔
جب حضور سیر
کے لئے جا رہے تھے تو وہ بھی ہمراہ ہو لیا۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر ایک سوال نے مرید
کو گدگدایا۔حضور یہ تمثلات سے کیا مراد ہے؟
کسی بھی چیز
کے بنیادی خاکے کو تمثل کہتے ہیں۔ سامنے کھیتوں کے بیچوں بیچ کھڑے ایک درخت کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس درخت کے بنیادی خاکے کو تمثل کہیں گے، وہ خاکہ درخت کے وجود
میں آنے کے بعد ختم نہیں ہوا۔ ہر چیز مظہر بنتی ہی اُس وقت ہے جب اس کا تخلیقی خاکہ
یعنی تمثل موجود ہو۔
پھر رات کو
دیئے گئے مسودے کا عنوان پوچھنے پر فرمایا۔ آپ کے نزدیک کیا عنوان بہتر رہے گا؟
مرید نے عرض
کی۔ ' پیر صاحب بچوں میں۔۔۔' مناسب لگتا ہے۔
فرمایا۔ ' بچوں
کے پیر صاحب'۔۔۔۔زیادہ مناسب رہے گا۔
فرمایا۔ میرا
خیال ہے کہ یہ ایک سیریز ہو۔۔۔جس میں مختلف مجالس کا احوال ہو۔ بچوں کے لئے کہانیاں
ہوں جو اُن کے پیر صاحب انہیں سنائیں۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام۔۔۔حضرت ابراہیم
علیہ السلام کا قصہ۔ پیغمبروں اور اولیا کرام کے بچپن کے قصے۔۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام
کے واقعات۔
مرید نے دریافت
کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کون سا واقعہ جس کو بچے زیادہ دلچسپی سے سنیں گے؟
تو حضر ت مریم کا حجرے میں چلہ کش ہونا۔۔ حضرت زکریا علیہ السلام کا اُن کی کفالت اور
دیکھ بھال کرنا۔۔۔ اُن کو کھانا پہنچانا۔۔۔پھرایک بار دھیان نہ رہنا۔۔۔یاد آنے پہ جب
جا کر دیکھنا۔۔۔تو وہاں خوان موجود پانا۔۔۔۔جس میں طرح طرح کے پھل اور میوہ جات ہونا۔۔۔۔اس
پر حضرت مریم کا کہنا کہ یہ سب اُن کے لئے خدا نے بھیجا ہے۔
فرمایا۔۔ پیر
صاحب کے بچپن کے واقعات میں اُن کے شرارتیں کرنے کا ذکر کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا
۔۔ کرتے تو سبھی ہیں۔۔ لیکن ذکر کوئی نہیں کرتا۔
پھر سوال پوچھا۔۔۔جب
ہم کسی راستے پہ پہلی مرتبہ چلتے ہیں تو وہ راستہ بہت طویل محسوس ہوتا۔۔۔ بار بار وقت
دیکھتے ہیں۔۔۔۔لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ وہ مقام کب آئے گا۔۔۔ایسا کیوں ہوتا ہے؟
مرید نے عرض
کی یہ سب ہماری توجہ اور احساس کا کھیل ہے۔ ہمارے ذہن میں منزل کی تقع اور انتظار ہماری
توجہ کو راستے پہ مبذول رکھتی ہے اس راستے کی طوالت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
یہ جواب نفسیاتی
طور پر ہو سکتا ہے کچھ وزن رکھتا ہو لیکن اس وقت مرشد جو بات تعلیم کرنا چاہ رہے تھے
وہ کچھ اور ہی تھی۔ انہوں نے مرید کا جواب سن کر اپنی بات دہرائی۔ مرید نے اپنی ہانکی
تو فرمایا۔ آپمرشد سے دو قدم آگے چلیں گے تو آپ کے شاگرد آپ سے چار قدم آگے چلیں گے۔یاد
رکھیں۔ مرشد سے آگے نہیں چلتے۔۔۔ہمیشہ دائیں طرف چلنا چاہئے۔ بائیں طرف قلب ہوتا ہے۔۔۔
فرشتے اور جنات و گیرہ اسی طرف آکر احکامات لیتے ہیں۔۔اس لئے مرشد کے بائیں طرف یا
آگے چلنا بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے۔
فرمایا۔ آپ نے یہ سُنا ہی ہوگا۔ باادب با نصیب اور بے ادب بے
نصیب۔
پھر اس کی وضاحت میں بتایا۔ ایک بار میں
حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کے کمرے میں جھانکا تو انہوں نے اظہار ناراضگی فرمایا اور
کہا کہ کیوں نہ آپ کو سلسلے سے خارج کر دیا جائے۔ شاید اُن کے چونکنے سے اُن کے کام
میں خلل پڑا ہوگا۔ بات اتنی بڑھ گئی کہ معاملہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور پیش
ہوا۔ اس غلطی کی پاداش میں میں سوا دوسال تک سلسلے کی رکنیت سے معزول رہا۔
مرید کے کاٹو تو لہو نہیں۔۔۔وہ شرمندہ اور
خفیف ہو کر ساتھ گھسٹتا رہا۔
کچھ دور چلنے
کے بعد قدم لیتے ہوئے اپنے پاؤں کو زمین سے اُٹھا کر دکھاتے ہوئے فرمایا۔ یہ اُٹھا
ہوا قدم زمانیت ہے۔۔ پھر اُس پاؤں کو زمین پہ ٹکاتے ہوئے فرمایا۔ یہ اسپیس یعنی مکانیت
ہے۔
فرمایا۔ آیا کچھ سمجھ میں؟ مرید کے بشرے پہ لکھا
تھا۔۔۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی دوبارہ بتا کر دریافت کیا۔ سمجھ آئی؟
مرید نے خشک ہوتے ہونٹوں پہ زبان پھیرتے ہوئے عرض۔
جی کوشش کر رہا ہوں۔
فرمایا۔ ابھی
کوئی کاروبار کی بات ہو تو آپ دو منٹ میں Feasibility بنا
کر دکھا دیں گے اور اُن باتوں کے لئے ذہن کام نہیں کر رہا۔ وہاں تو ذہن خوب چلتا ہے۔
پھر پاؤں کو
ہوا میں لہرا کر بتایا۔ یہ زمانیت ہے۔ پاؤں کو واپسی زمین پہ ٹکا کر فرمایا اور یہ
مکانیت ہے۔ در اصل انسان وقت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں یعنی وقفوں کو جوڑتا رہتا ہے اگر
یہ وقفے حذف ہو جائیں تو اسپیس ختم ہو جاتی ہے۔
حضور تاج الدین
بابا اولیاؒ دیوار سے اسی لئے تو گزر گئے تھے کہ اُن کے ذہن میں سے یہ وقفے حذف ہو
گئے تھے۔ اگر شعوری طور پر وہ کوشش بھی کرتے تو ایسا ہرگز نہ کر سکتے۔۔۔یہ سب لاشعوری
طور پر ہوتا ہے یعنی جب ذہن شعور سے ہٹ جاتا ہے تب ایسا ہوتا ہے۔
اب مرید کے
ذہن میں بات کھلنا شروع ہوئی۔ اُس نے تذکرہ غوثیہ میں مذکورہ واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے
عرض کیا۔ بحری جہاز میں سوار ہونے والے بندے نے ناخدا سے کہا۔ مجھے جدہ جانا ہے اور
آج ہی پہنچنا ہے۔ اُ س نے بتایا کہ اس میں تو اتنے روز لگیں گے۔ اس پہ اُس مرد خدا نے پوچھا۔۔ اب ہم کہاں ہیں۔۔پھر کون سی جگہ
آئے گی؟ اس کے بعد کون سی۔۔۔ وعلی ھذا القیاس اور جب سُنا کہ فلاں مقام کے بعد جدہ
آئے گا تو کہا۔۔ بس یہاں جہاز روک لو۔۔منزل آگئی ہے۔ ناخدا نے دیکھا تو واقعتاً جہاز
جدہ کی بندرگاہ کی حدود میں موجود تھا۔
اس بات کو سُن
کر فرمایا۔ زماں و ماکاں کے قانون سے واقف بندہ ہی اسپیس کو اس طرح حذف کر سکتا ہے۔
اس پر مرید
کو حوصلہ ہوا اور اُس نے حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا بارش میں بھیگے بغیر ناظم
آباد آنے کے اس واقعہ کا حوالہ دیا جو آپ کی کتاب تذکرہ قلندر بابا اولیا ؒ میں مذکور
ہے تو فرمایا۔ جی ہاں۔۔ انہوں نے بھی یہی تو کیا تھا۔
پھر کچھ توقف
کے بعد فرمایا۔ یہ باتیں سیکھنے کے لئے مرشد کا قرب بہت ضروری ہے۔
بعد میں جب
ہم گاڑی میں بیٹھے حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردی ؒ کے مزار کی طرف جا رہے تھے تو
سامنے سڑک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کس طرح اسپیس لپٹ رہی ہے۔
پھر دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے کے گرد گھما کر دکھاتے ہوئے فرمایا۔ یہ اسپیس کے اس
طرح لپٹنے ہی کے باعث تو ہم سفر کر رہے ہیں۔ ڈرائیور کا ذہن اس اسپیس کو لپیٹ رہا ہے۔
فرمایا۔ مجھے یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ اپنے
مرشد حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کو بیعت کروانے میں ساری بات چیت میرے ہی ذریعے ہوئی
تھی۔ حضرت جیؒ کو کراچی آنے اور میکلوڈ روڈ کے اُس ہوٹل میں قیام کے دوران حضور قلندر
بابا اولیا ء ؒ کو بیعت کرنے پہ راضی کرنے کے لئے انہوں نے سارا معاملہ میرے ہی ذریعے
طے کیا تھا۔
فرمایا۔ حضرت جی ؒ اس بات پہ بہت فخر کیا
کرتے تھےکہ اُن کے مریدوں میں سے ایک تکوین کا کام کرتا ہے۔ ایک بار حضور قلندر بابا
اولیا ءؒ سے کسی نے پوچھا تھا ۔ جب آپ تکوین میں تھے تو آپ نے اُن سے بیعت کیسے کی؟
تو انہوں نے فرمایا تھا ۔ اس کے لئے ہم نے وردی اتار ی تھی۔۔بعد میں واپس پہن لیا تھا۔
فرمایا۔ سلسلہ چلانے کے لئے ضروری نہ ہوتا
تو شاید وہ بیعت بھی نہ ہوتے۔
پھر کہا کہ
ایک بار حضرت جی ؒ نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا۔ خواجہ صاحب آپ نے سلسلہ چلانا
ہے تو کچھ ایسا کرنا کہ جو آگے ہیں وہ اپنے پیچھے والوں کو اوپر کھینچیں اور جو پیچھے
ہیں وہ اپنے آگے والے کو اوپر دھکیلیں۔۔اگر ایسا ہو گیا تو سبھی اوپر پہنچ جائیں گے۔
وہاں سے مجید
صاحب کے گھر کے لئے روانہ ہوئے۔ مجید صاحب ہی گاڑی چلا رہے تھے۔ راستے میں منصورہ سے
گزرتے ہوئے آپ نے وہاں پہ کسی منصور الرحمان صاحب سے ملنے کی خواہش کی۔ منصورہ میں
جماعت اسلامی کے مرکز کے استقبالیہ گیٹ پر معلوم ہوا کہ وہ لاہو سے باہر گئے ہوئے ہیں
تو آپ نے کہا۔ جب وہ آجائیں تو انہیں بتا دیں کہ کراچی سے خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب
اُن سے ملنے آئے تھے۔
مجید صاحب گھر سے پہلے مارکیٹ میں رکے تاکہ مہمانوں
کی خاطر مدارت کے لئے گھر جا کر پھر نہ آنا پڑے۔ وہاں سے مجید صاحب کے گھر پہنچے۔ وہ
گاڑی کو گیٹ سے اندر داخل کر کے خود اتر کر گھر کے اندر چلے گئے۔ آپ نے تبصرہ کرنے
کے انداز میں کہا۔ کرایے کے گھروں میں یہ بڑی دقت ہے کہ سارا سامان ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے۔
مجید صاحب پورچ
کی طرف کا دروازہ کھولنے کی بجائے گھر کے عمومی داخلے سے باہر آئے ۔۔پیچھے پیچھے بیگم
مجید اور بیٹی حضور کو خوش آمدید کہنے باہر آئیں۔چائے آنے سے پیشتر بیگم مجید نے اپنے
شوہر کی شکایت کرتے ہوئے کہا۔ بابا جی۔ آپ ان سے کہیں کہ یہ ہمیں گھر بنا کر دیں۔
اس پہ آپ نے
شفقت سے کہا۔ آپ ان سے کہتی رہا کریں۔ ۔۔اللہ نے چاہا تو ہو ہی جائے گا۔ آپ زیادہ فکر
نہ کریں۔ وہاں چائے پی۔ بیگم مجید نے سیب چھیل کر کاشوں کی صورت میں پیش کئے۔
شام کو لان
میں نماز کے بعد بیٹھے تو مرید کے بچپن کے دوست پروفیسر عباس مرزا جو اس کے مراد سے
ملنے آئے تھے ، نے اُن سے دریافت کیا۔
یہ توفیق سے
کیا مراد ہے؟
فرمایا۔۔اچھائی
برائی۔۔خیر و شر میں تفریق کرنے کی فہم و ادراک۔ فرمایا اگر اس کا ترجمہ صلاحیت لیا
جائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ مجھے اللہ نے برائی کی صلاحیت دی اسی لئے میں نے برائی
کی۔ وما توفیقی الا باللہ۔۔۔ کا مطلب ہے کہ مجھے اللہ کے سوا کوئی اور یہ فہم و ادراک
عطا نہیں کر سکتا تھا کہ میں اچھائی کا انتخاب کر سکتا۔
مرید نے عرض
کی ایک چیز ہوتی ہے علم کا منتقل ہونا۔۔۔ اور ایک چیز ہوتی ہے طرزِ فکر کا منتقل ہونا۔۔۔
پھر ایک بات ذہن کا منتقل ہونا بھی ہے۔۔ا ن میں کیا فرق ہے؟ اور جس کو امام سلسلہ کا
ذہن منتقل ہوتا ہے اسے خانوادہ کہتے ہیں۔ ۔۔اب اگر حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کو گیارہ
سلاسل کے خانوادہ ہونے کا شرف حاصل ہے تو اس کا کیا مطلب ہوا؟
اس پر الٹا
مرید نے پوچھا۔ خانوادہ کسے کہتے ہیں؟ مرید نے عرض کی۔ خانوادہ خاندان سے تعلق رکھنے
والے کو کہتے ہیں۔
فرمایا۔ ایک
آدمی کہیں چلا جاتا ہے۔ وہاں جا کر رہتا بستا ہے۔۔شادی کر لیتا ہے۔۔اس کے بچے ہوتے
ہیں ایک خاندان بن جاتا ہے ۔ اس خاندان میں شامل لوگ اس خانوادے کے افراد کہلاتے ہیں۔
اسی طرح روحانیت میں بھی ایک فرد اپنا ایک الگ سلسلہ بنا لیتا ہے تو اُس کا ذہن جس
جس اولاد کے حصے میں آتا ہے کانوادہ کہلاتا ہے۔ جو اولاد باپ کی جتنی زیادہ نقل کرتی
ہے وہ اسی قدر سعید کہلاتی ہے۔ نقل کرنا تبھی ممکن ہوتا ہے جب بچہ اپنے ذہن کی بجائے
باپ کے ذہن سے سوچتا ہے۔
بعض افراد کو
اللہ کی طرف ایسا ذہن ودیعت کیا جاتا ہے کہ کئی سلاسل کے بڑوں جیسے ذہن کے مالک ہوتے
ہیں اور ان سب سلاسل کے بڑے اُن کو اپنا خانوادہ قرار دیتے ہیں۔
محفل برخاست
ہوئی تو وہ عازم پشاور ہوا۔
عرس کے دن آئے
تو وہ کراچی پہنچا۔ عرس کی تقریبات ختم ہوگئیں تو ایک روز سیر کے بعد جب واپس آ کر
اپنے کمرے میں داخل ہو رہے تھے تو مرید سے فرمایا۔ ڈاکٹر مقصود عظیمی اچھا لگے گا۔
مرید نے حیرت سے انہیں دیکھا تو فرمایا۔ آپ پی ایچ ڈی کرلیں۔
کمرے میں پاس
بٹھا کر فرمایا کہ بھائی جان یا احتشام الحق سے بات کر کے رشید صاحب سے ملیں اور پی
ایچ ڈی کے لئے رجسٹریشن کروا کر جائیں۔ بتایا کہ اس دفعہ عرس پہ ہونے والی ورکشاپ میں
رشید صاحب بھی آئے تھے۔ وہ جامعہ کراچی کے فیکلٹی اسلامک سٹیڈیز کے ڈین ہیں۔ انہوں
نے کہا ہے کہ آپ ہمیں ایسے لوگ دیں جو پی ایچ ڈی کر سکیں۔کئی روز کی کوشش کے بعد ایک
دن اُس نے حضور سے عرض کی کہ رشید صاحب تک رسائی نہیں ہو پا رہی۔
آپ نے فرمایا۔
آپ کوشش کرتے رہیں۔
اگلے روز سلسلے
کی ایک بہن نگہت سلیم صاحبہ نے اسے ڈاکٹر عابد سے ملنے کا مشورہ دیا۔ جو کولمبو یونیورسٹی
کے پاکستان کیمس کے انچارج ہیں۔ اس نے حضور سے تذکرہ کیا۔ توآپ نے فرمایا۔ ہاں کیوں
نہیں۔۔آپ جا کر ملیں۔ دیکھیں اللہ کو کیا منظور ہے۔ وہ ڈاکٹر عابد سے ملا۔ انہوں نے
نہایت حوصلہ افزا بات کی۔ اُس نے واپس آکر حضور کو بتایا تو آپ نے فرمایا۔ آپ کی فیس
میں دوں گا۔ آپ فارم بھر کر کل مجھ سے پیسے لے کر جائیں اور رجسٹریشن کروائیں۔
اس نے پچیس
سال پہلے پنجاب یونیورسٹی سے جمالیات میں پی ایچ ڈی کرنے کی کوشش کی تھی لیکن حالات
نے مزاحم ہو کر اس کاوش کو کوششِ ناکام بنا دیا تھا۔ آج بن کہے۔۔۔ بن مانگے وہ ڈگری
جس کا اُس نے کبھی خواب دیکھا تھا آج اُسے مرشد کریم کی عنایت سے بیٹھے بٹھائے مل رہی
تھی ۔ اُس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس قدر عطا پہ شکریہ کہنا اُس کو بہت ہی چھوٹی بات لگ
رہی تھی۔ پھر بھی اُس کے پاس کہنے کو یہی ایک لفظ تھا۔ سو اُس نے دل کی گہرائی سے اسے
ادا کیا۔ تو فرمایا۔ اگر کوئی بندہ پڑھنا چاہتا ہو تو اللہ اُس کی مدد کرتا ہے۔
اگلے روز عرفان
بسا طیہ نے اُسے ایک لفافہ لا کر دیا۔یہ ابا نے دیا ہے۔ لفافے میں فیس کی رقم تھی۔
اس نے جا کر فیس جمع کروائی اور واپس آ کر رسید ابا حضور کو دکھائی۔ رسید میں لکھی
رقم آپ کی دی گئی رقم سے کچھ زائد تھی۔ جیب سے زائد رقم نکال کر اُسے دی۔ اس نے پس
و پیش کرنے کی کوشش کی اور کہا۔۔ نہیں کوئی بات نہیں۔۔رہنے دیں تو فرمایا۔۔نہیں بھئی۔۔میں
نے کہا تھا کہ یہ فیس میں دوں گا تو آپ کیوں دیں۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔