Topics

چاندنی رات


                دو ماہ بعد ہمیں وہ فلیٹ چھوڑنا پڑا اور ایک دوسری جگہ دو کمرے کرائے پر لے لئے۔ اس میں ہم ایک سال رہے۔ ہماری بیٹی پیدا ہوئی۔ ہمارے درمیان محبت بڑھتی جا رہی تھی۔ زندگی بہت پر سکون تھی۔ بیٹی کی پیدائش پر حبیب بے حد خوش تھے۔ ابھی وہ مشکل سے دو ہفتے کی تھی کہ اسے لئے لئے پھرتے۔ پان کی دکان پر جا رہے ہیں تو وہ کمبل میں لپٹی ساتھ ہے۔ آس پاس کے دکان والے تو سارے جان گئے تھے اور دکان پر آنے والے بھی جان گئے تھے کہ حبیب صاحب کے یہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ حبیب کو اپنے ‘‘شاہکار’’ پر بڑا فخر تھا۔ ایک سال بعد ہم دوسرے مکان میں شفٹ ہو گئے۔ ان دنوں ہمیں سوائے تھوڑی سی مالی پریشانی کے علاوہ کوئی پریشانی نہ تھی۔ حبیب کی تنخواہ کا ایک تہائی تو کرائے میں چلا جاتا تھا۔ کچھ وہ اپنے گھر بھی والدین کو دیتے تھے۔ باقی میں گھر چلتا۔ میرا ذہن کبھی بھی روپیہ پیسے کی طرف نہیں گیا۔ میرے دل میں کبھی کوئی خواہش ہی نہیں ہوتی تھی۔ جتنا ملتا اسی میں گزارہ کر لیتی۔

                عام طور سے یہ تھا کہ مہینے کے آخری دس دنوں میں نہ گھر میں شکر ہوتی، نہ دودھ کے لئے پیسے ہوتے۔ حبیب اور میں خوب ہنستے، ہم کہتے چھوڑو یار کالی چائے میں نمک ڈال کے پی لیتے ہیں۔ ہم دونوں ہی اس معاملے میں سخت لاابالی تھے۔ مالی تنگی تو ہمارے ذہن کے اوپر سے ہی گزر جاتی تھی۔ تقریباً ہر ماہ ایسا ہوتا کہ میرے پاس ہنڈیا پکانے کے لئے کوئی چیز نہ ہوتی مگر میں نے کبھی بھی حبیب کو پتہ نہ لگنے دیا۔ میں سوچتی وہ کہاں سے لائیں گے خواہ مخواہ پریشان ہونگے۔ نہ ہی میں نے کبھی اپنے گھر والوں کو خبر ہونے دی، بس میں یہ کرتی کہ جہیز کے تھوڑے بہت سامان میں سے جو فالتو برتن وغیرہ ہوتے وہ چپکے سے ٹین ڈبے والوں کو بیج دیتی۔ ان میں انڈیا کے نقاشی والے اسٹیل کے برتن بھی چند تھے جن پر میری نانی مرحوم کا نام نقش تھا۔ میری ماں نے بہت محبت سے مجھے دیئے تھے کہ یہ ان کے جہیز کے ہیں لیکن مجھے انہیں بیچتے ہوئے ذرا بھی دکھ نہ ہوتا۔ بس میرے ذہن میں صرف یہ ہوتا کہ حبیب جب شام کو آئیں گے تو کھانا تیار ہونا چاہئے اور انہیں یہ بھی پتہ نہیں چلنا چاہئے کہ پیسے ختم ہو گئے ہیں۔ تنخواہ تو وہی پہلی کو ملنی ہے۔ مجھے اس وقت تک جس طرح بھی ہو کام چلانا ہے۔ حبیب کو میں نے کبھی نہیں بتایا کہ میں اس طرح گھر چلاتی ہوں۔ میں سوچتی وہ پریشان ہوں گے کہ ان کی کمائی پوری نہیں پڑتی۔ ویسے بھی میرے نزدیک اس کی اتنی اہمیت ہی نہیں تھی۔

                تھوڑے ہی عرصے میں حبیب کی ترقی ہو گئی اور سال میں دو تین دفعہ بونس بھی مل گئے جس سے ہمارے گھر کی کئی چیزیں آ گئیں۔ میں اللہ کی مہربانیوں پر ہر وقت شکر گزار ہوتی۔ اللہ نے رزق میں بے حساب برکت ڈال دی تھی۔ جب میرے پاس بیچنے کو سارے جہیز کے برتن ختم ہو گئے تو حبیب کو بونس ملنے شروع ہو گئے اور ہمیں تنگی نہ ہوئی۔ ان دنوں مجھے چونکہ گھر گرہستی اکیلے چلانے کی اتنی عادت نہیں تھی۔

                شروع شروع میں بڑے مزے مزے کے واقعات پیش آئے۔ ایک دن حبیب صبح صبح پائے لے کر آئے کہ شام کو پکا لینا۔ میں وہ پائے ہنڈیا میں چڑھا کر دوپہر میں سو گئی۔ مجھے ان کے گلنے کا بالکل اندازہ نہ تھا۔ میری نیند بھی مدہوشی کی ہوتی تھی۔ شام کو حبیب نے ہی آ کر جگایا۔ جاگتے ہی مجھے پائے یاد آئے۔ حبیب کہنے لگے جلنے کی بو کہاں سے آ رہی ہے۔ ہم دونوں باورچی خانے کی طرف دوڑے۔ پائے کی ہڈیاں دیگچی سمیت کوئلہ بنی ہوئی تھیں۔ اب جو ہم دونوں کو ہنسی آئی۔ ہنستے ہنستے ہمارے پیٹ میں درد ہو گیا۔ حبیب کہنے لگے اب میں کیا کھائوں گا۔ اس طرح دو چار دفعہ اور بھی میری ہندیا جلی۔ ایسا نہیں تھا کہ میں پھوہڑ تھی بلکہ میں گھر گر ہستی میں بالکل ٹھیک ٹھاک تھی۔ خدمت گزار بھی بے حد تھی، محنتی بھی تھی۔ اس کی تو حبیب بھی بہت تعریف کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ مجھے پتہ ہوتا کہ تو اتنی اچھی بیوی ثابت ہو گی تو میں پہلے ہی تجھ سے شادی کر لیتا۔ مگر بس میرے اندر ایک کسر تھی مجھے ان دنوں نیند بڑی گہری آتی تھی۔ جب سوتی تھی تو سو ہی جاتی تھی۔

                مجھے یاد ہے شروع دنوں میں حبیب ایک شام کام سے آ کر کھانا وغیرہ کھا کے اپنے والدین کے گھر چلے گئے۔ اب میں اکیلے کیا کرتی۔ تھوڑا بہت کام کیا پھر مجھے نیند آ گئی۔ میں اندر سے کنڈی لگا کر سو گئی۔ ابھی صرف نو ساڑھے نو ہی بجے تھے۔ حبیب آئے پتہ نہیں کتنی دیر کھٹ کھٹ کرتے رہے پھر کھڑکی کھلی تھی وہاں سے اندر آ کر مجھے ہلاتے جلاتے رہے۔ بڑی مشکل سے میری آنکھ کھلی۔ حبیب خوب ناراض ہوئے کہ ایسی گہری نیند سوتی ہے۔ آدھا گھنٹہ مجھے آئے ہوئے ہو گیا دروازہ کتنی دیر کھٹکھٹاتا رہا۔ اتنی مشکلوں سے کھڑکی سے کود کر اندر آیا۔ دس منٹ سے تجھے بلا رہا ہوں رات کو گھر میں کوئی اور آ گیا تو تجھے تو ہوش ہی نہیں ہو گا۔ میں نے بے فکری سے کہا۔ ‘‘ارے میاں بھلا تمہارے سوا اس گھر میں کس کو آنا ہے؟’’ میاں اس بات پر خوش ہو گئے اور ہم دونوں ہنس دیئے۔ سچ تو یہ ہے کہ خوشیاں ہمارے اندر سے پھلجھڑی کی طرح پھوٹتی تھیں۔ ہم دونوں ہی شروع سے خوش باش طبیعت کے مالک تھے۔

                اب ہم بس گھر میں رہتے تھے۔ وہ میری امی کے گھر کے قریب ہی تھا۔ حبیب سب کے ساتھ خوب گھل مل گئے تھے۔ میرے سارے گھر والے ان پر جان دیتے تھے۔ وہ صبح صبح فجر کے وقت اٹھتے، نماز پڑھ کر بڑی خوش الحانی کے ساتھ تلاوت کرتے پھر دفترجاتے۔ رات کو کھانے کے بعد ہم سب امی کے گھر چھت پر چڑھ جاتے۔ میری تینوں چھوٹی بہنیں ساتھ ہوتیں۔ وہ کہانی سننے کی فرمائش کرتیں۔ حبیب بڑے مزے مزے کی کہانیاں سناتے۔ اکثر کہانیاں وہ خود ہی گھڑ لیا کرتے تھے۔ چھوتی بہنوں کے ساتھ ساتھ میں بھی ان کی کہانیاں بڑے شوق سے سنتی تھی۔ چاندنی راتوں میں بڑا مزہ آتا تھا۔ جب بادل آتے حبیب پتنگ لے آتے۔ ہم چھت پر چڑھ کر پتنگیں اڑاتے اور خوب شور مچاتے۔

                میرے یہاں دوسری بیٹی پیدا ہوئی۔ حبیب کی بہنیں کبھی کبھار آ جاتی تھیں۔ میں کبھی ان کے یہاں نہیں گئی۔ حبیب نے بتایا تھا کہ وہ ابھی تک ناراض ہیں۔ پھر بیٹیاں ہونے کی وجہ سے بھی کچھ زیادہ خوش نہیں ہیں بلکہ ان کا خیال ہے کہ یہ جوانی کا جوش ہے۔ زیادہ دیر نہیں نبھ سکتی۔ پھر انہوں نے الگ ہونا ہی ہے۔ ان کے والد وقتاً فوقتاً انہیں بلاتے۔ خاندان کی خوبصورت لڑکیاں دکھاتے۔ یہ آگ بگولہ ہو کر وہاں نہ جانے کا عہد کر کے آتے۔ جب مجھے بتاتے تو میں انہیں سمجھاتی کہ آخر وہ تمہارے ماں باپ ہیں۔ تم سے محبت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ بس انہیں کہہ دیا کرو کہ میری شادی ہو گئی، بچے ہو گئے۔ اب ایسی باتیں کرنے سے کیا فائدہ؟ ملتے جلتے رہنے سے ان کے نظریات آہستہ آہستہ بدل جائیں گے۔ تم ملنا ترک نہ کرو آخر کو وہ تمہارے ماں باپ ہیں ان کے تم پر احسانات ہیں۔

                حبیب کو شروع ہی سے انگلینڈ جانے کا شوق تھا۔ بری بیٹی تقریباً سوا دو سال کی تھی اور چھوٹی نو ماہ کی تھی تو ان کے جانے کا بندوبست ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اکیلے جا کر وہاں رہنے اور کام کا بندوبست کر کے جلد ہی مجھے اور بچوں کو بلا لیں گے۔ ان کے گھر والوں نے یہ شرط لگائی تھی کہ وہاں جا کر بیوی بچوں کو نہ بلانا۔ بس اب چھوڑ دینا گھر والوں کے سامنے انہوں نے ہاں کر دی۔ مجھے کہا کہ ائیرپورٹ تم میں سے کوئی نہ آئے تا کہ میرے گھر والوں کو شک نہ پڑے۔ تم بھروسہ رکھو میں تم کو ضرور بلائوں گا۔ میں نے سوچا یہ بھی میری آزمائش ہے۔ اللہ چاہے تو کیا نہیں ہو سکتا۔ خواہ مخواہ پریشان ہونے سے کیا فائدہ۔ میں نے اپنے گھر والوں کو منع کر دیا۔ حبیب پر سب کو اعتماد تھا کہ وہ دھوکے باز آدمی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ میں نے کبھی بھی اپنے نجی معاملات میں کسی کا دخل پسند نہیں کیا تھا۔ جاتے ہی حبیب کا خط آیا۔ وہ مجھے اور بچوں کو بہت مس کر رہے تھے۔ تقریباً ہر روز ان کا خط آتا کبھی کبھی تو دو تین خط اکٹھے آ جاتے۔ میرا عالم یہ تھا کہ ابھی خط لکھ کر ہٹی ہوں تو دوسرا آ گیا۔ پھر لکھنے بیٹھ جاتی۔ بڑے بہنوئی خوب ہنستے۔ ارے تم دونوں لیلیٰ مجنوں کو خط لکھنے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے کیا۔

                چھ ماہ کے اندر اندر انہوں نے میری اور بچوں کی ٹکٹ بھیج دی لیکن جانے سے سترہ دن پہلے میری چھوٹی بیٹی کا کالی کھانسی میں انتقال ہو گیا۔ ہوا یہ کہ میری دونوں بیٹیوں کو کالی کھانسی لگی تھی۔ میں اسی میں انہیں لے کر بڑی بہن کے یہاں چلی گئی۔ اس کی بیٹی بھی انہی کی عمروں کی تھی۔ اسے بھی کھانسی لگ گئی۔ ایک دن ان کی بیٹی کا سانس بند ہو گیا مجھے شدت سے احساس جرم ہوا۔ میں نے فوراً ہی آنکھیں بند کر کے اللہ تعالیٰ سے گزارش کی کہ چاہے وہ میری لڑکیوں میں سے تجھے جو بھی پسند آئے وہ لے لے یا دونوں ہی لے لے مگر بہن کی بیٹی کو چھوڑ دے ورنہ یہ قتل میری گردن پر ہو گا، مجھ سے غلطی ہو گئی ہے، مجھے علم نہیں تھا کہ یہ ایسا موذی مرض ہے۔ وہ ٹھیک ہو گئی اور میری چھوٹی بیٹی کو ایک دن سوتے میں پھندا لگا اور سانس بند ہو گیا جس کی وجہ سے وہ مر گئی۔ سترہ دن بعد میں انگلینڈ آ گئی۔

                جب میں پہلی رات انگلینڈ میں سوئی تو میں نے اللہ سے درخواست کی کہ اے میرے رب مجھے کبھی بھی یورپ آنے کا شوق نہ تھا نہ ہی اپنے رشتے داروں کو چھوڑنا پسند تھا مگر اب جب کہ یہ سب ہو گیا ہے تو مجھ پر اتنا کرم کرنا کہ مجھے یہاں پر قرآن کے علوم سیکھنے کا موقعہ دینا۔ مجھے غیب کا مشاہدہ کرانا جو بچپن سے میری تمنا ہے۔ اے میرے رب میں جانتی ہوں کہ میرا یہاں آنا بھی تیری حکمت کے ساتھ ہے تو اس حکمت کو جانتا ہے مگر میں نہیں جانتی۔ مجھے یہاں آنے کے لئے بہت کچھ چھوڑنا پڑا ہے۔ اپنا وطن، ماں باپ، بھائی بہنوں کی محبت جو تو اچھی طرح جانتا ہے۔ اب میں نہیں چاہتی کہ جو کچھ چھوٹ گیا اس کو روتی رہوں، میں چاہتی ہوں ان سب کی محبتوں کے بدلے میں تو اپنی محبت عطا فرما۔ مجھے غیب میں دیکھنے کا شوق ہے مجھے اپنے رب کو جاننے کا شوق ہے، میں یہاں کی زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع کرنا نہیں چاہتی۔ مجھے اپنے علوم سے نواز۔ میرے دل کو اندر ہی اندر اس بات کا یقین ہو گیا کہ اللہ نے جو مجھے سب سے الگ تھلگ کر دیا ہے تو اب وہ چاہتا ہے کہ میں روحانی علوم سیکھوں۔

                حبیب نے ایک کمرہ کرائے پر لے لیا تھا جو ایک بڑی سی بلڈنگ میں تھا۔ یہ کمرہ دوسری منزل پر تھا۔ حبیب سارا دن کام کرتے۔ میں اپنی بچی کے ساتھ گھر پر رہتی۔ میں نے سوچا مجھے اللہ نے تنہائی کا زبردست موقع دیا ہے۔ مجھے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ میرے ذہن میں ہمیشہ سے یہ رہا کہ قرآن ایسی کتاب ہے جس کے اندر ہر قسم کے علوم ہیں۔ کوئی علم قرآن سے ہٹ کر نہیں ہے۔ میں پہلے بھی قرآن با ترجمہ پڑھتی تھی اور اپنی سمجھ کے مطابق اس میں غور کرتی تھی۔ اب میں نے باقاعدہ طور پر اسے پڑھنا شروع کیا۔ حبیب رات کو کام سے واپس آتے میں سارا دن قرآن پڑھتی رہتی۔ پانچوں وقت کی نماز کی پابندی کرتی۔ مجھے یقین تھا کہ قرآن میں اللہ پاک کے اسرار موجود ہیں۔ یہ محض نصیحت کی کتاب نہیں ہے تو میں اپنے دل میں اللہ پاک سے سوال کرتی کہ وہ کون سے علوم ہیں جو اسے تمام آسمانی کتابوں اور صحیفوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ مجھے وہ علوم سکھا دیجئے۔ اس وقت تک مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ان علوم کو سیکھنے کے لئے کسی استاد کی ضرورت پڑتی ہے۔ میں تو قرآن میں جو کچھ پڑھتی تھی اللہ میاں سے اسی حوالے سے فوراً دعا مانگ لیتی تھی۔ مثلاً قرآن میں یہ پڑھا کہ

                ‘‘ہم نے قرآن کو سمجھنا آسان کر دیا ، ہے کوئی سمجھنے والا۔’’

                اب میں ہزاروں بار یہ آیت دہرا دہرا کے اللہ میں سے درخواست کرتی کہ آپ نے ہی تو اس میں لکھا ہے میں قرآن سمجھنا چاہتی ہوں۔ میرے اللہ آپ مجھے قرآن کا فہم عطا فرمائیں۔ مجھے ایک جنون سا ہو گیا تھا قرآن کے علوم سیکھنے کا۔ میرا دل کسی کام میں نہ لگتا تھا نہ باہر نکلنے کو چاہتا۔ میں ہر وقت اللہ کا شکر کرتی کہ اس نے مجھے فرصت کے زیادہ سے زیادہ لمحات عطا کئے ہیں تا کہ میں اطمینان کے ساتھ قرآن میں غور کر سکوں۔

                میرا یہ عالم تھا کہ نہا کر بال سکھانے ہیٹر کے سامنے بیٹھتی تھی تو بال کھلے سوکھ رہے ہیں اور اتنی دیر میں بھی قرآن میرے ہاتھ میں ہے۔ گھر کا سارا کام میں ایک روبوٹ کی طرح کرتی تھی۔ جیسے ہاتھ پائوں اپنی حرکت کر رہے ہیں مگر دل اور ذہن کسی نہ کسی آیت پر غور و فکر میں منہمک ہے۔ میں قرآن کے حوالے سے سارا وقت اللہ سے باتیں کرتی رہتی۔ سب سے زیادہ شوق مجھے حروف مقطعات یا حروف نورانی کی تشریح جاننے کا تھا کہ الم کا مطلب کیا ہے۔ الر کا مطلب کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ قرآن کے ترجمہ میں لکھا ہوا تھا کہ یہ اللہ کے اسرار ہیں اور ان کا مطلب بندوں کو پہنچایا گیا مگر میرے دل میں اتنی شدید خواہش اور تقاضہ ان کے اسرار جاننے کا ہوتا تھا کہ رہا نہ جاتا تھا۔ میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتی تھی ان الفاظ پر اور آنکھیں بند کر کے اللہ میاں سے کہتی اللہ میاں آپ نے کہا ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم آپ کے حبیب ہیں۔ آپ کو تمام مخلوقات سے پیارے ہیں۔ میں بھی ان کی امت سے ہوں اور قرآن علوم سیکھنا چاہتی ہوں۔ انسان اگر یہ علوم سیکھ لے تو وہ آپ کو بہتر طور پر جان سکتا ہے اور پھر صحیح معنوں میں آپ کی بندگی کر سکتا ہے۔ غرضیکہ قرآن میں میرا اتنا زیادہ انہماک ہو گیا کہ میری دھڑکن بن گیا۔ میں اسے پڑھے بغیر رہ ہی نہیں سکتی تھی۔

                میرے دل میں ہمیشہ یہ خیال آتا کہ اگر قرآن کے علوم سیکھے بغیر ہی مر گئی تو جاہل رہ کر مروں گی۔ میں جاہل مرنا نہیں چاہتی۔ میرے نزدیک جاہلیت سب سے بڑا گناہ تھا اور ہے۔ جاہل میرے نزدیک وہ ہے جو اپنے رب کی حقیقت سے واقف نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روحانی علوم سیکھنے کے راستے میں میرا ذہن کسی بھی رکاوٹ کو قبول نہ کرتا تھا۔ شروع ہی سے میرے اندر قرآن پڑھنے کا شوق اور لگن تھی۔ دوسری کسی مذہبی کتاب کی جانب دل نہ جاتا تھا۔ امی ابا نے ہر وقت زیادہ تر اللہ کا ذکر کیا۔ امی تو اللہ پاک سے انتہائی محبت کرتی تھیں۔ ہر وقت اللہ کا نام ان کے منہ سے نکلتا تھا۔ ابا بھی ہمیشہ یہی کہتے کہ قرآن کو ترجمہ سے پڑھو اس کے اندر سب کچھ ہے۔ اس کے بعد ہمیں اور کسی کتاب کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بس اسی کے اصولوں کے مطابق اپنی زندگی ڈھال لو۔ آج میں سوچتی ہوں کہ انہوں نے مجھے بہت صحیح راستے پر ڈالا۔ سب سے پہلے اللہ کی محبت دل میں ہو اور قرآن کے علوم سیکھنے کی لگن دل میں ہو تو حدیث کے علم بھی سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ حدیث بھی تو قرآن ہی کی علمی صورت ہے۔ جو حضور پاکﷺ کے ذریعے سے عمل میں آئی۔ قرآن کی نالج ہو تو حدیث جلدی سمجھ میں آتی ہے۔

                میرا یہ معمول بن گیا کہ روزانہ قرآن میں جو جو باتیں پڑھتی ان میں غور کرتی۔ یہ ساری باتیں سونے سے پہلے حبیب کو سنا دیتی تا کہ وہ بھی ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔ کچھ دن گزرے تھے کہ میں نے ایک خواب دیکھا کہ میں ایک راستے پر جا رہی ہوں۔ یہ تنگ گلیاں ہیں ان گلیوں میں کوڑا کرکٹ بھی پڑا ہوا ہے۔ میں انہیں پھلانگتی ہوئی اس سے بچتی ہوئی چلی جا رہی ہوں جیسے مجھے ایک خاص جگہ پہنچنا ہے۔ میرے ذہن میں بس اس جگہ پہنچنے کا خیال ہے۔ میں اسی خیال کے ساتھ نہایت تیزی سے ناہموار راستے اور کوڑے کے ڈھیر پھلانگتی چلی جا رہی ہوں۔ راستے میں کہیں کوڑے کے بڑے بڑے Binرکھے ہیں۔ کہیں کچھ اور چیزیں ہیں۔ میں سفر طے کرتی ہوئی اپنی منزل تک پہنچ جاتی ہوں اور وہاں پہنچ کر اطمینان کا سانس لیتی ہوں۔ جیسے میں نے اپنا مقصد پورا کر لیا ہے۔ میں نے اس خواب سے یہ تعبیر نکالی کہ اللہ نے چاہا تو میں اس ملک میں ضرور اپنی منزل مراد کو پہنچ جائوں گی اور قرآن علوم سیکھ لوں گی۔

                میرا ہر وقت یہی جی چاہتا تھا کہ یہ علوم سیکھ کر اپنی بہنوں کو اور سب کو بتائوں۔ پردیس کی تنہائی میں مجھے ذرا بھی پریشانی نہیں ہوتی بلکہ ہر وقت اس کے لئے اللہ کا شکر ادا کرتی رہتی کہ اس نے فرصت کے ایسے زریں لمحات عطا کئے۔

                دو تین ماہ بعد میں پھر امید سے ہو گئی۔ اس دوران میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے گھر کے کمرے میں بیٹھی ہوں میری نانی، پرنانی، پھوپھی سب ہی موجود ہیں۔ یہ ہستیاں میری پیدائش سے پہلے ہی مر چکی تھیں۔ صرف پرنانی میرے بچپن میں ہی فوت ہوئیں۔ وہ بھی مجھے قطعی یاد نہ تھیں۔ کمرے کے اندر پالنے میں میری مرحوم بیٹی سو رہی ہے۔ اتنے میں کمرے کی کھڑکی سے میری نظر آسمان پر پڑتی ہے، آسمان پر نور کی تین لکیریں ایک دوسرے سے متوازی ہیں ان پر نظر پڑتے ہی مجھے خیال آیا کہ یہ اللہ کا نور ہے جس کی مجھے ازل سے تلاش ہے۔ اس ہی لمحے اس نور کو حاصل کرنے اور قریب سے دیکھنے کا شوق ابھرا اور دوسرے ہی لمحے میں نے اپنے آپ کو آسمان پر اس نور کے پیچھے پیچھے اڑتے دیکھا۔ وہ نور آگے آگے جا رہا ہے، میں بالکل اس کے پیچھے پیچھے جا رہی ہوں، نگاہ مسلسل نور پر ہے سوائے نور کے جذب کرنے، اس کی قربت حاصل کرنے کے اور کوئی خیال دل میں نہیں ہے۔ جب میں اس نور سے خوب سیراب ہو گئی تو ذہن میں زمین پر جانے کا خیال آیا کہ میری گود کی بچی اکیلی ہے۔ اسی لمحے میں زمین پر اسی کمرے میں تھی۔ داخل ہوتے ہی بچی پالنے میں اماں کہہ کر اٹھی میں نے خوشی خوشی اسے لے کر چومنا شروع کر دیا۔ نانی، پرنانی وغیرہ پیار سے بولیں۔ اے لے ہم اتنی دیر سے یہاں ہیں جب سے تو بے خبر سو رہی تھی اب اماں کے آنے پر اماں کہہ کر کیسے اٹھ گئی ہے۔

                آنکھ کھلی تو صبح صادق کا وقت تھا۔ میری آنکھ سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں نے اٹھ کر نماز پڑھی اللہ کا شکر ادا کیا۔ حبیب کو خواب سنایا۔ بولے انشاء اللہ اب کے بیٹا ہو گا۔ انہیں بیٹے کا بہت ارمان تھا۔ اس لئے بھی کہ بیٹا ہو جائے گا تو ان کے ماں باپ خوش ہو جائیں گے اور خط میں بیوی اور بچی کو چھوڑنے کا ذکر نہیں کریں گے۔ ہمارے یہاں بیٹا پیدا ہوا اور سب کے مبارک باد کے خط آئے۔ پھر اس کے بعد واقعی انہوں نے کبھی چھوڑنے کی بات نہیں لکھی۔ میں نے اس کے جواب میں اپنے سسر کو پہلی دفعہ اچھا سا خط لکھا۔ سسر کو ابھی تک میں نے دیکھا بھی نہیں تھا۔ سسرال میں گئی ہی کب تھی۔ وہ میرے خط سے بہت خوش ہوئے اور بہت دعائیں لکھیں۔ حبیب بہت خوش ہوئے ابھی بچہ چند ہی ہفتے کا تھا کہ میں نے خواب دیکھا۔ میں اپنے گھر میں ہوں ہم نے وہ پہلا فلیٹ چھوڑ دیا تھا اور اب اپنا گھر خرید لیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ میں اسی گھر میں کچن میں بچے کی دودھ کی بوتل بنانے میں مصروف ہوں۔ بڑے بھائی جان مرحوم آتے ہیں وہ کافی کمزور ہیں مگر سوٹ وغیرہ اچھا پہنا ہوا ہے۔ دروازے پر آتے ہی میں دروازہ کھولتی ہوں۔ بھائی کی آمد پر خوشی سے سلام کرتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ کسی اور مقام سے آئے ہیں۔ بھائی کا چہرہ فکر مند اور سنجیدہ ہے۔ میں انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھا کر واپس کچن میں آتی ہوں کہ بھائی جان آپ یہاں ٹھہریں۔ میں ابھی بچے کا دودھ بنا کر آپ کے پاس آتی ہوں۔ وہ صوفے پر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے پاس وقت نہیں ہے جلدی سے میری بات سنو۔ میرے ساتھ چلو اور فلاں جگہ مجھے چھوڑ آئو۔ مجھے لگا وہ بہت کمزور ہیں اکیلے نہیں جا سکتے۔ میں دودھ بنانے لگتی ہوں اور کچن سے کہتی جاتی ہوں، بھائی جان میں بچے کا دودھ بنا لوں تو آپ کے ساتھ چلوں۔ ذرا صبر کریں۔ وہ بہت ہی بے چین ہوتے ہیں۔ بار بار آواز دیتے ہیں۔ میرے ساتھ چلو تم ہی مجھے لے جا سکتی ہو۔ تم ہی میری مدد کر سکتی ہو۔ میں کچن سے ہی ابھی آتی ہوں ابھی آتی ہوں کرتی جاتی ہوں۔ جب میں فارغ ہو کر کمرے میں آتی ہوں تو وہ جا چکے ہوتے ہیں۔ جیسے ان کے پاس وقت ختم ہو چکا ہے۔ میں حیران ہوتی ہوں کہ اتنی جلدی کیسے چلے گئے۔ افسوس بھی ہوتا ہے کہ نہ جانے کیسے گئے ہونگے۔

                خواب دیکھنے کے بعد میں نے نماز پڑھ کر اپنے بھائی کے لئے دعائیں مانگیں۔ جیسا کہ سب ہی کرتے ہیں۔ چند روز بعد پھر خواب دیکھاکہ میں گھر میں ہوں اور بچے کا دودھ بنا رہی ہوں، بالکل وہی خواب بھائی جان بہت کمزور ہیں۔ لاٹھی ٹیکتے ہوئے آتے ہیں، کہتے ہیں کہ شمامہ تھوڑی دور مجھے چھوڑ آ، پھر کام کر لینا۔ میں کہتی ہوں کہ گھر میں کوئی نہیں ہے بچے کو کہاں چھوڑوں۔ اس کا دودھ بنا لوں اسے پلا کر سلا دوں پھر آپ جہاں کہیں گے چھوڑ آئوں گی مگر انہیں اتنی جلدی ہے کہ وہ انتظار نہ کر سکے اور پھر چلے گئے۔

                دوسری بار یہ خواب دیکھ کر میں کافی فکر مند ہوئی۔ حبیب کو سنایا کہ کیا کروں۔ کہنے لگے نماز پڑھ کر دعا کرو۔ میں نے بہت سے نفل ان کی مغفرت کی نیت سے پڑھے اور اللہ میاں سے خوب دعا کی۔ میری آنکھوں میں وہ سین گھومنے لگا۔ جب میں ساتویں جماعت میں تھی ہم سب فلیٹ میں رہتے تھے بس ایک بہن کی شادی ہوئی تھی۔ بھائی ہم سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ہم سب میں ہی بے حد محبت اور ایثار تھا۔ ان دنوں میری اسکول کی چھٹیاں تھیں۔ میں نے نیا جوتا خریدا تھا۔ ایڑی سے ذرا اوپر جوتے نے کاٹ لیا چھالا بن گیا۔ میں نے سوچا اس کو پھوڑ دوں تو جلدی ٹھیک ہو جائے گا۔ میں نے قینچی سے چھالے کی پوری کھال کاٹ دی اور زخم کو ایسے ہی چھوڑ دیا۔ آہستہ آہستہ یہ پھرچھالہ بن گیا میں نے پرواہ نہیں کی وہ اچھا خاصہ بڑا ہو گیا اور بالکل ہرا نیلا سا ہو گیا۔ میں چل بھی نہیں سکتی تھی سخت تکلیف تھی۔ میں نے سوچا اگر امی کو بتائوں گی تو انہیں میری تکلیف کی وجہ سے تکلیف ہو گی۔ میں اپنی طرف سے انہیں کوئی دکھ دینا نہیں چاہتی تھی۔ پھر میں نے سوچا بہن بھائیوں کو بتائوں تو سب کی طرف نظر کرنے سے مجھے یہ لگا کہ سب گھر کے افراد مجھ سے انہتائی محبت کرتے ہیں جب انہیں میری تکلیف کا پتہ چلے گا تو وہ سخت پریشان ہوں گے۔ اسکول کی چھٹیاں تھیں میں ہر وقت گھر میں رہتی۔دو تین ہفتے میں چھالا گولف بال سے بھی بڑا ہو گیا بالکل ہرا نیلا سا پڑ گیا۔ پنڈلی تک میری ٹانگ نیلی ہری سی ہو گئی۔ تکلیف کے مارے مجھے بخار آ گیا اور ایسی حالت ہو گئی کہ امی کو پتہ چل گیا کہ طبیعت خراب ہے۔ فلیٹ کے دو ہی تو کمرے تھے۔ سارے زیادہ تر ایک ہی کمرے میں ہوتے تھے۔ پچھلے کمرے میں زیادہ تر ابا ہوتے تھے۔ امی نے بھائی کو آواز دی کہ اسے ڈاکٹر کے یہاں لے جائو۔ مجھے چلنے کو کہا جوتا لے آئے۔ اب میں جوتا کیسے پہنتی وہاں تو ساری ٹانگ ہی خراب تھی۔ اسی صورت حال میں میری ٹانگ کا زخم نظر آ گیا بس پھر کیا تھا سارا گھر حیران پریشان تھا کہ اتنی دیر یہ آرام سے کیسے رہی۔ کسی کو بتایا کیوں نہیں۔ دونوں بھائی سخت پریشان تھے۔ بھائی نے مجھے پیٹھ پر لادا اسی وقت سیڑھیوں سے اتر کر گلی میں ڈاکٹر کے یہاں لے گئے۔ ڈاکٹر نے کہا زہر پھیل گیا ہے۔ یہ انجکشن جلدی سے لے کر آئو۔ چھوٹے بھائی جان انجکشن لینے دوڑے۔ اس کے بعد غالباً دو تین ہفتے تک مجھے روزانہ انجکشن لگتے رہے۔ بڑے بھائی جان نہایت ہی محبت سے مجھے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر ڈاکٹر کے یہاں لے جاتے۔ دونوں بھائی مجھے پیار سے بٹھا کر سمجھاتے کہ چھالے کو کاٹا نہیں جاتا۔ ذرا سی بھی تکلیف ہو تو فوراً بتا دیا کرو۔ ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ اگر چند دن اور نہ آتے تو ٹانگ کاٹنی پڑتی۔

                یہ سین میری آنکھوں میں گھومتا رہا۔ میں نے سوچا میں پردیس میں ہوں۔ بھائی چاہتے ہوں گے کہ میں انہیں نہ بھولوں۔ اسی لئے بار بار خواب میں آتے ہیں۔ میں اپنے بھائی کو کیسے بھول سکتی ہوں جنہوں نے بچوں کی طرح میری خبر گیری کی۔ میں نے اللہ میاں سے التجا کی کہ مجھے کچھ پتہ نہیں ہے کہ میں کس طرح اپنے بھائی کی مدد کروں۔ اگر انہیں وہاں کوئی تکلیف ہے تو تُو ہی ان کی مدد کرنے والا ہے یا مجھے بتا کہ میں کیا کروں ان کے لئے؟میں ہر نماز میں ان کے لئے دعا کرتی، قرآن پڑھ کر ان کے لئے بخشا۔ جو کچھ میری سمجھ میں آیا اور حبیب نے بھی بتایا وہ میں نے کیا۔

                سسرال والے باربار خط لکھ رہے تھے کہ بیٹے کی تصویر بھجوائو۔ میرے بہن بھائی بھی کہتے تھے کہ جلدی سے بھجوائو۔ میرے دل میں بھی بہت ارمان تھا کہ میرے بیٹے کو اس کے سب رشتہ دار دیکھ لیں۔ ہم نے رات کو یہ پروگرام بنایا کہ فلاں اسٹوڈیو میں جا کر بچے کی تصویر کھنچوائیں گے۔ میں نے خوشی خوشی بچے کے کپڑے بھی باہر نکال کر رکھ لئے۔ ہر چیز تیار کر لی کہ صبح صبح چلیں گے۔ رات کو خواب دیکھتی ہوں کہ گھر کے کمرے میں چھوٹے بھائی جان بیٹھے ہیں، میں کچن میں بچے کی دودھ کی بوتل بنا رہی ہوں کہ اتنے میں بڑے بھائی جان لاٹھی ٹیکتے ہوئے آتے ہیں۔ وہ سخت نحیف ہیں چھوٹے بھائی جان انہیں صوفے پر بٹھاتے اور مجھے آواز دیتے ہیں کہ بڑے بھائی جان آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں شمامہ کی مدد کی ضرورت ہے وہ میرے ساتھ ذرا چلیں۔ میں نے وہیں سے آواز دی بھائی جان ابھی آتی ہوں ذرا بچے کا دودھ بنا لوں۔ وہ انتہائی بے چین ہیں، کہتے ہیں جلدی آئو ابھی چلو میرے ساتھ بعد میں دودھ بنا لینا۔ میں کہتی ہوں بیٹھئے تو سہی ذرا تو انتظار کریں۔ اب جو انہیں جلال آتا ہے وہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کب سے کہہ رہا ہوں میرے ساتھ چل تھوڑی دیر کے لئے۔ میں کچن سے بچے کی بوتلیں ہاتھ میں لئے دوڑ کر آتی ہوں کہ ان کا جلال دیکھ کر خوف کے مارے میرے ہاتھوں سے بوتلیں چھوٹ جاتی ہیں اور فرش پر گر کر ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں۔ میں تیزی کے ساتھ بھائی کا بازو پکڑ لیتی ہوں اور نہایت ہی محبت سے انہیں کہتی ہوں کہ ان کا غصہ ٹھنڈا ہو۔ بھائی جان چلئے نا، میں آپ کو لے کر چلتی ہوں۔ میں تو آ رہی تھی آپ خواہ مخواہ بگڑ گئے۔میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں چلئے۔ میں مستقل ان کو اسی طرح کہتی جاتی ہوں کہ ان کا غصہ ختم ہو جائے اور ان کا بازو پکڑ کے انہیں سہارا دے کر چلاتی ہوں ہم گھر سے باہر نکلتے ہیں اب منظر بالکل تبدیل ہے۔ یہ ایک پل ہے جس کی چوڑائی کم ہے اس پل کے شروع کے ہی حصہ میں ایک چوڑی سی جگہ بنی ہے جہاں ایک میز ہے۔ اس کے اطراف دو کرسیاں ہیں ایک پر میری امی بیٹھی ہیں ایک پر چھوٹے بھائی جان بیٹھے ہیں۔ دونوں بہت ہی خوش ہیں آپس میں باتیں کر رہے ہیں کہ دیکھو اس نے ہم میں سے کسی کو مدد کے لئے نہیں کہا ہم بھی تو یہاں بیٹھے ہیں۔ ہم ہی اسے سہارا دے دیتے اور چھوڑ آتے۔ یہ شمامہ کو جانتا ہے میں اس پل پر بھائی جان کو سہارا دے کر چلانا شروع کرتی ہوں اور امی اور چھوٹے بھائی سے کہتی ہوں کہ میں ابھی بھائی کو پل کے پار چھوڑ کر آتی ہوں۔ میں انہیں لے کر آہستہ آہستہ چلتی ہوں جہاں بھی ان کے قدم کمزور پڑنے لگتے ہیں اپنا سہارا انہیں دیتی ہوں۔ پل کے پار بالکل سامنے ایک عظیم الشان باغ ہے جس کا نہایت ہی عظیم الشان دروازہ ہے۔ میں بھائی کو اس دروازے پر چھوڑ دیتی ہوں اور خدا حافظ کہہ کر رخصت ہو جاتی ہوں۔ وہ باغ کے اندر داخل ہو جاتے ہیں۔

                میری آنکھ کھلی صبح صادق کا وقت تھا۔ خوف سے میری جان نکل رہی تھی۔ بھائی جان کا جلال نگاہ میں تھا۔ میں نے اس وقت حبیب کو جگا کر خواب سنایا کہ تیسری بار ایک ہی خواب دیکھا ہے۔ اب میں کسی قیمت پر بچے کی تصویر اتروانے نہیں جائوں گی ورنہ میرا بچہ مر جائے گا۔ تم فوراً پیسے اسی وقت کراچی میرے گھر میں بھجوا دو اور تاکید کر دو کہ فوراً بھائی جان کے نام سے کسی مستحق کو دے دیں۔ ساتھ میں، میں نے خط بھی لکھ دیا اور خواب کا بھی تذکرہ کر دیا۔ ان دنوں ڈاک کا سسٹم پاکساتن کا بہت اچھا تھا۔ چوتھے دن ہی خط مل جاتے تھے۔ چوتھے دن میں نے خواب دیکھا کہ میں گھر میں ہوں کہ میری چھوٹی بہن آتی ہے اس کے ہاتھ میں ایک خط ہے خوشی سے زور زور سے کہتی ہوئی اندر آتی ہے کہ بھائی جان کا خط آیا۔ بھائی جان کا خط آیا ہے۔ یہ سنتے ہی میں برابر کے کمرے سے نکل کر تیزی سے آتی ہوں اور اس کے ہاتھ سے خط اڑا لیتی ہوں یہ کہتی ہوئی کہ اس خط کا تو مجھے کب سے انتظار تھا۔ میں جلدی سے خط کھول کر پڑھتی ہوں اس میں لکھا ہے آج میں ایک دوسری جگہ منتقل ہو گیا ہوں یہ جگہ بہت خوبصورت ہے یہاں پھل دار درخت ہیں، سبزہ ہے، یہاں میری خدمت کے لئے دو عورتیں ہیں جو میری بیوی نہیں ہیں۔ یہ میرے آرام کا ہر طرح سے خیال رکھتی ہیں۔ میں یہاں بہت خوش ہوں۔

                خواب دیکھ کر مجھے بڑا ہی سکون ملا۔ چند دن بعد میری بہن کا خط آیا۔ اس نے لکھا کہ خط ملتے ہی ان کے نام کی نیت کر کے اسی وقت فلاں فلاں کو پیسے دے دیئے تھے۔ انہوں نے لکھا کہ ہفتے کو دیئے تھے۔ ہفتے کے دن ہی رات کو میں نے خواب میں دیکھاتھا۔اس واقعے سے میں ایسا ڈری کہ تین چار ماہ تک میں نے بچے کی تصویر نہیں بنوائی اور بعد میں بھی بھائی کے نام کا صدقہ خیرات کیا۔ پاکستان میں بھی سب کو کہا۔ اس کے بعد چند ایک اچھے اچھے خواب دکھائی دیئے۔ ہر روز اچھے اچھے خواب نظر آ جاتے۔ پھر ایک دن میں قرآن پڑھ رہی تھی کہ اچانک مجھ پر سخت الہامی کیفیت طاری ہو گئی۔ دماغ میں ایک آواز آئی۔ اے شمامہ بنت فلاں (میرے ابا کا نام لے کر) ہم نے تمہیں اپنے علم کے لئے چن لیا ہے۔ تمہیں یہ علوم اپنے گھر میں لکھنا ہو گا۔ اسی لمحے مجھے خیال آیا کہ میری باتوں کی شہادت بھی ہونی چاہئے کہ جو کچھ میں لکھ رہی ہوں یہ میرے ذہن کی باتیں نہیں ہیں بلکہ یہ علوم مجھے روحانی طور پر عطا کئے جا رہے ہیں۔ اس وقت میں نے درخواست کی کہ مجھے کچھ ایسی چیزیں عطا کی جائیں کہ سب کو میری سچائی پر یقین آ جائے۔

                ندا آئی۔ تمہارے سامنے تمہارے بچپن کے واقعات اور تمہاری پیدائش سے پہلے کے واقعات پر سے پردہ ہٹایا جاتا ہے۔ ایک فلم چند لمحوں میں میرے دماغ کے پردے پر چل گئی۔ میری پیدائش کا وقت، میری پیدائش سے بہت پہلے جب میرے ماں باپ کی شادی کو صرف چند سال ہوئے تھے وہ کسی برہمن کے یہاں ان کے بیٹے کی شادی پر گئے تھے وہ بہت امیر تھا اس نے تمام مہمانوں کو رخصت کرتے وقت اسٹیل کے مراد آبادی منقش پیالوں میں حلوا بھر کر تقسیم کیا تھا۔ یہ واقعہ صرف میرے ابا کو یاد تھا انہوں نے اس کی تصدیق کی حتیٰ کہ میری ماں کے رشتے کی بات بھی میں نے دیکھی۔ جس کا کسی کو علم نہ تھا۔ بعد میں اس کی تصدیق ہوئی کہ میرے ابا سے پہلے کسی اور بھلے آدمی کا رشتہ آیا تھا۔ بزرگوں نے میری ماں کا یہ رشتہ طے کر دیا۔ منگنی والے دن ان لوگوں نے سونے کے پانی کا چڑھا ہوا زیور یہ کہہ کر چڑھایا کہ یہ سونے کا ہے جس سے امی کے بزرگ خائف ہو گئے کہ ابھی سے یہ دھوکہ بازی ہے تو بعد میں نہ جانے کیا ہو۔ وہ رشتہ فوراً توڑ دیا منگنی نہیں ہوئی۔ وہیں بھید کسی طرح کھل گیا تھا۔ امی ابا کی شادی کے بعد کے خاص خاص واقعات جو میری پیدائش سے پہلے کے تھے بڑی بہن اور بھائی کے بچپن کے دوست ان کے نام ان کے کالج اور اسکول کے اساتذہ کے نام وغیرہ ان کے حلئے سب کچھ مجھے دکھا دیا گیا۔ میں نے جلدی جلدی بڑی بہن کو خط لکھے اور یہ تمام واقعات لکھے کہ ان کی تصدیق کریں ان سب کو لکھتے وقت وہ سین میری آنکھوں کے سامنے تھے۔ میں نے ایک ایک تفصیل لکھ دی۔ ابھی دو تین خط ہی بھجوائے تھے کہ فوراً ہی بڑی بہن کا خط آ گیا بس اب پرانی باتیں لکھنی بند کر دو۔ تمہاری ایک ایک بات درست ہے۔ بہت سی باتیں معلوم ہیں باقیوں کی تصدیق امی ابا نے کر دی ہے۔ وہ بھی بھولے ہوئے تھے تمہارے خط سے انہیں بھی یاد آ گیا ہے۔ بہن کا یہ خط پڑھ کر میں نے مالک کہ مہربانیوں پربہت روئی۔ ناتواں نفس اور کر بھی کیا سکتا تھا۔

                میں اپنی ساری باتیں حبیب کو بتاتی اور بڑی بہن کو بھی خط لکھ دیتی۔ سوائے اپنے گھر کے لوگوں کے کسی کو بھی یہ بات بتانے کی اجازت نہیں تھی۔ نماز اور قرآن پڑھنے میں میرا بڑا ہی دل لگتا۔ اس کے ساتھ ساتھ حبیب کا ہر کام بڑی محبت سے کرتی۔ بچوں کو بھی بہت محبت سے رکھتی۔ مجھے یوں لگتا جیسے میرے اندر سے محبت کے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔ صبح صبح روزانہ ناشتہ انہیں بیڈ پر دیتی۔حبیب کو پراٹھے کھانے کی عادت تھی۔ بچے تو ڈبل روٹی کھاتے تھے میں گرم گرم پراٹھا پکا کر اوپر بیڈ روم میں دوڑتی ہوئی جاتی کہ کہیں پراٹھا ٹھنڈا نہ ہو جائے۔ حبیب کو کبھی اپنے کسی کام کے لئے کہنا بھی نہیں پڑتا۔ ان کی ہر چیز تیار رہتی۔ کام پر جانے سے پہلے کپڑے استری کئے ہوئے تیار سامنے رکھے ہوتے، جوتے پالش کئے ہوئے سامنے رکھتے ہوتے۔ گھر کا کام کرتے کرتے گانا میرا معمول تھا۔ ہنستے کھیلتے اس طرح کام ہو جاتا کہ پتہ بھی نہ چلتا۔ میں گھر کا کام فل اسپیڈ پر کرتی تھی تا کہ زیادہ سے زیادہ وقت قرآن پڑھنے اور عبادت کے لئے مجھے مل جائے۔ اب اس کے ساتھ ساتھ جو کچھ بھی بتایا جاتا وہ لکھنا بھی ہوتا تھا۔ میرا سارا دھیان اللہ پر اور روحانی علوم حاصل کرنے پر ہوتا یا پھر گھر کے کاموں پر ہوتا۔ حبیب کا عشق اپنی جگہ اسی طرح تھا بلکہ اب تو اور بھی زیادہ تھا کیونکہ اب وہ میرے بچوں کا باپ بھی تھا۔

                گھر کے ہر کام میں تصور یہی ہوتا کہ حبیب اسے دیکھے گا اس خیال سے میں ہر کام میں اس کی خوشی کا خیال رکھتی۔ ان کے کپڑے دھوتے ہوئے اس کا ہر کام کرتے ہوئے مجھے ایسی خوشی ہوتی کہ بیان سے باہر ہے۔ اصل میں بچپن ہی سے ہماری ماں نے ہمیں باپ اور بڑے بھائیوں کی خدمت کرنے کی عادت ڈالی تھی۔ بھائیوں کے کپڑے دھونا، استری کرنا، ان کے سروں میں تیل ڈالنا، ان کے جوتوں پر پالش کرنا، ہم بہنیں ایسی ہنسی خوشی یہ کام کرتیں بلکہ ایک دوسرے سے زبردستی کرتیں کہ نہیں ہم کریں گے۔ تو وہی عادت اب کام آ رہی تھی۔ اللہ نے مجھے تین بیٹے جلدی جلدی دیئے تھے۔ زندگی سخت مصروف ہو گئی۔ تینوں میں ایک ایک سال کا فرق تھا۔ میرا معمول تھا کہ میں روزانہ ان کی مالش کرتی اور نہلاتی۔ بیٹی اسکول جانے لگی تھی۔ اسے اسکول لے جاتی اور لاتی۔ مجھے کبھی وقت کی کمی کی شکایت نہیں رہی۔ ہر کام کے لئے وقت مل جاتا تھا۔ ساتھ ساتھ میری روحانی کیفیات بھی جاری تھیں۔ ہر تھوڑے دنوں بعد مجھ پر الہامی دور آتے۔ چند دنوں تک مستقل لاشعور غالب رہتا۔ ایسے دنوں میں مجھ پر سنجیدگی طاری ہو جاتی جیسے کوئی ہر وقت دماغ میں بیٹھا حکم دے رہا ہے۔

 

 


Khushboo

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی