Topics

استغراق


                مجھے بچپن سے ہی یوں محسوس ہوتا جیسے میں اپنے آپ کو خوب اچھی طرح جانتی ہوں، اپنے اندر اٹھنے والے تقاضوں سے واقف ہوں۔ میں محسوس کرتی کہ دل کے پردے میں چھپے ہوئے اللہ کو میرے تقاضوں کا حل چاہئے۔ مجھے یوں لگتا جیسے یہ سب تقاضے فطری ہیں۔ مجھے اندر اٹھنے والے تقاضوں کے متعلق کبھی منفی احساس نہ ہوا۔ میرے ذہن میں کبھی منفی خیالات نہیں آئے۔ میرے اوپر ہر وقت محبت کا غلبہ رہتا۔ اس کا محور اللہ کی ذات تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ظاہر میں محبت کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ماں باپ، بہن کے علاوہ ایک سہیلی ریحانہ تھی۔ یہی میری کل کائنات تھی اور میں اپنی کائنات میں مگن تھی۔ ان کرداروں کے علاوہ مجھے کسی اور سے نہ ملنے کی خواہش تھی، نہ بات کرنے کی۔میں اپنے اندر بے حد مطمئن تھی۔

                یوں تو بچپن ہی سے کبھی کبھی اپنے خیالوں میں گم ہو جاتی تھی مگر اٹھویں کلاس میں آتے ہی مجھ پر استغراق کی کیفیات ہونے لگیں۔ اسکول میں جب فری پیریڈ ہوتا یا وقفہ ہوتا تو کبھی کھڑی ہوتی یا باہر گرائونڈ میں ہوتی مجھے یوں لگتا جیسے اسکول میرے سامنے سے بالکل غائب ہو گیا ہے۔ میں اس وقت کسی اور ہی عالم میں داخل ہو جاتی۔ مجھے اچھی طرح پتہ بھی نہ لگتا کہ میں کیا دیکھ رہی ہوں۔ ایک دفعہ میں گرائوند میں تھی دور میری نظریں پہنچیں۔ ایک دم سے مجھ پر استغراق چھا گیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا کنواں ہے اور اس کنوئیں کے پاس ایک مرد اور عورت کھڑی ہے۔ میں انہیں دور سے دیکھ رہی ہوں۔ وہ میری جانب دیکھ کر آپس میں کچھ باتیں کرتے ہیں جیسے میرے متعلق باتیں کر رہے ہوں۔ پھر مجھ سے بھی گفتگو کرتے ہیں۔ بہت دیر میں ان سے باتیں کرتی رہی۔ پھر اس عورت نے مرد سے کہا۔ اب اسے اس کی جگہ پر چھوڑ آئو ورنہ اس کی تلاش شروع ہو جائے گی۔ اسی وقت مجھے ہوش آ گیا۔ میں نے اپنے آپ کو گرائونڈ کی طرف گھومتے ہوئے پایا۔ ایک لمحے کو میں سمجھ نہ پائی کہ میں کہاں ہوں۔ وہ کنواں کہاں چلا گیا۔ وہ لوگ کہاں غائب ہو گئے۔ پھر دوسرے ہی لمحے لڑکیوں کی آوازوں سے پوری طرح سمجھ گئی کہ میں اسکول میں تھی۔ میں نے اسی وقت اللہ سے کہا کہ یا اللہ میاں میری ایسی حالت کی کسی کو خبر نہ دینا۔ دل کی اتھاہ گہرائی میں کوئی خیال موجود تھا کہ ایسی بات کسی کو بتانے کی نہیں ہے۔

                ایک مرتبہ میں کئی سہیلیوں کے ساتھ کلاس روم کے دروازے میں کھڑی تھی۔ لڑکیاں آپس میں باتیں کر رہی تھیں اور میں تھوڑی تھوڑی دیر میں استغراق کی حالت میں پہنچ جاتی۔ یہ اتنی بار ہوا کہ میں گھبرا گئی کہ کہیں گر نہ پڑوں۔ پھر لوگوں کو پتہ چل جائے گا۔ میں نے دروازے کی چوکھٹ کا سہارا لے لیا۔ میرا ذہن مستقل کسی اور خیال میں گم تھا۔ مجھے ان لڑکیوں کی باتوں کاایک لفظ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ بس ایک لمحے کو جیسے غلبہ کم ہوتا مجھے پتہ لگتا کہ میں اسکول میں ہوں پھر غلبہ چھا جاتا۔ اسی کیفیت میں ایک لڑکی مجھ سے میرے خاندان کی میرے رشتہ داروں کی باتیں کرنے لگی۔ وہ کچھ نہ جانتی تھی۔ میں اسی نیم بے ہوشی میں استغراقی کیفیت میں اسے جواب دیتی رہی اور پھر فوراً ہی میں پوری طرح لاشعور میں چلی گئی۔ کچھ دیر بعد جب میں شعور میں آئی تو وہ لڑکی جو مجھ سے عمر میں اور کلاس میں بڑی تھی، کہنے لگی ارے اس لڑکی کی تو کچھ طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اس کو اس طرح نہیں چھوڑنا چاہئے۔ میں نے جلدی سے کہا کہ کہ نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں اور پھر کلاس میں چلی گئی۔ اس دن کے بعد سے مجھے کچھ فکر بھی ہو گئی کہ ایسی حالت لوگوں کے سامنے ٹھیک نہیں ہے۔ میں دعا کرتی رہی کہ سب کے سامنے ایسی حالت نہ ہو تنہائی میں ہو۔ مگر ان دنوں زیادہ تر پڑھائی کے دوران نہیں بلکہ خالی پیریڈ میں ہوتا تھا اور میں خالی بیٹھی ہوتی تھی۔ ایسی حالت میں کبھی تو میں بالکل ہی گم ہو جاتی اور ہوش آنے پر کچھ یاد نہ رہتا اور کبھی دیکھی ہوئی چیزیں یا لوگ یاد رہتے۔ میرے ذہن میں کبھی یہ بات نہ آئی کہ یہ بیماری ہے یا کوئی ایسی تشویشناک بات ہے جس کا ذکر کسی سے کرنا چاہئے۔ بلکہ مجھے معلوم تھا اور یقین تھا کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔ اللہ میاں مجھے کچھ دکھانا چاہتے ہیں۔ اس کی تیاری ہے۔ ان دنوں میں بڑی سنجیدہ سی رہتی مگر پھر بھی خوشی اندر سے پھوٹتی رہتی۔ کچھ دیکھنے کا اس قدر شوق تھا کہ اس کے لئے سب کچھ برداشت کرنے کو تیار تھی۔ میں اپنے اندر رونما ہونے والی ہر حالت پر غور کرتی اور ساتھ ساتھ سوچتی رہتی۔ استغراق کے متعلق مجھے تجربہ ہوا کہ اکثر تنہائی میں کھڑے کھڑے مجھ پر یہ کیفیت طاری ہو جاتی اور کبھی ایسا نہ ہوا کہ میں گر جائوں یا مجھے چوٹ لگی ہو۔ جب یہ کیفیت ہٹتی تو میں اپنے آپ کو اسی طرح پاتی۔ اس تجربے سے میرے اندر اور زیادہ اس بات کا یقین بیٹھ گیا تھا کہ اللہ پاک مجھ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اور وہ میری پوری طرح حفاظت کر رہے ہیں۔

                دن بدن میرا جی چہاتا کہ میں کوئی بہت اچھا سا کام کروں۔ جس سے اللہ پاک مجھ سے خوش ہو جائیں۔ میرے ماں باپ بھی خوش ہو جائیں۔ میرے دل میں اکثر خیال آتا۔ اللہ نے مجھے کیوں پیدا ہے۔ میں کیا ہوں، میرا وجود کیا ہے۔ اللہ سے میرا رشتہ کیا ہے۔ اکثر تنہائی میں چپ چاپ بیٹھی ان خیالوں پر سوچتی رہتی۔ کبھی کبھی بند آنکھوں کے سامنے رنگین روشنیوں کے دائرے آ جاتے۔ میں ان میں معنی پہنانے کی کوشش کرتی۔ مجھے اپنے اندر کی یہ دنیا بڑی دلچسپ دکھائی دیتی۔ میرا ہر وقت یہ جی چاہتا کہ اس دنیا میں داخل ہو کر اسے دیکھ لوں اور اس کے حالات دوسروں کو بھی بتائوں۔

                آٹھویں کلاس میں ہی پڑھ ہی تھی کہ ایک رات خواب دیکھا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں ساری رات ہی خواب دیکھتی رہی ہوں۔ یہ خواب رنگین تھا۔ صبح اٹھی تو اس قدر اچھی کیفیت تھی کہ ایک سرور تھا کہ ذہن و دل پر چھایا ہوا تھا۔ دل بار بار اس خواب کو دہراتا اور میرے اوپر اس کا نشہ چھا جاتا۔ مجھے یوں لگتا کہ جب جب ذہن اس خواب کو دہراتا جاتا ہے ویسے ویسے اس خواب کی رنگینی میرے اندر جذب ہوتی جاتی ہے۔ میں نے ریحانہ سے اس خواب کو بیان کیا۔ وہ کہنے لگی کہ یہ خواب ہے یا افسانہ۔ ایسے اچھے خواب تجھے کیسے نظر آ جاتے ہیں مجھے تو نہیں آتے۔ وہ خواب آج بھی مجھے یاد ہے مگر آج بھی میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ یہ خواب سنانے سے زیادہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

                اس رات میں بستر پر لیٹتے ہی سو گئی اور سوتے ہی خواب کے عالم میں پہنچ گئی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ میں ایک آبشار کے کنارے بیٹھی ہوں، سامنے پہاڑ سے چاندی کی طرح چمکتے ہوئے پانی کا آبشار گر رہا ہے۔ اس پانی کی ایک نہر بہہ رہی ہے۔ شفاف پانی کے نیچے سے ریت کے رنگ جھلک رہے ہیں۔ اس نہر کے دونوں طرف پہاڑ ہیں۔ پانی جب اپنی روانی میں پہاڑوں سے ٹکراتا ہے تو اس کے اندر کے رنگ ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پانی کبھی نیلگوں، کبھی سبز، کبھی فیروزی دکھائی دیتا ہے۔ ہر طرف سبزہ ہے۔ میں یہ بتا نہیں سکتی کہ کیسا خوبصورت سماں تھا۔ میں نے اپنے آپ کو دیکھا میں چودہ پندرہ سال کی ایک حسین لڑکی تھی جس کا رنگ روپ اس دنیا سے بالکل ہٹ کر تھا۔ خواب میں، میں ایک شہزادی تھی جو خوبصورت گلابی رنگ کے ریشم کے لباس کو سمیٹے ہوئے پانی میں اپنی ٹانگیں لٹکائے بیٹھی تھی۔ لباس کو گھٹنوں تک سمیٹ رکھا تھا کہ بھیگے نہیں۔ پائوں میں نہایت نازک سی زنجیریں تھیں جو پازیب کی طرح بہت خوبصورت لگتی تھیں۔ میں اکیلے ہی اس نہر کی سیر کو نکلی تھی۔ پائوں ہلا ہلا کے پانی کے چھینٹے مارنے میں بڑا ہی لطف آ رہا تھا۔ فضا کی رنگینی نغمہ بن کر زبان پر آ گئی۔ فطرت کی معصومیت غزال بن کر سامنے آ گئی۔ میں نے اسے پکڑنا چاہا وہ اپنی پتلی پتلی ٹانگوں سے قلانچیں بھرتا ہوا بیچ نہر میں جا کھڑا ہوا۔ میں اس کی شوخی پر ہنستے ہوئے اٹھی اور پانی میں چھلانگ لگا دی۔ ہرن گردن ہلا کے دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ میں ہنس دی۔ اچھا میرے ساتھ آنکھ مچولی کھیلو گے۔ یہ کہہ کر میں کچھ اور بھی پانی میں گہرائی کی طرف چلی گئی۔ میں نے جھک کر پاس کھڑے ہرن کو چھونے کے لئے ہاتھ بڑھائے۔ جانے نظر کیسے ساحل پر پہنچ گئی بالکل کہانی کے شہزادے کی طرح ایک شہزادہ عجیب نظروں سے میری جانب دیکھ رہا تھا۔ حیا کی لہروں میں بدن کا ساغر ڈولنے لگا۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اسے آواز دی۔ کون ہو تم۔ یہاں کیوں آئے ہو۔ اس نے شرارت سے مسکراتے ہوئے جواب دیا، تمہیں دیکھنے آیا ہوں۔ حیا کے رنگ میرے چہرے سے چھلکنے لگے۔ ہم دونوں ساحل پر ساتھ ساتھ بیٹھ گئے۔ ہوائوں نے ہماری خوشبو سونگھ کر محبت کا ایک نہ ختم ہونے والا افسانہ چھیڑ دیا۔ وفا کے عہد و پیمان ہوئے۔ عشق کے نغموں نے خوابیدہ فطرت کو میٹھی نیند سے جگا دیا۔ زندگی کے معنی بدل گئے۔ میری زندگی کے معنی بدل گئے۔

                ریحانہ نے خواب سن کر یہ کہا کہ یہ خواب ہے یا افسانہ۔ تو میرا دل اندر سے کہہ اٹھا کہ تم اسے نہیں سمجھ سکتی، یہی تو حقیقت ہے۔ کتنے دن تک دل اس خواب کو دہراتا رہا۔ دن نہیں بلکہ مہینوں تک۔ ہر بات خوشی کی ایک لہر میرے سر سے پائوں تک دوڑ جاتی۔ خواب کا لمحہ حواس پر چھا جاتا۔

                ایک دن امی کے آس پاس ہم سب بہنیں بیٹھی تھیں۔ ہلکی پھلکی باتیں ہو رہی تھیں۔ اسی دوران شادی کی باتیں بھی ہونے لگیں۔ امی پوچھنے لگتیں شادی کرنا پسند ہے۔ سب بہنوں نے کہا کہ ہاں پسند ہے۔ امی بولیں کیوں۔ ایک چھوٹی بہن بولی۔ اچھے اچھے کپڑے پہننے کو ملتے ہیں۔ دوسری بولی مجھے زیورات کا بہت شوق ہے۔ شادی کے بعد میں خوب اچھے اچھے زیور پہنوں گی۔ تیسری بولی مجھے گھومنے پھرنے کا بہت شوق ہے۔ میں شادی کے بعد ساری دنیا کی سیر کروں گی۔ امی نے میری جانب دیکھا۔ شمامہ تو شادی کے بعد کیا کرے گی۔ اس وقت امی صوفے پر بیٹھی تھیں اور ہم سب نیچے زمین پر تھیں۔ میں ان کے بالکل پائوں کے پاس بیٹھی تھی۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے بہت گہرائی سے ایک آواز گونجتی ہوئی مگر نرم لہجے میں میرے اندر آئی۔ شمامہ تو شادی کے بعد کیا کرے گی۔ میرے دماغ کے پردے سے فلیش کی طرح خواب گزر گیا۔ میں نے ماں کے دونوں گھٹنوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ دیئے اور خلا میں اپنے خواب کا عکس دیکھتے ہوئے گہری آواز میں بولی۔ ماں میں اپنے شوہر سے بہت محبت کروں گی۔ اتنی محبت کہ پھر اسے کسی کی محبت کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ماں مسکرائی۔ تو کیا تو ہر وقت اس کے گھٹنوں سے لگی بیٹھی رہے گی۔ میرے لب بند رہے مگر دل بول اٹھا۔ ہاں ماں میں ہر دم اس کے گھٹنوں سے لگی بیٹھی رہوں گی۔ کیا محبت کے سوا اور بھی کوئی ضرورت ہے انسان کی۔ اب ماں نے خلائوں میں گہری نظر سے دیکھتے ہوئے کہا۔ نہیں بیٹی ایسی محبت آدمی سے نہیں کی جاتی۔

                میرا رجحان شروع ہی سے شاعری کی جانب تھا۔ مجھے اچھے اچھے اشعار پسند تھے۔ خصوصاً ہمارے ابا اکثر باتوں باتوں میں کبھی کبیر داس کے دو ہے اور کبھی امیر خسرو کے اشعار کبھی غالب اور اقبال کے اشعار موقع محل کی مناسبت سے دہرایا کرتے تھے۔ اب میرا جی چاہا کہ میں ایک ڈائری بنائوں جس میں اچھے اچھے اشعار لکھا کروں۔ میں اب نویں جماعت میں پہنچ چکی تھی۔ کہانیوں کے بجائے اب اے آر خاتون اور زبیدہ خاتون کے ناول اچھے لگتے تھے۔ میں نے بھائی سے ڈائری منگوائی۔ انہوں نے پوچھا کیا کرو گی۔ میں نے کہا اشعار لکھوں گی۔ انہوں نے ایک چھوٹی سی ڈائری لا دے۔ مجھے جہاں سے بھی کوئی اچھا سا شعر ملتا میں نوٹ کر لیتی۔ مجھے کبھی مزاحیہ اور عامیانہ قسم کے اشعار پسند نہیں آئے۔ میں صرف وہی اشعار ڈائری میں نوٹ کرتی جو میرے دل کو چھو لیتے تھے۔

                انہی دنوں ایک دن میں اور ریحانہ حسب معمول ہنستے کھیلتے سیدھے راستہ کے بجائے لمبے لمبے راستوں سے اسکول کی جانب جا رہے تھے۔ ہمارا اسکول گھر سے تقریباً تین چار اسٹاپ دور تھا مگر ہم پیدل بھی سیدھے راستہ سے آتے جاتے نہیں تھے کیونکہ وہ راستہ ہمیں چھوٹا لگتا تھا۔ ہم پیچھے پیچھے کی گلیوں سے لمبے لمبے راستوں سے آتے جاتے۔ ہماری باتیں ختم ہی نہ ہوتی تھیں۔ اسکول کی باتیں، ٹیچرز کی باتیں، فلمی گانوں کی باتیں، فلمی ایکٹریس اور ایکڑوں کی باتیں، ناول اور افسانوں کی باتیں۔ کبھی کبھی تو ہم سارا راستہ اپنے پڑھے ہوئے کسی ناول کی پوری اسٹوری دوسرے کو سناتے جاتے یا فلم کی اسٹوری سناتے جاتے۔ بس یوں لگتا جیسے زندگی کا سفر بس ایک لمحہ ہے۔ یہ خوشیوں بھرا لمحہ اتنا مختصر ہو جاتا کہ ہم دوسرے دن اور لمبے راستہ کو تلاش کرنے کا عہد کرتے۔

                ہمارے ساتھ ساتھ گلی کے اب سارے لڑکے بھی جوان ہو چکے تھے اور معاشرتی ماحول کے مطابق اب ہم نے ان کے ساتھ کھیلنا بھی بند کر دیا تھا۔ اب ہمارے درمیان عورت اور مرد کی دیوار کھڑی ہو چکی تھی۔ کبھی کبھار گلی کا کوئی لڑکا ہمارا پیچھا کرتا یا فلیٹوں میں آمنے سامنے گھر ہونے کی وجہ سے تاکنا جھانکنا لگا رہتا۔

                اس دن ریحانہ راستے میں کہنے لگی یار تیری بلڈنگ سے چوتھی بلڈنگ میں ایک لڑکا رہتا ہے۔ پہلے تو میں نے کوئی نوٹس نہیں لیا تھا مگر اب مجھے پتا چلا ہے کہ وہ میرا پیچھا کر رہا ہے۔ اسکول آتے جاتے تو چونکہ ہم دونوں ہوتے ہیں اس لئے کسی کو جرأت نہیں ہوتی مگر اکیلے میں، میں کئی بار اسے دیکھ چکی ہوں۔ میں ہنس پڑی اور اسے چھیڑنے کے انداز میں بولی۔ بچ کر رہنا اور بات آئی گئی ہو گئی۔ گھر آ کر جب تنہائی میں مجھے یہ بات یاد آئی تو دل نے کہا۔ مرد محبت کے قابل نہیں ہو سکتا۔ محبت کا حق تو صرف اللہ ہی کو پہنچتا ہے۔ محبت تو بہت ہی اعلیٰ جذبہ ہے۔ اس عظیم جذبے کا اظہار اللہ کے سوا کسی اور سے کیسے کیا جا سکتا ہے۔ میں نے سوچا مرد سے محبت کرنا محبت کی توہین ہے۔ میرے نزدیک محبت کا دوسرا نام بندگی تھا۔ میں نے اندر اندر ہی عزم کر لیا کہ میں مرد سے محبت نہیں کروں گی اور کسی مرد کی محبت میں گرفتار نہ ہوں گی۔ عقل نے کہا مگر شادی تو کرنا ہی ہو گی۔ میں بہت دیر تک اس بات کو سوچتی رہی کہ شادی کس طرح کے آدمی سے کرنا چاہئے۔ میرے نزدیک شادی کا مقصد انسانیت کی خدمت تھا۔ ایسی خدمت جس سے اللہ پاک بہت خوش ہو جائے اور اس شخص کو فائدہ پہنچے اور میرے ماں باپ کا نام بھی روشن ہو جائے۔ مجھے اپنے ماں باپ بھائی بہنوں کی خوشی کا بے حد خیال تھا اور اس وجہ سے تھا کہ اللہ چاہتا ہے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ محبت اور ادب کا سلوک کیا جائے۔ میرے اندر ادب اور فرمانبرداری بہت تھی۔ شروع ہی سے میرے اندر یہ خواہش تھی کہ ایسا کام کروں جس سے مرنے کے بعد بھی لوگ مجھے یاد رکھیں۔ اس خیال سے جو بات بھی ذہن میں آتی وہ یہ ہوتی کہ میرا جی چاہتا کہ میں مر کے پھر زندہ ہو جائوں اور مرنے کے بعد کے حالات کو جان کر پھر اس دنیا میں آ کر اپنے گھر والوں کو بتائوں۔ بچپن ہی سے دل کا یہ تقاضہ دن بدن بڑھتا ہی جاتا تھا۔ کبھی کبھی تو یہ میری مجبوری بن جاتا اور میں مرنے کے طریقے سوچنے لگتی۔ گیلری سے چھلانگ لگا دوں، موٹر کے نیچے آ جائوں، اگر کوئی چیز اس خیال پر عمل کرنے میں مانع ہوتی تو وہ ماں کی محبت اور اس بات کا خوف تھا کہ اگر مرنے کے بعد غیب میں داخل ہو کر واپس دنیا میں نہ آئی تو میرا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ پھر جب بھی میرے دل میں ایسا تقاضہ اٹھتا تو صرف دعا مانگنے پر اکتفا کرتی۔ اس طرح بچپن ہی سے میں تقریباً ہر روز دن میں کئی کئی بار موت کی دعا کرنے کی عادی تھی۔ مگر یہ محض عادت نہیں تھی بلکہ بچپن ہی سے میرے اندر بڑی شدت سے مرنے کا تقاضہ پیدا ہوتا رہا۔ جب بھی مرنے کا تقاضہ پیدا ہوتا تو پہلے تو دل اس تقاضہ پر خود اپنے آپ کو تسلی دیتا مگر لمحہ بہ لمحہ غیب میں داخل ہونے کا شوق بڑھتا ہی جاتا اور اتنی شدت ہو جاتی کہ میں مرنے کی دعا کرنے پر مجبور ہو جاتی۔ اس لمحے پردے کے اندر مجھے اللہ دکھائی دیتا اور اللہ سے ملنے کا اشتیاق مجھے مرنے پر اکساتا رہتا۔ میرے ذہن میں یہ بات آتی کہ کوئی اچھا کام کر کے اللہ کے پاس جانا چاہئے تا کہ اللہ کی قربت حاصل ہو سکے۔ اگر میں نے کوئی بڑا کام نہ کیا تو اللہ مجھے اپنے سے دور کر دے گا اور میں اس کی جدائی برداشت نہیں کر سکوں گی۔ پھر کیا ہو گا اس کے ساتھ ہی میرا یہ خیال بچپن ہی سے تھا کہ اللہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے۔ امی کہا کرتی تھیں کہ اللہ میاں صرف اچھے لوگوں سے ہی محبت کیا کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہر وقت میرے ذہن میں اچھا انسان بننے کی تمنا تھی کہ اچھا بننے کے لئے کون سا عمل کروں۔ شادی کے خیال سے ذہن میں یہ بات آئی کہ ایک لڑکی کے لئے شادی کے بعد کی زندگی زیادہ لمبا اور زیادہ باشعور وقفہ ہوتا ہے جس میں وہ کوئی اچھا کام کر سکتی ہے۔ میں نے سوچا شادی ایسے شخص سے کرنی چاہئے جو میری زندگی کے مقصد کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ میرے ذہن میں خیال آیا میں کسی لنگڑے سے شادی کروں گی۔ پھر اس سے بہت محبت کروں گی اور اس کی خوب خدمت کروں گی کہ وہ اپنے لنگڑے پن کو بھول جائے گا۔ پھر سوچا نہیں لنگڑا پن تو اتنی زیادہ معذوری نہیں ہے۔ ایک لنگڑا آدمی بیساکھی کی مدد سے بھی چل پھر سکتا ہے۔ سوچا گونگا بہرہ ہونا چاہئے۔ بہت دیر سوچتی رہی کہ اس کی ایسی خدمت کروں گی یوں کروں گی وہ کروں گی سب کام چھوڑ کر اس کا دل بہلائوں گی وغیرہ وغیرہ۔

                اس طرح کئی دن میں اسی خیال پر غور و فکر کرتی رہی۔ ہر مرتبہ ذہن میں انسان کی کوئی نہ کوئی معذوری آ جاتی اور میں اس معذور آدمی کو اپنے شوہر کے تصور میں دیکھتی اور اس سے بے پناہ محبت کے ساتھ اس کی خدمت کا تصور کرتی۔ پھر مجھے اس بات کا اطمینان ہو جاتا کہ میرے باپ اور میرے بہن بھائی اور میرا رب مجھ سے اس بات پر خوش ہے مگر پھر چند دن بعد زہن اس خیال کو رد کر دیتا۔ میں اس سے زیادہ معذور اور بے بس آدمی تلاش کرتی۔ ایک مرتبہ مجھے خیال آیا کہ کسی اندھے آدمی کے ساتھ شادی کر لوں۔ اس خیال کے آتے ہی دل کے اندر جیسے چھن سے آواز آئی۔ یوں لگا جیسے ہاتھوں سے شیشے کی کوئی چیز چھن سے فرش پر گر کر ٹوٹ گئی ہے۔ دل کی یاس بھری آواز آئی۔ پھر وہ میری صورت کیسے دیکھ سکے گا بغیر دیکھے محبت کیسے ہو سکتی ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا وہ مجھ سے محبت کرے نہ کرے میں تو اس سے محبت کرتی رہوں گی۔ اس کی خدمت اس طرح کروں گی کہ میں اس کی ضرورت بن جائوں گی۔ پھر وہ مجھ سے محبت کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ غرض کہ بالآخر بہت دنوں کی سوچ بچار کے بعد دل نے یہی فیصلہ کیا کہ ایک اندھے کو سب سے زیادہ سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور بہت کم لوگ اسے سہارا دے سکتے ہیں جو اس کی محرومیوں کے احساس محرومی کو ختم کر کے ابدی خوشیوں سے ہمکنار کر دے۔ میں اس خیال سے بہت خوش ہو گئی کہ پھر مجھے اللہ میاں کو خوش کرنے کے بہت سے مواقع حاصل ہو جائیں گے۔ اس وقت میری عمر کوئی پندرہ سال کی تھی۔ اب مجھے یہ بھی خدشہ ہوا کہ اگر امی میرا فیصلہ سنیں گی تو انہیں بہت رنج ہو گا۔ بھلا کوئی بھی ماں اپنی بیٹی کی شادی کسی اندھے شخص کے ساتھ کرنے پر کیسے راضی ہو سکتی ہے۔ اندر ہی اندر میں نے انہیں منانے کے بہت سے طریقے سوچ لئے کہ اس طرح کہوں گی کہ آپ نے ہی تو سکھایا ہے کہ مخلوق خدا سے محبت اور سلوک کرنا چاہئے۔ اللہ نیکی سے خوش ہوتا ہے۔ کوئی ایسی نیکی کرنی چاہئے جس سے اللہ راضی رہے وغیرہ وغیرہ۔ مجھے امید تھی کہ امی مان جائیں گی اور اگر نہ مانیں تو شادی تو مجھے کرنی ہے۔ شادی کا فیصلہ میرا ہی ہونا چاہئے۔ میں اپنا ارادہ استعمال کروں گی اس طرح بہت دنوں کے بعد کہیں جا کر دماغ سے یہ خیال ہٹا اور میں مطمئن ہو گئی۔

                میں نے ایک دن اسکول کے راستہ میں یہ بات ریحانہ سے کہی۔ اس نے کہا۔ نہ بابا یہ تو بہت ہی مشکل کام ہے تو کیسے کرے گی۔ میں نے کہا مگر اس سے اللہ تو خوش ہو جائے گا نہ۔ بس مجھے یہی چاہئے۔ وہ بولی چلو دیکھتے ہیں تقدیر کہاں ٹکراتی ہے۔ پھر بولی۔ میں نے جو اس دن ایک لڑکے کا ذکر کیا تھا نا۔ میں نے کہا۔ کون سا لڑکا۔ کہنے لگی وہی جو تیری بلڈنگ سے چوتھی بلڈنگ میں رہتا ہے۔ میں نے کہا کیا ہوا اسے۔ بولی، وہ مجھے ملا تھا۔ میرے منہ سے ایک دم نکلا چلو چھٹی ہوئی اور میں ہنسنے لگی۔ وہ بولی۔ نہیں یار وہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ وہ ڈاکٹری پڑھ رہا ہے۔ بڑے اچھے خاندان سے ہے۔ اپنی بڑی بہن کے ساتھ رہتا ہے۔ بہن شادی شدہ ہے۔ میں نے کہا۔ ہائیں۔ اس کا سارا شجرہ نسب تو نے ایک ہی ملاقات میں پوچھ لیا۔ وہ ہنسی، بولی ‘‘نہیں’’ میں اس سے کئی بار مل چکی ہوں۔ چند لمحے کو آتے جاتے ہمارے ملاقات ہو جاتی ہے۔ میں نے کہا، سوچ سمجھ کر کام کرنا۔ تمہارے ابا سخت ہیں۔ خیر میں اس کی ہمراز بن گئی۔ کوشش تو میں نے بہت کی کہ وہ اس چکر میں نہ پڑے مگر پھر اسے سیریس دیکھ کر میں بھی چپکی ہو رہی۔ اس نے مجھے اس لڑکے سے بھی ملوا دیا۔ وہ اچھا لڑکا تھا اور شاید میڈیکل کے تیسرے سال میں پڑھتا تھا۔ وہ کبھی کبھی اسکول کے راستے میں مل لیتا۔ ریحانہ کے ساتھ میری دوستی اسی وجہ سے بہت عرصے سے ساتھ قائم تھی کہ ہم نے کبھی مذاق میں بھی بے ہودہ اور اخلاق سے گری ہوئی بات نہیں کی۔ ہمارا وہ ذہن ہی نہیں تھا۔ مجھے ان دونوں کی محبت میں کبھی کوئی برائی نظر نہیں آئی۔ نہ ہی ریحانہ نے مجھ سے کوئی ایسی بات کی۔ بھلا میں اسے کیا روکتی میں تو خود کتنے ہی دنوں سے ایک عجیب پریشانی میں مبتلا تھی۔

                چھ سات مہینے ہو چکے تھے۔ میرے دل میں رہ رہ کر بڑی شدت سے یہ تقاضہ اٹھتا۔ کہیں سے اللہ مجھے مل جائے تو میں اس سے باتیں کروں۔ اسے خط لکھوں۔ مجھے یوں لگتا جیسے اللہ بھی میری طرح کے جذبات رکھتا ہے۔ ہر روز اتنی شدت سے مجھے اللہ کی یاد آتی کہ میری جان نکلنے لگتی۔ بس میرا جی چاہتا میں اسے خط لکھوں اور اس کے لئے میرے دل میں جو عشق کی آگ جلی ہوئی ہے اس کا سارا حال لکھ دوں اور پھر میرا جی چاہتا وہ بھی میرے خط کا جواب دے۔ عجیب پاگلوں جیسا تقاضہ تھا۔ نہ میں اپنا حال کسی کو دکھا سکتی تھی نہ ہی کچھ کہہ سکتی تھی۔ کہتی بھی تو کوئی کیا کر لیتا۔ الٹا مجھے دیوانہ ہی سمجھتا۔ کیا کروں، کہاں جائوں، دل اندر اندر جلتا تھا۔ لب اوپر اوپر ہنستے تھے۔ ذرا تنہائی ملتی تو میں اس خیال کی گہرائی میں ڈوب جاتی۔ کبھی سوچتی خط لکھ کر دریا میں ڈال دوں۔ دل کہتا اگر وہ میرا خط وصول بھی کرے تو مجھے اس کا جواب کہاں سے ملے گا۔ دل خود ہی جواب دیتا۔ اللہ کے لئے کیا مشکل ہے۔ ہوا کے دوش پر مجھے اس کا جواب مل جائے گا۔ کبھی سوچتی خط لکھ کر کسی پتھر کے نیچے دبا دوں۔ پھر دل بیٹھ سا جاتا، جانے اللہ میرا خط پڑھنا پسند بھی کرے گا یا نہیں۔ جب تک اس کا جواب نہیں ملے گا مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ اسے میرا خط پسند آیا ہے۔ پھر سوچتی وہ کیسے خط لکھے گا۔ کیا وہ کسی کاغذ پر ہو گا کیا وہ اپنا نام آخر میں اللہ لکھے گا۔ میرا جی چاہتا اللہ مجھ سے بہت پیار کرے۔ چودہ پندرہ سال کی عمر کے والہانہ جذبات کا سارا بہائو اللہ کی جانب تھا۔ کسی مرد سے محبت کرنا میرے نزدیک محض جذبات کی تسکین تھی۔ میں اسے بہت گھٹیا سمجھتی تھی۔ اندر کی یہ باتیں میں کسی سے نہیں کر سکتی تھی۔ حتیٰ کہ کبھی ریحانہ سے بھی اس کا ذکر نہیں کیا۔ مجھے معلوم تھا وہ بھی نہیں سمجھے گی۔ وہ مجھے نہیں جانتی تھی۔ مگر میں اس کے دل کا حال خوب اچھی طرح پہچانتی تھی۔ مجھے اس کے کہنے سے پہلے ہی پتہ چل جاتا تھا کہ وہ اب کیا بولنے والی ہے۔ جب میں اپنے منہ سے وہی الفاظ نکالتی تو وہ چونک پڑتی۔ تجھے کیسے پتہ، میں یہی کہنے لگی تھی۔ میں ہنس پڑتی۔ ان دنوں مجھے بھی بھلا کیا پتہ تھا۔ میں تو صرف یہ جانتی تھی کہ میرے اندر یہ صلاحیت ہے۔ پہلے میں سمجھتی تھی کہ سب کے اندر ایسی صلاحیتیں ہوتی ہیں اور سب ان کا استعمال اسی طرح کرتے ہیں مگر پھر آہستہ آہستہ پتہ چلتا گیا کہ یہ خصوصیات صرف میرے ساتھ ہیں۔ شروع شروع میں، میں اپنی اندرونی کیفیات کسی کو اس لئے نہیں بتاتی تھی کہ سب کچھ مجھے فطری جذبہ لگتا تھا کہ سب کے ساتھ ہی تو ایسا ہے۔ اس کا کیا ذکر کرنا، بعض کو اس لئے نہیں بتاتی تھی کہ لوگ مجھے پاگل نہ سمجھیں۔

                دن گزرتے چلے گئے۔ میرے دل کا تقاضہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا گیا۔ ناتواں جسم کے اندر کیا کیا روگ پل رہے تھے۔ اللہ کو خط لکھنے کا ارمان۔ غیب میں داخل ہو کر غیب کو اچھی طرح سے جان لینے کا شوق۔ مرنے کی آرزو۔ میرا جی چاہتا میں گہری نیند سو جائوں کوئی مجھے نہ جگائے۔

                ریحانہ اور صفدر کی محبت آکاش بیل کی طرح بڑھتی جا رہی تھی۔ دونوں ہی بہت سیریس تھے۔ ریحانہ کا خیال تھا کہ اس کے ڈاکٹری پاس کرتے ہی وہ اس سے شادی کر لے گی۔ مگر کبھی کبھی وہ بہت پریشان بھی ہو جاتی تھی کہ پتہ نہیں اس کے ماں باپ مانیں گے بھی یا نہیں۔ اس کے ماں باپ برادری سے باہر شادی کرنے کے قائل نہیں تھے۔

                ان دنوں میرے نویں کلاس کے امتحان قریب تھے۔ روزانہ گیلری میں بیٹھی پڑھائی کرتی۔ ایک دن شام کے وقت حسب معمول پڑھائی کر رہی تھی کہ سامنے والی بلڈنگ کی گیلری میں نظر پہنچی۔ کرسی پر ایک لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اپنی گلی کے سارے لڑکے دیکھے بھالے تھے یہ کوئی نیا تھا۔ ہماری گلی کا نہ تھا۔ وہ کرسی پر بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا۔ وہ امتحانوں کا زمانہ تھا۔ میں جان گئی کہ امتحانوں کی تیاری کر رہا ہو گا۔ فطری جستجو کے تحت خیال آیا شاید میٹرک کا امتحان دینا ہو گا۔ ابھی یہ سوچ رہی تھی کہ ایک دم سے اس لڑکے کی نظر میری جانب اٹھی۔ ہماری نظریں ٹکرائیں اسی لمحے نہایت ہی تیزی سے فلیش لائٹ آنکھوں کے سامنے سے گزر گئی۔ اور دل میں جیسے کسی نے بالٹی بھر کہ ٹھنڈا ٹھنڈا پانی انڈیل دیا۔ جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے پورے سینے میں محسوس کی۔ اب میں پوری طرح ٹرانس میں پہنچ چکی تھی۔ وہ بالٹی بھر پانی آہستہ آہستہ میرے اندر اتر رہا تھا۔ اس کی ٹھنڈک مجھے محسوس ہو رہی تھی۔ میری ساری قوتیں جیسے بالکل ختم ہو گئیں۔ کھڑے ہونے کی بھی جان نہ رہی۔ میں گیلری میں ہی بیٹھ گئی۔ میری آنکھوں سے دو آنسو ڈھلک آئے۔ میرا ذہن بالکل مائوف ہو چکا تھا۔ ایک الہامی سی کیفیت میرے اوپر طاری تھی۔ میں اس کیفیت و حالت کو خوب اچھی طرح سمجھتی تھی۔ فلیش لائٹ اب ذرا آہستہ آہستہ آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگی۔ جیسے کوئی تیز فلم چلا رہا ہے۔ سب سے پہلا خیال یہ آیا کہ کیا مجھے عشق ہو گیا ہے؟ پھر اس تیز چلتی فلم میں، میں نے اپنی زندگی کی پوری فلم دیکھ لی۔ میں اس وقت جان گئی کہ یہ میری زندگی ہے جو اللہ مجھے دکھا رہا ہے۔ مگر اس زندگی میں سے جو تفصیل میں دیکھ سکی وہ یہ تھی کہ میں اس لڑکے کی بیوی ہوں اور اس زندگی میں میرا اس کا ساتھ ہے۔ تھوڑی دیر بعد یہ پانی جیسے سارا میرے اندر انڈیل دیا اور یہ فلم بھی ختم ہو گئی۔ اور میں اس کیفیت سے باہر آ گئی۔ میری حالت عجیب ہو رہی تھی اور میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ عقل گھبرا گئی۔ اب کیا ہو گا۔ میں نے اپنے اوسان بحال ہونے کے لئے چند لمبے لمبے سانس لئے پھر دل میں اللہ میاں سے مخاطب ہوئی۔ اے اللہ! میں جانتی ہوں تو نے مجھے میری تقدیر دکھا دی ہے مگر میں تو اس لڑکے کو جانتی تک نہیں اس سے پہلے اسے کبھی دیکھا تک نہیں۔ مجھے اپنے ماں باپ بہن بھائیوں سے بے حد محبت ہے۔ میں تو اس لڑکے سے ملنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ یہ سب کیسے ہو گا۔ اس لمحے مجھے یوں لگا جیسے اگر میں اس لڑکے سے نہ ملی تو مر جائوں گی۔ نبھی منی عقل اس سارے حالات کے سامنے ایک تماشائی بن گئی۔ میرے اوپر جیسے کسی نے چکی کے دونوں پاٹ رکھ دیئے ہیں۔ رنج و غم اور خوف کے بوجھ تلے مجھے سانس لینا دشوار تھا۔ مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب میں کون سا قدم اس سلسلے میں اٹھائوں۔ اللہ کو کیا منظور ہے۔ سخت رنج تھا۔ اللہ سے کوئی شکایت کرتے بھی ڈر لگ رہا تھا۔ میری کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ تب میں نے اپنی ہمت کو یکجا کرتے ہوئے اللہ سے درخواست کی کہ اے میرے رب مجھ پر رحم فرما اور مجھے صحیح راستہ دکھا۔ اس وقت اندر سے ایک آواز آئی کہ ہم نے تمہاری شادی منظور کر لی ہے۔ دکھ کے مارے میرا دل اندر ہی اندر چیخ اٹھا۔ جی چاہتا تھا خوب روئوں مگر اندر کمرے میں سارا گھر بھرا ہوا تھا۔ آنسو پونچھ کر اس طرح بن گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ میری زندگی ظاہر باطن دونوں راستوں پر اپنی چال چل رہی تھی۔

                مجھے عشق میں کبھی کوئی خرابی نظر نہیں آئی۔ میں یہ سمجھتی تھی کہ عشق ایک فطری جذبہ ہے۔ فطری جذبے کی تکمیل نہ ہو تو زندگی کسک بن جاتی ہے، ادھوری رہ جاتی ہے۔ عشق کو میں ایک بہت ہی پاک جذبہ و تقاضہ سمجھتی تھی۔ اس وقت تک مجھے مرد عورت کے جنسی تعلقات کا بھی کچھ علم نہ تھا کیونکہ میں نے کبھی اس قسم کی باتیں کسی سے کی ہی نہیں تھیں۔ ریحانہ بھی بہت اچھی لڑکی تھی۔ بہت باحیا۔ وہ صفدر کے ساتھ ملتی ضرور تھی مگر نہ کبھی میں نے اس سے اس کے متعلق کچھ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی نہ اس نے مجھے بتایا۔

                میرے نزدیک عشق کا مطلب خوبصورت الفاظ میں اپنی محبت کا اظہار تھا مگر وہ بھی زبان سے نہیں۔ بلکہ تحریر سے یا دل کے اندرونی جذبے سے متاثر ہو کر والہانہ کیفیت کے ذریعے سے۔ میرا محبوب کے ساتھ بس ایک ہی تقاضہ تھا کہ میری نظر اسے دیکھتی رہے اور بس۔ میں سوچتی عشق کی تکمیل دیدار ہی تو ہے۔ جب نظر محبوب کو دیکھ لیتی ہے تو دل کو تسکین حاصل ہو جاتی ہے۔

 

 

 

 


Khushboo

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی